Tag: کارل مارکس

  • جینی کا ایک خط!

    جینی کا ایک خط!

    جینی، عظیم فلسفی کارل مارکس کی شریکِ حیات ہی نہیں اس کی جدوجہد میں ثابت قدم ساتھی بھی تھی۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کی فرد تھی لیکن پے در پے اولاد کی موت کا دکھ جھیلا اور کارل مارکس کے ساتھ رہتے ہوئے نہایت مشکل زندگی بسر کی اور مفلسی کا عذاب سہتی رہی۔

    1814 میں جنم لینے والی جینی کا گھرانہ جرمنی کی سیاست و میدان سپہ گری میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ جینی ایک اعلیٰ خاندانی پس منظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی تھی جب کہ کارل مارکس کا خاندان بھی اہلِ ثروت خاندان تھا۔ جینی اور کارل مارکس کے خاندانوں کے درمیان کافی قریبی تعلقات تھے۔ جینی ابھی جوانی کی حدود میں قدم بھی نہ رکھ پائی تھیں کہ ان کی دوستی کارل مارکس کی بہن سے ہوگئی۔ کارل مارکس کی عمر 18 اور جینی کی عمر 22 برس تھی جب ان دونوں کی منگنی کر دی گئی۔ اور پھر جینی کے سگے بھائی کی مخالفت کے باوجود ان دونوں کی شادی 1843 کو انجام پائی۔

    انسان کی اچھی زندگی اور ذہنی سکون کے لیے مالی آسودگی لازمی ہے مگر کارل مارکس اور جینی وقت کے ساتھ اس سے محروم ہوتے گئے۔ کارل مارکس کو اپنے نظریات اور عوام دوستی کی وجہ سے جرمنی سے راہِ فرار اختیار کرنا پڑی اور مشکلات نے ان کا گھیراؤ کرلیا۔ بات فقط گھر میں مفلسی تک محدود نہ تھی بلکہ سانحات بھی ان کے لیے امتحان ثابت ہوتے رہے۔ کارل مارکس اور جینی کے بچّے وفات پاتے گئے اور عالم یہ تھا کہ تدفین کے لیے گھر میں رقم نہ ہوتی تھی۔ وہ دوست احباب اور پڑوسی کی مدد سے تدفین کرتے، مگر وفا شعار جینی کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائی بلکہ وہ اپنے محبوب شوہر کا حوصلہ بڑھاتی رہی۔

    مارکس کی انقلابی جدوجہد میں ایک خاموش کارکن کی حیثیت سے جینی بھی حصے دار تھی۔ اس کی بیوی شریکِ غم، مہربان، راز دار سب ہی کچھ تھی اور مارکس کو ہمیشہ اس کا احساس رہا۔ مارکس کے فکر و خیال کے حامی اور اس کے بہت قریبی دوست اور مفکر اینگلز نے جینی کے جنازے میں کہا تھا، ’’اس خاتون کی ذاتی اوصاف کے بارے میں کیا کہوں کہ اس کے دوست اس کی خوبیوں کو کبھی نہ بھول سکیں گے، اگرکوئی عورت ایسی تھی جو دوسروں کو خوش کرکے سب سے زیادہ خوش ہوتی تھی وہ صرف جینی مارکس تھی۔‘‘

    پے در پے اولاد کے صدمات و مفلسی کے باعث جینی 2 دسمبر 1882 کو وفات پا گئی تھی۔ ستم یہ ہوا کہ کارل مارکس کو اپنی محبوب بیوی کے جنازے میں شرکت کی ڈاکٹر نے اجازت نہ دی، کیونکہ کارل مارکس خود شدید علیل تھے، جینی کو سپردخاک کیا جا رہا تھا اور کارل مارکس اس تقریب میں شریک نہ تھے۔

    خورشید جاوید کی کتاب "انقلابی سیاسی نظریات” سے یہ اقتباس ہمیں ایک عظیم مفکر اور اس کی شریکِ حیات اور بے لوث ساتھی کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    "ان تمام حالات کا تذکرہ جینی کے خطوط میں موجود ہے۔ ایک خط میں وہ لکھتی ہے۔”

