Tag: کالا باغ ڈیم

  • کالا باغ ڈیم کے علاوہ دیگر ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر کیوں؟

    کالا باغ ڈیم کے علاوہ دیگر ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر کیوں؟

    "وطن عزیز کو تقریباً ہر سال تباہ کن سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوجاتے ہیں جس کی بڑی وجہ ڈیموں کی تعمیر نہ ہونا ہے، حالانکہ بھارت میں ان کی تعداد 6 ہزار ہے۔

    دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں ایسی مشکلات سے محفوظ رہنے کیلیے ڈیمز تعمیر کیے جاتے ہیں، اگر پاکستان میں بھی اس طرح کے اقدامات اٹھاتے ہوئے ڈیموں کی تعداد میں بتدریج اضافہ کیا جاتا تو آج صورت حال بہت مختلف ہوتی۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں آبی ماہر ارشد ایچ عباسی نے پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ میں گزشتہ 30 سال سے بھارتی آبی ماہرین سے رابطے میں ہوں، وہ لوگ اس انڈس واٹر ٹریٹی کے اس جملے ’پانی کا بہترین استعمال‘ پر عمل کرتے ہوئے مزید ڈیم بنانے کی کوششوں میں ہیں۔

    ارشد ایچ عباسی نے بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے سال 2004 میں ٹیلی میٹری کو متحرک کرلیا تھا، وہ پہلے 6 ماہ تو بہت اچھے سے چلی لیکن بدقسمتی سے ارسا نے بعد ازاں وہ ٹیلی میٹری ہی ختم کردی۔

    اس طرح کے تجربات بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہوئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پورے بھارت میں 6 ہزار سے زائد ڈیم تعمیر ہوچکے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے، کالا باغ ڈیم کو تو چھوڑیں، 1976 سے چنیوٹ ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہے لیکن بدقسمتی سے آج تک ہم وہ ڈیم بھی نہیں بنا سکے حالانکہ اس پر تو کسی قسم کا کوئی تنازعہ بھی نہیں ہے۔

    آبی ماہر نے کہا کہ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جنرل مشرف نے سال2006 میں بھاشا ڈیم کا آغاز کیا تھا اور وہ بھی اب تک زیر تعمیر ہے 19 سال میں صرف 40 فیصد کام ہوا ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر ملک کی آبی ضروریات کو پورا کرنے، توانائی پیدا کرنے اور سیلاب پر قابو پانے کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے، جس میں دریائے سندھ پر تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیم موجود ہیں تاہم دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا عمل بھی جاری ہے۔

    پاکستان میں کم و بیش 15 میٹر سے بلند 73 ڈیم اور آبی ذخائر موجود ہیں، جن میں سے بیشتر دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

  • پاکستان کو سیلابی  پانی میں  ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان کو سیلابی پانی میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان میں تاریخ کے تباہ کن سیلاب کے بعد ایک بار پھر ڈیموں کی تعمیر بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ مقتدر اور بااختیار حلقوں کی جانب سے بھی کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔

    حالیہ سیلاب کو اس لحاظ سے تاریخ کا تباہ کن سیلاب کہا جارہا ہے کہ یہ دریائی سیلاب نہیں جو گلیشیئر پگھلنے سے ملک کے طول وعرض میں تباہی پھیلاتا ہے، بلکہ اس کی وجہ دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں بالخصوص زیریں اور وسطی علاقوں میں غیر معمولی طوفانی بارشیں ہوئیں اور ایک بڑا حصّہ سیلاب کی زد میں‌ آگیا۔ ان غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں ملک کا 70 فیصد حصّہ زیر آب آگیا ہے، ہزاروں افراد اس سیلاب کی نذر ہوگئے، لاکھوں مویشی پانی میں بہہ گئے، لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی اور فصلیں تباہ اور گھر برباد ہوگئے ہیں‌ جس سے لوگ متاثر جب کہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جب کہ سیلاب کے بعد اب وہاں پھوٹنے والے وبائی امراض ان غریبوں کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے امتحان بن کر آئے ہیں۔ سیلاب زدگان کی دنیا بھر سے امداد کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہر چند سال بعد سیلاب اور تباہی کے بعد اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ملک و قوم کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے ڈیمز کیوں نہیں بنائے جا رہے ہیں؟

    حالیہ سیلاب کے بعد صدر مملکت عارف علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ڈیم کی تعمیر سے متعلق بیانات میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔

    صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کیلیے ڈیم وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے، صوبوں میں اعتماد فروغ دے کر کالا باغ ڈیم کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سندھ کے سیلاب زدہ علاقے دادو کے دورے کے موقع پر کہا کہ سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان میں مزید بڑے ڈیمز بنانا پڑیں گے اور پانی سے بجلی بھی بنائی جاسکے گی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ ڈی آئی خان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چھوٹے ڈیموں کی فوری تعمیر کی ضرورت پر زور دیا۔ صرف حکام نہیں بلکہ اب ملک کے مختلف حلقوں میں یہ بازگشت سنائی دینے لگی ہے کہ ڈیم وقت کی ضرورت ہیں اور اگر ہم نے ڈیم بنا لیے ہوتے تو شاید اتنی تباہی نہ ہوئی ہوتی۔

    یوں تو پاکستان میں اس وقت 150 ڈیم اور دیگر آبی ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کے پاس دنیا کے دو بڑے ڈیم، تربیلا اور میرانی ہیں۔ ہری پور ضلع میں تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ پر بنایا گیا تربیلا ڈیم حجم کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا اور مٹی سے بنا ہوا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ بلوچستان میں دریائے دشت پر قائم میرانی ڈیم سیلاب سے بچاؤ کے لیے حجم کی بنیاد پر سب سے بڑا ڈیم ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مشہور ڈیموں میں منگلا، راول ڈیم، وارسک ڈیم، نیلم جہلم ڈیم، حب ڈیم، نمل ڈیم، گومل زام ڈیم اور زیرِ تعمیر دیامر بھاشا ڈیم شامل ہیں۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں مہمند ڈیم سمیت 10 دیگر چھوٹے آبی ذخائر کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا تھا جن کی تکمیل 2028 تک متوقع ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق 22 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ آبی ذخائر ناکافی ثابت ہوں گے۔

    اس کے برعکس ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت پر نظر ڈالیں تو وہاں 5 ہزار سے زائد ڈیمز موجود ہیں جب کہ مزید کئی تعمیر کے مراحل میں ہیں۔ بھارت کے دریائے چناب پر منصوبوں بہلگہار، دولہستی، سلال، پاکل دول، کیرتھاری، برساسر، سوالکوٹ، رتلے، کروار، جیپسا ملا کر 17 پروجیکٹ ہیں، جس میں دریائے جہلم پر کشن گنگا قابل ذکر ہے۔ دریائے سندھ سمیت مغربی دریاؤں پر بھارت کے ہائیڈرو پاور کے 155 کے قریب چھوٹے اور بڑے منصوبے ہیں۔ بھارت ان منصوبوں کی وجہ سے چناب کا پانی روک سکتا ہے اور جب چاہے چھوڑ سکتا ہے اور یہ پانی سیلاب کی صورت میں ہر چند سال بعد پاکستان میں داخل ہو کر تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

    پاکستان میں جب بھی نئے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے ذہنوں میں کالا باغ ڈیم کا ہی نام آتا ہے، جو کہ اپنی تعمیر کے آغاز سے قبل ہی متنازع ہو کر اب تک صرف فائلوں کی زینت بنا رہا ہے۔ اس سے قبل کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اس ڈیم پر کیا تنازعات ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کالا باغ ڈیم منصوبہ ہے کیا؟

    مجوزہ کالا باغ ڈیم میانوالی میں کالا باغ کے مقام پر بننا ہے۔ ’’کالا باغ‘‘ میانوالی سے 20 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قصبے میں قیام پاکستان سے قبل کیلوں کے بہت سارے باغات تھے جو دور سے سیاہ رنگ کے بادل لگتے تھے اور اپنے اس پیش منظر کے باعث ہی اس جگہ کا نام کالا باغ پڑ گیا۔ اس مقام پر دریائے سندھ ایک قدرتی ڈیم کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس کے اطراف پہاڑیوں کا سلسلہ ہے اور دریا کے آگے صرف ایک دروازہ لگا کر اسے ڈیم کی شکل دی جاسکتی ہے۔

    اس ڈیم کے لیے پہلا سروے برطانوی حکومت نے 1873 میں کیا تھا، قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل قائداعظم کی اجازت سے فروری 1948 میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ تعمیر کیا گیا جسے جناح بیراج کہا جاتا ہے ایوب دور میں دیگر آبی منصوبے تعمیر کیے گئے لیکن کالا باغ کا منصوبہ کاغذات کی حد تک رہا جس پر جنرل ضیا الحق کے دور میں کام شروع ہوا لیکن وہ بھی اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچا۔

    سابق صدر ضیا الحق کے دور حکومت میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے 1983 میں رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق ڈیم کی اونچائی 925 فٹ، پانی کی اسٹوریج 6.13 ملین ایکڑ فٹ ہوگی، 50 لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کرے گا اور سستی ترین 5 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ لگ سکتا تھا۔ اسی دور حکومت میں کالا باغ کے منصوبے کی تعمیر کیلیے دفاتر تعمیر کیے گئے، روڈ بنائے اور مشینری لگائی گئی۔ لیکن پھر کئی دہائیاں گزر گئیں اور یہ سب کچھ اب تباہ ہوچکا ہے۔

