Tag: کالا پانی

  • جرم و سزا، واقعاتِ اسیری اور قید خانے

    جرم و سزا، واقعاتِ اسیری اور قید خانے

    مرزا اسد اللہ خاں غالب کے واقعاتِ اسیری کے بابت بہت کم معلوم ہوسکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ کے لوگ وضع داری اور پردہ پوشی کے قائل تھے۔ وہ شخصی کمزوریوں کو بیان کرنے سے گریز کرتے تھے۔ غالب نے بھی اپنے واقعۂ اسیری کو اپنی ’’بے آبروئی‘‘ تصوّر کرتے ہوئے اس کا عام ذکر نہیں کیا۔ لیکن ادبی تذکروں میں آیا ہے کہ وہ دو دفعہ معتوب ہوئے تھے۔ ان پر الزام قمار بازی کا تھا۔

    ہمارا مقصد اردو کے اس عظیم شاعر کو بدنام اور بعد از مرگ اُن کی شہرت کو ‘داغ دار’ کرنا نہیں ہے، بلکہ یہاں ہم اس تمہید کے ساتھ جرم و سزا اور قید خانوں کی تاریخ سے متعلق چند اقتباس نقل کررہے ہیں جو پاکستان کے نام وَر مؤرخ، محقق اور اسکالر ڈاکٹر مبارک علی کے مضمون سے لیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

    ہندوستان میں قید خانوں کے نہ ہونے کی وجہ سے عام مجرموں کو کہاں رکھا جاتا تھا، اس کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں لیکن قیدی اُمراء کو یا تو کسی امیر کے حوالے کر دیا جاتا تھا کہ وہ اس کی نگہداشت کرے یا پھر انہیں گوالیار کے قلعے میں بھیج دیا جاتا تھا۔

    روایت یہ تھی کہ سازشی اور خطرناک قیدیوں کو روز صبح پوست کا پانی پلایا جاتا تھا، جس کے زہر سے وہ آہستہ آہستہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ اورنگزیب نے شہزادہ مراد کو یہیں قید کیا اور قید خانے میں ہی اس کی وفات ہوئی۔ جب دارا شکوہ کے بیٹے سلیمان شکوہ کو گرفتار کر کے لایا گیا تو فرانسیسی سیاح برنیر کے مطابق شہزادے نے اپنے چچا یعنی اورنگزیب سے یہ درخواست کی تھی کہ اسے پوست کا پانی نہ پلایا جائے۔ جہانگیر نے اپنی تزک میں ذکر کیا ہے کہ کہ شیخ احمد سرہندی کو گوالیار کے قلعے میں قید رکھا جائے تاکہ ان کی اصلاح ہو سکے۔

    خطرناک مجرموں، باغیوں اور حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں کو فوراً سزائے موت دے دی جاتی تھی۔ ابنِ بطوطہ نے محمد تغلق کے بارے میں لکھا ہے کہ دربار کے باہر جلاد تیار کھڑے ہوتے تھے اور بادشاہ کے حکم پر مجرم کا سَر اڑا دیتے تھے۔ ایک ڈچ سیاح نے جہانگیر کے دور میں بیان کیا ہے کہ عام مجرموں کو گھسیٹتے ہوئے لایا جاتا تھا اور پھر ان کو فوری قتل کر دیا جاتا تھا۔

    یورپی ملکوں میں بھی ابتدائی زمانے میں قید خانے کا رواج نہ تھا۔ وہاں بھی قلعوں کو بطور قید خانہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جیسے پیرس میں بیسٹل کا مشہور قلعہ تھا، جہاں سیاسی قیدی رکھے جاتے تھے۔ والٹیر کو بھی وہاں بطور قیدی رکھا گیا تھا لیکن فرانسیسی انقلاب کے موقع پر 14جولائی 1789ء کو مجمعے نے قلعے پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑایا اور قلعے کو مسمار کر دیا۔

