Tag: کافی

  • مشک بلاؤ: ایک ایسا جانور جو بلاشبہ قدرت کا شاہ کار اور ایک عجوبہ ہے

    مشک بلاؤ: ایک ایسا جانور جو بلاشبہ قدرت کا شاہ کار اور ایک عجوبہ ہے

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہی نہیں بلکہ کراہت کا احساس بھی ہوگا کہ دنیا کے کئی ممالک میں نیولے نما ایک جانور کے فضلے سے تیّار کردہ کافی بہت شوق سے پی جاتی ہے۔

    اس جانور کا نام Civet Cat ہے جسے ہم مشک بِلاؤ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ پراسرار اور عجیب و غریب جانور اکثر پھلوں کے درختوں کے درمیان اپنی غذا اور خوراک حاصل کرنے کے لیے منڈلاتا نظر آتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ انتہائی شرمیلا اور انسانوں سے دور رہنے والا جانور ہے۔ یہ بہت کم انسانوں پہ حملہ آور ہوتا ہے۔

    مشک بلاؤ Viverridae خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس کی لگ بھگ 35 مختلف اقسام ہیں جن کی رنگت اور جسم پر موجود دھاریاں یا دھبّے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اس جانور کا جسم لمبا، پاؤں اور کان نسبتاً چھوٹے ہوتے ہیں۔

    یہ جانور ایشیا اور افریقا کے گھنے اور نیم جنگل زدہ علاقوں میں دیکھنے کو ملتا ہے اس کی کچھ اقسام جنوبی یورپ کے نیم جنگلات میں بھی پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ انوکھا جانور موجود ہے اور آم اور جامن کے درختوں کے پاس اپنا گھر بنا کر رہتا ہے۔ یہ رات کا شکاری ہے اور عام طور پر دن کو باہر نہیں نکلتا۔ یہ شکار کے لیے بھی اکیلے ہی نکلتا ہے۔ پھل اور گوشت دونوں اس کی مرغوب غذا ہیں جب کہ بہت سارے بیج دار پھل مثلاً آم، جامن، چیری وغیرہ بھی کھاتا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے سانپ، کیڑے مکوڑے، مینڈک، چھپکلیاں چوہے بھی کھا جاتا ہے۔

    فلپائن، تھائی لینڈ، ویتنام اور انڈونیشیا وغیرہ خطِ استوا کے ممالک جہاں گھنے جنگلات موجود ہیں، ان میں اس جانور کی ایک نسل Asian Palm Civet پائی جاتی ہے۔ یہ وہی نسل ہے جس کے فضلے سے کافی تیّار کی جاتی ہے۔ مشک بلاؤ خصوصاً چیری پھل کھاتا ہے اور اسے بیج سمیت ہڑپ کرلیتا ہے جنھیں اس کا نظامِ انہضام خارج کردیتا ہے اور پھر یہی فضلہ سکھانے کے بعد اس میں سے بیجوں کو الگ کر کے ان سے کافی بنائی جاتی ہے۔

    قدرت کا نظام دیکھیے کہ اس کے معدے میں جانے کے بعد ان بیجوں میں وہ خاصیت پیدا ہوجاتی ہے جو ہم انسانوں کو مرغوب ہے۔ دراصل مشک بلاؤ کے پیٹ میں پہنچ کر بیجوں میں قدرتی نظام کے تحت جو خامرے شامل ہوتے ہیں، وہ اس تاثیر کے حامل ہوتے ہیں جن سے تیّار کردہ کافی خاص بن جاتی ہے۔

    چوں کہ یہ خاص طریقے سے بنائی گئی کافی ہوتی ہے، اس لیے منہگی بھی ہے۔ ایک پائونڈ کافی کی قیمت 1300 امریکی ڈالر اور ایک کپ کی قیمت 100 امریکی ڈالر ہوسکتی ہے۔ وجہ اس کافی کا وہ خاص ذائقہ ہے جو مشک بلاؤ کے معدے میں پہنچنے کے بعد ہی اس میں پیدا ہوتا ہے۔