    اب آتے ہیں کالا باغ ڈیم منصوبے پر تنازع اور اس کے بعد اب تک اس کی تعمیر نہ ہونے کے موضوع پر۔ جب کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا تو برطانیہ سے ایک ٹیم نوشہرہ آئی جس نے سیٹلائٹ ایمیجنگ کے لیے علاقے میں عمارتوں کی چھتوں پر نشانات لگائے تاکہ ریسرچ اسٹڈی مکمل کرکے تعمیر شروع کی جاسکے، جس کے بعد نوشہرہ ڈوبنے کی جھوٹی افواہ اڑائی گئی۔ یوں پاکستان دشمنوں کو یہ جھوٹا پروپیگنڈہ مفت میں مل گیا اور اسی کی آڑ میں سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنا شروع کردیا گیا، تب سے یہ افواہیں پھیلنا شروع ہوئیں کہ کالا باغ ڈیم بنا تو صوبے کے شہر نوشہرہ، چارسدہ، صوابی، مردان اور پبی ڈوب جائیں گے، اس کے ساتھ ہی سندھ نے کہنا شروع کردیا کہ اس ڈیم کے بننے سے سندھ بنجر ہو جائے گا۔

    ضیا دور میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) نے اعتراض اٹھایا کہ اس ڈیزائن سے نوشہرہ ڈوب جائے گا، اعتراض دور کرنے کیلیے ڈیم کی اونچائی کم کر کے 925 سے 915 فٹ کردی گئی، اس صوبے کی بات مانی گئی تو سندھ نے اعتراض کر دیا کہ پنجاب سندھ کو پانی کا حصہ نہیں دے گا۔ اس اعتراض کو دور کرنے کیلیے صوبوں کو پانی کی تقسیم کے قابل عمل معاہدے پر راضی کیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق دریائے سندھ سے پنجاب 37 فیصد، سندھ 33، کے پی کے 14 اور بلوچستان 12 فیصد پانی لیں گے۔

    یہ دو بڑے اعتراضات دور کرنے کے بعد بھی بات آگے نہ بڑھی اور کالا باغ ڈیم منصوبہ وقت کے ساتھ ساتھ تیکنیکی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن گیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے ساتھ قوم پرست جماعتوں نے قومی مفاد کی آڑ میں ذاتی سیاست چمکانے کے لیے اس کا نام استعمال کر کے یہ ڈیم نہیں بننے دیا اور جنرل ضیا بھی کالا باغ ڈیم بنانے کا خواب لیے دنیا سے چلے گئے۔ 1999 میں اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرویز مشرف نے کالا سمیت چھ بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ڈیم نہیں بنائیں گے تو مرجائیں گے لیکن طاقت ہونے کے باوجود وہ بھی اس خواب کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔

    دنیا بھر کے ماہرین یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ اس ڈیم سے نوشہرہ اور مردان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سے سندھ کی زمینیں بھی متاثر نہیں ہوں گی۔ وہ یوں کہ کالا باغ ڈیم کا سب سے اونچا حصہ 915 فٹ ہے یعنی ڈیم مکمل بھر بھی جائے تو کسی شہر کو نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ ڈیم سے نوشہرہ کا نچلا ترین حصہ 25 فٹ بلند، چار سدہ کا نچلا ترین حصہ 40 فٹ، پبی کا 45 فٹ، مردان کا 55 اور صوابی کا نچلا ترین حصہ 85 فٹ بلند ہے۔ جو کالا باغ ڈیم کی بلند ترین سطح سے کہیں زیادہ اونچے ہیں اور ان کے ڈوبنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    ماہرین کے مطابق میانوالی جہاں یہ ڈیم بننا ہے سطح سمندر سے 688 فٹ بلند ہے جب کہ نوشہرہ کی بلندی 889 فٹ بلند ہے، ڈیم کی تعمیر سے کل 27 ہزار 500 ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا، جس میں پنجاب کا کل رقبہ 24500 ایکڑ پنجاب جب کہ کے پی کے کا صرف 3 ہزار ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا یعنی یہ ڈیم بنا تو نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی پنجاب سے ہی ہوگی۔

    اس وقت پاکستان کے تین بڑے ڈیمز تربیلا، منگلا ڈیم اور چشمہ بیراج کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13 ملین ایکڑ فٹ جب کہ کالا باغ تنہا چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرسکتا ہے، 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب، سالانہ 15 ارب ڈالر کی زرعی پیداوار ملے گی جب کہ زرعی اجناس میں ملک خود کفیل ہوجائے گا۔ صرف یہی نہیں درآمدات میں کمی اور برآمدات کے اضافے کے ساتھ ایک لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا۔ ڈیم کے قریبی علاقوں میں درجۂ حرارت میں کمی واقع ہو گی۔

