Tag: کاشت

  • پاکستان میں کیسٹر کی کاشت کے حوالے سے اہم فیصلہ

    پاکستان میں کیسٹر کی کاشت کے حوالے سے اہم فیصلہ

    اسلام آباد (07 اگست 2025): پاکستان میں کیسٹر کی منافع بخش کاشت کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین کی زیر صدارت بین الاقوامی ملٹی گروپ آف کمپنیز کے وفد کے ساتھ ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں کیسٹر کی کاشت کو خصوصی توجہ کا مرکز قرار دیا گیا، کیوں کہ یہ نہ صرف اقتصادی طور پر سودمند ہے بلکہ برآمدات کے لیے بھی بہت زیادہ امکانات رکھتی ہے۔

    وفد نے پاکستان میں مختلف اعلیٰ منافع بخش فصلیں متعارف کروانے کی پیشکش کی، جن میں کیسٹر کو سب سے زیادہ موزوں اور منافع بخش قرار دیا گیا۔

    رانا تنویر حسین نے کہا کہ کیسٹر ایک کم لاگت اور زیادہ پیداوار دینے والی فصل ہے جو پاکستان کے غیر زرخیز اور نیم بنجر علاقوں کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ فصل ان زمینوں میں بھی آسانی سے کاشت کی جا سکتی ہے جہاں دیگر روایتی فصلیں اگنا مشکل ہوتی ہیں، یوں یہ کسانوں کے لیے آمدنی کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے۔


    پاکستانی عوام نے گزشتہ مالی سال ’’صرف پٹرول لیوی‘‘ کی مد میں کتنے کھرب دیے؟


    ان کا کہنا تھا اس وقت کیسٹر کی مقامی منڈی میں قیمت 7000 روپے فی چالیس کلو ہے، جو روایتی فصلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اس منصوبے میں شامل ایک چینی غیر منافع بخش ادارہ ہائبرڈ کیسٹر بیج فراہم کرے گا، جس سے موجودہ پیداوار 50 من فی ایکڑ سے بڑھ کر 100 من فی ایکڑ تک ہو جائے گی۔ کمپنی نے کسانوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدے کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جس کے تحت وہ مقررہ قیمت پر کسانوں کی تمام پیداوار خریدے گی، اس سے کسانوں کو مالی تحفظ بھی حاصل ہوگا۔

    وفاقی وزیر کے مطابق وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق اس منصوبے کی مکمل سرپرستی کرے گی اور صوبائی محکمہ جاتِ زراعت کے ساتھ مل کر آگاہی مہمات اور بیج کی فراہمی کے اقدامات کرے گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان عالمی مارکیٹ میں کیسٹر آئل کی برآمدات کے میدان میں ایک مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے، کیوں کہ یہ آئل دوا سازی، کاسمیٹکس، لبریکنٹس اور بائیو فیول سمیت کئی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔

  • 7 ایکڑ اراضی پر کاشت کیے گئے تربوز چوری!

    7 ایکڑ اراضی پر کاشت کیے گئے تربوز چوری!

    چوروں نے رات کی تاریکی میں تربوز کے کھیت کا ہی صفایا کر دیا اور یونیورسٹی کے زیر انتظام سات ایکڑ رقبے پر کاشت کیے گئے تربوز چوری کر لیے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق چوری کی یہ انوکھی واردات پنجاب کے شہر کمالیہ میں پیش آئی ہے جہاں یونیورسٹی آف کمالیہ کے زیر انتظام 7 ایکڑ اراضی پر تربوز کاشت کیے گئے تھے۔

    رات کی تاریکی میں چوروں نے پورے کھیت کا ہی صفایا کر ڈالا اور تربوز کی تمام فصل توڑنے کے بعد ٹرکوں میں بھر کر فرار ہو گئے۔

    اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے لیے 710 گ ب میں مختص اراضی پر تربوز کی فصل کاشت کی گئی تھی جو مکمل طور پر تیار ہو چکی تھی۔