    جب لوگوں کو نیولے نما اس جانور کی خاصیت کا علم ہوا تو مختلف ممالک میں اسے کاروبار کا ذریعہ بنالیا گیا۔ آج اس مخصوص نسل کو فارم ہاؤس یا وسیع باغات میں پالا جاتا ہے اور اس کے فضلے سے یہ بیج حاصل کیے جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بیج حاصل کرنے کے لیے مشک بلاؤ کو صرف چیری کے پھل کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

    بات ہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ قدرت کے اس شاہ کار جاندار کی ایک اور خاصیت اس کے سرین میں موجود تھیلی ہے جس سے ایک خوش بُو دار مادّہ حاصل ہوتا ہے۔ اسے زُباد کہتے ہیں۔

    قدرت نے اس مادّے کے ساتھ مشک بلاؤ کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اس کی مدد سے اپنے علاقے کا تعیّن کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر نشان لگا سکے، لیکن انسانی خواہشات کے سبب یہ خوبی کو اس جانور کے لیے باعثِ آزار اور اکثر موت کی وجہ بن رہی ہے۔ یہ مادّہ حاصل کرنے کے لیے مشک بلاؤ کو پکڑ کر اس کی تھیلی کو چیرا لگایا جاتا ہے اور اس دوران جان سے بھی مار دیا جاتا ہے۔ یہ خوش بُو پرفیوم بنانے والی کمپنیاں حاصل کرتی رہی ہیں۔

    بہت سے ایشیائی ممالک مثلاً چین میں اس کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے۔ مشک بلاؤ کو سارس وائرس کے پھیلاؤ کا ایک ذریعہ بھی خیال کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا میں اس جانور کی برآمد پر پابندی ہے۔

  • کافی پینے سے بینائی کو خطرہ؟

    کافی پینے سے بینائی کو خطرہ؟

    ہم میں سے تقریباً ہر شخص کافی پیتا ہے لیکن اب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ وہ افراد جن کے خاندان میں موتیا موجود ہو، وہ کافی کا استعمال کم کردیں۔

    بین الاقومی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ خوراک اور جینیاتی ردعمل کے نتیجے میں گلوکوما (کالا موتیا) کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے اور آنکھوں پر پڑنے والے اس دباؤ کے نتیجے میں بینائی متاثر ہوسکتی ہے۔

    ایچن اسکول آف میڈیسن ماؤنٹ سینائی نیویارک میں کی گئی اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وہ مریض جن کے خاندان میں موتیا کی ہسٹری ہو، یعنی جینیاتی طور پر گلوکوما کی بیماری خاندان سے منتقل ہونے کا خدشہ ہو انہیں کیفین والے مشروبات کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

    محققین کے مطابق کیفین کے استعمال سے ان میں نابینا پن کے خطرات تین گنا تک بڑھ سکتے ہیں۔

  • کیا کافی کا زیادہ استعمال دل کے لیے نقصان دہ ہے؟ جواب مل گیا

    کیا کافی کا زیادہ استعمال دل کے لیے نقصان دہ ہے؟ جواب مل گیا

    کینبرا: طبی محققین نے کافی کے زیادہ استعمال اور دل کو لاحق ہونے والے صحت کے مسائل میں تعلق کا انکشاف کیا ہے۔

    محققین نے اس سوال کا جواب کہ کافی کا زیادہ استعمال دل کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے؟ ایک نئی تحقیق میں یہ دیا ہے کہ کافی کا بہت زیادہ استعمال آپ کے دل کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور دل کے حوالے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

    یہ نتیجہ جینیات کی تحقیق کرنے والی یونی ورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کے سینٹر فار پریشن ہیلتھ کے سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں اخذ کیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ طویل عرصے تک ہیوی کافی کے استعمال سے (ایک دن میں چھ یا اس سے زیادہ کپ) خون میں چربی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں امراض قلب کے خطرات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔

    محققین کے مطابق کافی اور اس کی مقدار کا آپس میں تعلق ہے، مطلب یہ ہے کہ زیادہ کافی سے زیادہ خطرات بڑھتے ہیں۔