    برطانیہ میں قیدی اُمراء کے لیے ٹاور آف لندن کی عمارت تھی، جہاں انہیں قید رکھا جاتا تھا اور سزائے موت کی صورت میں باہر ایک چبوترے پر پبلک کے سامنے اس کی گردن اڑا دی جاتی تھی اور جلاد اس کے سَر کو اٹھا کر اعلان کرتا تھا کہ یہ ایک غدار یا سازشی کا سَر ہے۔ Thomas More کو یہاں قید بھی رکھا گیا اور 1535ء میں سزائے موت بھی دی گئی۔

  • معرکۂ امبیلا

    معرکۂ امبیلا

    کالا پانی جعفر تھانیسری کی قید و بند کی سرگذشت ہے جس سے ہم ان پر ٹوٹنے والی ایک افتاد یہاں‌ نقل کر رہے ہیں۔ جعفر تھانیسری نے برطانیہ کے خلاف ‘غداری’ کے الزامات کے تحت بیس سال انڈمان جزائر میں قید کاٹی تھی۔

    وہ اپنی کتاب میں‌ "معرکۂ امبیلا” کے باب میں‌ رقم طراز ہیں:
    1863ء بمطابق 1280ھ کے آخر کی بات ہے کہ مغربی ہند کی سرحد کے قریب انگریزی سرکار کی زبردستی کی وجہ سے ایک عظیم جنگ شروع ہو گئی۔ جنرل چیمبرلین صاحب اس جنگ کے سپہ سالار تھے۔ امبیلے کی گھاٹی میں پہنچ کر سرکاری فوج کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بیگانے ملک میں سرکار کی بے جا مداخلت کو دیکھ کر ملا عبد الغفور صاحب اخوند سوات بھی اپنے بہت سے مریدوں کو ساتھ لے کر آموجود ہوئے، ملکی خواتین اور افغان بھی اپنے بچاؤ کے لیے چاروں طرف سے سرکار پر ٹوٹ پڑے اور مجاہدین کا وہ قافلہ اس کے علاوہ تھا جن کی سرکوبی اور نیست و نابود کرنے کے لیے چڑھائی کی تھی۔

    الغرض بدعویٔ حفاظتِ خود اختیاری ہر کس و ناکس سرکار کے مقابل کھڑا ہو گیا۔ مجاہدین نے حصولِ شہادت کے جذبہ سے سرشار ہو کر شجاعت کے خوب خوب جوہر دکھلائے، یہ ہنگامۂ جنگ و جدل دو تین مہینے جاری رہا، اور تقریبا سات ہزار کشت و خون میں تڑپ گئے۔ خود جنرل چیمبرلین شدید مجروح ہوئے۔ پنجاب کی تمام چھاؤنیوں کی فوج کو اس جنگ میں جھونک دیا گیا تھا۔

    ادھر یہ ہنگامہ برپا تھا ادھر لارڈ ایلجن وائسرائے ہند اپنی اس حرکت پر نادم ہو کر راہیٔ ملکِ عدم ہوا اور ہندوستان بے گورنر ہو گیا۔

    واقعات کے اسی تسلسل میں‌ جعفر تھانیسری "سازش کا انکشاف” کے عنوان سے لکھتے ہیں:
    ایسے نازک وقت میں 11 دسمبر 1863ء بمطابق 28 جمادی الثّانی 1280ھ کو ایک ولایتی افغان غزن خان نے جو کہ پانی پت ضلع کرنال کی چوکی میں بطور پولیس سوار متعین تھا، کسی ذریعہ سے میرے حالات معلوم کیے اور اپنے دُنیوی فائدے کی خاطر ایک لمبی چوڑی اور جھوٹی داستان ڈپٹی کمشنر کرنال کو سنائی اور کہا کہ سرحد پر ہندوستانی مجاہدین سے لڑی جانے والی جنگ میں تھانیسر کا نمبر دار محمد جعفر مجاہدین کی روپیہ اور آدمیوں سے مدد کر رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے یہ داستان سنی تو بذریعہ تار ضلع انبالہ میں خبر بھیج دی؛ کیوں کہ ہمارا شہر تھانیسر اسی ضلع میں واقع ہے۔