    انتظامیہ کے مطابق تربوز کی فصل کی نیلامی 25 اپریل کو مقرر تھی۔ تربوز چوری کرنے والےملزمان کے خلاف کارروائی کے لیے اسسٹنٹ کمشنر کو خط لکھ دیا گیا ہے۔

  • سعودی عرب ایک اور پھل کی کاشت میں خود کفیل ہوگیا

    سعودی عرب ایک اور پھل کی کاشت میں خود کفیل ہوگیا

    ریاض: سعودی عرب ایک اور پھل کی کاشت میں خود کفیل ہوگیا، مملکت میں پپیتے کی سالانہ پیداوار 4 ہزار ٹن سے تجاوز کر چکی ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق وزارت ماحولیات، پانی اور زراعت کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں پپیتے کی کاشت میں کافی بہتری آئی ہے، سالانہ ز ہار ٹن سے زیادہ پپیتے کی کامیاب کاشت کی جا رہی ہے۔

    وزارت ماحولیات، پانی اور زراعت کی جانب سے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب پپیتے کی کاشت میں 95 فیصد تک خود کفیل ہو گیا ہے۔

    مملکت میں پپیتے کا سیزن مئی سے اگست تک رہتا ہے، سعودی عرب کے مشرقی ریجن اور جازان کی کمشنری ہروب، ابو عریش ، صبیا اور ضمد میں پپیتے کی کاشت بہترین طریقے سے کی جا رہی ہے۔

    اس وقت مشرقی ریجن اور جازان کے علاقے میں مختلف انواع و اقسام کے پپیتوں کی کاشت کامیابی سے کی جارہی ہے جن کی مقامی مارکیٹ میں کافی طلب ہے۔

    ماہرین خوراک کا کہنا ہے کہ پپیتا انسانی صحت کے لیے متعدد فوائد کا حامل ہے، پپیتے کے استعمال سے انسان کا دل صحت مند رہتا ہے جبکہ یہ بالوں، ہڈی اور جلد کے لیے کافی مفید ہے۔

    مجموعی طور پر پپیتے میں وٹامن، جیم، الف، میگنیشیئم، زنک اور وٹامن بی کے علاوہ کیلشیئم اور پوٹاشیئم کی بھی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ہیں۔

  • سعودی عرب: صحرا میں ایک نیا تجربہ

    سعودی عرب: صحرا میں ایک نیا تجربہ

    ریاض: سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کے صحرا میں ایک شخص نے چاول اگا لیے، مذکورہ شخص کا کہنا ہے کہ وہ چند ماہ میں مکہ کے مضافات میں سری لنکن چائے کا تجربہ بھی کریں گے۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی عرب کے ایک زرعی انجینیئر نے مکہ کے صحرا میں چاول اگا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے، یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا کامیاب تجربہ ہے۔

    انجینیئر یوسف عبد الرحمٰن بندقجی جو چاول کی کاشت اور جدید کھیتی باڑی کے ماہر مانے جاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں 2 برس قبل جدہ میں کھیتی باڑی کا خیال آیا، انہوں نے وزارت زراعت و پانی کی نگرانی میں بحیرہ احمر سے متصل زرعی فارم کا اہتمام کیا۔ سمندر کے پانی سے آبپاشی کی۔

    اس دوران وہ مختلف پودوں اور آب پاشی میں استعمال ہونے والے پانی نیز گرم آب و ہوا اور موسم کا مطالعہ کرتے رہے، اسی تجربے کے تناظر میں مکہ کے صحرا میں چاول کی کاشت کا خیال ذہن میں آیا۔

    بندقجی نے کہا کہ خشک علاقوں میں چاول کی کاشت کا تجربہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا ہے، ماحول دوست نامیاتی مواد اور مہینے میں پانچ بار آب پاشی سے مکہ کے صحرا میں چاول کی کاشت کی گئی۔