    محقق پروفیسر ایلینا ہائی پونن نے کہا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دل کی صحت کے لیے کافی کے استعمال میں توازن رکھنا چاہیے، اور وہ لوگ جنھیں ہائی کولیسٹرول کی شکایت ہے وہ تو کافی کے انتخاب میں بھی محتاط رہیں۔

    پروفیسر کے مطابق کافی اور کولیسٹرول میں کافی کی مقدار کا ایک کردار ہے، زیادہ غیر فلٹر شدہ کافی کے استعمال سے خون میں چکنائی بڑھ جاتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ ہمشیہ فلٹر شدہ کافی کا استعمال کیا جائے۔

  • امریکا: پولیس افسر کی کافی میں تھوکنے والا شخص گرفتار

    امریکا: پولیس افسر کی کافی میں تھوکنے والا شخص گرفتار

    امریکا میں اسٹار بکس کے ایک ملازم کو ایک پولیس افسر کی کافی میں تھوکنے پر گرفتار کرلیا گیا۔

    یہ واقعہ امریکی ریاست نیو جرسی میں پیش آیا، پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں اطلاع موصول ہوئی کہ مقامی کافی شاپ کا ایک ملازم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کافی میں تھوک رہا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملازم کو علم تھا کہ مذکورہ کافی پولیس افسر کی ہے لہٰذا وہ جان بوجھ کر اسے ایک خطرناک صورتحال سے دو چار کرتا رہا۔

    ملازم کو پولیس کی جانب سے حراست میں لے لیا گیا جبکہ کافی شپ نے بھی کارروائی کرتے ہوئے ملازم کو نوکری سے برخاست کردیا۔

  • یونیورسٹی کی طالبات کو مفت کافی پیش کی جانے لگی

    یونیورسٹی کی طالبات کو مفت کافی پیش کی جانے لگی

    ریاض: نجران یونیورسٹی کی طالبات نے جامعہ کی کیفے ٹیریا کے خلاف شکایات کا انبار لگا دیا جس کے بعد کیفے ٹیریا کی جانب سے انہیں مفت کافی پیش کی جانے لگی۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی شہر نجران کی یونیورسٹی کی طالبات نے شکایت کی تھی کہ جامعہ کے کیفے ٹیریا میں کھانے پینے کی اشیا صحت بخش نہیں ہیں۔

    دوسری شکایت یہ کی گئی کہ کھانے پینے کی اشیا میں تنوع نہیں ہے جبکہ کھانے پینے کی اشیا کے نرخ زیادہ ہیں۔

    طالبات کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے کیفے ٹیریا کی موجودگی کی وجہ سے باہر سے کھانے پینے کی اشیا لانے کو ممنوع قرار دے رکھا ہے۔

    تاہم طالبات کی شکایات کے بعد کیفے ٹیریا نے صبح انہیں گرما گرم مفت کافی پیش کرنا شروع کردی ہے جس پرطالبات نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔

    ایک طالبہ کے مطابق کیفے ٹیریا سے کھانے پینے کی جو اشیا ملتی ہیں ان سے صحت متاثر ہو رہی ہے، کھانوں میں کیلوریز بہت زیادہ ہیں جو صحت کے لیے مضر ہیں۔

    ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ ایک جانب تو کیفے ٹیریا نامناسب کھانے پیش کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب ہمیں گھر سے ناشتہ لانے کی بھی اجازت نہیں۔

    طالبات کی شکایات کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے نوٹس لے لیا، یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق کیفے ٹیریا کو قواعد و ضوابط کا پابند بنا دیا گیا ہے اور ہدایت کی گئی ہے کہ طالبات کو مناسب وقت پر مناسب کھانے پینے کی اشیا معقول نرخوں پر فراہم کی جائیں۔

  • کافی کے عالمی دن پر نیپ چینو آزمائیں

    کافی کے عالمی دن پر نیپ چینو آزمائیں

    کافی دنیا بھر میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے، دنیا بھر میں روزانہ ڈیڑھ بلین سے زائد کافی کے کپ پیے جاتے ہیں۔

