Tag: کاشت کار

  • کاشت کار نے 50 من گوبھی مفت میں کیوں بانٹ دی ؟

    کاشت کار نے 50 من گوبھی مفت میں کیوں بانٹ دی ؟

    نارووال : اپنی فصل کی مناسب قیمت نہ ملنے پر کاشت کار نے انوکھا احتجاج کرتے ہوئے 50 من گوبھی لوگوں میں مفت بانٹ دی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق صادق آباد کے ایک کاشت کار  نے سبزی منڈی میں گوبھی سے بھری پوری گاڑی مفت میں خالی کردی اور ساری سبزی ہوا میں اچھال کر لوگوں میں بانٹ دی۔

    صادق آباد کے اس دلبرداشتہ مدثر عمر نامی کاشت کار کا کہنا ہے کہ منڈی میں گوبھی کا بھاؤ دو روپے فی کلو لگ رہا ہے جبکہ فصل تیار کرنے میں ہمارا خرچہ ہی 30سے 40 ہزار روپے تک آتا ہے۔

    مدثر عمر کا کہنا ہے کہ اپنی گوبھی دو روپے فی کلو بیچنے سے بہتر ہے کہ غریبوں میں مفت بانٹ دوں، اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مدثر نے حکومت سے بجلی اور کھاد پر سے ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

  • بے زمین کاشتکاروں کو مالکانہ حقوق دینے پروزیراعلیٰ پنجاب مبارکباد کے مستحق ہیں، محمود الرشید

    بے زمین کاشتکاروں کو مالکانہ حقوق دینے پروزیراعلیٰ پنجاب مبارکباد کے مستحق ہیں، محمود الرشید

    لاہور: صوبائی وزیر برائے ہاؤسنگ میاں محمود الرشید کا کہنا ہے کہ بے زمین کاشتکاروں کو مالکانہ حقوق دینے پر لاکھوں کاشتکار وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو خلوص دل سے دعائیں دے رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبائی وزیر برائے ہاؤسنگ میاں محمود الرشید نے بنجر زمین آباد کرنے والے کاشت کاروں کو مالکانہ حقوق دینے کے فیصلے پر وزیراعلی پنجاب کو خراج تحسین پیش کیا ہے-

    میاں محمود الرشید نے بنجر زمین آباد کرنے والے کاشت کاروں کو مالکانہ حقوق دینے کے فیصلے پر وزیراعلیٰ پنجاب کو خراج تحسین پیش کیا-

    انہوں نے کہا کہ ایسا تاریخی فیصلہ کرنے پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور پنجاب کابینہ مبارک باد کے مستحق ہیں- وزیراعلی عثمان بزدار کے اس فیصلے سے لاکھوں کاشت کار خاندانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے-

    صوبائی وزیر برائے ہاؤسنگ نے کہا کہ لاکھوں کاشتکار وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی عثمان بزدار کو خلوص دل سے دعائیں دے رہے ہیں- بنجر زمینیں آباد کرنے والے کاشت کار خاندان کئی سال سے اپنے حقوق سے محروم تھے-

    انہوں نے کہا کہ سخت محنت کرکے بنجر زمین آباد کرنے کے باوجود کاشت کاروں کو ان کا حق نہیں مل رہا تھا، وزیراعلی عثمان بزدار کے اس فیصلے سے صوبے کی زرعی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا-

  • عثمان بزدار، اسد قیصر ملاقات، کاشت کاروں کو ریلیف دینے کا فیصلہ

    عثمان بزدار، اسد قیصر ملاقات، کاشت کاروں کو ریلیف دینے کا فیصلہ

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے اسپیکر قومی  اسمبلی اسدقیصر نے ملاقات کی.

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی اس ملاقات میں سیاسی صورت حال پر تفصیلی گفتگو ہوئی اور گندم خریداری مہم، بارشوں سے فصلوں کو نقصانات کے ازالے پر تبادلہ خیال کیا.

    [bs-quote quote=”مشکل وقت میں کاشت کاروں کے ساتھ کھڑے رہیں گے” style=”style-8″ align=”left” author_name=”سردار عثمان بزدار”][/bs-quote]

    اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب نے فصلوں کے نقصانات پر  کاشت کاروں کو ریلیف دینے کی یقین دہانی کرائی.