    اسی کے ساتھ ایک اور تجربہ یہ کیا جا رہا ہے کہ پانچ سال تک فصل حاصل کی جاتی رہے۔

    انہوں نے بتایا کہ وزارت زراعت کے ماتحت ریسرچ سینٹر کے مشیران نے اچھوتے نامیاتی مواد اور تجربے پر عمل درآمد کی منظوری دی تھی، تب ہی صحرا میں چاول کی کاشت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

    بندقجی کا کہنا تھا کہ وہ روزانہ 12 گھنٹے چاول فارم کو دیتے ہیں، 2 ہیکٹر کے رقبے پت دو فارم قائم کیے گئے۔ کچھ حصہ ایسا ہے جس میں آب پاشی یا پودوں کے حوالے سے تجربات کیے جاتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ چاول کی کاشت بظاہر گندم جیسی ہوتی ہے لیکن دونوں کا سسٹم اور خصوصیات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہاں سال بھر چاول کی کاشت کی جا سکتی ہے، ہر موسم میں چاول اگایا جا سکتا ہے۔ میرے زرعی فارم میں 3 قسم کے چاولوں کی کاشت ہو رہی ہے۔ سفید چاول، حسا کا سرخ چاول اور انڈونیشیا کا سیاہ چاول۔

    بندقجی کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ چند ماہ میں وہ مکہ کے مضافات میں سری لنکن چائے کا تجربہ بھی کریں گے۔

  • سعودی شہری نے 6سال تجربے کے بعد قدیم لوبان کاشت کرلی

    سعودی شہری نے 6سال تجربے کے بعد قدیم لوبان کاشت کرلی

    ریاض : سعودی شہری چھ سال بعد لوبان کاشت کرنے میں کامیاب ہوگیا جبکہ ماضی میں متعدد مرتبہ عربی لوبان کا درخت لگانے کے تجربے ناکام ہوچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں ایک مقامی باشندہ دُھونی کے واسطے تیار کیے جانے والے عربی لوبان کا درخت لگانے میں کامیاب ہو گیا، سعودی شہری ابراہیم الدخیل کو 6 برس کے صبر آزما اور طویل تجربات کے بعد اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ لوبان کی کاشت میں ابراہیم کا تجربہ ایک اہم ترین زرعی تجربہ شمار کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب کے مختلف مقامات پر کئی برسوں کے دوران اس قدیم درخت کو لگانے کے بہت سے تجربات ناکام ہو چکے تھے۔

    ابراہیم نے عرب ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے باور کرایا کہ لوبان کے درخت کی کاشت میں کامیابی متعدد مقامات پر کیے جانے والے تجربات کے بعد سامنے آئی۔

    انہوں نے کہا کہ لوبان کے درخت کی اہمیت اس کی بھاری معاشی قیمت میں پوشیدہ ہے، سلطنتِ عُمان کے صوبے ظفار میں واقع پہاڑی سلسلہ زمین پر لوبان حاصل کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ شمار کیا جاتا ہے۔

    ابراہیم کا کہنا تھا کہ لوبان کا درخت ٹھنڈی آب و ہوا میں دم توڑ دیتا ہے، لوبان کا درخت ہزاروں سال بعد بھی اپنی کاشت کے حوالے سے پراسرار ہے، رومیوں اور اغریقوں کو اس قدیم درخت کی کاشت کے حوالے سے کوششوں میں کامیابی نہ مل سکی۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ لوبان کا درخت سلطنتِ عُمان کے صوبے ظفار میں واقع پہاڑی علاقوں کے علاوہ یمن کے کچھ حصوں میں پروان چڑھتا ہے۔ ان مقامات کے اطراف 7 ہزار برس سے مشہور تجارت اور بڑے تجارتی راستوں نے جنم لیا۔