    مخبر داستان سرائی کر کے باہر نکلا ہی تھا کہ ہمارے ایک دوست ڈپٹی کمشنر کرنال کی ملاقات کے لیے ان کے ڈیرے پر پہنچ گئے، جن سے گفتگو کے دوران ڈپٹی کمشنر نے اس مخبری کا ذکر بھی کیا۔ ملاقات کے بعد جب وہ دوست اپنے ڈیرے پر تشریف لائے تو انہوں نے اپنے ایک نوکر کاوا نامی سے جو میرا ہمسایہ تھا بطور افسوس اس واقعہ کا ذکر کیا۔ کاوا اسی وقت مجھے اطلاع دینے کے لیے تھانیسر دوڑ پڑا۔ جب تھانیسر پہنچا تو رات کافی بیت چکی تھِی۔ سب سے پہلے میرے مکان پر آیا لیکن میں اندر سو رہا تھا۔ اس نے جب دروازہ بند دیکھا تو آرام کے وقت میں تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا، اور یہ سوچا کہ صبح کے وقت اطلاع دے دوں گا۔ حقیقت یہ تھی کہ تقدیر اسے دروازے پر سے ہٹا لے گئی۔

    اب انبالہ کی کیفیت سنیے۔ جب یہ تار انبالہ پہنچا تو میری خانہ تلاشی کے لیے وارنٹ جاری ہوا، اور ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ کپتان پارسن، پولیس کی ایک بھاری جمعیت کے ساتھ راتوں رات میرے مکان پر پہنچ گیا۔ قدرتِ الٰہی کا تماشہ دیکھیے ایک ہی وقت میں دو آدمی روانہ ہوتے ہیں ایک کرنال سے مجھے خبر دینے کو اور دوسرا انبالہ سے میری خانہ تلاشی کو۔ کرنال والا جو میرا خیر خواہ تھا پہلے پہنچا اور کچھ نہ کر سکا۔

    چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں کرنا رفو
    سوزنِ تدبیر ساری عمر گر سیتی رہے

    دوسرے صاحب رات کے تین بجے میرے گھر پر پہنچ گئے۔ چاروں طرف سے مکان کا محاصرہ کرنے کے بعد مجھے باہر بلایا۔ جب باہر نکلا تو دیکھا سپرنٹنڈنٹ پولیس، خانہ تلاشی کے وارنٹ کے ساتھ میرے دروازہ پر موجود ہے۔ اس نے وارنٹ دکھائے اور کہا کہ مکان کی تلاشی لو، میں اسی وقت سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، میں نے سوچا کہ تلاشی پہلے گھر کے اندر کی ہو تو بہتر ہے؛ تاکہ بیٹھک میں رکھا ہوا خط پولیس کے ہاتھ نہ لگے، لیکن جو ہونا ہے اسے کون روک سکتا ہے، باوجود یکہ صدر دروازے کی اندرونی دہلیز میں بالکل اندھیرا تھا اور بیٹھک کا دروازہ جو کہ شمالی جانب تھا، بالکل نظر نہیں آتا تھا، لیکن سپرنٹنڈنٹ صاحب اسی پر مصر ہوئے کہ پہلے بیٹھک ہی کی تلاشی لی جائے۔