    آج دنیا بھر میں اس مشروب کے شوقین افراد کافی کا دن منا رہے ہیں۔

    بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ کافی کا اصل وطن مشرق وسطیٰ کا ملک یمن ہے۔ یمن سے سفر کرتی کافی خلافت عثمانیہ کے دور میں ترکی تک پہنچی، اس کے بعد یورپ جا پہنچی اور آج کافی یورپ کا سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔

    یوں تو کافی کی کئی اقسام ہیں لیکن کیا آپ اس کی ایک قسم نیپ چینو کے بارے میں جانتے ہیں؟

    یہ قسم دراصل کافی اور قیلولے کا امتزاج ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر آپ کافی پینے کے ساتھ قیلولہ کریں تو آپ کی مستعدی میں اضافہ ہوگا اور آپ خود کو زیادہ چاک و چوبند محسوس کریں گے۔ اس طرح سے نیند بھگانے کو نیپ چینو کا نام دیا گیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف قیلولہ کرنا یعنی کچھ دیر سونا یا صرف کافی پینا سستی و غنودگی بھگانے کے لیے کافی نہیں۔ اگر آپ دونوں ایک ساتھ استعمال کریں گے تو آپ دگنا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں یہ امتزاج کیسے کام کرتا ہے۔

    ہمارے دماغ میں ایک کیمیکل ایڈنوسین پیدا ہوتا ہے جو اگر بہت ساری مقدار میں جمع ہوجائے تو ہم غنودگی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    جب ہم کافی پیتے ہیں تو کیفین دماغ کے ریسیپٹرز کو ایڈنوسین وصول کرنے سے روک دیتی ہے، تاہم کیفین کو خون میں شامل ہو کر اپنا کام دکھانے کے لیے 20 منٹ درکار ہیں۔

    ایسے وقت میں قیلولہ کام کرتا ہے۔ نیند قدرتی طور پر دماغ سے ایڈنوسین کو صاف کردیتی ہے۔

    اب جب آپ کافی پی کر قیلولہ کریں گے تو غنودگی ویسے ہی ختم ہوجائے گی، اس کے بعد ہمارے دماغ میں کیفین موجود ہوگی جو غنودگی کو دوبارہ پیدا ہونے سے روکے گی، یوں ہم پہلے سے زیادہ اور طویل وقت کے لیے مستعد اور چاک و چوبند رہ سکتے ہیں۔

    کیا آپ آج کافی کے عالمی دن پر نیپ چینو کو آزمانا چاہیں گے؟

  • کوئلہ چائے کے بعد اب پیش ہے کوئلہ کافی

    کوئلہ چائے کے بعد اب پیش ہے کوئلہ کافی

    آپ نے اب تک کوئلہ چائے اور مٹکا چائے کے بارے میں تو سنا ہوگا؟ لیکن کیا آپ نے کبھی کوئلہ کافی چکھی ہے؟

    انڈونیشیا کے شہر یوگیا کارتا میں مقبول اس انوکھی کافی میں کوئلے کی آمیزش کی جاتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کافی میں کوئلہ چائے کی طرح کوئلے کی دھونی نہیں دی جاتی، بلکہ کھولتا ہوا کوئلہ براہ راست کافی کے کپ میں ڈال دیا جاتا ہے۔

    انڈونیشیا میں اس کافی کو کوپی جوس کہا جاتا ہے۔ جوس کا لفظ دراصل اس آواز کی طرف اشارہ ہے جو گرما گرم کوئلے کو کھولتی ہوئی کافی میں ڈالنے سے پیدا ہوتی ہے۔

    اسے پینے کے شوقین افراد کا کہنا ہے کہ یہ کافی معدے کے درد، سینے میں جلن، متلی اور ڈائریا کے علاج میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

    اس کافی کو بنانے کے لیے اس میں کافی پاؤڈر اور 2 سے 3 چمچے چینی ملائی جاتی ہے، اس کے بعد اس میں گرم پانی ڈالا جاتا ہے۔ اس کے بعد آگ سے سلگتا ہوا کوئلہ نکال کر براہ راست کافی میں ڈال دیا جاتا ہے۔

    کچھ کو اس کا ذائقہ عام کافی جیسا لگتا ہے، جبکہ کچھ کے خیال میں جلتا کوئلہ کافی کے اندر موجود چینی کو جلا دیتا ہے جس سے کافی میں ہلکا سا کیریمل کا ذائقہ آجاتا ہے۔

