Tag: کافکا کی کہانی

  • ‘ایک شاہی پیغام…’

    ‘ایک شاہی پیغام…’

    بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فردِ واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصّہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔

    بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سَر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔

    اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

    قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔

    لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مکّے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔ لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔

    اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کام یاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔

    اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کام یاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔

    یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔

    یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔

    (جرمن زبان میں تحریر کردہ فرانز کافکا کی ایک تمثیل کا اردو ترجمہ)

  • گیارہ بیٹے…

    گیارہ بیٹے…

    میرے گیارہ بیٹے ہیں۔ پہلا بیٹا بظاہر بہت سیدھا، مگر سنجیدہ اور چالاک ہے۔ اگرچہ میں اسے اپنے دوسرے بچوں کی طرح ہی پیار کرتا ہوں۔ لیکن میں اسے شخصی اعتبار سے اعلیٰ درجہ نہیں دیتا۔ اس کی سوچ کا عمل مجھے بہت سادہ معلوم ہوتا ہے۔ ہر وقت حرکت میں رہتا ہے یا بس ایک ہی نقطے کے گرد گھومتا ہے، اپنی ہی سوچ کے ننھے دائروں میں۔

    دوسرا بیٹا خوش شکل اور دبلا پتلا ہے۔ اسے تیغ زنی کی مشق کرتے ہوئے دیکھنا ایک سانس روک دینے والا منظر ہے۔ وہ چالاک بھی ہے، لیکن جہاں دیدہ بھی۔ اس نے سیاحت بہت کی ہے، اور اسی لیے حتیٰ کہ ہمارا قصبہ بھی اسے اپنے اتنے رازوں میں شریک کرلیتا ہے، جتنے رازوں سے یہاں رہنے والے بھی آگاہ نہیں ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اس کی یہ خوبی صرف اس کی سیاحتوں یا لازمی طور پر صرف انھی کے باعث نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس کی اپنی قابلِ تقلید فطرت کا ایک جوہر ہے جس کی توصیف مثال کے طور پر ہر وہ شخص کرتا ہے جس نے کبھی اس کی نقل اتارنے کی کوشش کی ہو۔ یوں کہیے کہ جیسے وہ پانی میں نہایت شان دار اونچی چھلانگ لگاتا ہے لیکن کبھی کبھی چھلانگ لگانے کے بجائے اچانک نیچے بیٹھ جاتے اور معذرت کے انداز میں بازو ہوا میں پھیلا لیتے ہیں۔اس سب کچھ کے باوجود کہ مجھے ایسے بیٹے کا باپ ہونے پر خوشی محسوس ہونی چاہیے اس کے ساتھ میرا تعلق خوش گوار نہیں ہے۔

    اس کی بائیں آنکھ داہنی آنکھ سے کچھ چھوٹی ہے اور مسلسل جھپکتی رہتی ہے۔ یقینا ایک معمولی نقص۔ لیکن اس سے اس کے چہرے پر دلیری کا تاثر ابھرتا ہے جو کسی اور طرح سے ممکن نہیں۔ نہ ہی خود پر انحصار کرنے کی اس کی ناقابلِ تقلید عادت کے پیشِ نظر کسی نے کبھی اس کی چھوٹی آنکھ اور اس کے جھپکنے کے انداز کو دیکھا یا اس پر غور کیا ہے۔ لیکن میں، اس کا باپ، اس عیب کو شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ میری پریشانی کا سبب اس کا جسمانی عیب نہیں ہے بلکہ روح میں در آنے والا اس عیب سے جڑا انتشار ہے۔ خون میں شامل ہوجانے والا زہر، اپنی فطری اہلیتوں کی معراج حاصل کرنے کی نااہلیت جسے صرف میں محسوس کر سکتا ہوں۔ لیکن یہی بات اسے پھر سے میرا بیٹا ثابت کرتی ہے۔ کیوں کہ اس کا یہ عیب ہمارا خاندانی عیب ہے۔ بس اس میں یہ بہت نمایاں ہے۔

    میرا تیسرا بیٹا بھی خوب صورت ہے لیکن اس کی خوب صورتی میرے معیار کے مطابق نہیں۔ وہ کسی گلوکار کی طرح حسین ہے۔ خم دار ہونٹ، خواب ناک آنکھیں، ایک متناسب سر جو مؤثر ہونے کے لیے پس منظر میں اسٹیج کے پردے کا متقاضی ہوتا ہے، ٹانگیں جو نفاست سے حرکت کرتی ہیں اور بوجھ اٹھانے کی اہل نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں اس کی آواز کا زیر و بم جو مکمل اور گونج دار ہے۔ یہ فوری آپ کو اپنے اثر میں لیتا ہے۔ ماہرِ فن اسے بغور سنتا ہے۔ لیکن پھر اچانک ہی اس کا سانس ٹوٹ جاتا ہے۔ اگرچہ عمومی طور پر مجھے پر بات ترغیب دیتی ہے کہ اپنے اس بیٹے کو شہرت کی دنیا میں لاؤں۔ لیکن میں اسے پس منظر میں رکھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ وہ خود بھی اپنی حالت پر قانع ہے، اپنے نقائص کے ادراک کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی معصومیت کے باعث وہ موجودہ زمانے سے مطمئن بھی نہیں ہے۔ وہ اکثر اداس رہتا ہے اور کوئی بات اسے خوش نہیں کرپاتی۔

