Tag: کبوتر

  • کبوتر کیمرہ : پیغام رسانی سے خفیہ جاسوسی کی حیران کن داستان

    کبوتر کیمرہ : پیغام رسانی سے خفیہ جاسوسی کی حیران کن داستان

    ماضی میں اپنے پیغامات، خطوط بھیجنے اور جاسوسی کے لیے کبوتر کو باقاعدہ خصوصی تربیت دے کر استعمال کیا جاتا تھا جو کافی حد تک کامیاب طریقہ کار بھی تھا۔

    ایسے کبوتر دور دراز علاقوں تک اڑان بھر کر پیغام پہنچانے کا کام کرتے تھے، انہیں صرف گھروں میں پیغام پہنچانے کے لیے ہی نہیں بلکہ میدان جنگ میں پیغام رسانی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

    عام پرندوں کو گھر کا پتہ سمجھ میں نہیں آتا لیکن کبوتروں میں ایک قدرتی صلاحیت ہوتی ہے جسے گھر واپسی کی جبلت اور انگریزی میں ہومنگ انسٹنکٹ کہا جاتا ہے۔

    جس کے ذریعے وہ اپنی آبائی جگہ کو پہچاننے اور وہاں واپس پہنچنے میں مہارت رکھتے ہیں، چاہے انہیں کتنی ہی دور کیوں نہ لے جایا جائے۔

    اس صلاحیت کا تعلق ان کے اندر موجود مخصوص مقناطیسی حس سے ہے، جس کی بدولت وہ زمین کے مقناطیسی میدان کو محسوس کرکے سمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

    واشنگٹن ڈی سی کے انٹرنیشنل اسپائی میوزیم میں دنیا بھر کے جاسوسی آلات کا سب سے بڑا عوامی ذخیرہ موجود ہے۔

    اس میوزیم میں قلم کی شکل کے خفیہ آلات سے لے کر خصوصی گاڑیاں تک شامل ہیں، جو کئی ممالک اور دہائیوں پر محیط ہیں۔ مگر بالکل فلمی طرز پر، جیسا کہ ایم آئی سکس کی "کیو” لیبارٹری میں نظر آتا ہے، ان میں سے بعض چیزیں حیران کن اور کسی حد تک خوف پیدا کرنے والی بھی ہیں۔ ان ہی میں ایک کبوتر کیمرہ بھی ہے۔

    کبوتر سے پیغام رسانی کا آغاز تقریباَ تین ہزار سال قبل فراعین مصر کے دور میں ہوا، جس میں سلیمان بادشاہ نے 1010 قبل مسیح میں اس کا استعمال کیا۔

    مسلمانوں نے 567 ہجری میں نور الدین زنگی کے دور میں شام اور مصر میں کبوتروں کو تربیت دے کر پیغام رسانی کا باقاعدہ نظام بنایا اور 1150ء میں بغداد میں سلطان نے اس نظام کو مزید منظم کیا۔ یہ طریقہ کار ایشیا اور یورپ میں چنگیز خان کے ذریعے پھیلایا گیا اور فرانسیسی انقلاب میں بھی اس کا استعمال جاری رہا۔

    انسان نے جنگوں میں اکثر جانوروں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔ مثال کے طور پر ڈولفن اور سی لائینز کو بارودی سرنگیں ڈھونڈنے پر لگایا گیا، چمگادڑوں پر چھوٹے بم باندھے گئے اور ہاتھیوں کو ایک طرح کے "زندہ ٹینک” کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن جاسوسی اور پیغام رسانی کے لیے پرندے سب سے زیادہ موزوں ثابت ہوئے، جن میں سب سے نمایاں نام کبوتر کا ہے جس کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

    کبوتر اپنی "ہومنگ انسٹنکٹ” یعنی گھر واپسی کی جبلّت کی وجہ سے قیمتی سمجھے جاتے ہیں۔ اسی لیے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں ان کا استعمال پیغام رسانی کے لیے عام تھا، اور ان خدمات کے بدلے کئی کبوتروں کو میڈلز بھی دیے گئے (یقیناً یہ کہانیاں انہوں نے اپنے بچوں اور پوتوں کو سنائی ہوں گی)۔ اس جبلّت کی بدولت کبوتروں کو اس طرح چھوڑا جا سکتا تھا کہ وہ واپسی پر کسی اہم علاقے کے اوپر سے گزریں اور مطلوبہ معلومات حاصل ہوسکے۔