    "1852ء کے ایسٹر پر ہماری ننھی فرناسسکا شدید نزلے کا شکار ہوگئی۔ تین رات اور دن وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار سسکتی رہی۔ اس کی تکلیف دیکھی نہ جاتی تھی۔ جب اس نے دم توڑ دیا تو اس کی ننھی سی نعش کو عقبی کمرے میں رکھا اور سامنے کے کمرے میں فرش پر ہم نے اپنے بستر بچھائے۔ تینوں بچے ہمارے ساتھ لیٹ گئے۔ ہم سب اس ننھے سے فرشتے کے لیے رو رہے تھے جس کا جسد بے جان پچھلے کمرے میں پڑا تھا۔ بے چاری ننھی کی موت ایسے حالات میں واقع ہوئی کہ جب ہم فاقہ کشی کے دن کاٹ رہے تھے۔ ہمارے جرمن دوست بھی ہماری کچھ مدد نہ کرسکے۔ ارنسٹ جونز نے جو ہمارے یہاں آیا کرتا تھا امداد کا وعدہ کیا لیکن کچھ بھی فراہم نہ کرسکا۔ میں اپنے دل میں درد کی دنیا لیے ایک فرانسیسی پناہ گزین کے ہاں گئی جو ہمارے پڑوس میں رہتا تھا اور ہمارے یہاں آیا کرتا تھا۔ میں نے اسے اپنی بپتا سنائی اور مدد مانگی۔ اس جواں مرد نے نہایت دل سوزی کے ساتھ مجھے دو پونڈ دیے۔ اس رقم سے ہم نے اس تابوت کا انتظام کیا جس میں ہماری پیاری بچی ابدی نیند سورہی ہے۔ جب وہ پیدا ہوئی تھی تو اس کے لیے ہمیں گہوارہ نہ مل سکا اور اب اس کے تابوت کے لیے کیا کچھ نہ کرنا پڑا۔”

    جینی مارکس جرمن امراء کے پروشین خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ ان دنوں بھی جب وہ برطانیہ میں فاقہ کشی کی زندگی گزار رہی تھی تو اس کا بھائی پرشیا کا وزیرِ داخلہ تھا۔ لیکن اپنے خاوند سے محبت اور اس کے مقصد سے لگن نے اسے بدترین حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بخشا۔ اس لیے ایک خط میں جینی نے لکھا۔

    "یہ مت خیال کرنا کہ میں ان پریشانیوں کے سامنے جھک جاؤں گی۔ میں جانتی ہوں کہ ہماری کشمکش کچھ ہمارے ساتھ خاص نہیں ہے۔ مجھے اس بات سے دلی خوشی ہے کہ میرا پیارا شوہر میری زندگی کا سہارا بھی میرے ساتھ ہے۔ اس بات سے البتہ مجھے دکھ ہوتا ہے کہ اسے غیر معمولی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی امداد کا کچھ انتظام نہ ہوسکا۔ وہ جو دوسروں کی مدد کرنے میں دلی خوشی محسوس کرتا رہا ہے اب خود محتاج ہے۔”

    بدترین حالات میں بھی اس کی عالی ظرفی کم نہ ہوئی۔ جینی اپنے قیمتی کپڑے، زیور، اور برتن گروی رکھ کر اور بیچ کر ان انقلابیوں کے لیے نان نفقہ کا انتظام کرتی رہی جو مرکزی و شمالی یورپ سے بھاگ کر لندن میں پناہ لے رہے تھے۔ ان کے کھانے کی میز پر صبح و شام ان تباہ حال غریب الوطنوں کا ہجوم رہتا۔

    1856ء میں جینی کو اپنے رشتہ داروں کی وراثت میں سے حصہ ملا اور وہ اس قابل ہوئے کہ لندن سے باہر ٹاؤن میں ایک بہتر گھر میں شفٹ ہوگئے۔ 2 دسمبر 1881ء کو جینی، مارکس کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔

  • 7 نومبر: بالشویک انقلاب اور ادب

    7 نومبر: بالشویک انقلاب اور ادب

    انقلابِ‌ روس اور اس کے بعد سوویت یونین کا انجام بلاشبہ تاریخ کے دو عظیم واقعات ہیں جن کا اس خطّے پر ہی نہیں دنیا پر گہرا اثر پڑا اور کئی تبدیلیوں کا سبب بنا۔ 1917ء میں زارِ روس کی حکومت آج ہی کے روز ختم کر دی گئی تھی۔ اسے بالشویک انقلاب یا اکتوبر انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔

    اس انقلاب کی قیادت لینن کر رہا تھا جس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے زارِ روس کا تختہ الٹ کر دنیا میں مزدور اور محکوم طبقات کی پہلی حکومت قائم کی۔ لینن انیسویں صدی کے عظیم فلسفی، معیشت دان اور انقلابی کارل مارکس کا معتقد تھا۔ کارل مارکس چاہتا تھا کہ روس میں سرمایہ دارانہ نظام ختم ہو اور اس کے مقابلہ معاشی مساوات قائم ہو اور سماجی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں کی جائیں۔ مارکس کا فلسفہ کہتا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے ہی سماجی ڈھانچے اور متوسط طبقے کا طرزِ زندگی تباہ کر دیتا ہے۔ اِس کے انقلابی فلسفہ سے متاثر ہو کر لینن نے روس میں انقلاب کے لیے آواز بلند کی تھی اور اس کی جدوجہد کام یاب ہوگئی۔

    روس میں تبدیلی کی ابتدا 1905ء سے ہوئی اور آہستہ آہستہ انقلاب کی خواہش پورے ملک کے مزدور پیشہ افراد اور پسے ہوئے طبقات کے دل میں‌ ہمکنے لگی۔ وہ سامراجی حکومت کے خلاف صف آراء ہو گئے جس کے نتیجے میں 1917 سے 1919 کے درمیان میں انقلابی جدوجہد مکمل ہوئی۔