    اس کافی کو سب سے پہلے سنہ 1960 میں تیار کیا گیا تھا جب اسے تیار کرنے والے شخص کو یہ کافی پینے کے بعد اپنے معدے کے امراض میں افاقہ معلوم ہوا۔ بعد ازاں اس شخص نے اس کافی کی فروخت شرع کردی۔

    یوگیا کارتا میں یہ کافی جابجا ٹھیلوں اور ڈھابوں پر بکتی نظر آتی ہے۔

    کیا آپ یہ کوئلہ کافی پینا چاہیں گے؟

  • 140 لیٹر پانی سے تیار ہونے والا کافی کا ایک کپ

    140 لیٹر پانی سے تیار ہونے والا کافی کا ایک کپ

    کیا آپ روزانہ صبح اٹھ کر کافی پیتے ہیں؟ تو کیا آپ جانتے ہیں آپ کی ایک کپ کافی میں کتنا پانی شامل ہوتا ہے؟ شاید آپ کہیں کہ ایک کپ، لیکن درحقیقت آپ کی ایک کپ کافی میں 140 لیٹر پانی شامل ہوتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق ایک کپ کافی میں استعمال ہونے والے بیجوں کو اگانے، تیار کرنے اور منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے 140 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔

    درحقیقت زراعت پانی استعمال کرنے والا سب سے بڑا شعبہ ہے۔ زمین پر موجود صاف پانی کا 70 فیصد حصہ زراعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ گویا آپ کے سامنے رکھی کھانے پینے کی کوئی بھی شے کئی سو لیٹر پانی سے اگائی گئی۔

    جب ہم کوئی کھانے پینے کی شے پھینکتے یا ضائع کرتے ہیں تو اس کئی سو لیٹر پانی کو بھی ضائع کرتے ہیں جو کسی بھی طرح ایک احسن عمل نہیں ہے۔

    صرف کافی ہی نہیں ہر خوردنی شے بے تحاشہ پانی کے استعمال کے بعد اس حالت میں ہمارے سامنے ہوتی ہے کہ اسے کھایا جاسکے۔ جیسے گائے کا ایک کلو گوشت 15 ہزار 415 لیٹر پانی کے استعمال کے بعد حاصل ہوتا ہے۔

    اسی طرح ایک سیب 70 لیٹر پانی کے استعمال کے بعد تیار ہوتا ہے۔

    پانی کا اس قدر استعمال کرنے میں زراعت واحد شعبہ نہیں، فیشن انڈسٹری بھی کچھ اسی طرح پانی استعمال کرتی ہے۔

    فیشن کی صنعت ایک سال میں اتنا پانی استعمال کرتی ہے کہ اس سے اولمپک سائز کے 3 کروڑ 20 لاکھ سوئمنگ پولز بھرے جا سکتے ہیں۔

    آپ کے روزمرہ استعمال کی ایک سادی ٹی شرٹ بنانے میں 2 ہزار 720 لیٹر جبکہ ایک جینز بنانے میں 10 ہزار لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پانی بچانے اور ماحول دوست بننے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف اشیا کو کم سے کم خریدا جائے اور پھینکنے کے بجائے کسی اور طرح استعمال کیا جائے۔

  • کافی پینے کے شوقین افراد کے لیے بری خبر

    کافی پینے کے شوقین افراد کے لیے بری خبر

    کیا آپ کافی پینے کے بے حد شوقین ہیں؟ تو پھر آپ کو یہ جان کر بے حد صدمہ ہوگا کہ روزانہ دن میں 3 سے زیادہ کپ کافی پینا آپ میں میگرین یا آدھے سر کے درد کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔

    امریکن جنرل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے لیے میگرین کے شکار افراد کا تجزیہ دیکھا گیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ ان افراد کو میگرین کا اٹیک اس وقت ہوا جب انہوں نے اس روز یا اس سے ایک روز قبل کافی کے 3 سے زائد کپ پیے۔ اس کے برعکس 1 یا 2 کپ پینے سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہوا۔