    سردار عثمان بزدار نے کہا کہ گندم خریداری مہم کےدوران کسانوں کو محنت کا پورا معاوضہ ملے گا، حالیہ بارشوں سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں، اس ضمن میں بورڈ آف ریونیو، پی ڈی ایم اے کو ہدایات جاری کر دیں.

    عثمان بزدار نے کہا کہ سروے رپورٹ کے بعد کسانوں کے نقصانات کا ازالہ کریں گے، مشکل وقت میں کاشت کاروں کے ساتھ کھڑے رہیں گے،  خریداری مہم کے دوران کاشت کاروں سے گندم کا دانہ دانہ خریدا جائے گا، گندم خریداری کے لیے رواں سیزن میں 130 ارب روپے مختص کئے ہیں.

    یاد رہے کہ آج وزیر اعلیٰ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ  عوام کو زیادہ ریلیف فراہم کرنا ہماری حکومت کا ایجنڈا ہے، چینی کی قیمت میں بلا جوازاضافہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔

  • پنجاب میں کئی دہائیوں سے شوگرمل مافیا کا راج تھا، عثمان بزدار

    پنجاب میں کئی دہائیوں سے شوگرمل مافیا کا راج تھا، عثمان بزدار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ رواں سیزن میں پنجاب میں 133 ارب روپے کا گنا خریدا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب نے ٹویٹر پراپنے پیغام میں کہا کہ پنجاب میں گنے کے کاشتکاروں کو113 ارب روپے ادا کیے جا چکے ہیں۔

    عثمان بزدار نے کہا کہ کاشت کاروں کوگزشتہ سالوں کے 99.7 فیصد واجبات بھی ادا کیے ہیں، کاشت کاروں کو بقایا واجبات بھی جلد اداکر دیے جائیں گے۔


    وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا کہ رواں سیزن میں پنجاب میں 133 ارب روپے کا گنا خریدا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ پنجاب میں کئی دہائیوں سے شوگر مل مافیا کا راج تھا، گنے کے کاشتکار وں کو کئی کئی سال ادائیگیاں نہیں ہوتی تھیں۔

    ملک کو بے دردی سے لوٹنے والے عناصر کا احتساب ضروری ہے، عثمان بزدار

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ملک کو بے دردی سے لوٹنے والے عناصر کا احتساب ضروری ہے۔

    عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے کرپشن کے ناسور کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔

  • شہبازشریف کی کسانوں سےجعلی ہمدردی شوگرملزسےبےنقاب ہوگئی‘عمران خان

    شہبازشریف کی کسانوں سےجعلی ہمدردی شوگرملزسےبےنقاب ہوگئی‘عمران خان

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کی ملز قانون کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پراپنے پیغام میں کہا کہ شہبازشریف کی کسانوں سے جعلی ہمدردی شوگرملزسے بے نقاب ہوگئی۔

    چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے کہا کہ رمضان شوگرملزکسانوں کو180 کے بجائے150 روپے دے رہی ہے۔

    عمران خان نے کہا کہ شریف خاندان کی ملزقانون کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہیں۔

    خیال رہے کہ اس سےقبل پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیرترین کا کہنا تھا کہ شہبازشریف کی شوگر ملز کاشت کاروں کوکم پیسے ادا کر رہی ہیں۔


    کاشت کاروں کا حق چھیننےپرشہبازشریف کوشرم آنی چاہیے‘ جہانگیرترین


    جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ پنجاب کی انتظامیہ اس نا انصافی کو نظر انداز کر رہی ہے، کاشت کاروں کا حق چھیننے پرشہباز شریف کو شرم آنی چاہیے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کاشت کاروں کا حق چھیننےپرشہبازشریف کوشرم آنی چاہیے‘ جہانگیرترین

    کاشت کاروں کا حق چھیننےپرشہبازشریف کوشرم آنی چاہیے‘ جہانگیرترین

    لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیرترین کا کہنا ہے کہ شہبازشریف کی شوگر ملز کاشت کاروں کوکم پیسے ادا کر رہی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیرترین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیحام میں کہا کہ شہبازشریف کی شوگر ملز کاشت کاروں کو 180 کے بجائے 150 روپےادا کر رہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کاشت کاروں کو 15 سے 20 فیصد کم ادائیگی کر رہے ہیں، شریف خاندان کی تمام ملزکھلے عام قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔

    جہانگیر ترین نے کہا کہ پنجاب کی انتظامیہ اس نا انصافی کو نظر انداز کر رہی ہے، کاشت کاروں کا حق چھیننے پرشہباز شریف کو شرم آنی چاہیے۔


    جہانگیر ترین کو صادق اور امین سمجھتا ہوں: پرویز خٹک


    خیال رہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ میری نظرمیں جہانگیرترین صادق وامین ہیں، ہم فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائرکریں گے، جہانگیرترین کے خلاف کرپشن اورمنی لانڈرنگ ثابت نہیں ہوئی۔

    یاد رہے کہ 16 دسمبر کوپاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے سپریم کورٹ سے اپنی نا اہلی کا فیصلہ آنے کے بعد پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھارت میں کاشتکار خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور

    بھارت میں کاشتکار خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور

    نئی دہلی: بھارت سمیت کئی ایشیائی ممالک کے دیہاتوں میں خواتین کا کھیتوں میں کام کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی یہ عورتیں مردوں ہی کی طرح سرد و گرم برادشت کرتی اور ان ہی کے جیسی یکساں محنت کرتی ہیں۔

    لیکن ان خواتین کاشتکاروں کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے کوئی نہیں جانتا، یا جانتا بھی ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔

    بھارت میں گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین اپنے اہلخانہ کو پالنے کے لیے نہ صرف ان کھیتوں کو جسمانی مشقت اور اپنا خون پسینہ دیتی ہیں، بلکہ زمینداروں کو اپنی قیمتی متاع حیات یعنی عزت بھی دینے پر مجبور ہیں۔

    india-4

    اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب ممبئی میں خواتین کے لیے کام کرنے والی کچھ تنظیمیں ان خواتین کاشتکاروں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لیے پہنچیں۔

    کھیتوں میں کام کرتی یہ خواتین اپنی رضا مندی سے زمینداروں اور اپنے نگرانوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتی ہیں، لیکن اس ’رضا مندی‘ کے لیے انہیں مجبور کیا جاتا ہے، کبھی تشدد کی صورت اور کبھی معاشی احسانات کے عوض۔

    مشکل در مشکل

    بھارتی ریاست مغربی مہاراشٹر میں بھی گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کاشتکاروں کے لیے اپنے مالکوں اور نگرانوں کی جانب سے جنسی زیادتی اور تشدد ایک عام سی بات ہے۔

    بھیودے بھی انہی خواتین میں سے ایک ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایسے ہی ایک زبردستی جسمانی تعلق کے بعد جب وہ حاملہ ہوئیں تو یہ کوئی آسان حمل نہیں تھا۔ انہیں شدید طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے نومولود بچے کی موت پر منتج ہوا۔

    india-3

    ڈاکٹر نے انہیں ہسٹرریکٹمی یعنی اپنی بچہ دانی نکلوانے کا مشورہ دیا تاکہ مستقبل میں مزید ایسی تکالیف سے بچا جاسکے۔

    اور ایسا مشورہ پانے والی بھیودے پہلی عورت نہیں تھی۔ کھیتوں میں زمینداروں کی ہوس کا نشانہ بنتی تقریباً ہر عورت کو یا تو اپنے خاندان والوں کی جانب سے اس عمل کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، یا پھر وہ خود ہی اس عمل سے گزرتی ہے تاکہ اپنی زندگی کو کسی حد تک آسان بنا سکے۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    دراصل کھیتوں میں ان خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات اس قدر عام، اور تسلسل کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں کہ انہیں بار بار حمل سے بچنے کے لیے یہی ایک آخری حل نظر آتا ہے۔

    یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بغیر وقفوں کے مستقل کام کرسکیں اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پال سکیں۔