    جزیرہ نما عرب نے 18 ایسے راستوں کو جانا جو دُھونی کی تجارت کے واسطے استعمال ہوا کرتے تھے، عربی لوبان قبل مسیح کے وقت سے معروف ہے، قدیم تہذیبوں نے اس پر انحصار کیا جن میں حضر موت کی مملکت کے علاوہ معین، ثمودیوں اور انباط کی مملکتیں شامل ہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ لوبان اپنے طبّی فوائد کے ساتھ مذہبی اہمیت کا بھی حامل ہے، قدیم طب علاج کے مختلف نسخوں میں اس کا استعمال کیا کرتی تھی۔ جبکہ بعض نسخوں میں ابھی تک استعمال جاری ہے۔

  • سعودی استاد ریٹائرمنٹ کے بعد کاشتکار بن گیا، قہوہ کی تیاری اور کاشت شروع کر دی

    سعودی استاد ریٹائرمنٹ کے بعد کاشتکار بن گیا، قہوہ کی تیاری اور کاشت شروع کر دی

    ریاض : سعودی استاد نے تدریس سے ریٹائرمنٹ کے بعد کاشتکاری شروع کردی، جبران محمد المالکی کے باغات میں چھ ہزار کافی کے درخت ہیں ‘ ایک ہزار درخت پیداوار کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی استاد جبران محمد المالکی نے 20 برس شعبہ تدریس میں گزار نے کے بعد اپنے شوق کے لیے ’قہوہ کی تیاری اور کاشت‘ کو مستقل پیشے کے طور پر اپنا لیا۔

    میڈیا گفتگو کرتے ہوئے جبران المالکی کا کہنا تھا کہ مجھے عربی قہوہ کی تیاری سے اسے بچپن سے ہی لگاﺅ تھا، اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ شوق مجھے وراثت میں ملا تھا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ 20 برس شعبہ تدریس سے منسلک رہنے کے بعد جب ریٹائر ہوئے تو اپنے شوق کی تکمیل کے لیے تمام وسائل جمع کیے۔

    جبران محمد المالکی کا کہنا تھا کہ 20 سالہ تدریسی کیریئر کے دوران بھی ہمیشہ یہ سوچا کرتا تھا کہ کیا مجھے زندگی میں کبھی یہ موقع ملے گا کہ قہوہ کی کاشت اور تیاری کرسکوں، سچی لگن اورقہوے سے جنون کی حد تک محبت نے مجھے منزل تک پہنچا دیا۔

    عرب میڈیا کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد جبران محمد المالکی نے اپنے گاﺅں سے کچھ فاصلے پر اہل قریہ سے بات کرکے متروکہ زمینوں پر جسے انہو ں نے اس وجہ سے چھوڑ دیا تھا کہ وہاں آمد ورفت کافی دشوار تھی انہیں حاصل کیا اور وہاں ’ کافی‘ کی کاشت شروع کردی۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جازان کمشنری کے پہاڑی علاقے بنی مالک کے رہائشی اور استاد اپنے شوق کی تکمیل کے لیے اب کاشتکار بن چکے تھے۔

    جبران محمد المالکی نے مزید بتایا کہ اس نے متروکہ زمین کو کافی محنت کے بعد کاشت کے لیے ہموار کر کے اسے ’قہوے کے باغات ‘ میں تبدیل کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جازان کمشنری میں اب المالکی کے ’قہوے کے باغات‘ مشہور ہیں جہاں اعلی درجے کے کافی کے بیج دستیاب ہوتے ہیں۔

    جبران محمد المالکی کے باغات میں چھ ہزار کافی کے درخت ہیں اور ایک ہزار درخت پیداوار کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، باغ سے سال میں ایک ہی فصل تیار ہوتی ہے، ہر درخت سے تین کلو گرام کافی کے بیج حاصل ہو تے ہیں۔

    جبران محمد المالکی کہنا تھا کہ ’اج یہ لہلہاتے باغات میری ذاتی محنت کا ثمر اور میرے شوق کی تکمیل ہیں۔جو خواب میں بچپن سے دیکھاکرتا تھا آج پورا ہو گیا۔