    بیٹھک میں داخل ہونے کے لیے دو دروازوں کا کھلوانا ضروری تھا، جوکہ اندر سے بند تھے۔ میں نے چالاکی سے منشی عبد الغفور کا نام (جو اس کے اندر چند آدمیوں کے ہمراہ موجود تھے) لے کر بلند آواز سے کہا کہ “سپرنٹنڈنٹ صاحب تلاشی کے لیے کھڑے ہیں، تم جلد دروازہ کھول دو۔” اس سے میری غرض یہ تھی کہ کسی طرح وہ لوگ تلاشی کی بات سمجھ کر دروازہ کھولنے سے پہلے اس زہریلے خط کو چاک کر دیں سپرنٹنڈنٹ نے میری پکار کو سمجھتے ہوئے مجھے روکا لیکن میں کہاں سنتا تھا، بیٹھک کے اندر والے گھبراہٹ میں میرے اشاروں کو سمجھ نہ سکے اور انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ اب بیٹھک میں تلاشی ہونے لگی تو جس خط کا ڈر تھا، سب سے پہلے وہی پولیس کے ہاتھ لگا۔ اسی شام کو پکڑے جانے سے چھ گھنٹے پہلے تقدیر نے وہ خط میرے ہاتھ سے لکھوا رکھا تھا۔ خط امیرِ قافلہ کے نام تھا اور اس میں اصطلاحی لفظوں میں چند ہزار اشرفیوں کی روانگی کا ذکر تھا۔ اس کے علاوہ چند خطوطِ پارینہ بھی پولس کے ہاتھ لگ گئے، جو کہ محمد شفیع انبالوی کو پٹنہ سے ارسال کیے تھے، اگرچہ ان خطوط میں کوئی مضر بات نہ تھِی، مگر ان سے پولیس کو محمد شفیع انبالوی اور اہلِ پٹنہ مثلًا مولانا یحییٰ علی، مولانا عبد الرّحیم اور مولانا احمد اللہ وغیرہ (جو اس وقت تحریکِ مجاہدین کے ارباب حل و عقد تھے) کی تلاشی و تفتیش کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔

    منشی عبد الغفور جو کہ بہار کے ضلع گیا کہ باشندے تھے اور میرے پاس محرری کا کام کیا کرتے تھے اور ایک لڑکے عباس نامی کو جو بیٹھک میں سویا ہوا تھا، پولیس پکڑ کر لے گئی، اگر چہ میری نسبت انھیں قوی شک ہو گیا تھا، لیکن وارنٹ گرفتاری اور گورنمنٹ کی منظوری کے نہ ہونے کی وجہ سے جو کہ ایسے مقدمات میں ضروری ہے، پولیس نے مجھ سے کچھ تعرض نہ کیا۔

    مصنّف نے تلاشی کا حال لکھنے کے بعد "فرار” کا واقعہ کچھ یوں‌ بیان کیا ہے:
    پولیس کی واپسی کے بعد یہ بات غور طلب تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں نے اس خیال سے کہ چونکہ میرے گھر سے ثبوت مل گیا ہے، اور جنگِ سرحد کی وجہ سے حکومت کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے فرار ہو جانا اور بزدلی سے جان بچانا مناسب سمجھا، اگر چہ پولیس کی حراست میں نہیں تھا، مگر وہ چاروں طرف سے میرا سراغ لگائے ہوئے، میری حرکات کو تاک رہے تھے۔

    میں نے اپنی والدہ ماجدہ جو کہ اس وقت بقیدِ حیات تھیں اور اپنی بیوی سے صلاح و مشورہ اور انھیں اپنے فرار پر راضی کر کے یہ داؤ کھیلا کہ میں 12دسمبر 1863ء کو اپنے شہر سے روانہ ہو کر اوّل موضع پیپلی میں، جہاں تحصیل اور تھانہ و غیرہ ہے، آیا اور تحصیل اور پولیس کے ملازمین سے بھی رائے لی کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ سب نے بالاتفاق یہ رائے دی کہ تم انبالہ جاؤ اور وہاں سے دریافت کرو کہ یہ کیا مقدمہ ہے؟ اور کس نے مخبری یہ کی ہے؟

