Tag: کاشت کاری

  • زراعت میں سائنسی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے: احسن اقبال

    زراعت میں سائنسی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے: احسن اقبال

    اسلام آباد: وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ زراعت میں سائنسی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے، جدید طریقے سے کاشت کاری سے فصل میں اضافہ ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی زراعت کو جدید بنانا پڑے گا، جدید طریقے کے ذریعے کاشت سے فصل میں اضافہ ہوگا۔

    احسن اقبال کا کہنا ہے کہ زراعت کے لیے سائنسی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے، ملک میں جدید ٹیکنالوجی سے زرعی انقلاب لا سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس سال گندم کی پیداوار زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

    وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے گندم کی پیداوار متاثر ہوئی ہے، ان علاقوں میں گندم زیادہ کاشت کریں جہاں سیلاب نہیں آیا۔

  • کیا بنجر زمینوں پر کاشت کاری کی جاسکتی ہے؟

    کیا بنجر زمینوں پر کاشت کاری کی جاسکتی ہے؟

    کراچی: ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی موجودہ آبادی 7.7 ارب تک پہنچ چکی ہے جس کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے فصلوں کی پیداوار میں نمایاں اضافے کی ضرورت ہے، اس ضمن میں بنجر زمینوں پر پائے جانے والے نباتات کا استعمال اہم ضرورت بن رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی میں آن لائن بین الاقومی سمپوزیم منعقد ہوا جس کا مقصد سائنس کے طلبا، نوجوان سائنسدانوں اور پالیسی سازوں کے درمیان ہیلو فائٹس یا شور زدہ زمین پر پائے جانے والے نباتات کے بطور غیر روایتی فصلوں کے استعمال کے ذریعے مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔

    سمپوزیم سے آسٹریلیا کی تسمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سر جے شابالا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی موجودہ آبادی 7.7 ارب تک پہنچ چکی ہے اور مزید تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے فصلوں کی پیداوار میں نمایاں اضافے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے گزشتہ 50 برسوں میں فی کس زرعی زمینوں میں ماحولیاتی تغیرات اور غیر معیاری کاشت کاری کے باعث دو گنا کمی واقع ہوئی ہے۔

    سعودی عرب کی کنگ عبد اللہ یونیورسٹی کے سائنسدان ڈاکٹر مارک ٹیسٹر نے جینیات کے ذریعے ہیلو فائٹس کو قابل کاشت بنانے کے بارے میں ہونے والی سائنسی پیش رفت سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ہیلو فائٹس کی غذائیت خصوصیات میں اضافہ ممکن ہے، جو مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرے گا۔

    چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے ڈاکٹر شاؤ جنگ لیو نے سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شور زدہ زمینیں بیکار نہیں، بلکہ جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے ان بنجر زمینوں کی پیداوار میں بھی نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے جس سے نہ صرف مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی بلکہ فضائی آلودگی کے تدارک میں بھی معاونت ہوگی۔

    جرمنی کی گیسن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہانس ورنرکوئیرو نے گرین سائنس کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدارک پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ایک مسلمہ حقیقت ہیں جن کے اثرات پوری دنیا میں نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک بشمول پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والی خشک سالی کی زد میں ہیں، جس کا براہ راست اثر زرعی پیداوار پر پڑتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کاشت کے غیر روایتی طریقوں کو اپنایا جائے جو مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اہم ہیں۔

  • کاشت کاری کر کے بیٹیوں کو تعلیم دلانے والی باہمت خاتون

    کاشت کاری کر کے بیٹیوں کو تعلیم دلانے والی باہمت خاتون

    بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا والدین کا خواب ہوتا ہے، اور اس کے لیے وہ بہت محنت کرتے ہیں۔ کچھ والدین اپنے بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی تعلیم کی نعمت سے روشناس کروانا چاہتے ہیں اور اردن کی ام بکر الہائمی انہی میں سے ایک ہیں۔

    مغربی اردن میں ایک چھوٹے سے باغ کی مالک یہ خاتون گزشتہ 25 برس سے محنت کر رہی ہیں۔

    ان کی 6 بیٹیاں اور 6 بیٹے ہیں اور یہ سب کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی ہیں۔

    ہائمی اپنے باغ میں مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں اگاتی ہیں جو مختلف دواؤں میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان جڑی بوٹیوں کو یہ ضرورت مندوں کو مفت میں بھی دے دیتی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں کہ انہیں بہت اچھا لگتا ہے کہ ان کے پودے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔

    25 سال سے کاشت کاری کرنے والی ہائمی نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرتی رہیں بلکہ انہوں نے اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلوائی، یہ بچے اب خود بھی والدین بن چکے ہیں جو کہ برسر روزگار ہوچکے ہیں۔

    گو کہ ہائمی کو اب کام کرنے کی ضرورت نہیں رہی، تاہم یہ باغ ان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور وہ اب بھی پابندی سے اس میں کام کرتی ہیں۔

    وہ چاہتی ہیں کہ ان کا باغ ایک سیاحتی مقام کی صورت اختیار کر جائے اور ملکی و غیر ملکی باشندے آکر ان کے باغ کا دورہ کریں۔