    سرد جنگ کے دوران سی آئی اے نے اس قدرتی صلاحیت کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ کبوتروں کے ساتھ ننھے کیمرے باندھے گئے تاکہ وہ قریبی فاصلے سے خفیہ تصاویر کھینچ سکیں۔

    چونکہ جہاز یا سیٹلائٹ زیادہ بلندی سے تصویریں لیتے تھے، اس لیے کبوتروں کے نیچے نصب کیمرے کی تصاویر زیادہ واضح اور کارآمد ہو سکتی تھیں۔ ان کیمروں میں یہ سہولت بھی تھی کہ یا تو فوری طور پر تصویر کشی شروع کر دیں یا یہ کام کسی طے شدہ وقت کے بعد کریں۔

    اسپائی میوزیم میں موجود کبوتر کیمرہ اصل نہیں بلکہ اس کی نقل ہے۔ اصل نمونہ سی آئی اے کے نجی میوزیم ورجینیا میں رکھا ہوا ہے۔ یہ کیمرہ پانچ سینٹی میٹر سے بھی کم چوڑا اور تقریباً 35 گرام وزنی تھا، جو اس دور کی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے نہایت جدید سمجھا جاتا تھا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق سی آئی اے کا منصوبہ یہ تھا کہ ایسے کبوتروں کو ماسکو بھیجا جائے اور خفیہ طریقے سے انہیں چھوڑا جائے مثلاً کسی گاڑی کے فرش میں بنے سوراخ سے۔ تاہم، یہ بات آج تک معلوم نہیں ہو سکی کہ کبوتروں کو حقیقت میں کتنی بار اور کہاں کہاں استعمال کیا گیا۔

  • اُس مسکین پرندے کا تذکرہ جو عہدِ قدیم سے پیامبر رہا ہے!

    اُس مسکین پرندے کا تذکرہ جو عہدِ قدیم سے پیامبر رہا ہے!

    نامہ بر کبوتروں کا وجود عہد قدیم کی ایک نہایت مشہور اور بڑی ہی دل چسپ کہانی ہے۔

    اس کا سلسلہ نصف صدی پیشتر تک بڑی بڑی آبادیوں میں جاری تھا۔ اب بھی دنیا سے بالکل مفقود نہیں ہوا ہے۔ بڑی بڑی لڑائیوں اور جنگی حصاروں کے زمانے میں ان سے کام لینا پڑتا ہے، جب نئی دنیا کی بڑی بڑی قیمتی اور مغرورانہ ایجادیں کام دینے سے بالکل عاجز ہو جاتی ہیں۔ حکومتِ فرانس نے تو اب تک ان کے باقاعدہ اہتمام اور پرورش کے کام کو باقی و جاری رکھا ہے۔ ان امانت دار پیامبروں نے دنیا میں خبر رسانی کی عجیب عجیب خدمتیں انجام دی ہیں اور احسان فراموش انسان کو بڑی بڑی ہلاکتوں سے بچایا ہے۔ جہاں انسان کی قوتیں کام نہ دے سکیں، وہاں ان کی حقیر ہستی کام آ گئی۔

    ہمارے عالم حسن و عشق کے راز دارانہ پیغاموں کے لیے اکثر انہیں سفیروں سے کام لیا گیا ہے۔ عشاق بے صبر کو ان کا انتظار قاصد بے مہر کے انتظار سے کچھ کم شاق نہیں ہوتا۔ شعراء کی کائناتِ خیال میں بھی خبر رسانی و پیامبری صرف انہی کے سپرد کر دی گئی ہے اور فارسی شاعری میں تو ’’عظیم الشان‘‘ بلبل کے بعد اگر کسی دوسرے وجود کو جگہ ملی ہے تو وہ یہی مسکین کبوتر ہے۔

    مسلمانوں نے بھی اپنے عہدِ تمدن میں ان پیامبروں سے بڑے بڑے کام لیے تھے۔ حتیٰ کہ نامہ بر کبوتروں کے اقسام و تربیت کا کام ایک مستقل فن بن گیا تھا جس میں متعدد کتابیں بھی تصنیف کی گئیں۔ ان کا ذکر تاریخوں میں موجود ہے۔