    ان خواتین کا سروے کرنے والی ممبئی کی ایک تنظیم کے رکن نیرجا بھٹنا گر کا کہنا ہے کہ یہ ایک ناقابل بیان قسم کا تشدد ہے۔ ’یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے کہ آپ کسی کو اس کے جسم کے کسی حصہ سے اس لیے محروم کردیں، تاکہ وہ ایسی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکے جو اسے ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں پہنچا رہی‘۔

    خواتین مجبور کیوں ہیں؟

    بھارت دنیا کا دوسرا بڑا چینی پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کاروبار کے لیے بھارت کے طول و عرض پر بے شمار گنے کے کھیت ہیں جن میں کام کرنے کے لیے اس قدر افرادی قوت کی ضرورت ہے کہ نہ صرف مرد، بلکہ خواتین اور بچوں کو بھی اس مشقت میں ڈالا جاتا ہے۔

    گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے عموماً میاں بیوی کو رکھا جاتا ہے۔ ان جوڑوں کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں جو رضا کارانہ طور پر اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں تاہم معاوضے میں ان کا کوئی حصہ نہیں رکھا جاتا۔

    چونکہ ان کھیتوں میں کام کرنے کے لیے صرف جوڑوں کو ہی رکھا جاتا ہے لہٰذا کاشت کاری سے وابستہ خاندان اپنی لڑکیوں کی شادی اس عمر سے پہلے ہی کردیتے ہیں جو حکومت نے قانونی طور پر طے کر رکھی ہے یعنی 18 سال۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں دنیا کی ترقی کے لیے خطرہ

    کھیتوں میں فصل کی کٹائی نومبر سے مئی تک جاری رہتی ہے۔ اس دوران خواتین و بچے قابل استعمال اور ناقابل استعمال گنے کو علیحدہ کرتے ہیں اور یہ عمل صبح 4 بجے شروع ہوجاتا ہے جو بغیر کسی وقفے کے دوپہر ڈھلنے تک جاری رہتا ہے۔

    اس کے بعد یہ ان گٹھوں کو اپنی پیٹھ پر ڈھو کر بیل گاڑیوں میں رکھتے ہیں جو انہیں کھینچ کر فیکٹری میں لے جاتے ہیں جہاں انہیں چینی میں تبدیل کرنے کا کام شروع ہوتا ہے۔

    یہ مدت کاشت کاروں کے سال بھر کے روزگار کی مدت ہوتی ہے چنانچہ یہ دوسرے گاؤں دیہاتوں سے بھی عارضی ہجرت کر کے کھیتوں میں آبستے ہیں۔ اس دوران نہ تو انہیں جسم کی صفائی یا دیگر ضروریات کے لیے پانی میسر ہوتا ہے، نہ بجلی اور نہ ہی باقاعدہ بیت الخلا قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔

    معاوضے کے لیے انہیں درمیان میں موجود ایک شخص سے واسطہ پڑتا ہے۔ 5 سے 6 ماہ کی اس مشقت کے ان سے 50 یا 60 ہزار روپے طے کیے جاتے ہیں، تاہم دینے کے وقت ان کی کچھ رقم روک لی جاتی ہے تاکہ اگلے سال یہ دوبارہ لوٹ کر آئیں۔

    خواتین دہری اذیت میں

    یہ ایک عام صورتحال ہے، تاہم خواتین اس سے کہیں زیادہ مشکلات کا شکار ہیں جن میں سرفہرست ان سے زیادتی، ہراساں کرنے اور نگرانوں کی جانب سے تشدد کے واقعات شامل ہیں۔

    کام کے دوران اگر کوئی کم عمر لڑکی، زبردستی کے تعلق یا کچھ عرصہ قبل ہوئی شادی کے نتیجے میں حاملہ ہوجائے تو سخت محنت اور جسمانی مشقت کے باعث حمل ضائع ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان عادات سے پرہیز ضروری ہے

    بار بار کی جنسی زیادتی کے باعث حمل سے بچنے کے لیے نہ صرف انہیں ہسٹرریکٹمی کا مشورہ دیا جاتا ہے، بلکہ ان کے مردوں کو بھی نس بندی کروانے پر زور دیا جاتا ہے تاکہ یہ خواتین حاملہ ہوئے بغیر زیادہ سے زیادہ کام کرسکیں۔