    میرا چوتھا بیٹا شاید سب سے زیادہ یار باش آدمی ہے۔ اپنے دور کا صحیح ترین نمائندہ۔ وہ ہر کسی کی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ وہ عام درجے پر کھڑا ہو کر آسانی سے عام لوگوں سے مکالمہ کر سکتا ہے اور ہر کوئی اس سے متفق ہو جانے کی ترغیب محسوس کرتا ہے۔ اس کی حرکات آزادانہ ہیں اور اس کے فیصلے بے بنیاد ہوتے ہیں۔ اس کے بہت سے مقولے بار بار دہرائے جانے کے لائق ہوتے ہیں، اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو حیرت انگیز انداز میں زمین سے بلند ہو، ایک چڑیا کی طرح ہوا کو چیرتا جائے۔ لیکن اس سب کچھ کے بعد کسی بے کار شے کی مانند کسی ویرانے میں واپس آ گرے۔ ایسے ہی خیالات مجھے دق کرتے ہیں جب میں اس کی طرف دیکھتا ہوں۔

    میرا پانچواں بیٹا مہربان اور نرم گفتار ہے۔ جتنا ہونہار ہے، اس سے زیادہ ہی اس نے زندگی میں پایا۔ کبھی اتنا منکسر المزاج ہوجاتا ہے کہ اس کی موجودگی میں دوسرا شخص خواہ مخواہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے۔ معاشرے میں اس نے کچھ شہرت بھی کمائی۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ یہ کیسے ممکن ہوا تو میں کوئی واضح جواب نہیں دے پاؤں گا۔ شاید اس کی معصومیت نے اس دنیا کے بنیادی انتشار میں اپنے لیے راہ ہموار کی۔ معصوم تو وہ ہے۔غالباً حد سے زیادہ معصوم۔ ہر کسی کا دوست۔ شاید حد سے زیادہ دوست۔ مجھے اعتراف ہے کہ مجھے اچھا نہیں لگتا جب اس کی تعریف کی جا رہی ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تعریف کرنا شاید دنیا کا گھٹیا ترین مشغلہ ہے کہ اس سے کسی کو بھی سرفراز کیا جا سکتا ہے جو اتنا ہی تعریف کے قابل ہو جتنا میرا یہ بیٹا ہے۔

    میرا چھٹا بیٹا پہلی نظر میں بظاہر سب بیٹوں سے زیادہ سمجھ دار معلوم ہوتا ہے۔ وہ بہت باتونی بھی ہے۔ اسی لیے اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔ اگر اسے نظر انداز کیا جائے تو وہ ناقابل فہم اداسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر وہ مرکزِ توجہ رہے تو اپنی بے تکان باتوں سے اس کا خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ اس میں خود فراموشی کا گہرا رجحان موجود ہے۔ دن کی روشنی میں وہ اکثر اپنے خیالات کے الجھاؤ سے لڑتا ہے جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ بیمار ہوئے بغیر، اگرچہ اس کی صحت بہت اچھی ہے، وہ کبھی کبھار خاص طور پر شام کے جھٹ پٹے میں ڈگمگا جاتا ہے۔ لیکن اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ کبھی نہیں گرتا۔ شاید اس کی جسمانی افزائش اس مظہر کی وجہ ہے۔ وہ اپنی عمر کی نسبت دراز قد ہے۔ یوں وہ دیکھنے میں عام طور پر بہت بے ڈھنگا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ اور پیر غیر معمولی طور پر خوب صورت ہیں۔ اس کی پیشانی بھی بد ہیئت ہے۔ اس کی جلد اور ہڈیوں کی ساخت اپنی نمو میں کہیں نامکمل رہ گئی ہے۔

    میرا ساتوں بیٹا غالباً باقی بیٹوں میں میرے سب سے قریب ہے۔ لوگوں کو اس کی قدر کرنی نہیں آتی۔ وہ میرے بیٹے کی حسِ مزاح کا فہم نہیں رکھتے۔ میں اس کی بے جا تعریف نہیں کر رہا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ بہت اہم شخص نہیں ہے۔ اگر دنیا میں اس کی قدر نہ کرسکنے کے سوا اور کوئی خامی نہ ہو تو پھر بھی وہ بے قصور ہے۔ اپنے خاندانی حلقے میں مجھے اس کے بغیر رہنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی ، وہ روایتوں کے لیے بیک وقت بے اعتباری اور عقیدت محسوس کرتا ہے اور ان دونوں جذبوں کو جیسا کہ کم از کم مجھے محسوس ہوتا ہے، ایک ناقابلِ مسابقت اکائی میں یکجا کر دیتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ کسی بھی عام انسان کی نسبت کم جانتا ہے کہ اس کام یابی کو کیسے استعمال کرے۔