    حال میں رسالہ ’’سائنٹفک امریکن‘‘ کے ایک مضمون نگار نے نامہ بر کبوتروں کے متعلق ایک نہایت دل چسپ مضمون لکھا ہے اور بہت سی تصویریں بھی دی ہیں۔ اسے دیکھ کر مسلمانوں کے عہدِ گزشتہ کی وہ ترقیات یاد آگئیں جن کا تفصیلی تذکرہ سیرطی اور مقریزی وغیرہ نے مصر کی تاریخوں میں کیا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس مضمون کا ترجمہ ہدیۂ قارئین کرام کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے نمبر میں مسلمانوں کے عہد کی ترقیات تفصیلی طور پر درج کریں گے، اور ان واقعات کا بھی حال لکھیں گے جن میں مسلمانوں نے نامہ بر کبوتروں سے بڑے بڑے کام لیے تھے اور ان کی پرورش و تربیت کو ایک قاعدہ فن بنا دیا تھا۔

    فرانس میں نامہ بر کبوتروں کی درس گاہ
    سائنٹفک امریکن کا مقالہ نگار لکھتا ہے، ’’یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ عہد علمی میں جب کہ تار برقی اور ہوائی طیارات کی ایجادات نے دنیا کے تمام گوشوں کو ایک کر دیا ہے، ان تیز رو اور وفادار پیغامبروں کی کچھ ضرورت نہ رہی، جنہوں نے جنگِ جرمنی و فرانس میں بڑی بڑی گراں قدر خدمات انجام دی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کا یہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی ایجادات نے حالت بدل دی ہے اور اب نامہ بر کبوتر صرف چند بوڑھے شکاریوں ہی کے کام کے رہ گئے ہیں۔ مگر ایسا خیال کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ جو توجہ کہ اس وقت یورپ کی حکومتیں خصوصاً حکومتِ فرانس ان پرندوں پر کر رہی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک وہ خدمت فراموش نہیں ہوئی ہے جو ان مسکین پرندوں نے حملۂ جرمنی کے زمانے میں محصورینِ پیرس کی انجام دی تھی۔ اس وقت فرانس کے یہاں ۸۲ فوجی کبوتر خانے ہیں جو اس کے تمام قلعوں میں علی الخصوص ان قلعوں میں جو مشرقی سرحد میں واقع ہیں، پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ کبوتر خانے جو انجینئرنگ کور کے زیرِ انتظام ہیں، افزائشِ نسل اور تربیت کے لیے وقف کر دیے گئے ہیں۔

    مجھے ان فوجی کبوتر خانوں میں جانے کے لیے اور خاص اجازت حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی جو پیرس کے قلعوں کے قریب مقام Vagirard میں واقع ہیں۔ یہاں کے حکمراں افسرنے مجھے اس عجیب جانورکی افزائش اور تربیت کا نظام سمجھا دیا۔ قارئین کرام کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ ان پرندوں پر اس قدر روپیہ صرف کیا جا رہا ہے۔ سپاہی ان ننھے ننھے جانوروں کو بہت چاہتے ہیں اور ان کی تعلیمی ترقی کو سرگرم دلچسپی کے ساتھ دیکھتے رہتے رہیں۔

    مقام ویجیر رڈ اور اسی طرح دوسرے مقامات میں کبوتروں کی ڈھابلیاں مکان کی چھت پر ہوتی ہیں۔ ہر یک ڈھابلی ایک روش کے ذریعہ دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے۔ فرش پر پلاسٹر اور اس پر خشک اور متوسط درجہ کی خوشنما چٹائیوں کی ایک تہہ ہوتی ہے تاکہ ان کے پنجے نجاست میں آلودہ نہ ہوں۔ پانی کے برتن چھوٹے بنائے گئے ہیں تاکہ کبوتر نہانے میں زیادہ پانی نہ پھینک سکیں۔ لیکن جب کبھی ان ڈھابلیوں کی چھت پر بہتے ہوئے پانی کا سامان ہو جاتا ہے تو بڑے برتن رکھ دیے جاتے ہیں تاکہ وہ ان میں آزادی سے نہا دھوسکیں اور اس طرح مہلک جراثیم سے محفوظ ہو جائیں۔

    ہر خانے میں ہوا کی آمد و رفت کا عمدہ انتظام کیا گیا ہے۔ ہر کبوتر کے جوان جوڑے کو ۳۵ فٹ مکعب اور ہر بچہ کو ۹ فٹ مکعب جگہ دی گئی ہے۔ اس خیال سے کہ ہوا کی گردش میں سہولت ہو، پہاڑی یا سرد ملکوں کے علاوہ اور کہیں ڈھابلیوں کی چھتوں پر استر کاری نہیں کی جاتی۔