    روس کے آخری شہنشاہ نکولس دوم تھے جنھیں ان کی بیوی اور پانچ اولادوں سمیت انقلاب کے بعد قتل کر دیا گیا۔ یہ 1918 کا واقعہ ہے۔

    انسانی سماج میں طبقات میں منقسم ہونے کے بعد سے یہ محنت کشوں کی سب سے فیصلہ کن فتح تھی۔ بالشویکوں نے بادشاہت کے خلاف سماج کی اکثریت کی حاکمیت کو قائم کیا۔ یہ مارکسی روح کے مطابق ایسا انقلاب تھا جس کے بعد محنت کشوں کو اقتدار مل گیا۔ لینن نے دسمبر 1917ء میں لکھا، ”آج کے اہم ترین فرائض میں یہ شامل ہے کہ محنت کشوں کی آزادانہ پیش قدمی کو پروان چڑھایا جائے۔ اسے ہر ممکن حد تک وسیع کر کے تخلیقی تنظیمی کام میں تبدیل کیا جائے۔ ہمیں ہر قیمت پر اس پرانے، فضول، وحشی اور قابل نفرت عقیدے کو پاش پاش کرنا ہو گا کہ صرف نام نہاد اعلیٰ طبقات، امرا اور امرا کی تعلیم و تربیت پانے والے ہی ریاست کا نظام چلا سکتے ہیں اور سوشلسٹ سماج کو منظم کرسکتے ہیں۔“

    انقلاب کے لیے جدوجہد تو بڑے عرصے سے جاری تھی مگر اس کا فوری اثر پہلی جنگِ عظیم میں روس کی شکست کے بعد ہوا تھا۔ اس سے قبل بادشاہت میں عوام اپنی محرومیوں اور مشکلات پر آواز اٹھانے لگے تھے جسے کچلنے کے لیے زارِ روس کے وفادار سپاہی ہر قسم کا ظلم اور جبر روا رکھتے تھے۔ جنگِ عظیم میں شکست کے بعد غربت، بھوک اور طرح طرح کے مسائل نے عوام کو لینن کی قیادت میں نکولس دوم کو تخت و تاج سے محروم کرنے پر آمادہ کرلیا اور وہاں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ لینن کا خیال تھا کہ روس کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے نظام کو بدلنا ضروری ہے اور یہی کیا گیا۔

    انقلابِ روس کے اس مختصر بیان کے بعد یہاں ہم پاک و ہند کے ممتاز ادیب، نام وَر انقلابی اور مارکسی دانش وَر سجّاد ظہیر کی وہ تحریر نقل کررہے ہیں‌ جس میں انھوں نے مشرقی اقوام اور اردو ادب پر اس انقلاب کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔

    سجّاد ظہیر لکھتے ہیں: "انقلابِ روس کا تمام اقوامِ مشرق پر گہرا اثر پڑا۔ دنیا کی پہلی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کے قیام، سرمایہ داری اور جاگیری نظام کے خاتمے اور روسی سلطنت میں محکوم ایشیائی اقوام کی آزادی نے مشرقی قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔”

    "ایک نیا انقلابی فلسفہ، نیا انقلابی طریقۂ کار مثالی حیثیت سے ہمارے سامنے آیا۔ ساتھ ہی ساتھ روس کی نئی حکومت نے براہِ راست اور بالواسطہ مشرق کی ان قوموں کی مدد کرنا شروع کی جو سامراجی محکومی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔”

    "چنانچہ ترکی، ایران، افغانستان نے سوویت حکومت کی پشت پناہی حاصل کر کے سامراجی جوئے کو اتار پھینکا۔ کمال اتاترک، رضا شاہ پہلوی، شاہ امان اللہ، چین کے قومی رہنما سن یات سین روسی انقلاب کے عظیم رہنما لینن سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے۔”

    "اقوامِ مشرق کے ان آزادی خواہ رہنماؤں کو احساس تھا کہ دنیا میں ایک ایسی طاقت وجود میں آگئی ہے جو نہ صرف یہ کہ سامراجی نہیں ہے بلکہ عالمی پیمانے پر سامراج کی مخالف اور محکوم اقوام کی آزادی کی طرف دار اور حمایتی ہے۔”

    "جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہی یہاں پر زبردست آزادی کی لہر اٹھی تھی۔ نان کوآپریشن اور خلافت کی تحریکوں میں لاکھوں ہندوستانیوں نے شریک ہو کر برطانوی سامراج کو چیلنج کیا تھا۔ اسی زمانے میں ہندوستان کے کئی انقلابی افغاستان سے گزر کر تاشقند پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے اکثر روسی انقلاب اور مارکسی نظریے سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اس کی کوشش کی کہ ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات اور کمیونسٹ طریقۂ کار کی ترویج کی جائے۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ہندوستان میں مارکسی لٹریچر کی درآمد اور اس کی اشاعت پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ پھر بھی ہندوستان کے انقلابی غیر قانونی طریقے سے اس قسم کا لٹریچر حاصل کر لیتے تھے۔”

