Tag: کاغذ

  • کاغذ کی قیمتوں میں بھی 3 گنا اضافہ ہوگیا

    کاغذ کی قیمتوں میں بھی 3 گنا اضافہ ہوگیا

    روپے کی گرتی ہوئی قدر سے جہاں مہنگائی کا سیلاب آیا ہوا ہے اور اشیا کے نرخ  روزانہ  کے حساب سے اوپر جا رہے ہیں ان میں ایک شے ایسی بھی ہے جس کی قیمتیں گذشتہ آٹھ ماہ میں 3 گنا بڑھ چکی ہیں اور اب وہ اتنی زیادہ ہو چکی ہیں کہ پاکستان کے بیشتر پبلشروں نے کتابوں کی اشاعت روک دی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران کاغذ کی قیمتوں میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ روپے کی گرتی ہوئی قدر اوردرآمدی اشیا پر پابندی ہے۔

    اس معاملے پر چیئرمین پاکستان پبلشر اینڈ بک سیلرز عزیز  خالد نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کہ 8 ماہ سے حکومت نے اپنی پالیسی میں تعلیم کو نظر انداز کیا ہے۔

    عزیز خالد نے بتایا کہ حکومت نے کاغذ کی امپورٹ بند کردی دوسری جانب لوکل مینیوفیکچز نے کاغذ کی کوالٹی کو بھی بڑھایا اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی قیمت بھی دگنی کردی۔

    انہوں نے کہا کہ ان تمام وجوہات سے ملک میں کتابوں کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے، اس صورت میں جب ہم کتاب نہیں چھاپے گے تو بچوں کے پاس پڑھنے کے لیے کتابیں کم ہوں گی۔

  • سائنس دانوں نے پھول سے حیرت انگیز کاغذ تیار کر لیا

    سائنس دانوں نے پھول سے حیرت انگیز کاغذ تیار کر لیا

    سنگاپور: سائنس دانوں نے سورج مکھی کے پھول سے ایسا حیرت انگیز کاغذ تیار کر لیا ہے جسے بار بار استعمال کیا جا سکتا ہے، محققین کا کہنا ہے کہ اس سے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ کم ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں پیپر لیس ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جا رہا ہے، تاہم کاغذ اور کاغذ سے بننے والے مٹیریل کا استعمال ابھی بھی بہت زیادہ ہے، جس کے لیے درختوں کی کٹائی کی جاتی ہے، اب سنگاپور کے محققین نے اس مسئلے کا ایک نہایت مؤثرحل تلاش کر لیا ہے۔

    سائنس جریدے ’جرنل آف ایڈوانسڈ مٹیریل‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ریسرچر نے سورج مکھی کے پھول سے ایسا کاغذ تیار کر لیا ہے جسے ایک مخصوص کیمیائی مادے سے صاف کرنے کے بعد دوبارہ نئے کاغذ کی طرح پرنٹنگ اور لکھائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی سنگاپور کے پروفیسر اور ریسرچ اسٹڈی کے سربراہ زی ہاؤ نے بتایا کہ ہماری ٹیم نے اس کاغذ کی تیاری پر 2 سال قبل کام کا آغاز کیا تھا، اس کاغذ کی تیاری میں سورج مکھی پولن کے سخت خول کو گھلانے کے لیے پوٹاشیم ہائیڈروآکسائیڈ استعمال کی گئی، خول کے اندر سے نکلنے والے نرم حصے کو ڈی آئیونائزڈ پانی سے دھو کر مزید صاف کرتے ہوئے ایک لیس دار مائع بنایا گیا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ آخری مرحلے میں اس مائع کو ایک سانچے میں رکھ کر 0.03 ملی میٹر پتلا کاغذ بنا کر ایسیٹک ایسڈ کی مدد سے اس میں موجود نمی کو ختم کیا گیا، ان تمام مراحل کے بعد ریسرچر کو ایک ہموار اور نیم شفاف کاغذ حاصل ہوا، یہ کاغذ لیزر اور روایتی پرنٹر پر استعمال کے قابل ہے، اس کاغذ کی خاص بات یہ ہے کہ گیلا ہونے کے بعد بھی اس کی پرنٹنگ غائب نہیں ہوتی۔

    زی ہاؤ کے مطابق اس کاغذ کو ری سائیکل کرنے کے لیے بہت زیادہ طویل پراسیس کی ضرورت نہیں ہے، اسے پرنٹنگ اور لکھائی کے لیے دوبارہ قابل استعمال بنانے کا طریقہ بھی نہایت آسان ہے، کاغذ کو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے الکلائن محلول میں 2 منٹ تک ڈبویا جائے تو اس پر موجود پرنٹنگ اور لکھائی مٹ جاتی ہے، اور خشک کرنے کے بعد اسے متعدد بار استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2030 تک کاغذ کا سالانہ استعمال 460 ملین میٹرک ٹن تک پہچنے کی توقع ہے، ماہرین کے نزدیک کاغذ کے حصول کے لیے درختوں کی کٹائی میں کمی ری سائیکلنگ کے ذریعے کی جا رہی ہے۔