    کے پی کے اور پنجاب کے جنوبی علاقے سندھ کے زیریں اور بلوچستان کے مشرقی حصے ڈیم کے پانی سے قابل کاشت بنائے جاسکتے ہیں۔ کے پی کے، کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈی آئی خان کو مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی، سندھ کو اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملے گا، جس سے سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس بجھ سکتی ہے اور 8 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔ بلوچستان کو اس سے 15 لاکھ ایکڑ پانی اضافی مل سکتا ہے، مشرقی بلوچستان کا سات لاکھ ایکڑ رقبہ اضافی سیراب ہوسکے گا۔

    پاکستان میں جو بھی حکومت آئی، اُس نے یہ کہا کہ کالا باغ ڈیم ضرور بننا چاہیے کیونکہ یہ قومی مفاد میں ہے، لیکن جیسے ہی اس منصوبے کی بازگشت شروع ہوتی ہے تو اس کے مخالف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر احتجاج، دھرنوں، دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور شاید ڈیم کے مخالف حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہیں کہ تمام حکومتوں نے اُن کے آگے سر جھکایا اور اس پر عمل درآمد سے باز رہیں۔ پاکستان کے تین صوبے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف کئی متفقہ قراردادیں پاس کر چکی ہیں۔ بلوچستان کا براہ راست اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں مگر صوبے کا یہ موقف ہے کہ چونکہ وہ اپنا پانی صوبہ سندھ سے لیتے ہیں، اس لیے معاملے میں سندھ کے موقف کی تائید کریں گے۔

    سیاسی اور علاقائی مخالفتوں کے علاوہ اس منصوبے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ وہ عالمی قانون برائے تقسیم آب ہے جس کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصے پر موجود فریق کا یہ قانونی اور قدرتی حق ہے کہ اس تک پانی کی ترسیل ممکن رہے اسی وجہ سے دریائے سندھ کے آخری حصے پر موجود فریق یعنی صوبہ سندھ کی مرضی کے بغیر اس کی تعمیر ممکن ہی نہیں، البتہ اس قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق دریا کے پانی کو استعمال میں نہیں لاتا تو بند کی تعمیر ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

    پانی کے ضیاع کے حوالے سے آبی ماہرین کہتے ہیں کہ 2010 کے سیلاب میں پانی کا بہاؤ 100 ملین ایکڑ فٹ تھا جو 12 خالی ڈیموں کو بھرنے کے لیے کافی تھا، ہر سال 35 ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے گزر کر سمندر میں چلا جاتا ہے اس سے کالا باغ جیسے 6 ڈیم بھرے جاسکتے ہیں۔

    یہاں یہ سوچنے کی بات ضرور ہے کہ دریائے سندھ پر ڈیم بنانے پر کچھ ملک گیر سیاسی جماعتیں اور کچھ قوم پرست یک زبان ہو کر اس کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ڈیم کو تین صوبوں کو بنجر بنانے کا منصوبہ قرار دے کر اسے متنازع بنا دیا جاتا ہے لیکن بھارت نے پاکستان میں داخل ہونے والے دریاؤں پر 14 ڈیم بنائے اور مزید بنانے جا رہا ہے، جس پر یہ جماعتیں کوئی آواز بلند نہیں کرتیں، کیا وہاں سے ہنگامی صورت میں پانی پاکستان میں نہیں داخل ہوتا؟

    امریکا کی پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد 900 دن ہے۔ آسڑیلیا کی 600 دن اور بھارت کی 170 دن ہے جب کہ پاکستان کی صرف 30 دن کی ہے اور منگلا تربیلا بالترتیب اپنی 20 سے 35 فیصد پانی ذخیرہ کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ اس لیے کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ کیونکہ پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو ’پانی کی شدید قلت‘ کا سامنا ہے جس کے لیے سنجیدہ بنیادوں پر فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

    پاکستان میں اس وقت ایک بڑا ڈیم دیامر بھاشا زیرتعمیر ہے دیگر چھوٹے ڈیموں‌ کے منصوبے بھی زیر غور یا ان پر کام شروع ہونا ہے لیکن اس سے ملک میں‌ پانی کی ضرورت پوری نہیں‌ ہوسکتی اور یہ آبی وسائل ناکافی ہیں۔ اس لیے اب ہمیں کالا باغ ڈیم کی طرف بڑھنا چاہیے اور اس کے لیے قومی سطح‌ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام تر مصلحتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں پاکستان کی ترقی کی سوچ کے ساتھ اس حوالے سے آگے بڑھنا ہو گا اور جب تک اس کا کوئی حل نہیں نکلتا ہمیں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ تیز کرنا ہوگا۔

