Tag: کاربن ڈائی آکسائیڈ

  • ایل پی جی کے نام  پر زہریلی گیس فروخت کیے جانے کا انکشاف

    ایل پی جی کے نام پر زہریلی گیس فروخت کیے جانے کا انکشاف

    کراچی : پاکستان میں ایل پی جی کے نام پر زہریلی گیس فروخت کیے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے، سستی گیس مہنگے داموں بیچ کر ناجائز منافع کمایا جارہا ہے۔

    یہ بات کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین ایل پی جی انڈسٹریز ایسوی ایشن کے رہنما عرفان کھوکھر نے کہی، ان کے ہمراہ ملک تیموراعوان بھی موجود تھے۔

    پریس کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں زہریلی ایل پی جی درآمد کی جارہی ہے، مضرصحت گیس 15 روپے کلو میں درآمد کی جاتی ہے۔

    عرفان کھوکھر کا کہنا تھا کہ مضر صحت گیس کا پریشر بڑھانے کیلئے کاربن ڈائی آکسائیڈ مکس کی جاتی ہے، جس کی مکسنگ سے سلنڈر پھٹنے کےحادثات تواتر سے ہورہے ہیں۔

    زہریلی ایل پی جی کا سلنڈر 250 سے 280 روپے میں فروخت ہورہا ہے، پڑوسی ملک کی بین شدہ 5ریفائنریوں سے زہریلی ایل پی جی آرہی ہے، بارڈر پر ایل پی جی کی ٹیسٹنگ کے لیے لیبارٹریاں قائم کی جائیں۔

    ایسوسی ایشن کے رہنما ملک تیمور اعوان نے کہا کہ غیر معیاری زہریلی گیس کی امپورٹ پر فوری پابندی لگائی جائے، اوگرا کا زونل آفس کراچی میں ایل پی جی ٹیسٹنگ پر کام نہیں کررہا۔

  • ہوا سے ہیرے بنانا ممکن؟

    ہوا سے ہیرے بنانا ممکن؟

    ہیرا ویسے تو دنیا کی قیمتی ترین دھاتوں میں سے ایک ہے اور اسے حاصل کرنا بھی بہت مشکل ہے، تاہم اب نہایت انوکھے طریقے سے ہیرے بنانے کا تصور پیش کردیا گیا ہے۔

    دنیا کے ممتاز کاروباری جریدے فاربس کے مطابق سوئٹزر لینڈ کی ایک کمپنی نے ہیرے بنانے کا نیا اور اچھوتا تصور پیش کردیا ہے۔

    لگژری زیورات بنانے والی اس کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ہوا سے کشید کی گئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے لیبارٹری میں ہیرے تخلیق کرے گی۔

    کمپنی کے چیئرمین ریان شیرمین نے فاربس کو اس منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ بظاہر تو یہ تصور بہت عجیت اور ناممکن لگتا ہے، لیکن ہم ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو لیبارٹری میں جواہرات کی تیاری میں استعمال کرنے کے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

    لیبارٹری میں اس سے بننے والے ہیرے دکھنے میں کان کنی سے حاصل ہونے والے ہیروں کی طرح ہی ہوں گے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے فضائی آلودگی میں بھی بہت کمی آئے گی، کیوں کہ ایک قیراط کے ہر ایک ہیرے کو بنانے کے لیے ہوا سے 2 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کشید کی جائے گی۔

    ریان کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے ہم 18 ملین ڈالراستعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب ہم ماحول دوست ہیروں سے بنے زیورات استعمال کر رہے ہوں گے۔

  • ایسی رہائشی عمارتیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کریں گی

    ایسی رہائشی عمارتیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کریں گی

    ماہرین تعمیرات نے اب ایسی جدید ترین عمارات کا ڈیزائن پیش کیا ہے جو حیرت انگیز طور پر فضائی آلودگی ختم کرنے کا بھی کام کریں گی۔

    تفصیلات کے مطابق اب مستقبل میں ایسی رہائشی عمارتیں تعمیر کی جائیں گی جو ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کریں گی، اس سلسلے میں ایک امریکی کمپنی اسکڈمور اوونگز اینڈ میرِل نے ایک ماحول دوست عمارتوں کا ڈیزائن پیش کیا ہے۔