    ان ڈھابلیوں کا مشرق رو ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ تقریباً تمام فرانسیسی ڈھابلیوں کا رخ شمال اور شمال و مشرق نیز طوفان آب کے تمام رخوں کے بالکل مخالف ہوتا۔ اس کا خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ ڈھابلیاں ٹیلی گراف یا ٹیلی فون کے دفتر کے پاس نہ بنائی جائیں جن کے تار اڑنے میں ٹکرا کے انہیں زخمی کر سکتے ہیں۔

    بڑے بڑے درخت اور اونچی اونچی عمارتیں بھی قابل اعتراض سمجھی جاتی ہیں۔ کیوں کہ ان کی وجہ سے ان کبوتروں کو بآسانی بیٹھنے کے مواقع مل جاتے ہیں اور اڑنے سے جی چرانے لگتے ہیں۔ کترنے والے جانوروں مثلاً Ordents کی روک کے لیے شیشہ دار پنجرے چوکھٹوں میں رکھے جاتے ہیں۔ پاس کی چمنی پر لوہے کا جال تنا رہتا ہے تاکہ چمنی میں بچے نہ گر سکیں۔ تمام کبوتر خانوں اور انجینئرنگ کور کے دفتروں میں ٹلی فون لگا ہوا ہے۔

    یہ قاعدہ ہے کہ ہر کبوترخانے میں ۱۰۰ کبوتر ایسے ہوتے ہیں جو فراہمی فوج میں شرکت کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ اس مفید طاقت کے قائم رکھنے کے لیے دو کمرے ایک سو تیس جوان کبوتروں کے، ایک کمرہ دو سو بچوں کا جو اسی سال پیدا ہوئے ہوں، ایک جنوب رو شفاخانہ (infirmary) اور ایک دار التجربہ (Laboratory) درکار ہوتا ہے۔

    ان خانوں میں رکھنے کے لیے کبوتر ان بچوں میں سے انتخاب کیے جاتے ہیں جن کی عمر ابھی ۴ ہفتہ ہی کی ہوتی ہے اور جو ابھی تک اپنے ان پیدائشی خانوں سے نہیں نکلے ہوتے جن میں وہ پیدا ہوئے ہیں۔

    صحت اور غذا کی نگرانی کے خیال سے پہلے ۴ یا ۵ دن تک ان کی دیکھ بھال رہتی ہے۔ اس کے بعد خانے سے نکلنے اور ادھر ادھر اڑتے پھرنے میں اس طرح حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ بغیر ڈرائے ہوئے (تاکہ وہ اپنے داخلے کا دروازہ پہچان سکیں) نکل بھاگنے کا انہیں موقع دیا جاتا ہے۔ یہ تربیت روز تین بجے دن کو کی جاتی ہے۔

    جب اس نوآبادی میں جوان کبوتر ملا دیے جاتے ہیں تو یہ مشق بہت دیر تک جاری رہتی ہے۔ تازہ وارد کبوتر پہلے تو ایک معتدبہ زمانے تک علیحدہ بند رہتے ہیں۔ اس کے بعد پرانے رہنے والوں کے ساتھ ملا دیے جاتے ہیں۔ آخر میں ان کی اگلی پانچ پانچ یا چار چار کلیاں دو دو انچ کے قریب کتر دی جاتی ہیں تاکہ موسم بھر اڑ نہ سکیں۔ جب جھاڑنے کا زمانہ آتا ہے تو ان کتری ہوئی کلیوں کی جگہ پوری پوری نئی کلیاں نکل آتی ہیں۔

    قابلِ خدمت ٹکڑیوں میں (ٹکڑیاں فوجی اصطلاح میں کور Corps کہلاتی ہیں) ماہ مئی کے قریب دو برس سے لے کر آٹھ برس تک کے ۱۰۰ کبوتر ہوتے ہیں۔ ان میں اکتوبر تک ۶ محفوظ کبوتر اور ۱۸ مہینے کے ایسے ۲۳ پٹھے نوجوان بڑھا دیے جاتے ہیں جو تعلیمی معرکوں میں حصہ لے چکے ہیں۔