    میری خواہش ہے کہ وہ عیال دار ہو۔ اس کے بچّوں کے بچّے ہوں لیکن بد قسمتی سے اس کے طرزِ زندگی سے لگتا ہے وہ شاید کبھی میری خواہش پوری نہیں کر پائے گا۔ خود اطمینانی کے ساتھ جسے میں جانتا اور اس بات پر کفِ افسوس بھی ملتا ہوں، اور جو لوگوں کی اس کے بارے میں رائے سے غیر معمولی طور پر مختلف ہے، وہ ہر جگہ اکیلا ہی جاتا ہے۔

    میرا آٹھوں بیٹا غم کا پروردہ ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کیوں؟ ہمیشہ مجھ سے دور رہتا ہے۔ لیکن میری پدرانہ محبت مجھے اس سے باندھے رکھتی ہے۔ اس کے دکھ میں وقت کے گزران سے کافی تخفیف ہوئی ہے۔ وہ ایک بہت مختلف انداز میں زندگی گزارتا ہے۔ اس نے مجھ سے اپنا ہر تعلق منقطع کر رکھا ہے۔ اور خاص طور پر اپنے سخت سَر، چھوٹے کسرتی جسم کے ساتھ ، کہ اس کی ٹانگیں بچپن میں بہت نحیف تھیں جو شاید اس دوران میں بہتر ہوچکی ہیں، وہ زندگی کے جس میدان میں جائے گا، کام یاب ہوگا۔ کئی مواقع پر میں نے اسے واپس بلانے کا سوچا، تاکہ پوچھوں کہ اس کی زندگی کیسے گزر رہی ہے، کیوں اس نے خود کو اپنے باپ سے مکمل جدا کر رکھا ہے اور زندگی میں اس کا مقصد کیا ہے؟لیکن وہ اتنا دور جا چکا ہے اور اس دوران میں اتنا وقت گزر چکا ہے کہ جیسا سب کچھ ہے۔

    میرا نواں بیٹا بہت باوقار ہے اور، جنھیں عورتیں محبت آمیز آنکھیں کہتی ہیں، ویسی آنکھیں اس کی ہیں۔ اتنی محبت آمیز کہ ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ مجھے بھی اپنا اسیر کر لیتی ہیں۔ حالاں کہ میں جانتا ہوں کہ ایک گیلا اسفنج اس غیر زمینی عظمت کو دھو ڈالنے کے لیے کافی ہوگا۔ لیکن اس لڑکے کے متعلق عجیب بات یہ ہے کہ وہ کبھی کسی کو جھانسہ دینے کی کوشش نہیں کرتا۔

    میرے دسویں بیٹے کو ایک خود غرض انسان تصور کیا جاتا ہے۔ میں اس مفروضے کو یکسر ردّ یا قبول نہیں کروں گا۔ خاص طور پر جو کوئی اسے خود سے دگنی عمر کے شخص کے تکلف کے ساتھ آتا دیکھتا ہے۔ ذرا اس کی گفتگو سنیے۔ فہم و فراست، اعلیٰ بصیرت اور پاکیزہ صاف گوئی، طنزیہ گرم جوشی کے ساتھ واضح سوالات، کائنات سے مکمل ہم آہنگ، ایسی موافقت جو ناگزیر طور پر گردن کو اکڑا دیتی اور جسم کو غرور سے بھر دیتی ہے۔

    میرا گیارھواں بیٹا ایک نفیس الطبع انسان ہے، شاید میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ نحیف۔ لیکن اس کی کم زوری پُرفریب ہے۔ کیوں کہ کبھی کبھار وہ بہت مضبوط اور متحرک ہو جاتا ہے۔ بہرحال یہ ایسی خصوصیات نہیں ہیں جو ایک باپ کے دل کو راحت دیں۔ یہ خاندانوں کو تباہ کرنے کے درپے ہوتی ہیں۔ بعض اوقات وہ مجھے یوں دیکھتا ہے جیسے کہنا چاہ رہا ہو، ’’ابو میں آپ کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

    تب میں سوچتا ہوں ’’تم آخری شخص ہو گے جس پر میں کبھی اعتماد کروں گا۔‘‘

    یہ میرے گیارہ بیٹے ہیں۔

    (’’کافکا کہانیاں‘‘ سے انتخاب، مترجم: محمد عاصم بٹ)