    پچھلی دو دہائیوں سے تعمیراتی صنعت اسٹرکچر اور مٹیریل سے وابستہ کاربن کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، تعمیرات کا شعبہ کاربن کے اخراج میں بہت بڑا حصہ ڈالتا ہے، اس لیے مٹیریل اور انجینئرنگ کے بارے میں فیصلے آب و ہوا کے لیے بڑے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    تاہم اب نئی عمارتوں کا ایسا ڈیزائن پیش کیا گیا ہے جو وسیع رقبے پر پھیلی اونچی اونچی عمارتوں کے منصوبے پر مشتمل ہے، جنھیں خاص انداز میں اس طرح تعمیر کیا جائے گا کہ وہ رہائش فراہم کرنے کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے ٹاورز کا کام بھی کریں گی۔

    عمارتوں کی ہر منزل پر پودے رکھے جائیں گے لیکن ساتھ ہی چند منزلوں کے بعد ایک منزل درختوں کے لیے وقف ہو گی۔

    ہر 2 منزلوں کے درمیان خاص جگہ رکھی جائے گی جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب ہو کر فلٹریشن سسٹم سے گزرے گی اور خاص پائپوں سے ہوتی ہوئی درختوں اور پودوں والے حصے تک پہنچا دی جائے گی۔

    ان عمارتوں کے ڈیزائن ے لیے یہ سوال سامنے رکھا گیا تھا کہ کیا ہم ایسی عمارتیں بنا سکتے ہیں جو درخت کی طرح کام کرتی ہوں اور حقیقت میں کاربن جذب کرتی ہوں؟ کمپنی کے ڈیزائنرز نے 11 نومبر کو COP26 میں بھی کاربن زیرو فنِ تعمیر کے لیے فرم کے وژن کا تعارف کرایا تھا۔

  • جاپان میں نئے ایندھن کے تجربات

    جاپان میں نئے ایندھن کے تجربات

    ٹوکیو: جاپان میں امونیا کو ایندھن کے طور پر استعمال کیے جانے کے تجربات شروع کیے جا رہے ہیں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق جاپان بجلی کی پیداوار کے لیے امونیا کو ایندھن کے طور پر استعمال شروع کر رہا ہے، اس سے بجلی کی پیداوار کے عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج روکا جا سکے گا۔

    خیال رہے کہ امونیا گیس جلنے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج نہیں کرتی، امونیا کو جلانے پر زہریلی گیس نائٹروجن آکسائیڈ خارج ہوتی ہے، تاہم یہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ جلنے کے عمل میں ہوا کی مناسب مقدار کے ذریعے اس کے اخراج میں کمی کی جائے گی۔

    اس تجربے کا آغاز حرارت سے بجلی پیدا کرنے والی جاپانی کمپنی جیرا کر رہی ہے، اگست سے وسطی جاپان کے اپنے بجلی گھر میں کوئلے اور امونیا کے آمیزے کو جلا کر بجلی پیدا کی جائے گی، اس تجربے کے تحت کوئلے میں امونیا کی معمولی مقدار ملائی جائے گی، اور اسے بتدریج بڑھا کر مالی سال 2024 میں 20 فی صد تک لے جایا جائے گا، یہ منصوبہ بھاری مشینری بنانے والی کمپنی آئی ایچ آئی کے تعاون سے انجام دیا جا رہا ہے۔

    دوسری طرف گاڑیاں بنانے والی جاپان کی کمپنی مِتسُوبِشی ہیوی انڈسٹریز ایک ایسی گیس ٹربائن تیار کر رہی ہے جو سو فی صد امونیا پر چلے گی، متسوبِشی کا ہدف ہے کہ اسے 2025 تک تجارتی بنیادوں پر بجلی گھروں کے استعمال میں لایا جائے۔

    ان تجربات کا مقصد موجودہ بجلی گھروں کو استعمال کرتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا خاتمہ ہے، کیوں کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں پر دنیا بھر میں تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔

  • زمینی فضا میں زہریلی گیس، خطرہ بڑھ گیا

    زمینی فضا میں زہریلی گیس، خطرہ بڑھ گیا

    ہوائی: زمینی فضا میں زہریلی گیس کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست ہوائی میں قائم ماؤنا لووا آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے ارتکاز کی اوسط شرح 419 پارٹیکلز فی ملین ہو گئی ہے۔

    امریکی مشاہدہ گاہ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے باوجود زمین کی فضا میں زہریلی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا ارتکاز تاریخی حد تک زیادہ ہو گیا ہے۔