    "ہمارے صنعتی مرکزوں کے مزدوروں کے ایک حصے، نوجوان دانش وروں اور طلبہ میں مارکسی نظریے اور فلسفے کا مطالعہ ہونے لگا تھا۔ بمبئی، کلکتہ ، لاہور، امرتسر وغیرہ میں ایسے رسالے اور ہفتہ وار نکالے جاتے جن میں مارکسی خیالات اور روس کی انقلابی حکومت کے کارناموں، عالمی کمیونسٹ تحریک کے متعلق اطلاعات اور خبریں فراہم کی جاتیں۔ گو کہ ان رسالوں کی عمر کم ہوتی تھی پھر بھی وہ اپنا کام کر جاتے تھے۔”

    "اردو ادب کی ایک بہت بڑی خوش گوار خصوصیت یہ رہی ہے کہ ہماری قومی زندگی کے ہر اہم موڑ، ہماری آزادی کی جدوجہد کے ہر نئے عہد کی اس نے عکاسی کی ہے۔”

    "ہندوستانی عوام کے دل کی دھڑکنیں، ان کی بلند ترین آرزوئیں، ان کے دکھ اور درد، ان کے ذہنی اور نفسیاتی پیچ و خم کی تصویریں ہمیں عہد بہ عہد اردو ادب میں مل جاتی ہیں۔”

    "انقلابِ روس (نومبر1917ء) کے وقت میری عمر بہت کم تھی، لیکن لکھنؤ کے روزنامہ ‘سیارہ’ کی وہ سرخی آج تک میرے ذہن پر نقش ہے جس میں انقلاب روس کی خبر پورے صفحے پر پھیلی ہوئی، "یورپ کی لال آندھی” کے عنوان سے دی گئی تھی۔ اس روزنامے کے ایڈیٹر میرے چچا شبیر حسین قتیل مرحوم تھے۔ تھوڑے عرصے بعد "سیارہ” سے ایک بڑی ضمانت طلب کر لی گئی اور اسے اپنی اشاعت روک دینا پڑی۔ قتیل صاحب نے اس سیارہ کے آخری شمارے کو اس شعر سے شروع کیا تھا:

    مرا درد بست اندر دل اگر گویم زباں سوزد
    وگر دم در کشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد

    (ترجمہ: میرے دل میں آج ایسا درد ہے جس کا اگر بیاں کروں تو زبان جل اٹھے اور اگر نہ بولوں سانس اندر کھینچوں تو اس کا ڈر ہے کہ میری ہڈیاں جلنے لگیں)۔

    اس شعر سے برطانوی ظلم کے خلاف ہندوستانی قوم کے غم و غصے کا اظہار ہوتا تھا۔”

    "یہ امر بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ مارکس کے شہرۂ آفاق کمیونسٹ مینی فسٹو کا پہلا اردو ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ہفتہ وار "الہلال” میں قسط وار شائع کیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ترجمہ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے کیا تھا جو اس زمانے میں الہلال کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں کام کرتے تھے۔ مولانا ملیح آبادی (جیسا کہ بعد کو وہ کہلائے) ہمارے اس دور کے ان مفکرین اور عالموں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سالہا سال تک اردو میں ترقی پسندی، عقلیت پسندی نیز مارکسی خیالات کی ترویج کی۔ وہ پکے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روشن خیال شخص بھی تھے۔ اور مولانا حسرت موہانی کی طرح ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ اسلام اور کمیونزم میں کوئی تضاد نہیں ہے۔”

    "عربی اور علوم دینیہ کے عالم ہونے کے علاوہ وہ ردود کے نہایت عمدہ نثر نگار اور ہمارے چوٹی کے جرنلسٹوں میں بھی تھے۔ اپنے مضامین، رسالوں اور کتابوں میں انہوں نے روسی انقلاب کے واقعات، روس کی سوویت حکومت کی پالیسیوں اور کمیونسٹ نظریات کی مسلسل بڑے سہل اور دل کش انداز میں ترویج کی۔”

    "کیا اچھا ہو اگر مولانا ملیح آبادی کے اس قسم کے تمام مضامین جو ان کے اخبار ‘روزانہ ہند’ (کلکتہ) میں سالہا سال شائع ہوئے اور ان کی اس قسم کی دیگر تحریروں کا ایک مجموعہ شائع کیا جائے۔ اسی طور سے مولانا حسرت موہانی کا وہ خطبۂ صدارت بھی قابلِ دید ہوگا جو انہوں نے کانپور میں منعقد کمیونسٹ پارٹی کی پہلی کانفرنس میں پڑھا تھا۔ افسوس کہ یہ اب دست یاب نہیں ہوتا۔”

    "چند سال پیشتر ‘سوویت دیس’ میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ انقلابِ روس کے تھوڑے ہی عرصے بعد لاہور سے لینن کی حیات پر ایک چھوٹی سی کتاب اردو میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب نہ صرف اردو میں بلکہ شاید ہندوستان میں لینن کی پہلی سوانح حیات ہے۔”