    کھانے کے لیے سیم، مٹر اور مسور کا اکرا دیا جاتا ہے جو برابر سال بھر تک جمع ہوتا رہتا ہے۔ اکرے کی مقدار فی کبوتر تقریباً ڈیڑھ اونس ہوتی ہے جو تین وقتوں میں یعنی صبح، دوپہر اور ۳ بجے دن کو دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی، چونا، دریا کی عمدہ بالو، انڈے کے چھلکے اور گھونگے بھی ہم وزن پسے ہوئے ملتے ہیں۔ یہ مرکب جسے نمک آمیز زمین (Salted Earth) کہتے ہیں، ہمیشہ ان کے پنجروں میں پڑا رہتا ہے۔

    بہار کے زمانے میں اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ دو ہلکے یا دو بہت ہلکے رنگ کے کبوتروں میں یا نہایت ہی قریبی رشتہ دار کبوتروں میں، یا ایک دوسرے سے بے حد ملتے ہوئے کبوتروں میں جوڑا نہ لگنے پائے۔ جوڑا صرف انہی کبوتروں میں قائم کرنا چاہیے جن کی آنکھوں اور پروں کے رنگ مختلف ہوں۔ چھوٹے بڑے، جوان بوڑھے، باہم مانوس اور غیر مانوس کبوتروں میں اوٹ ضرور بنا دینی چاہیے۔
    جب چند دنوں تک ایک ساتھ علیحدہ بند رہنے سے جوڑا لگ جائے تو پھر انہیں کمرہ میں آزادی سے پھرنے دینا چاہیے۔ جوڑا لگنے کے بعد سے۴۰ دن کے اندر مادہ انڈے دیتی ہے اور اس کے بعد ۱۷ دن تک سیکتی ہے۔ جب بچے ۴ یا ۵ ہفتے کے ہو جاتے ہیں اور دانہ چگنے لگتے ہیں تو ماں باپ سے علیحدہ کر کے ایک ایسے جنوب رویہ کمرہ میں رکھ دیے جاتے ہیں جس میں زائد سے زائد دھوپ آتی ہو۔ کسی دوسری جھولی کے یا موسم خزاں کے انڈے نہیں رکھے جاتے۔ کیونکہ ان کے بچے موٹے ہوتے ہیں اور بے قاعدہ پر جھاڑنے لگتے ہیں۔

    (انشاء پرداز اور صاحبِ طرز ادیب ابوالکلام آزاد کے ایک مضمون سے اقتباس، اندازہ ہے کہ یہ تحریر لگ بھگ سات، آٹھ دہائیاں پرانی ہے)

  • مسجد الحرام کے قریب موجود کبوتروں کے جھنڈ نے زائرین کے دل موہ لئے

    مسجد الحرام کے قریب موجود کبوتروں کے جھنڈ نے زائرین کے دل موہ لئے

    سعودی عرب میں دنیا کے مختلف ممالک سے عازمین حج کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مکہ مکرمہ کی سڑکوں پر موجود کبوتر بھی آنے والے زائرین کا اپنے پروں کو پھیلا کر استقبال کرتے نظر آرہے ہیں۔

    سعودی خبر رساں ادارے اخبار 24 کے مطابق عازمین حج اور زائرین مکہ مکرمہ کے کبوتروں سے خاص انسیت رکھتے ہیں۔ یہ مکہ کی سڑکوں پر جھنڈ کی صورت میں اڑتے ہیں اور نہایت ہی حسین منظر پیش کرتے ہیں۔

    دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے زائرین ان کبوتروں کو دانہ ڈالتے اور ان کے ساتھ یادگاری تصاویر بنواتے نظر آتے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق مکہ مکرمہ کے تمام علاقوں میں یہ کبوتر کثرت سے پائے جاتے ہیں جو اپنی لمبی گردن اور نمایاں رنگ کی وجہ سے خاص شہرت رکھتے ہیں۔

    مکہ مکرمہ کی سڑکوں پر موجود یہ کبوتر نہ صرف اہل مکہ بلکہ دیگر ممالک سے آنے والوں کیلیے بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں، ان کبوتروں کا شکار شرعی طور پر منع ہے۔

    ان کبوتروں کی نشو و نما میں سالانہ بنیادوں پر غیرمعمولی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔خاص طور پر مسجد الحرام کے اطراف میں پائے جانے والے کبوتر جنہوں نے قریبی عمارتوں پر اپنے گھونسلے بنائے ہوئے ہیں۔