    یہ سب صلاح و مشورہ کرنے کے بعد میں بوقتِ شام براستہ سڑک کلاں پیپلی سے بظاہر انبالہ کو روانہ ہوگیا، اس وقت بہت سے آدمی چشمِ محبت اور افسوس سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ جب میں ایک گھوڑے پر سوار ہو کر چلا تو ہر کسی کو یقین ہو گیا کہ میں انبالہ جا رہا ہوں جب تک دن کی روشنی رہی میں برابر سڑک پر انبالہ کی طرف چلتا رہا۔ کوئی میل بھر راستہ چلنے کے بعد جب خوب تاریکی پھیل گئی اور مسافر بھی دور دور تک نظر نہ آتے تھے، تو میں نے سڑک کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لی اور تھانیسر کے متصل اپنی زمین میں مقررہ جگہ پر ایک بجے رات پہنچ گیا۔

    جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ والدہ ماجدہ، بیوی، بچے اور بھائی محمد سعید آخری ملاقات کے لیے انتظار کر رہے ہیں۔ والدہ سے آخری ملاقات کر کے اور بیوی بچوں کو ساتھ لے کر ایک عمدہ بیلی پر سوار ہو‎ئے اور بتیس میل کا فاصلہ طے کر کے صبح پانی پت پہنچ گئے۔ میں شہر کے اندر گیا؛ بلکہ سڑک ہی سے بیوی بچوں کو رخصت کر دیا، اس وقت میں جس سے بھی رخصت ہوتا تھا زندگی میں دوبارہ ملنے کی امید نہ تھی۔ بہیلی والے سے میں نے کہا کہ میرے بیوی بچوں کو پانی پت میں چھوڑ کر تم بہیلی لے کر جمنا پار چلے جانا، یہ بہیلی مع بیلوں کی جوڑی جو تین سو روپیہ سے کم قیمت کے نہیں ہیں، ہم نے تمھیں اس شرط پر بخش دی کہ کسی کو میرے بال بچوں کی خبر نہ دینا اور جب تک یہ معرکہ گرم رہے تھانیسر نہ جانا۔

    جس وقت ڈاک خانہ پانی پت کے سامنے میں ساری عمر کے لیے اپنے بیوی بچوں سے جدا ہوا اور میرا یکّہ ان کے سامنے دہلی کو چلا، وہ حادثہ ناقابلِ بیان ہے۔ آج بھی وہ ایک ایک لمحہ میرے ذہن پر نقش ہے، اور شب و روز کی گردشوں کے باوجود میں اسے بھول نہ سکا۔

  • ایک قیدی کا اعلیٰ کردار

    ایک قیدی کا اعلیٰ کردار

    ایک دفعہ اتوار کے دن میں اپنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک سپرنٹنڈنٹ صاحب ہمارے نمبر میں پہنچے، اور تمام قیدیوں کی تلاشی کا حکم دیا۔ یکے بعد دیگرے سب کی تلاشی ہوئی۔ جب میرے بستر کی تلاشی ہوئی تو اس میں تھوڑا سا پسا ہوا نمک برآمد ہوا اور یہ ایسا قصور تھا کہ اس کی پاداش میں کوڑوں کی سزا ہو جایا کرتی تھی۔

    جب یہ برآمد شدہ نمک سپرنٹنڈنٹ کے سامنے پیش ہوا تو میں حیران تھا کہ کیا جواب دوں۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ صندل نامی ایک مسلمان قیدی جو انبالہ جیل سے میرے ساتھ آیا تھا اور میری خدمت کیا کرتا تھا، کہنے لگا کہ یہ بستر اور نمک تو میرا ہے، مولوی صاحب کا نہیں۔

    سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا یہ کیسے؟ اس نے کہا کہ حضور کے تشریف لانے سے پہلے میں اور مولوی صاحب پیشاب کرنے کے لیے بیت الخلاء میں گئے تھے کہ اسی اثنا میں آپ آگئے، ہم جلدی جلدی جو دوڑ کر آئے تو گھبراہٹ میں ایک دوسرے کے بستر پر بیٹھ گئے۔