    "بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں اردو میں دو شخصیتوں نے مارکسی خیالات اور انقلابی کمیونسٹ تحریک کے مختلف تاریخی اور فلسفیانہ پہلوؤں پر متعدد کتابیں لکھ کر شائع کیں۔ یہ امرتسر کے اشتراکی ادیب باری اور ٹیکارام سخن ہیں۔ باری صاحب تو اشتراکی ادیب کے نام سے ہی مشہور ہو گئے۔ ہندوستان کے اردو داں مارکسی ہمیشہ ان کے ممنون احسان رہیں گے۔ گوکہ ان میں اس قدر زیادہ سہل پسندی تھی کہ مارکسزم کے مکمل فلسفیانہ نکتوں کی پیچیدگیوں کو وہ اپنی تحریروں میں حذف کر دیتے تھے، تاہم ان کی تحریروں نے ایک بہت بڑے گروہ کو متاثر کیا اور مارکسزم کا طرف دار بنایا۔”

    "غالباً اردو زبان میں سب سے ضخیم اور تاحال سب سے زیادہ مستند کتاب مارکسزم پر چودھری شیر جنگ کی ہے، جو سن 1945ء یا 1946ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب کارل مارکس کے سوانح حیات اور مارکسی نظریات کے متعلق ہے، اور بڑے سائز پر پانچ سو صفحوں سے زیادہ کی ہے۔ چودھری شیر جنگ دہشت پسند انقلابیوں کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں عمر قید کی سزا ہوئی۔ اپنی طویل گرفتاری کے دوران وہ مارکسسٹ ہوگئے اور اسی زمانے میں یہ کتاب انہوں نے تحریر کی جسے اپنی رہائی کے بعد شائع کرایا۔”

    "1930ء کے بعد اردو ادب پر مارکسی نظریات اور خیالات کا اثر بہت نمایاں طور سے نمودار ہونے لگا۔ 1935ء میں ‘انجمن ترقی پسند مصنفین’ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اسی زمانے میں اختر حسین رائے پوری نے ‘انجمن ترقیٔ اردو ہند’ کے رسالے ‘اردو’ میں ادب کے انقلابی اور ترقی پسند نظریے کے متعلق اپنا طویل مضمون شائع کیا۔”

    "اردو تنقید میں مارکسی نقطۂ نظر کا آغاز اسی مضمون سے ہوتا ہے اور گو آج ہم کو اس مضمون میں بہت سی خامیاں اور کج رویاں نظر آتی ہیں لیکن یہ خامیاں راقم کی کم ہیں، وہ اس دور کے مارکسی دانش وروں کی عام خامیاں ہیں۔ بہرحال اردو ادب میں مارکسی تنقید کی اوّلیت اسی مضمون کو حاصل ہے۔ اس مضمون نے پوری ایک نسل کو متاثر کیا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد اردو ادب پر عام طور سے مارکسی نظریات کا اثر تیزی سے پھیلا۔”

    "لاہور کے رسالے ‘ادبِ لطیف’ کے ایڈیٹر کچھ عرصے کے لیے فیض احمد فیض ہوئے۔ انہوں نے بھی کئی ادبی مضامین لکھے جن میں مارکسی اثر نمایاں ہے۔ 1938ء میں سردار جعفری، مجاز اور سبطِ حسن کی ادارت میں لکھنؤ سے ماہنامہ ‘نیا ادب’ شائع ہونا شروع ہوا تو گویا ترقی پسند ادیبوں کے مارکسی گروہ کا ایک باقاعدہ مرکز بن گیا۔ مجنوں گورکھپوری اور احتشام حسین کے ابتدائی تنقیدی مضامین، جو مارکس ازم سے متاثر تھے، پہلے اسی رسالے میں شائع ہوئے۔”

    "اردو کا شعری ادب تو کمیونسٹ تحریک سے متاثر تھا ہی، افسانوی ادب بھی اس تحریک سے متاثر ہوا۔ یہ تاثر سب سے واضح اور دل کش شکل میں سب سے پہلے کرشن چندر کے افسانوں میں نمایاں ہوا۔ سعادت حسن منٹو گو مارکسی نہیں تھے تاہم ان پر اور راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی اور حیات اللہ انصاری کی نثر اور طرزِ فکر حقیقت پسندی اور انسان دوستی، آزادی خواہی کی ایک ایسی ذہنیت کو ظاہر کرتی تھیں جن پر اشتراکی فلسفۂ حیات کا اثر تھا۔”

    "1942ء میں بمبئی سے اردو ہفتہ وار ‘قومی جنگ’ (جس کا نام بعد کو ‘نیا زمانہ’ ہو گیا)، شائع ہونا شروع ہوا۔ یہ اردو کا پہلا ہفتہ وار تھا جو ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کے قانونی ہونے کے بعد بڑے اہتمام سے شائع ہوا۔ گو یہ ایک سیاسی پرچہ تھا۔ لیکن اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں زیادہ تر مارکسی ادیب تھے (سردار جعفری، سبط حسن، کیفی اعظمی، ظ۔ انصاری، عبداللہ ملک، کلیم اللہ، محمد مہدی ،سجاد ظہیر وغیرہ)۔”