    مسجد نبویؐ میں ہلال احمر نے زائر کی زندگی بچالی

    مکہ مکرمہ میں مختلف اقسام کے کبوتر پائے جاتے ہیں جبکہ ان کے نام بھی مختلف ہیں جو ان کی نسل کی پہچان کیلیے رکھے گئے ہیں۔

  • کبوتروں کی میراتھن ریس، جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے

    کبوتروں کی میراتھن ریس، جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے

    صوبہ بلوچستان کے ضلع آواران میں کبوتروں کی ایسی میراتھن ریس منعقد کی جاتی ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، ساڑھے 5 سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے ان کبوتروں کو سخت ٹریننگ دی جاتی ہے۔

    بلوچستان میں مختلف کلبز کے زیر اہتمام ان کبوتروں کی میراتھن منعقد کی جاتی ہےجس کی فنشنگ لائن 560 کلو میٹر دور ہوتی ہے، جس کے بعد کبوتر واپس اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔

    یہ فاصلہ 5 سے 6 گھنٹے کے دوران طے ہوتا ہے، حال ہی میں منعقد ہونے والی ریس کا فاتح کبوتر یہ فاصلہ ساڑھے 5 گھنٹے میں طے کر کے واپس لوٹا۔

    ریس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ریس شروع ہونے سے قبل کبوتروں کو نشان لگا کر انہیں کوڈ نمبر دیے جاتے ہیں۔

    ان کبوتروں کے مالکان کا کہنا ہے کہ کبوتروں کے لیے لاکھوں روپے کی امپورٹڈ ادویات اور خوراک کا انتظام کیا جاتا ہے، ان کی ٹریننگ کے مختلف مرحلے ہیں جس کا آغاز 5 سے 10 کلو میٹر تک اڑانے سے ہوتا ہے، رفتہ رفتہ یہ فاصلہ 100 کلو میٹر تک بڑھایا جاتا ہے۔

  • سعودی عرب: کبوتر کے گوشت کی طلب میں اضافہ

    سعودی عرب: کبوتر کے گوشت کی طلب میں اضافہ

    ریاض: سعودی عرب میں کبوتر کی گوشت کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے جس کے بعد کبوتر کی پیداوار میں اضافے کے لیے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں۔

    سعودی عرب کی ماحولیات، پانی اور زراعت کی وزارت نے بتایا ہے کہ اس نے سنہ 2025 تک مقامی سطح پر کبوتروں کی سالانہ پیداوار کو 280 فیصد اضافے کے ساتھ 4.5 کروڑ تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

    اس سلسلے میں زرعی کمپنیوں کو اس میدان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے علاوہ دیگر مطلوبہ اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔

    وزارت کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اس وقت پیداواری صلاحیت میں اضافے کی کوشش کر رہی ہے، اس کا مقصد کبوتروں کے گوشت کی بڑھتی مانگ کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

    وزارت کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں کبوتروں کی سالانہ پیداوار 1.6 کروڑ ہے جو 12.25 ہزار ٹن گوشت کے مساوی ہے، اس وقت کبوتروں کی پیداوار سے متعلق 100 سے زیادہ منصوبے چل رہے ہیں۔

  • معصوم صورت کبوتر ہمیں کیسے بیمار کر رہے ہیں؟

    معصوم صورت کبوتر ہمیں کیسے بیمار کر رہے ہیں؟

    آپ نے اکثر اپنے شہر کے کئی مقامات پر پرندوں کے لیے دانہ پانی رکھا دیکھا ہوگا جہاں دیگر پرندوں سے زیادہ کبوتروں کے غول کے غول موجود ہوتے ہیں۔

    فطرت کا مشاہدہ کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اب شہروں میں مینا اور چڑیا کی آبادی کم ہوتی جارہی ہے اور ان کی جگہ کبوتر کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے اور جگہ جگہ ان کبوتروں کے لیے باجرہ رکھا جارہا ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں اس طرح کبوتر کی آبادی میں دن بدن اضافہ ہمارے لیے کس قدر خطرناک ہے؟