    سان ڈیاگو میں قائم اسکرپس اوشیانوگرافی ادارے کا کہنا ہے کہ مئی 2021 میں ماہانہ اوسط کے ساتھ ماؤنا لووا آبزرویٹری میں زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی جو مقدار نوٹ کی گئی ہے وہ، 36 سال قبل جب سے یہ آبزرویٹری بالکل درست مقدار بتانے لگی ہے، تب سے اب تک کی بلند ترین شرح ہے۔

    اس مشاہدہ گاہ نے زمین کی فضا میں اس گیس کے ارتکاز کی پیمائش کا سلسلہ 1958 میں شروع کیا تھا اور تب سے آج تک یہ شرح پہلے کبھی اتنی زیادہ نہیں رہی تھی، پچھلے برس مئی میں یہ اوسط شرح 417 پی پی ایم رہی تھی۔

    اسکرپس ادارے کے جیو کیمسٹ رالف کیلنگ کا کہنا ہے کہ فضا میں سی او ٹو پر قابو پانے کا ذریعہ فوسل فیول کے بخارات پر قابو پانا ہے، تاہم ہمیں اب بھی اس اضافے کو روکنے کے لیے بہت وقت لگے گا، کیوں کہ ہر سال CO2 اوپر اٹھ کر فضا میں جمع ہوتی جا رہی ہے۔

  • زمین کو آلودہ کرنے والی کاربن گیس کو قابو کرنے کا طریقہ سامنے آگیا

    زمین کو آلودہ کرنے والی کاربن گیس کو قابو کرنے کا طریقہ سامنے آگیا

    ہماری زمین کو آلودہ کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار کاربن اخراج ہے جو مختلف صنعتوں سے بے تحاشہ مقدار میں خارج ہوتا ہے، تاہم اب اس کاربن کو قابو کرنے کا ایک طریقہ سامنے آگیا ہے۔

    آسٹریلوی ماہرین نے کاربن اخراج کو ٹھوس میں بدلنے کا تجربہ کیا ہے جس سے ایک طرف تو ٹھوس کاربن صنعتی استعمال کے لیے دستیاب ہوگی تو دوسری جانب خطرناک حدوں کو چھوتی فضائی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔

    آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں کیے جانے والے اس کامیاب تجربے میں ماہرین نے کاربن گیس کو ٹھوس کوئلے کے ٹکڑوں میں بدل دیا۔

    اس سے قبل کاربن گیس کو مائع میں بدلنے کے تجربات تو کیے جاتے رہے ہیں تاہم آسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کاربن کو ٹھوس میں بدلنا ایک ماحول دوست طریقہ ہے۔ تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق یہ کاربن اخراج کی تباہی کو واپس پلٹ دینے کومترادف ہے۔

    اس سے قبل کاربن کو ٹھوس میں بدلنے کا تجربہ کیا جاچکا ہے تاہم اس میں کاربن کی شکل نہایت گرم درجہ حرارت پر تبدیل کی جاتی تھی جس کے بعد وہ کسی بھی قسم کے استعمال کے قابل نہیں رہتا تھا۔

    اب حالیہ تکنیک میں اسے مائع کی آمیزش کے ساتھ ٹھوس میں بدلا جارہا ہے جس میں معمول کا درجہ حرارت استعمال ہوتا ہے۔

    اس تکینیک میں کاربن گیس کو برق پاش مائع میں گھولا جاتا ہے جس کے بعد اس محلول کو الیکٹرک کرنٹ سے چارج کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کاربن گیس آہستہ آہستہ کوئلے میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

    اس عمل کے دوران ایک قسم کا فیول بھی پیدا ہوتا ہے جو مختلف صنعتی استعمالات کے کام آسکتا ہے۔

    اس سے قبل یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (یو سی ایل اے) میں بھی اسی نوعیت کا تجربہ کیا گیا جس میں کاربن گیس کو کنکریٹ میں تبدیل کردیا گیا۔

    سی او ٹو کریٹ کا نام دیے جانے والے اس کاربن کو تیار کرنے کے لیے چمنیوں کے ذریعہ دھواں جمع کیا گیا اور بعد ازاں ان میں سے کاربن کو الگ کر کے اسے لیموں کے ساتھ ملا کر تھری ڈی پرنٹ کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق کاربن سے تیار اس کنکریٹ سے سڑکیں اور پل تعمیر کی جاسکتی ہیں۔

    سنہ 2016 میں آئس لینڈ میں کیے جانے والے ایک اور تجربے میں کاربن کو پانی کے ساتھ مکس کر کے اسے زمین میں گہرائی تک پمپ کیا گیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔

    ’کارب فکس پروجیکٹ‘ کہلایا جانے والا یہ پروجیکٹ آئس لینڈ کے دارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کر رہا ہے۔ یہ پلانٹ سالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتا ہے۔

    خیال رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور سائنسدان ایک عرصے سے کاربن کو محفوظ کرنے یعنی’کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج ۔ سی سی ایس‘ پر زور دے رہے ہیں۔

  • کاربن اخراج کی وجہ سے سبزیاں اور پھل جنک فوڈ بن سکتے ہیں

    کاربن اخراج کی وجہ سے سبزیاں اور پھل جنک فوڈ بن سکتے ہیں

    متوازن غذا کے لیے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال لازمی ہے اور جنک فوڈ ہماری صحت کو تباہ کرسکتا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سبزیاں اور پھل بھی آہستہ آہستہ جنک فوڈ میں تبدیل ہورہے ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہماری فضا میں کاربن اخراج کی بڑھتی ہوئی مقدار ہماری غذاؤں کی تاثیر کو تبدیل کر رہی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند غذائیں جیسے پھل اور سبزیاں اپنی غذائیت کھو رہی ہیں اور ان کا صحت پر ممکنہ اثر جنک فوڈ جیسا ہوسکتا ہے۔

    چونکہ پودوں کو افزائش کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ جتنی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوگی اتنا ہی زیادہ پودوں کے لیے فائدہ مند ہوگا، تاہم نئی تحقیق میں دیکھا گیا کہ کاربن کی زیادہ مقدار پودوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کاربن کی وجہ سے غذائی پودے اپنی غذائیت کھو رہے ہیں۔ ان پودوں میں موجود اہم معدنیات جیسے پوٹاشیئم، کیلشیئم، آئرن، زنک اور پروٹین کم ہوتے جارہے ہیں جبکہ کاربو ہائیڈریٹ کی مقدار زیادہ ہورہی ہے۔

    کاربو ہائیڈریٹ جنک فوڈ میں پایا جاتا ہے اور یہ موٹاپے اور امراض قلب کا سبب بنتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل فضا میں 10 لاکھ کے مقابلے میں 180 ذرات کاربن کے ہوتے تھے، لیکن اب کاربن ذرات کی تعداد 400 سے زائد ہوگئی ہے، جبکہ سنہ 2050 تک یہ تعداد 550 ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لوگ ویسے ہی ضروری وٹامن اور معدنیات سے محروم رہتے ہیں، ایسے میں کاربن کے غذائی اشیا پر اثرت ان ممالک کے لیے مزید تباہ کن ثابت ہوں گے۔

    ایک اندازے کے مطابق ان اثرات سے 80 کروڑ افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے بچے کچھے جنگلات کو بھی کاٹ کر وہاں پر زراعت کی جائے گی، یوں کاربن اخراج میں اضافہ ہوگا کیونکہ اسے جذب کرنے کے لیے درختوں میں کمی آتی جائے گی۔

    گویا ایک سائیکل کی طرح صورتحال مزید خراب ہوتی جائے گی۔

  • کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    جنیوا: اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہماری فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور مضر ہوچکی ہے جس سے زمین اور اس پر رہنے والے افراد کی صحت کو مزید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے موسمیات کا کہنا ہے کہ ہماری فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گرین ہاؤس گیسوں کی اثر انگیزی کچھ مہینوں اور کچھ مقامات پر بڑھ گئی ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    ماہرین کے مطابق کاربن کی اثر انگیزی میں ریکارڈ اضافہ ہوچکا ہے اور ایسا پچھلی کئی نسلوں میں نہیں ہوا۔ یعنی کاربن گیس اب پہلے سے زیادہ خطرناک اور مضر صحت بن چکی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ کاربن کی اثر انگیزی میں اضافے کی ایک وجہ رواں برس کا ایل نینو بھی ہے۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ممکن

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایل نینو ختم ہوچکا ہے، لیکن کلائمٹ چینج تاحال جاری ہے۔

    واضح رہے کہ فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں اور گیسیں جن میں کاربن کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے، ایک طرف تو ہماری فضا کو زہریلا اور آلودہ بنا رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم کر رہی ہیں جسے گلوبل وارمنگ (عالمی درجہ حرارت میں اضافہ) کا عمل کہا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    گزشتہ برس پیرس میں منعقد کی جانے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا کے 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