    "اردو صحافت، اردو نثر اور اردو کی ترقی پسند ادبی تحریک کو اس ہفتہ وار نے بھی متاثر کیا۔ اسی ہفتہ وار کے ساتھ اردو کی مارکسی کتابوں کی اشاعت کے لیے بھی ایک ادارہ ‘قومی دارُ الاشاعت’ کے نام سے قائم کیا گیا۔”

    "اس ادارے نے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ "کمیونسٹ مینی فسٹو”، "سوشلزم” اور دیگر کئی مارکسی کلاسیکی کتابیں شائع کیں۔ ہندوستان میں مارکسی ادب کی اشاعت کا یہ سب سے بڑا ادارہ تھا جو 1958ء تک قائم رہا۔”

    "تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان میں اردو کتابوں کی اشاعت کا کام نسبتاً دشوار ہو گیا۔ اور پاکستان میں مارکسی خیالات کی ترویج پر پابندیاں عائد ہو گئیں۔ لیکن دوسری طرف ہمارے ملک میں اور عارضی طور پر اشتراکی اثرات میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ یہ امر نہایت اہم ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں کارل مارکس کی بنیادی کتاب ‘سرمایہ’ (داس کیپٹل) کی پہلی جلد کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے۔ ادھر ماسکو کے بیرونی زبانوں کے اشاعت گھر نے روسی اور اشتراکی ادب کے اردو تراجم نہایت نفاست اور خوب صورتی سے شائع کیے ہیں اور یہ کتابیں اردو کے ہنودستانی مارکیٹ میں دست یاب ہو سکتی ہیں۔”

    "اب ہم اردو میں لینن کی کتابوں کے علاوہ روس کے اشتراکی ادیبوں، مسکیم گورکی شولوخوف، بورس پالی وائے، استروسکی اور روس کے کلاسیکی ادیبوں تالستائی، چنخوف، ترگنیف، دستوفسکی، لرمنتوف کے شاہ کار پڑھ سکتے ہیں۔ ان کتابوں کے ترجمے اردو ادیبوں نے کیے ہیں، لیکن وہ شائع ماسکو سے ہوئے ہیں، یقیناً اردو ادب ان سے متاثر ہورہا ہے۔”

    "ہم امید کرتے ہیں کہ یہ زمانہ گزرنے پر وہ اثر جو روسی انقلاب کے زمانے سے شروع ہوتا ہے، اور جو اشتراکیت کے دن بہ دن بڑھتے ہوئے اثر کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، اردو ادب اور اس کی نثر کو اس طرح متاثر کرے گا، کہ اس میں زیادہ انسان دوستی، زیادہ حقیقت پسندی اور زیادہ فکر اور گہرائی پیدا ہو اور ہمارے وطن کی تہذیبی زندگی کو اپنے خلوص، سچائی اور تابناکی سے مالا مال کر دے۔”

    (سجّاد ظہیر کی کتاب مضامینِ سجّاد ظہیر سے انتخاب)

  • کارل مارکس: ایک عظیم مفکّر اور انقلابی

    کارل مارکس: ایک عظیم مفکّر اور انقلابی

    نوبیل انعام یافتہ ادیب البرٹ کامیو نے کہا تھا، ’’وہ ظلم جو ہم نے مارکس کے ساتھ کیا ہے، اس کا مداوا ہم کبھی بھی نہیں کر سکتے۔‘‘

    کارل مارکس جرمنی کا وہ دانش ور اور فلسفی تھا جس نے گزشتہ صدی میں اپنے افکار سے دنیا کو متوجہ کرلیا اور وہ اس کے نظریات سے متاثر ہوئی۔ بیسویں صدی میں دنیا کی کئی حکومتوں کی اساس ظاہری طور پر مارکس کے بنیادی نظریات پر استوار کی گئی تھی، لیکن بعد میں انہی سوشلسٹ نظریات کی حکومتوں نے مطلق العنانیت کو اپنا کر مارکس کے تصوّرات کا مفہوم ہی تبدیل کر دیا۔ البرٹ کامیو نے 1956ء میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔

    آج کارل مارکس کا یومِ وفات ہے۔ 1883ء میں‌ اس نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ کارل مارکس نے 5 مئی 1818ء کو پرشیا (موجودہ جرمنی) میں ایک یہودی وکیل کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس زمانے میں سیاسی، سماجی اور مذہبی لحاظ سے بھی دنیا نت نئے فلسفوں اور تبدیلیوں کے ساتھ تحریکوں کے زیرِ اثر تھی۔ کارل مارکس کی پیدائش سے ایک سال قبل اس کے والد نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ اس کی وجہ حکومت کی جانب سے یہودیوں کے لیے سرکاری ملازمت اور وکالت پر پابندی عائد کیا جانا تھا۔