    عام کبوتر جنہیں بلو راک پیجن کہا جاتا ہے، بنیادی طور پر مکھی، مچھر اور چھوٹے کیڑے مکوڑے کھانے والے پرندے ہیں، انہیں باجرہ کھلانا خود ان کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    دوسری جانب ان کی آبادی میں اضافہ انسانی آبادی کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کبوتر کا فضلہ یا بیٹ تیزابیت سے بھرپور ہوتا ہے جو انسانوں میں استھما کا سبب بن سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق اگر کسی گھر کے افراد میں سانس کی بیماریوں یا استھما کی شکایات میں اضافہ ہورہا ہے، تو اس پر غور کیا جائے کہ اس گھر کی بالکونیوں، ٹیرس اور کھڑکیوں پر کبوتر کی بیٹ تو موجود نہیں۔

    اس خشک بیٹ سے ہوا ٹکرا کر جب گھر کے اندر آتی ہے تو یہ ہوا نہایت نقصان دہ ہوتی ہے۔

    علاوہ ازیں ان کے پر بھی بہت جھڑتے ہیں جن کے کچھ حصے سانس کے ساتھ ہمارے اندر بھی جاسکتے ہیں اور سانس کے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

    چنانچہ اب سے اس معصوم صورت پرندے پر ترس کھا کر اسے باجرہ نہ کھلائیں، اگر آپ ان کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے صرف اور صرف پانی رکھیں۔

  • زمانہ قدیم کی ڈاک اور کبوتروں کا شجرۂ نسب

    زمانہ قدیم کی ڈاک اور کبوتروں کا شجرۂ نسب

    پچھلے زمانے میں ان کبوتروں کی ڈاک سے شاہانِ وقت اور امرائے زمانہ نے اس قدر فوائد حاصل کیے ہیں کہ غالباً آج کل تمام دنیا کے کبوتروں کی تجارت میں اس قدر زمانہ منتفع نہ ہوتا ہوگا۔

    تاریخ کی کتابوں میں یہ مثل اور واقعات کے تاریخی حیثیت سے لکھا جاتا ہے اور علمِ ادب کی کتابیں اس حیوان کی صفات سے بھری پڑی ہیں۔

    اس وقت ہمارے سامنے علامہ جلال الدین سیوطی کی عجیب و غریب کتاب حسن المحاضرہ اخبار مصر و القاہرہ اور علامہ ابن فضل اللہ دمشقی کی التعریف بالمصطلح الشریف رکھی ہوئی ہیں اور ہم ان کی ورق گردانی سے اپنی انتشارِ طبیعت کی گردش کو دور کر رہے ہیں۔ ان دونوں کتابوں میں کبوتروں کی ڈاک کی پوری کیفیت اور احوال نہایت ہی دل چسپ طریقے سے تحریر کیے گئے ہیں۔

    ہم قارئین کی دل چسپی کے لیے ان دونوں مستند کتابوں اور نیز بعض اور ادب کی معتبر کتابوں سے (مثل مصنفات قاضی محی الدین اور کاتب عماد وغیرہ وغیرہ کے اور بعض مغربی تصنیفات سے) کچھ ان کا حال ترجمہ کر کے ترتیب دیتے ہیں جس سے ہماری نئی روشنی کے پرستاروں کو معلوم ہوگا کہ ’’ایجادات‘‘ کا سلسلہ کچھ اس نئے زمانے ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ پچھلے زمانوں میں بھی حیرت انگیز ایجادات کا سلسلہ دیکھنے والوں کو متعجب بنا چکا ہے۔

    ہم کو خوف ہے کہ کوئی صاحب ہمارے اس بیان کو شاعرانہ خیال پر محمول نہ فرمائیں کیوں کہ بلبل کے نغموں اور کبوتر کی نامہ بری کو حضرات شعرا نے بالخصوص بہت چھکایا ہے اور ان کی دیوانِ اوّل سے آخر تک اس کے بیانات سے بھرے پڑے ہیں۔ مگر نہیں! اس وجہ سے کسی ایسے تاریخی واقعے کی صحّت میں جس سے تمام مستند تاریخیں مالا مال ہوں کچھ فرق نہیں آ سکتا۔

    اس کا موجد کون ہے؟
    اس امر کا پتہ لگانا دراصل نہایت مشکل ہے کہ اس کا موجد کون ہے؟ مغربی اور مشرقی تاریخیں اس بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ ہاں اسلامی تاریخ اس امر کا ضرور پتہ دیتی ہے کہ اسلامی سلسلۂ سلطنت میں سب سے پہلے نور الدین محمود زنگی کے وقت میں اس کی ابتدا ہوئی اور گویا اسلام میں اس کی داغ بیل ڈالنے والا نور الدین ٹھہرا۔