    سپرنٹنڈنٹ یہ بیان سن کر بہت ہنسا اور کہنے لگا کہ تم مولوی صاحب کو بچانا چاہتے ہو، اس کے بعد نمبر سے باہر جہاں کوڑے لگائے جاتے تھے، ہم دونوں کو لے گیا، دوسرے جن قیدیوں کے بستروں سے کچھ نکلا تھا، انھیں کوڑے لگنے شروع ہوئے، جب سب کو کوڑے لگ چکے تو پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر صندل سے پوچھنے لگا کہ کیا یہ سچ ہے کہ یہ نمک اور بستر تمھارا ہے، مولوی صاحب کا نہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! نمک اور بستر تو میرا ہے، آگے آپ کو اختیار ہے۔

    یہ جواب سن کر اس نے ہم دونوں کو بری کر دیا اور کچھ سزا نہ دی۔ اور صندل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اچھا اگر تم مولوی صاحب کو بچانا چاہتے ہو تو ہم نے تم کو بھی معاف کردیا، آئندہ محتاط رہنا۔

    (یہ واقعہ جعفر تھانیسری کے انڈمان جزائر میں قید و بند کے دوران دوستی اور ایثار کی ایک مثال ہے جو ان کی تحریر کردہ کتاب تواریخِ عجیب المعروف بہ کالا پانی سے نقل کیا گیا ہے، یہ کتاب 1884ء میں شائع ہوئی تھی۔ مصنّف بیس سال تک قید رہے اور 1866ء میں رہائی پائی۔)

  • نیپالی وزیراعظم بھارت کے خلاف میدان میں آگئے

    نیپالی وزیراعظم بھارت کے خلاف میدان میں آگئے

    کھٹمنڈو : نیپال کے وزیراعظم کے پی اولی نے کہا ہے کہ کالا پانی کا علاقہ نیپال،بھارت اورتبت کے درمیان سہ فریقی مسئلہ ہے، بھارت فوری طور پر اپنی فوج کالا پانی سے نکالے۔

    تفصیلات کے مطابق نیپال کے وزیراعظم کے پی اولی نے بیان میں کہا ہے کہ اپنی ایک انچ زمین بھی کسی کے قبضے میں نہیں رہنے دیں گے، بھارت فوری طور پر کالا پانی سے نکل جائے، کالا پانی نیپال کا حصہ ہے۔

    اولی کا کہنا تھا کہ اس سرحدی تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، اپنی زمین کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، اگر ہم کسی اور کی زمین نہیں چاہتے تو ہمارے ہمسایہ ممالک کو بھی اپنی فوجیوں کو واپس بلانا چاہیے۔‘

    نیپالی وزیراعظم نے کہا یہ نقشے کی بات نہیں ہے، اپنی زمین واپس لینے کا معاملہ ہے، ہماری حکومت زمین واپس لے گی،ان مسائل کا حل کشیدگی سے نہیں ہو سکتا، نیپالی حکومت نیپالی عوام کی ہے اور ہم کسی کو اپنی زمین کا ایک انچ بھی نہیں لینے دیں گے۔

    اس سے قبل نیپالی وزیر اعظم اولی پر تنقید ہو رہی تھی کہ وہ کالا پانی کے معاملے کا ذکر نہیں کر رہے ہیں۔

    خیال رہے بھارت نے نئے نقشے میں کالا پانی کے علاقے کو اپنے حصے کے طورپردکھایا ہے، بھارت کے نقشے میں کالا پانی کو اپنا علاقہ قراردینے کے بعد نیپال میں بھارت کیخلاف مظاہرے کئے گئے۔

    اس معاملے پر حکمران جماعت اور حزب اختلاف دونوں متحد ہیں جبکہ نیپال کی وزارت خارجہ نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ کالا پانی نیپال کا حصہ ہے۔