    کارل مارکس نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بون اور پھر برلن کی درس گاہوں کا رخ کیا اور اسی زمانے میں وہ ہیگل جیسے فلسفی کو پڑھ کر اس سے بہت متاثر ہوا۔ برلن ہی میں کارل نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ علمِ قانون اس کا پسندیدہ مضمون تھا لیکن فلسفہ اور تاریخ میں بھی اس کی گہری دل چسپی تھی۔ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرکے ایپیکیورس (Epicurus) کے فلسفے پر اپنا تحقیقی مقالہ ڈاکٹری کی سند حاصل کرنے کے لیے پیش کیا۔ کارل نے 1842ء میں وہ کولون شہر چلا گیا اور وہاں صحافت میں اپنا کیریئر بنانے کی کوشش کی۔ جلد ہی وہ ایک اخبار کا مدیر بھی بن گیا۔ اس نے مضمون نگاری کا آغاز پہلے ہی کردیا تھا اور باقاعدہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی اخبار کی وجہ سے شروع ہو گیا۔

    اس زمانے میں آزادیٔ صحافت پر پابندیاں عائد کی گئیں تو کارل نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور شاہی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ عوام کی آواز بننے لگا تھا جس میں اس نے روس کے زار کے خلاف ایک مضمون بھی شایع کردیا اور اس جرم میں اخبار پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 1843ء میں فرانس کا عظیم شہر پیرس جہاں بہت سے انقلابی پہلے سے موجود تھے، وہیں کارل بھی پہنچا اور ایک ماہ نامے کا آغاز کردیا۔ لیکن اس کا صرف ایک شمارہ چھپ سکا۔ اس شمارے میں کارل نے لکھا تھا کہ جرمن وفاق قائم نہیں رہ سکتا اور اس حوالے سے اپنے خیالات اور حقائق سامنے لایا تھا۔ فرانس میں‌ تو اسے اہمیت نہیں‌ دی گئی لیکن پرشیا میں کارل پر بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ 1845ء میں کارل کو فرانس سے جلا وطن کردیا گیا۔

    فرانس کے بعد کارل نے اپنے ساتھیوں سمیت بیلجیئم کا رخ کیا اور برطانیہ کا بھی دورہ کیا جہاں اسے محنت کش طبقے کے حالات جاننے کا موقع ملا جس نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بدحالی عروج پر تھی، اور جس نظام میں لوگ پس رہے تھے، اس میں ان کی سماجی و معاشی حالت میں سدھار ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ ہر لحاظ سے پستی اور بدترین طرزِ زندگی عوام کا مقدر بن چکا تھا۔ کارل مارکس نے بیلجیئم میں قیام کے دوران اپنے دوست اور مفکر اینگلز کے ساتھ مل کر اس سب پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور یورپ کے محنت کشوں کے حقوق کے لیے تنظیم قائم کی۔

    1848ء میں کارل کا وہ کتابچہ شایع ہوا جس میں اس نے محنت کشوں کو اکٹھے ہونے کا پیغام دیا تھا۔ اسے دنیا کمیونسٹ مینی فسٹو کے عنوان سے پہچانتی ہے۔ بعد میں وہ لندن چلا گیا جہاں رہ کر اپنی جدوجہد اور نظریات کا پرچار کرتا رہا۔ اس نے فلسفہ، سیاست اور معاشیات پر اپنے افکار کی بدولت انسانوں کی سوچ کو اپنے حق میں‌ نئے زاویے اور راستے سجھائے۔

    کارل مارکس نے نوجوانی ہی میں شادی کرلی تھی تاہم اپنے وطن میں‌ باغی اور غیرملک میں‌ اپنے افکار و نظریات کی وجہ سے روزگار اور معاش کے لیے مسائل کا شکار رہنے والا کارل مارکس مالی مشکلات جھیلتا رہا۔ اس کی خانگی زندگی بھی غم و اندوہ سے دوچار ہوئی کیوں کہ اس کے چار بچّے نوعمری میں ہی چل بسے تھے جب کہ تین بیٹیاں جو جوان ہوئیں، ان میں سے بھی دو نے خود کشی کرلی تھی۔

    کارل مارکس کو اس کی وفات کے بعد زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور اس کے نظریات میں کچھ آمیزش کرنے بعد روس میں لینن اور اس کے ساتھیوں نے زار کی آمریت کا خاتمہ کیا اور مزدور طبقے کا علَم بلند کیا تھا۔

    وہ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا ناقد اور ایسا مفکر تھا جس نے اپنے انقلابی نظریات کی وجہ سے زندگی کا بیش تر حصہ جلاوطنی اور مالی تنگ دستی میں گزار دیا جب کہ زندگی میں اس کے فلسفے اور کتابوں کو بھی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ تاہم بعد میں دنیا اس کے فلسفے کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے اہمیت بھی دی گئی۔ ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف ’داس کیپیٹل‘ کو آج بھی دنیا بھر میں غور و فکر کے عادی اور کہیں‌ بھی ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کے لیے راہ نما کتاب کہا جاتا ہے۔

