Tag: کاشی گری

  • مساجد، مدارس، مزارات کو دریا کی مٹی سے تیار ٹائلز سے سجانے والا کاشی گری کا قدیم فن

    مساجد، مدارس، مزارات کو دریا کی مٹی سے تیار ٹائلز سے سجانے والا کاشی گری کا قدیم فن

    ویڈیو رپورٹ: مرزا احمد علی

    دریا کی چکنی مٹی سے بنائی جانے والے ٹائلز پر کی جانے والی صدیوں پرانی کاشی گری کا فن آج بھی زندہ ہے۔

    ملتان کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے صدیوں سے آباد شہر کے قدیم فنون میں سے ایک فن کاشی گری بھی ہے، مزارات پر لگی کاشی گری سے مزین ٹائلز ان کی خوب صورتی میں اضافہ کرتی ہیں۔

    آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے والے سفید نیلے اور فیروزی رنگوں سے سجی ملتانی کاشی ٹائلز مختلف مراحل سے گزر کر تیار کی جاتی ہیں، سب سے پہلے دریائے چناب سے چکنی مٹی لائی جاتی ہے، مٹی کو سکھا کر صاف کیا جاتا ہے، پھر پانی سے گوند کر سخت کیا جاتا ہے۔ دوبارہ صفائی کے بعد سانچے کی مدد سے ٹائل کی شکل دی جاتی ہے، جسے پیمائش کے مطابق کاٹ کر فنیشنگ کی جاتی ہے۔ خاص قسم کے سانڈ نامی پتھر کمپیوٹر سے کچی ٹائل پر استر لگایا جاتا ہے، بعد ازاں کوئلے کے پاؤڈر سے مختلف ڈیزائن بنا کر انھیں رنگ کیا جاتا ہے۔

    ملتانی کاشی ٹائلز میں نیلارنگ خاص قسم کے پتھر لاجورد جب کہ فیروزی رنگ تابنے سے تیار کیا جاتا ہے۔ آخری مرحلے میں شیشے کے پیسٹ سے کور کر کے مٹی کی ٹائل کو 900 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھٹی میں 12 گھنٹے کے لیے سینچا جاتا ہے۔ بھٹی سے تیار ہونے پر کاشی ٹائل کا ڈیزائن اور رنگ نکھر کر سامنے آتے ہیں۔

    7 سہلیوں کے مزار سے جڑی کہانی کی حقیقت کیا ہے؟ ویڈیو رپورٹ

    استاد محمد واجد اپنے خاندان کی چھٹی نسل سے ہیں جو فن کاشی گری سے منسلک ہیں، وہ اس قدیمی فن کو زندہ رکھنے کے خواہاں ہیں۔ اس قدیم فن سے مساجد، مدارس، مزارات اور دیگر تاریخی عمارتوں کے لیے مٹی کی ٹائلز، چھوٹے گنبد، مینار، اسلامی کیلری گرافی والی شیلڈز بھی تیار کی جاتی ہیں۔

    محکمہ آثار قدیمہ کے الیاس خان کے مطابق مٹی کی ٹائلز ہڑپہ تہذیب میں تقریباً 7 ہزار سال سے موجود ہیں اور کاشی ٹائلز کا فن تغلق دور حکومت میں 800 سال قبل یہاں آیا، اور اس وقت سے قائم اولیائے کرام کے مزارات پر سجی ٹائلز آج بھی اپنی اصل حالت میں برقرار ہیں، اس کے قدرتی رنگ آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں، یہ ٹائل عمارت کو موسمی اثرات سے مکمل محفوظ رکھتی ہیں۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • ہنڈیا، صراحی، مٹکا، ڈولا، گلک اور مٹی کا کٹورا یاد ہے؟

    ہنڈیا، صراحی، مٹکا، ڈولا، گلک اور مٹی کا کٹورا یاد ہے؟

    حضرت انسان نے روئے زمین پر جب گزر بسر شروع کی تو اسے رہنے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیا کو سنبھالنے کے لیے برتنوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔

    نجانے کب اور کیسے اس نے اپنی ضروریات کا حل نکالا اور درختوں‌ کی چھال، پتوں، پتھروں کو برتن کے طور پر یا کسی کھانے پینے کی چیز کو سنبھالنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہو گا، لیکن جب وہ صنعت گری کی طرف مائل ہوا اور ضرورتوں‌ نے اسے ایجاد کا راستہ سجھایا تو ہر طرح‌ کے برتن بنائے اور رفتہ رفتہ اپنی سہولت اور آسانی کے مطابق انھیں‌ مختلف سانچوں‌ میں‌ ڈھال لیا۔

    جب انسان نے اپنے لیے خوراک کا انتظام کرنے، اسے کچھ روز محفوظ رکھنے اور کھانے پینے کا طور طریقہ جان لیا تو باقاعدہ برتن سازی کی طرف متوجہ ہوا۔ تاریخ‌ نویسوں اور محققین کا اندازہ ہے کہ مٹی کے برتن بنانے کا فن کم ازکم آٹھ سے دس ہزار سال پرانا ہے۔

     

    ابتدائی دور میں ہی انسان نے مٹی کے برتن بنانا اور انہیں آگ میں پکا کر مضبوط کرنا سیکھ لیا تھا۔ بعض محققین کے مطابق چین میں اس فن کو عروج حاصل ہوا اور کوزہ گری کو ایک ہنر تصور کیا جانے لگا۔ محققین کے نزدیک مسلمانوں‌ نے رنگ دار مٹی سے برتن بنانے کی ابتدا کی اور کاری گروں نے مراکش سے لے کر اندلس تک اور پھر برصغیر میں بھی اس فن کو دوام دیا۔

    آج ظروف سازی کا فن گویا دَم توڑتا نظر آرہا ہے۔ لوگ مٹی کے برتنوں کا استعمال تقریباً ترک کرچکے ہیں، لیکن پہلے گھروں میں زیادہ تر مٹی کے برتن ہی استعمال ہوتے تھے۔

     

    ان میں پانی محفوظ رکھنے کے لیے گھڑے، پکوان کی ہنڈیا، کھانا پروسنے کے لیے پیالے اور اچار ڈالنے کے مرتبان کے علاوہ کئی اور برتن شامل تھے۔ پہلے مٹی کے پیالے سے پانی پیا جاتا تھا، لیکن آج پلاسٹک اور شیشے کے گلاس موجود ہیں۔ مٹی کے برتن صرف ضرورت نہیں‌ تھے بلکہ یہ ہماری رنگا رنگ ثقافت کا حصہ بھی رہے جو اب دم توڑتی جارہی ہے۔

     

    پاکستان کی بات کی جائے تو کبھی ظروف سازی کی صنعت دیہی علاقوں اور شہری مضافات کے لاکھوں‌ باسیوں کا روزگار رہی ہے، لیکن اب مٹی کے برتن بنانے کا سلسلہ محدود ہو گیا ہے۔