    خیال رہے کہ آدھے سر کا اذیت ناک درد یا میگرین نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے، یہ درد سر کے کسی ایک حصے میں اٹھتا ہے اور مریض کو ناقابل برداشت تکلیف کا شکار بنا دیتا ہے۔

    مزید پڑھیں: آدھے سر کے درد سے نجات حاصل کرنے کے طریقے

    میگرین کا کوئی باقاعدہ علاج نہیں ہے تاہم گھریلو ٹوٹکے اپنا کر وقتی طور پر آرام حاصل کیا جاسکتا ہے۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ میگرین کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک نیند کی کمی ہے، تاہم کافی کا اس سے تعلق نہایت پیچیدہ ہے، بعض مواقعوں پر کافی اس مرض کی شدت کو کم بھی کر سکتی ہے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ہمارے چائے یا کافی کو پسند کرنے کا انحصار ہماری جینیات یا ڈی این اے پر ہوتا ہے۔ وہ افراد جن کی جینیات تلخ اور کھٹے ذائقوں کو برداشت کرسکتی ہوں، صرف ایسے افراد ہی تلخ کافی پینا پسند کرتے ہیں۔

    اس کے برعکس بعض افراد کی جینیات تلخ ذائقوں کے حوالے سے حساس ہوتی ہے، ایسے افراد قدرتی طور پر چائے پینا پسند کرتے ہیں۔

  • کیا آپ دنیا کی سب سے اسٹرانگ کافی پینا چاہیں گے؟

    کیا آپ دنیا کی سب سے اسٹرانگ کافی پینا چاہیں گے؟

    کافی کے شوقین افراد یوں تو ہر وقت کافی پینا چاہتے ہیں تاہم ایک کافی ایسی ہے جسے پینے سے قبل وہ ایک لمحہ ضرور سوچیں گے۔

    امریکا سمیت دنیا بھر میں فروخت کی جانے والی ایک کافی ’ڈیتھ وش‘ کو دنیا کی تیز ترین کافی سمجھا جاتا ہے۔ عام کافی کے برعکس اس کافی میں 200 گنا زیادہ کیفین موجود ہوتی ہے۔

    یہ کافی الگ بیجوں سے تیار کی جاتی ہے جسے روبسٹا کہا جاتا ہے۔ عام طور پر فروخت کی جانے والی کافی، اریبیکا بیجوں سے تیار کی جاتی ہے، اور روبسٹا بیج اریبیکا سے کہیں زیادہ تلخ ذائقے کے حامل ہوتے ہیں۔

    اس کافی کے ایک گھونٹ میں 59 ملی گرام کیفین ہوتی ہے جبکہ عام کافی کے ایک گھونٹ میں 12 سے 16 ملی گرام کیفین موجود ہوتی ہے۔

    اس کی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے اسے نہایت کسیلے ذائقے کی حامل سمجھا جاتا ہے تاہم اس کے برعکس اس کا ذائقہ چیری اور چاکلیٹ کی طرح کا ہوتا ہے۔

    اسے بنانے کی بھی ایک خاص ترکیب ہے۔ کافی تیار کرتے ہوئے پانی کے ہر 6 اونس میں ڈھائی چمچے کافی شامل کرنی ہوتی ہے۔

    کافی بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ نام کی طرح یہ کافی کسی کی موت کا سبب تو نہیں بن سکتی تاہم اسے عام کافی کی طرح دن میں کئی دفعہ نہیں پیا جاسکتا۔

    امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ہدایات کے مطابق دن بھر میں اس کافی کی 400 ملی گرام مقدار سے زائد نہ پی جائے، یہ اس کافی کا تقریباً ایک کپ بنتا ہے جس میں 472 ملی گرام کافی ہوتی ہے۔

    یہ کافی ان افراد کے لیے مسائل پیدا کرسکتی ہے جو کبھی کبھار کافی پیتے ہیں، ایسے افراد میں اس کافی کا ایک کپ بے چینی، خراش اور دل کی بے قاعدہ دھڑکن کا سبب بن سکتا ہے۔

    کیا آپ اس کافی کو پینا چاہیں گے؟