    دنیا بھر کے عظیم فلسفی اور علم و ادب سے وابستہ شخصیات یہ تسلیم کرتی ہیں کہ آج وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس فلسفی، معیشت دان اور مزدور دوست انقلابی راہ نما کو اتنی ہی مقبولیت اور پذیرائی ملی ہے جتنی کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے اسے مٹانے کی کوشش کی ہے۔ مارکس کے نظریات کو غلط ثابت کرنے اور اس کی ذات پر الزامات لگانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ سامراجی قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے اس کے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف کتابیں لکھوائیں اور لاکھوں مضامین شائع کروائے، لیکن مارکس کا نظریہ توانا ہوتا چلا گیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی موت اور اس کی خرابیوں سے متعلق اس کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔

  • معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    پاکستان میں‌ ترقّی پسند فکر اور ادب تخلیق کرنے والوں میں سید سبطِ حسن ایک بڑا نام ہیں‌ جو 20 اپریل 1986ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے سبطِ‌ حسن نے ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، انقلابِ ایران، کارل مارکس اور نویدِ فکر جیسی تصانیف سے علمی و ادبی حلقوں اور اہلِ دانش کو متاثر کیا۔

    ان کا تعلق اعظم گڑھ سے تھا جہاں وہ 31 جولائی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلیم مکمل کی۔ وہاں انھیں ترقّی پسند دانش وروں، ادبا اور شعرا کا ساتھ نصیب ہوا جن میں علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، خواجہ احمد عباس، اختر الایمان اور اختر حسین رائے پوری و دیگر شامل تھے۔ یہ وہ نام تھے جنھوں نے سیّد سجاد ظہیر کی قیادت میں اردو کی ترقّی پسند تحریک کا آغاز کیا جو مقبول اور ہمہ گیر ثابت ہوئی۔

    سید سبط حسن نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا تھا۔ وہ پیام، نیا ادب اور نیشنل ہیرالڈ جیسے رسالوں اور اخبار سے وابستہ رہے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے پہلے لاہور اور بعد میں کراچی کو اپنایا تھا۔ سید سبطِ حسن نے خالص علمی اور فکری موضوعات پر کام کیا اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔

    ان کا انتقال بھارت کے شہر دہلی میں ہوا جہاں وہ ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ سبطِ حسن کو کراچی کے سخی حسن قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • مشہور شخصیات کے بسترِ مرگ پر آخری الفاظ

    مشہور شخصیات کے بسترِ مرگ پر آخری الفاظ

    موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس سے نظریں تو چرائی جاسکتی ہیں، لیکن اس سے مفر ممکن نہیں۔ ہر خاص و عام، ادنیٰ و اعلیٰ، طاقت ور اور کم زور ایک روز اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجائے گا اور کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ ہو گا، لیکن کچھ لوگ اپنی ہمّت، عزم و استقلال اور اپنے نمایاں‌ کاموں اور کارناموں کی بدولت تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

    یہاں‌ ہم ان مشہور اور نہایت قابل شخصیات کا ذکر کررہے ہیں‌ جنھوں نے بسترِ مرگ پر بھی ہمّت کا ثبوت دیا اور اپنی مضبوط قوتِ ارادی ظاہر کرتے ہوئے دوسرے انسانوں‌ کو اپنے آخری الفاظ کی صورت ایک سبق اور نصیحت کرگئے۔

    معروف جرمن فلسفی، ماہرِ اقتصادیات اور عمرانیات کے لیے مشہور کارل مارکس سے فلسفے، سیاسی اور سماجی علوم کا ہر ادنیٰ طالبِ علم واقف ہے۔

    مشہور ہے کہ بسترِ مرگ پر تھا اس کے ایک گھریلو ملازم نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے سوچا کہ شاید اس کے دل میں کوئی بات ہو، وہ اپنی کوئی آخری خواہش بیان کرنا چاہتا ہو اور اسی غرض سے اس نے دریافت کیا کہ کیا اس وقت آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ جس پر کارل مارکس نے غصؑے سے کہا۔

    "دفع ہوجاؤ! آخری الفاظ وہ احمق ادا کرتے ہیں، جو زندگی میں اپنی بات پوری طرح نہ سنا پائے ہوں۔”

    اس کے چند لمحات بعد ہی کارل مارکس ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ یہ 1883 کی بات ہے۔

    کارل مارکس سے ایک سال پہلے موت کا ذائقہ چکھنے والے چارلس ڈارون کو اس کے نظریہ ارتقا کی وجہ سے شہرت بھی ملی، اسے سراہا بھی گیا اور اس نے طنز اور طعنے بھی سنے۔ 19 ویں صدی کے برطانوی سائنس دان چارلس ڈارون کی کتاب ‘اوریجن آف اسپیشیز’ کی اشاعت نے دنیا کو انسان سے متعلق ایک مختلف رائے اور موضوعِ بحث دیا اور آج بھی اس پر مباحث کا سلسلہ جاری ہے۔

    ڈارون طبیعیات اور ارضیات کے علم کا ماہر تھا جس نے 1882 میں اپنی موت سے قبل کہا تھا:

    "مجھے مرنے سے ڈر نہیں لگتا۔”