    اس وقت پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے لیکن پاکستان اس کلائمیٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ ماہرین ارضیات اور موسمیات اس حوالے سے پیشگوئی کرچکے ہیں کہ آنے والے برسوں میں مون سون مزید شدت اختیار کرے گا، دوسرے معنوں میں زیادہ تباہی لائے گا۔ اب یہ مسند اقتدار پر براجمان سیاست دانوں اور بااختیار افراد اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ سنجیدگی سے ملک اور قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے آگے بڑھیں اور کالا باغ سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی جائے۔

    اگر اب بھی ذاتی خواہشات اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفاد میں فیصلے نہیں کیے تو ہمارا جو انجام ہو گا، اس سے خبردار کرنے کے لیے ہم شاعر مشرق علامہ اقبال یہ شعر (معمولی ردوبدل کے ساتھ) یہاں رقم کررہے ہیں…

    نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستانیو!
    تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

  • سندھ صرف کالا باغ ڈیم کا مخالف ہے، شرجیل میمن

    سندھ صرف کالا باغ ڈیم کا مخالف ہے، شرجیل میمن

    کراچی: پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ نئی حکومت فی الحال نیٹ پریکٹس کررہی ہے، سندھ صرف کالا باغ ڈیم کا مخالف ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شرجیل انعام میمن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم نئی حکومت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں پرویز مشرف سے متعلق سوال پر شرجیل میمن نے تبصرے سے گریز کیا ۔

    یاد رہے کہ شرجیل میمن ودیگرکےخلاف پونے6ارب کرپشن ریفرنس کی سماعت آج ہورہی ہے، نیب کے گواہ کےبیان پر ملزمان کے وکلا آج جرح کریں گے

    انہوں نے کہا کہ نوا ز شریف کو صرف 2 ماہ جیل میں رکھا گیا اور پھر ان کی اپیل منظور ہوگئی ، ہمارے ساتھ کچھ اور سلوک کیا جاتا ہے، ہم ایک سال سے قید میں ہیں۔

    سابق صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ میں ڈیم کےلیےصرف دعائیں دے سکتا ہوں، انہوں نے مزید کہا کہ سندھ تمام ڈیموں کی تعمیر کا مخالف نہیں ، بلکہ صرف کالاباغ ڈیم کے خلاف ہے جس سے سندھ کی زمینیں بنجر ہوجائیں گی۔

    شرجیل میمن نے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سندھ حکومت ہمیشہ کی طرح اس باربھی روزگارفراہم کرےگی۔

    یاد رہے کہ کچھ دن قبل نجی اسپتال میں زیرِ علاج شرجیل انعام میمن کے کمرے سے شراب بر آمدگی کے کیس میں سابق صوبائی وزیرِ اطلاعات کو شریکِ جرم قرار دے دیا گیا تھا۔ جس کے بعد عدالت کے حکم پر انہیں جیل منتقل کیا گیا۔

  • کالا باغ ڈیم کی بات کرنے والے پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے، ناصر حسین شاہ

    کالا باغ ڈیم کی بات کرنے والے پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے، ناصر حسین شاہ

    کراچی: پیپلزپارٹی کے رہنما  ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی بات کرنے والوں پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی کے پروگرام اعتراض ہے میں گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت ڈیم بنانے کی مخالف نہیں البتہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔

    ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی مکمل حمایت اور اپنے تعاون کا یقین دلاتی ہے مگر ہم کالا باغ ڈیم جو مردہ گھوڑاہے اُس کے خلاف ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر متنازع چیزکوکیوں سامنےلایاجارہا ہے؟

    اُن کا کہناتھا کہ چیف جسٹس کےڈیم بنانےکے احسن اقدام کی حمایت کرتےہیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ رجسٹری لاہور میں منرل واٹر کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ڈیموں کی تعمیر روکنے اور مخالفت کرنے والوں کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہوگی۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کےبعدمجھےکسی عہدے کی پیش کش کر کے شرمندہ نہ ہوں، میں نے آرٹیکل چھ کے قانون کا مطالعہ شروع کردیا، ڈیم کو روکنے کی کوشش کرنے پر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کروں گا۔

    مزید پڑھیں: کالا باغ ڈیم پاکستان کی بقاء کا ضامن ہے، اتفاق رائے سے بنائیں گے، چیف جسٹس

    بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کالا باغ ڈیم پاکستان کی بقاء کا ضامن ہے اگر قوم متحد رہی تو یہ بھی تعمیر کر کے دکھائیں گے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں پانی کی شدید قلت ہوگی جبکہ پانی کی قلت سے بچنے کا واحد حل ڈیمز کی تعمیر ہے، ڈیموں کی تعمیر میں شہری بڑھ چڑھ کر حصہ لے  رہے ہیں اور اب یہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرگئی۔

    یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا ڈیم کے مخالفین پرآرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا اعلان

    جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جو دشمن عناصر  اس تاک میں بیٹھے ہیں کہ اس ڈیم کو نہ بننے دیا جائے اگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے تو بہت دکھ اور افسوس کی بات ہوگی۔