  • واش روم کو پلاسٹک سے محفوظ رکھنے والی ماحول دوست بوتلیں

    واش روم کو پلاسٹک سے محفوظ رکھنے والی ماحول دوست بوتلیں

    کاسمیٹکس اور باڈی کیئر کا زیادہ تر سامان پلاسٹک کی بوتلوں میں آتا ہے جو استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے اور کچرے میں اضافے کا سبب بنتا ہے، حال ہی میں ماحول دوست بوتلوں میں ایک باڈی کیئر لائن متعارف کروائی گئی ہے جسے بے حد پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

    امریکا کے شہر ڈیٹرائٹ میں نیچرل ویگن نامی کمپنی نے باڈی کیئر اشیا کے لیے کاغذ سے بنی ہوئی بوتلیں متعارف کروائی ہیں۔

    موٹے کاغذ سے بنی ہوئی یہ بوتلیں باآسانی زمین میں تلف ہوسکتی ہیں۔ کچھ بوتلیں کھاد بنانے میں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔

    یہ بوتلیں گو کہ کاغذ سے بنی ہیں تاہم یہ پانی سے محفوظ رہ سکتی ہیں جبکہ 6 ماہ تک استعمال کے قابل ہیں۔ ان میں موجود اشیا ختم ہونے کے بعد بھی انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اسے بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد اس بزنس مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہے جو پلاسٹک کے گرد گھومتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

  • غذا کو خراب ہونے سے بچانے والا کاغذ

    غذا کو خراب ہونے سے بچانے والا کاغذ

    مختلف غذائی اشیا کو اگر فریج میں رکھ دیا جائے تو وہ خراب تو نہیں ہوتے تاہم ان کا ذائقہ بدل جاتا ہے جس کے بعد انہیں ضائع کردیے جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے، تاہم اب کاغذ کا ایسا ٹکڑا تیار کیا ہے جو غذا کو خراب ہونے سے بچا سکتا ہے۔

    فریش پیپر کہلایا جانے والا کاغذ کا یہ ٹکڑا پھلوں اور سبزیوں کو 4 گنا زیادہ وقت کے لیے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

    اس کاغذ کی تیاری میں نامیاتی مصالحہ جات شامل کیے جاتے ہیں۔ یہ اجزا بیکٹیریا کی افزائش کو روکتے ہیں جو اشیائے خورد و نوش کو خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

    علاوہ ازیں یہ اجزا ان انزائمز کو بھی پیدا ہونے سے روکتے ہیں جو پھلوں کو مزید پکا کر انہیں گلا سڑا دیتے ہیں۔

    اس کاغذ کو تیار کیے جانے کی کہانی بھی بہت دلسچپ ہے۔

    اسے بنانے والی بھارتی نژاد خاتون کویتا شکلا نے پہلی بار یہ کاغذ 12 برس کی عمر میں بنایا تھا۔

    ایک بار جب انہوں نے آلودہ پانی پی لیا تھا تو ان کی دادی نے انہیں بیمار ہونے سے بچانے کے لیے مصالحوں سے بنی ہوئی چائے پلائی تھی۔

    مزید پڑھیں: پھلوں کو خراب ہونے سے بچانے والے اسٹیکرز

    اس کے بعد کویتا نے مصالحوں پر مختلف تجربات کرنے شروع کیے کہ وہ کیا کیا کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ آج ان مصالحوں سے تیار کردہ کاغذ 35 ممالک میں فروخت کیا جاتا ہے۔

    یہ کاغذ غذا کو خراب ہونے سے بچا کر غذا کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، غذا کے خراب ہونے کی وجہ سے دنیا کی نصف زراعت ہر سال کوڑے میں پھینک دی جاتی ہے۔

  • کاغذ سے بنا کافی کپ 30 سال میں گلنے کا انکشاف

    کاغذ سے بنا کافی کپ 30 سال میں گلنے کا انکشاف

    دنیا بھر میں پلاسٹک کے مضر اثرات سے واقف ہونے کے بعد اب بڑی بڑی فوڈ چین کوشش کر رہی ہیں کہ اپنے گاہکوں کو ٹیک اوے یعنی لے کر جانے والا کھانا کاغذ سے بنے برتنوں میں فراہم کیا جائے۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ کھپت موٹے کاغذ سے بنے کافی کے کپوں کی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اکثر افراد دفاتر تک جانے کے دوران راستوں سے کافی لے لیتے ہیں۔ اسی طرح اکثر دفاتر میں بھی کاغذ سے بنے کپ ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    لیکن ماہرین نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاغذ سے بنے یہ کپ ٹوٹنے اور اس کے بعد زمین کا جزو بننے میں 30 سال کا عرصہ لے سکتے ہیں۔

    cup-2

    برطانیہ میں کیے جانے والے ایک تحقیقی سروے میں دیکھا گیا کہ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کے استعمال شدہ کاغذ کے کپ ری سائیکل کر لیے جائیں گے یعنی دوبارہ استعمال کے قابل بنا لیے جائیں گے۔ یہی سوچ کر وہ ہر سال اربوں کی تعداد میں ان کپوں کا استعمال کرتے ہیں۔

    لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ان کپوں کو ری سائیکل مشین میں ڈالا جاتا ہے تو وہ اس میں لگی ہوئی پلاسٹک کی لائننگ کو الگ نہیں کر پاتی جس کے باعث کاغذ کے کپ کافی یا پانی کو جذب نہیں کرتے۔

    پلاسٹک کی اس آمیزش کی وجہ سے یہ کپ دوبارہ استعمال کے قابل نہیں بنائے جا سکتے اور مجبوراً انہیں واپس پھینکنا پڑتا ہے۔

    cup-3

    لندن کے امپیریل کالج کی ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ پلاسٹک زمین میں آسانی سے حل نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ سے کاغذ کے اس کپ کو گلنے اور زمین کا حصہ بننے میں 30 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر یہ پلاسٹک ان کپوں میں نہ شامل کیا جائے تب بھی ان کاغذوں کی موٹائی کی وجہ سے یہ ٹوٹنے میں کم از کم 2 سال کا عرصہ لگاتے ہیں جس کے بعد ان کا زمین میں ملنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔

    یاد رہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کپوں کو بنانے کے لیے بالکل نئے کاغذ استعمال کیے جاتے ہیں جو اس سے پہلے استعمال نہ کیے گئے ہوں۔

    cup-4

    ماہرین کے مطابق برطانوی شہریوں کے کافی کے چسکے کو پورا کرنے کے لیے ہر سال تقریباً 1 لاکھ درخت کاٹے جاتے ہیں تاکہ ان سے کاغذ بنایا جاسکے۔

    برطانیہ سمیت دنیا بھر میں ماحول دوست افراد اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کاغذ اور پلاسٹک کے استعمال پر بھاری ٹیکس نافذ کیا جائے تاکہ ان کا استعمال کم ہوسکے۔

    واضح رہے کہ کچرے میں پھینکی جانے والی کاغذ یا پلاسٹک سے بنی یہ اشیا دنیا بھر کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ سمندر کنارے پھینکی جانے والی یہ اشیا اکثر اوقات سمندر میں چلی جاتی ہیں جس سے سمندری حیات کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سیلفی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرتی انوکھی سیاحت

    سیلفی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرتی انوکھی سیاحت

    آج کل سیلفی کھینچنا ایک عمومی عمل بن چکا ہے۔ آپ کہیں بھی جائیں، کچھ بھی کھائیں، سیلفی ایک لازمی جزو ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہر وقت سیلفی کھینچنا اور انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا ایک ایسا عمل ہے جو بالآخر آپ کو دماغی طور پر بیمار کرسکتا ہے۔ معروف اداکار جارج کلونی نے ایک بار کہا، ’آج کے دور میں ہمیں خوبصورت لمحوں کو جینے سے زیادہ انہیں محفوظ کرنے کی فکر ہے‘۔

    آپ کی زندگی میں آنے والا ایک خوبصورت اور خوشی کا لمحہ بغیر لطف اندوز ہوئے گزارنا اور اسے بعد کے لیے ’محفوظ‘ کرلینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ بعد میں آپ جتنی بار بھی اس لمحے کو دیکھیں آپ کو وہ خوشی حاصل نہیں ہوسکتی جو اس لمحے میں حاصل کی جاسکتی تھی۔

    مزید پڑھیں: دنیا کی سب سے پہلی سیلفی

    اسی خیال کو اجاگر کرنے کے لیے ایک سیاح نے کچھ انوکھے انداز میں سیاحت کی۔ اس نے مختلف جگہوں کا دورہ کیا اور وہاں اپنی تصاویر کھینچنے کے بجائے کاغذ سے بنائے ہوئے دو ڈوڈلز کی تصاویر کھینچیں۔

    ان ڈوڈلز کا نام اس نے ابنگ اور نینگ رکھا اور ان کی مختلف مقامات پر مختلف لمحات کی تصویر کشی کی۔ ان ڈوڈلز نے اپنی سیلفیز ہرگز نہیں کھینچیں بلکہ تصاویر میں وہ مختلف لمحات سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

    آپ بھی ان تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔

    1

    2

    3

    4

    5

    6

    8

    9

    10

    11

    12

    18

    13

    14

    15

    16

    17