    سماجی رکن بھٹنا گر نے بتایا کہ انہوں نے اس سلسلے میں کچھ ڈاکٹرز سے بات کی جو ان کاشت کار خواتین کی ہسٹرریکٹمی کا عمل انجام دیتے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ کم از کم 35 ہزار روپے فیس طلب کرتے ہیں اور یہ ان غریب اور بدحال خاندانوں کو مزید قرض میں دھنسا دیتا ہے۔

    india-5

    وہ کہتے ہیں، ’اس عمل کے لیے عورتوں کو خاندان والوں کی جانب سے مجبور کیا جاتا ہے تاہم آپ خاندان کو الزام نہیں دے سکتے۔ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کھیتوں میں ان کی عورتوں کے ساتھ کیا حالات پیش آئیں گے اور وہ کسی صورت ان کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ لیکن انہیں زندگی گزارنے کے لیے کام کرنا ہے لہٰذا وہ مجبور ہیں‘۔

    دوسری جانب خواتین لاعلم ہیں کہ اس سرجری کے بعد بغیر آرام کیے سخت محنت کرنے کا ان کے جسم پر کیا نقصان ہوگا، نہ ہی وہ یہ جانتی ہیں کہ کم عمری میں ہی یہ عمل ان کے جسم پر آگے چل کر کیا خطرناک اثرات مرتب کرے گا۔

    مزید پڑھیں: ہر 3 میں سے ایک عورت تشدد کا شکار

    سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ جدید دور کی غلامی کی بدترین مثال ہے اور خواتین اس کا زیادہ شکار ہیں۔

    زمینداروں اور فیکٹری مالکان کی ہٹ دھرمی

    گنا فیکٹریوں کے مالکان اور کارکنان نے اس بات سے انکار کیا کہ کھیتوں میں ایسی کوئی صورتحال موجود ہے۔

    مہاراشٹر کو آپریٹو شوگر فیکٹریز فیڈریشن کے وائس چیئرمین کا کہنا ہے کہ ان کے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں، نہ انہوں نے کبھی ایسا کچھ سنا۔ ’اگر یہ خواتین ایسی شکایت کرتی ہیں، یا وہ اپنے معاوضوں سے خوش نہیں، تو وہ وہاں کام کرنے آتی ہی کیوں ہیں‘۔

    ممبئی میں خواتین کے لیے سرگرم عمل ایک غیر ملکی تنظیم کی رکن افلیویا اگنز کا کہنا ہے کہ گو کہ جبری مشقت اور بدسلوکی کے خلاف بھارت میں قوانین موجود ہیں لیکن یہ تمام کاشت کار نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ اپنی اونچی ذات کے مالکوں سے خوفزدہ ہیں لہٰذا وہ کوئی قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کارکنان متحد ہو کر آواز اٹھائیں تو انہیں کچھ تحفظ مل سکے، لیکن کھیتوں کے مالکان ایسے واقعات کو ہی ماننے سے انکاری ہیں۔ کئی شوگر ملیں سیاستدانوں کی ہیں یا ان ملوں کے مالکان ان سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ وہ واپس اسی کام پر جانے پر مجبور ہیں جہاں ان کے ساتھ نہایت غیر انسانی اور بدترین سلوک کیا جاتا ہے‘۔

  • پانچ ماہ میں ایک سو اٹھارہ ارب روپے کے زرعی قرضے جاری کئے گئے

    پانچ ماہ میں ایک سو اٹھارہ ارب روپے کے زرعی قرضے جاری کئے گئے

    رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بینکوں نے ایک سو اٹھارہ ارب روپے کے زرعی قرضے جاری کئے۔ زرعی قرضوں کے اجرا میں گیارہ فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

    رواں مالی سال جون دو ہزار چودہ تک زرعی قرضوں کی تقسیم کا عبوری ہدف 360 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ بینکوں نے جولائی سے نومبر کے دوران 118 ارب روپے کے قرضے کاشت کاروں کو جاری کیے ہیں جو کہ ہدف کا 33 فیصد بنتے ہیں۔ پانچ بڑے بینکوں نے مجموعی طور پر 70 ارب ساٹھ کروڑ روپے کے زرعی قرضے رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں جاری کئے ہیں