  • کالا باغ ڈیم پاکستان کی بقاء کا ضامن ہے، اتفاق رائے سے بنائیں گے، چیف جسٹس

    کالا باغ ڈیم پاکستان کی بقاء کا ضامن ہے، اتفاق رائے سے بنائیں گے، چیف جسٹس

    لاہور : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم پاکستان کی بقاء کا ضامن ہے، خواجہ سراؤں کی جانب سے ڈیم کیلئے ایک لاکھ روپے دیئے گئے، میں اپنی طرف سے خواجہ سرا بھائیوں کیلیے ایک لاکھ روپے کا اعلان کرتا ہوں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آنے والے دنوں میں پانی کی شدید قلت ہوگی جبکہ پانی کی قلت سے بچنے کا واحد حل ڈیمز کی تعمیر ہے۔

    جو دشمن عناصر  اس تاک میں بیٹھے ہیں کہ اس ڈیم کو نہ بننے دیا جائے اگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے تو بہت دکھ اور افسوس کی بات ہوگی، ڈیم فنڈ مہم کو تحریک کی طرح چلائیں گے۔

    جسٹس ثاقب نثار  نے کہا کہ جب میں نے ڈیم مہم شروع کی تو پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ ایک تحریک بن جائے گی، بچے اور بچیاں ڈیم فنڈز کے لیے پیسے جمع کروارہی ہیں، جس نے ڈیم روکنے کی کوشش کی ان کیخلاف آرٹیکل 6 کےتحت کارروائی کروں گا، پانی کی ڈکیتی کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔

    کالا باغ ڈیم سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کی بقاکاضامن ہے، اس سے دستبردار نہیں ہوئے، قوم میں اتفاق ہوا تو کالا باغ ڈیم بھی ضرور بنائیں گے۔

    مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا ڈیم کے مخالفین پرآرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا اعلان

    چیف جسٹس نے بتایا کہ خواجہ سراؤں کی تنظیم اخوت نے بھاشا ڈیم فنڈ میں1لاکھ روپے عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے، میں اپنی طرف سے ان خواجہ سرا بھائیوں کیلیے ایک لاکھ روپے کا اعلان کرتا ہوں۔

  • کالا باغ ڈیم رد ہوچکا ہے: نثار کھوڑو

    کالا باغ ڈیم رد ہوچکا ہے: نثار کھوڑو

    لاڑکانہ: پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو نے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم رد ہوچکا ہے اسی لیے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی دوسرے ڈیموں کی تعمیر کی بات کی۔

    وہ صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کر رہے تھے، انھوں نے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کو ابھی بھی دوسروں کی ضرورت ہے۔

    نثار کھوڑو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’جی ڈی اے ابھی بھی دوسروں کی مدد کی تلاش میں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وفاق میں جمہوریت پسند جماعتوں کے ساتھ مل کر چل سکتے ہیں۔

    پی پی کے سینئر رہنما نے کہا کہ بلاول بھٹو کو نصیر آباد اور فیصل آباد جانے نہیں دیا گیا، ایسی ہی صورتِ حال رہی تو انتخابات پر سوال اٹھیں گے۔

    نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ 25 جولائی دور نہیں ہے، ہرایک کی محنت کا نتیجہ سامنے آ جائے گا، پیپلز پارٹی سندھ اور وفاق میں حکومت بنائے گی۔

    ہم رہیں نہ رہیں، ڈیم ضرور بنے گا، چیف جسٹس

    خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ملک میں پانی کی قلت کے مسئلے پر ایکشن لیتے ہوئے ڈیموں کی تعمیر کا معاملہ اٹھایا اور اس سلسلے میں دیامر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے لیے عدالتی حکم کے ذریعے فنڈ بھی قائم کردیاہے۔

    نئے صوبے کا مطالبہ کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، نثارکھوڑو

    واضح رہے کہ نثار کھوڑو سندھ میں نئے صوبے کے لیے اٹھائی جانے والی آواز کے سخت ناقد ہیں، وہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اس مطالبے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ڈیمز کی تعمیر، اسٹیٹ بینک نے عطیات جمع کرانے کے لیے اکاؤنٹس کھول دیے

    ڈیمز کی تعمیر، اسٹیٹ بینک نے عطیات جمع کرانے کے لیے اکاؤنٹس کھول دیے

    کراچی: سپریم کورٹ کی جانب سے حکم جاری ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے دو ڈیمز دیامیر بھاشا اور مہمند کی تعمیر کے لیے فنڈز قائم کردیے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے عطیات جمع کرانے کے لیے اکاؤنٹس کھول دیے۔

    اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈیمز کی تعمیرات کے حوالے سے اکاؤنٹس کھول دیے جو دیامیر بھاشا اور مہمد فنڈ کے نام سے کھولے گئے ہیں، اعلامیے کے مطابق تعمیرات کے لیے فنڈمیں ملکی وغیرملکی کرنسی کی صورت میں چندہ وعطیات جمع کرائےجاسکیں گے۔

    ایس بی پی کے مطابق اکاؤنٹس میں عالمی ڈونرز چندہ اورعطیات دے سکیں گے جبکہ فنڈز میں کیش،چیک، پرائزبانڈ اور سوناچاندی کی شکل میں عطیات بھی جمع کرائے جاسکیں گے۔

    اسٹیٹ بینک کےفیلڈدفاترمیں فنڈاکاؤنٹس قائم ہوگئے جبکہ دیگر بینکوں کو بھی اس ضمن میں ہدایات جاری کردی گئی ہیں، فیڈرل ریزرور بینک آف نیویارک میں بھی اکاؤنٹ کھول دیاگیا۔

    مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے ڈیمز کی تعمیر کیلئے 10لاکھ روپے کا عطیہ جمع کرادیا

    خیال رہے کہ گزشتہ دنوں کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ہونے والی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے دیامیر بھاشا اور مہمند کو فوری تعمیر کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے فنڈز قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈیمز کی تعمیر کے لیے دس لاکھ روپے عطیہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کو فنڈز جمع کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

    چیف جسٹس کی تحریک نے اثر دکھایا اور فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا نے ڈیمز کی حمایت کرتے ہوئے جسٹس ثاقب نثار کے نام خط لکھا اور کہا کہ بھاشا کی تعمیر کیلئے ہرقسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: بھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر اور کالا باغ کے لیے کمیٹی قائم کرنے کا حکم

    اسے بھی پڑھیں: ہم رہیں نہ رہیں، ڈیم ضرور بنے گا، چیف جسٹس

    پیر پگارا کے بعد میئر کراچی بھی میدان میں آئے اور وسیم اخترنے اپنی اور کے ایم سی افسران کی طرف سے ایک ایک لاکھ روپے فنڈ عطیہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    فنانس ڈویژن نے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے دیامربھاشا ڈیم فنڈز قائم کرنے کے لیے مختلف اداروں کو خط لکھا تھا جس میں آڈیٹر جنرل، کنٹرولرجنرل اکاؤنٹس، اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان اور دیگر اداروں کے حکام سے لوگوں کی رقوم اسٹیٹ بینک اورنیشنل بینک کی برانچزمیں جمع کرنے کا انتظامات اور اقدامات کو بروئے کار لانے کی ہدایت کی گئی تھی۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈیمز کی تعمیر سے متعلق مختصر لیکن تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فوری طور پر تعمیر کیے جائیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ: بھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر اور کالا باغ کے لیے کمیٹی قائم کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ: بھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر اور کالا باغ کے لیے کمیٹی قائم کرنے کا حکم

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق مختصر لیکن تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فوری طور پر تعمیر کیے جائیں۔

    اپنے مختصر فیصلے میں عدالتِ عالیہ نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بھی حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تعمیر کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے۔

    ملک میں ڈیموں کی تعمیر سے متعلق سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنا دیا ہے، عدالت نے حکم دیا کہ حکومت اور متعلقہ ادارے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق اقدامات کریں۔

    عدالت نے حکم دیا کہ ڈیموں کی تعمیر کے لیے ایک خصوصی اکاؤنٹ بھی کھولا جائے، فیصلے کے مطابق یہ اکاؤنٹ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام پر پر کھولا جائے گا۔

    ڈیموں کی تعمیر کے لیے کھولے جانے والے خصوصی اکاؤنٹ میں عوام عطیات اور فنڈ جمع کراسکیں گے، اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ عطیات اور فنڈ دینے والوں سے ذرائع آمدن نہ پوچھے جائیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے پہل کرتے ہوئے ڈیم کی تعمیر کے لیے 10 لاکھ روپے عطیہ کرنے کا اعلان کر دیا۔

    ملک میں 138 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے، اسٹوریج کی گنجائش صرف 13.7 ملین ایکڑ فٹ ہے، ارسا


    سپریم کورٹ کی جانب سے ملک میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے جاری کیے گئے حکم پر عمل در آمد شروع ہوگیا ہے، اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی، کمیٹی اس امر کی نگرانی کرے گی کہ عدالتی حکم پر عمل در آمد کیا جا رہا ہے یا نہیں۔

    عدالت نے چیئرمین واپڈا کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کر دیا ہے، کمیٹی کے دیگر ارکان کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سنایا۔ خیال رہے کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ کو بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اختیارات حاصل ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • بھاشا ڈیم بنے گا نہیں، کالا باغ بننے نہیں دیں گے، چیئرمین کمیٹی برائے آبی وسائل

