Tag: کالا ہرن

  • کالے ہرن کے شکار پرپابندی لگائی جائے، درخواست گزار

    کالے ہرن کے شکار پرپابندی لگائی جائے، درخواست گزار

    لاہور: ہائی کورٹ میں کالے ہرن کے شکار پر پابندی کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی ، سماعت میں کہا گیا کہ حکومت اس نایاب جانور کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس شکیل الرحمان خان نے درخواست گزار شیراز ذکاء کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست کالے ہرنوں کی نسل کو شکار سے محفوظ بنانے کے لیے دائر کی گئی ہے۔

    درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ کالے ہرن کی نسل کی بقا کے لئے حکومت اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے جس کے سبب کالے ہرن کی اس نایاب نسل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

    یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر کالے ہرن کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔ استدعا ہے کہ عدالت حکومت کو کالے ہرن کے شکار پر پابندی عائد کرنے کا حکم دے۔

    درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس شکیل الرحمن نے وائلڈ لائف کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر پرویز حسن سے رپورٹ طلب کر لی۔

    یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے صحرائی علاقوں میں پائے جانے والے اس ہرن کی نسل نایاب ہوتی جارہی ہے۔ معروف بھارتی اداکار سلمان خان بھی کالے ہرن کے شکار کے جرم میں کئی بار جیل کے چکر لگا چکے ہیں۔

    سلمان خان کو پہلی بار 17 فروری 2006 کو جودھپور کی نچلی عدالت سے ایک سال کی سزا ہوئی تھی، جودھپور کے پاس بھواد گاؤں میں 26-27 ستمبر کی رات 1998 میں شکار کیا تھا۔کالے ہرن کے غیر قانونی شکار کے مقدمے میں 2006 میں لوئر کورٹ نے سلمان خان کو 5 برس قید کی سزا سنائی تھی تاہم سلمان خان نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنچ کردیا تھا اور وہ ضمانت پر تھے، بعد ازاں عدالت نے انہیں بری کردیا تھا۔

    نر کالے ہرن کا وزن عام طور پر 34-45 کلوگرام ہوتا ہے اور کندھے تک اس کی انچائی 74-88 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ مادہ کالے ہرن کی بات کریں تو اس کا وزن 31-39 کلوگرام ہوتا ہے اور انچائی نر سے ذرا کم ہوتی ہے۔

    مادہ بلیک بک بھی نر کی طرح سفید رنگ لیے ہوتی ہے۔ دونوں کی آنکھوں کے چاروں طرف، منہ، پیٹ کے حصے اور پیروں کے درمیان والے حصوں کا سفید رنگ ہوتا ہے۔ دونوں کی شناخت میں سب سے بڑا عنصر سینگ کا ہوتا ہے۔ نر کے لمبے سینگ ہوتے ہیں جبکہ مادہ میں ایسا نہیں ہوتا۔

    کالے ہرن کو اس لیے بھی خطرات لاحق ہیں کہ یہ گھنے جنگلوں کے بجائے میدانی علاقوں کا جانور ہے اور آبادی کا دباؤ بڑھنے سے ان کے لیے میدانی علاقے کم سے کم ہوتے چلے جارہے ہیں جس سے ان کا قدرتی مسکن خطرے میں ہے۔

  • محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی جانب سے کالے ہرن کے شکار کی دعوت

    محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی جانب سے کالے ہرن کے شکار کی دعوت

    بہاولپور: صوبہ پنجاب کے محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے نایاب کالے ہرن اور چنکارہ کے شکار کا مقابلہ منعقد کرنے کا اعلان کردیا۔

    صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور میں محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے نایاب کالے ہرن اور چنکارہ کے شکار کے لیے باقاعدہ مقابلہ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    بہاولپور کے سفاری پارک میں ایک طرف نایاب جانوروں کے تحفظ کی تلقین کرتا بورڈ لگا ہے دوسری طرف حکومتی سرپرستی میں ہنٹنگ ایریا بنایا گیا ہے جہاں شکاریوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا جارہا ہے۔

    deer-1
    مقامی روزنامے میں محکمہ کی جانب سے شائع شدہ اشتہار

    پارک میں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے تحت ’کالے ہرن کا شکار ۔ ایک صحت مند سرگرمی‘ کا بینر بھی آویزاں ہے۔

    کالے ہرن کے شکار کے لیے 2 لاکھ روپے جبکہ چنکارہ کے شکار کی قیمت 75 ہزار روپے وصول کی جارہی ہے۔

    نایاب کالے ہرن کا شکار کرنے والے ممبران قومی اسمبلی کے خلاف مقدمہ *

    پارک کے ایک گارڈ نے انکشاف کیا کہ روزانہ یہاں تقریباً 16 کالے ہرن اور چنکارہ شکار کیے جاتے ہیں۔

    یاد رہے کہ بہاولپور کے صحرائے چولستان میں کالے ہرن کی نسل معدوم ہوگئی تھی جس کے بعد امریکا اور نیدر لینڈز نے اس نایاب نسل کو زندہ رکھنے کے لیے مالی معاونت کی۔ اس کے باوجود اب حکومت پنجاب ان عطیات کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا سامان مہیا کررہی ہے۔

    واضح رہے کہ متنوع جنگلی حیات کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان شکاریوں کے لیے ایک جنت ہے جہاں کالے ہرن، چنکارہاور تلور کے شکار کے لیے غیر ملکی شکاری بھی آتے ہیں۔

    کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟ *

    اس سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے تلور کے شکار پر پابندی عائد کی گئی تھی تاہم رواں برس کے آغاز میں سپریم کورٹ نے ہی اس پابندی کو کالعدم قرار دے دیا۔