    بھاشا ڈیم بنے گا نہیں، کالا باغ بننے نہیں دیں گے، چیئرمین کمیٹی برائے آبی وسائل

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے چیئرمین شمیم آفریدی نے کہا ہے کہ بھاشا ڈیم بنے گا نہیں اور کالا باغ ڈیم ہم بننے نہیں دیں گے۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، ان کا کہنا تھا کہ سڑکیں بن رہی ہیں مگر بھاشا ڈیم کے لیے ڈیڑھ سو کلومیٹر سڑک نہیں بن رہی۔

    چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ جب تک اتفاق رائے نہیں ہوگا ہم کالا باغ ڈیم پر کام شروع نہیں کریں گے۔

    چیئرمین واپڈا کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم مستقبل کا منصوبہ ہے، اگر اتفاق رائے ہوتا ہے تو اسے ضرور بنانا چاہیے، اس کے بننے کے سلسلے میں تمام آپریشن سندھ کے حوالے کیا جائے۔

    لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے کمیٹی کو بتایا کہ کالا باغ ڈیم کے متعلق سندھ کے تحفظات درست ہیں، انھیں نظر نہیں انداز نہیں کیا جاسکتا، سندھ کو خدشہ ہے کالا باغ سے پنجاب کو پانی دیا جائے گا۔

    چیئرمین واپڈا نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدہ بہت کم زور ہوچکا ہے، اسے بہتر بنانا ہوگا، اس کے علاوہ مزید ڈیموں کی تعمیر کے لیے سیاسی اتفاق رائے بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

    سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کمیٹی کے رکن اور تھرپارکر سے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے رکن اسمبلی گیان چند نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے نہیں ہے اس لیے اس پرمزید بات نہ کی جائے۔

    سندھ اسمبلی، کالا باغ ڈیم کی مخالفین کو ملک دشمن کہنے پر مذمتی قرارداد منظور

    کمیٹی کی ایک اور رکن قرۃ العین مری نے اجلاس میں بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے کالا باغ ڈیم منصوبہ ختم کردیا ہے، اس پر بات کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

    اجلاس میں موجود قائمہ کمیٹی برائے قلت آب کے رکن، خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سید محمد صابر شاہ نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کی حقیقت لوگوں کو بتائی جائے، انھیں بتایا جائے کہ کالا باغ ڈیم سے کیا نقصان ہوگا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سندھ اسمبلی، کالا باغ ڈیم کی مخالفین کو ملک دشمن کہنے پر مذمتی قرارداد منظور

    سندھ اسمبلی، کالا باغ ڈیم کی مخالفین کو ملک دشمن کہنے پر مذمتی قرارداد منظور

    کراچی : سینیئرصوبائی وزیر نثار کھوڑو نے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی کالا باغ ڈیم کو مسترد کرچکی ہے لیکن ڈیم کی مخالفت کرنے والوں کو را کا ایجنٹ قرار دینا کسی طور مناسب عمل نہیں جس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں.

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کے خلاف سندھ اسمبلی میں وفاقی وزیر کے بیان کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کرتے ہوئے کیا جب کہ مذمتی قرارداد کو منتفقہ طور پر سندھ اسمبلی نے منظور کرلیا.

    نثار کھوڑو نے کہا کہ ایک وفاقی وزیر ننے کالا باغ ڈیم پر اختلاف رائے رکھنے والوں کو بھارتی ایجنٹ کہا جس سے سندھ کے عوام کی دل آزاری ہوئی ہے اور سندھ اسمبلی کی توہین کی گئی ہے.

    انہوں نے کہا کہ وزیر موصوف اگر اتنے ہی محب الوطن ہیں تو اپنے قائد نواز شریف کی سرزنش کیوں نہیں کرتے جو مودی سے ملتے ہیں اور بھارت سے کاروباری مراسم بھی رکھتے ہیں.

    نثار کھوڑو نے مزید کہا کہ وفاقی وزیر کو حب الوطنی کا مظاہر کرتے ہوئے نوازشریف کی بھارت نواز پالیسیوں سے پر بھی آواز اٹھانی چاہیئے لیکن ایسا کرنے کی شاید انہیں ہمت نہیں ہو گی.

    انہوں نے مزید کہا کہ کالا ڈیم پر سندھ اسمبلی سمیت ملک کی تین صوبائی اسمبلیوں نے کالا باغ ڈیم کے خلاف قراردادیں منظور کی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ڈیم کے خلاف تین اسمبلیاں ایک صفحے پر ہیں.

    سینیئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے کہا ہے کہ کالا باغ  ڈیم  پر اکثریت کے فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیئے اور اس قسم کے بیانات سے پرہیز کرنا چاہیئے جس سے چھوٹوں صوبوں کی دل آزاری ہو اور ان میں احساس محرومی بڑھے گی.


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