    بعض تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس زمانے میں شام اور مصر پر یورپ کے متواتر حملے ہو رہے تھے اور بے خبری کے سبب سے موقع پر کسی قسم کی شاہی فوج نہیں پہنچ سکتی تھی، اس وقت نور الدین محمود زنگی نے کبوتروں کی ڈاک اپنے تمام قلمرو میں قائم کی۔ اور ان کے ذریعے سے خبر رسانی کا انتظام کیا۔

    اس کا فائدہ یہ ہوا کہ یورپ کی دست اندازیوں سے پہلے سلطان کو خبر ہو جایا کرتی تھی اور وہ موقع پر فوج بھیج کر اس کا کافی انسداد کر دیتا تھا۔ اس طریقے کے برتنے سے تھوڑے ہی دنوں میں سلطان کی سلطنت امن و امان میں آ گئی اور ہر طرف اس کے انتظام کا ڈنکے بجنے لگے۔

    لیکن اب بحث طلب یہ امر ہے کہ سلطان نے کس سن میں یہ انتظام کیا؟ جس سے یہ نتیجہ نکل سکے کہ اسلام میں کس سن سے اس ڈاک کی ابتدا ہوئی۔ مؤرخین کو اس میں اختلاف ہے مگر ہمارے نزدیک سب سے زیادہ مستند قول یہ ہے کہ ’’یہ انتظام 567ھ میں ہوا۔‘‘ پس مسلم دنیا میں اس طریقہ کو رائج کرنے والا جسے اضافی حیثیت سے موجد کہنا چاہیے، ’نور الدین محمود زنگی‘ ہے۔

    نورالدین کے بعد مشہور اسلامی فاتح صلاح الدین کے زمانے میں بھی اس سے کام لیا گیا۔

    بغداد میں بھی خلیفہ الناصر الدین اللہ نے ادھر خاص توجہ کی تھی اور ایک محکمہ کبوتروں کی غور و پرداخت کے لیے قائم کیا تھا۔ مصر میں جس وقت اس کی قسمت کی باگ فاطمی خلفا کے ہاتھ میں تھی، کبوتروں کی ڈاک کا بہت رواج تھا۔ ان لوگوں نے بہ نسبت اور بادشاہوں کے اِدھر زیادہ توجہ کی تھی۔

    کبوتروں کی تعلیم اور ان کی غور و پرداخت
    ہر ایک قسم کے کبوتروں میں نامہ بری کے لیے ’’موصل‘‘ کے کبوتر سب سے اعلیٰ گنے جاتے تھے اور ان کو مناسیب کہتے تھے۔ اور پھر ان کبوتروں میں خاص خاص نسل کے کبوتر عمدہ اور قیمتی گنے جاتے تھے۔

    چنانچہ بغداد میں خلیفۂ ناصر کے وقت میں ایک ایک موصلی عمدہ کبوتر ہزار ہزار دینار تک فروحت ہوتا تھا۔ ان کے خاص خاص شجرۂ نسب ہوا کرتے تھے اور نسب نامے بڑی تحقیق کے ساتھ لکھے جاتے تھے۔ ان کی غور پرداخت کے لیے خاص ایک وسیع محکمہ قائم کیا گیا تھا (یہ محکمہ 591 ہجری میں قائم کیا تھا) جن میں ان کی تعلیم کے لیے اس فن کے جاننے والے مقرر کیے جاتے تھے۔ اور اس محکمہ میں اس قسم کی کتابیں تصنیف ہوئی تھیں، جن میں ان کے نسب نامے اور طریقہ تعلیم وغیرہ بطور دستورالعمل کے درج ہوں۔

    چناں چہ قاضی محی الدین بن ظاہر نے ایک کتاب ان کے عادات، خصائل اور طریقِ پیغام رسانی پر لکھی ہے جس کا نام تمائم الحاتم ہے۔ الغرض ان کی غور پرداخت کی طرف خاص توجہ تھی اور بڑی محنتوں اور صرفِ کثیر کے بعد کہیں ان سے مفید کام لیے جاتے تھے۔

    (ہندوستان کے صاحبِ اسلوب ادیب اور انشا پرداز ابوالکلام آزاد کے مضمون سے اقتباس)

  • کبوتر کی کھوپڑی میں سوئی آر پار پھنس گئی، جان بچانے کے لیے پیچیدہ آپریشن

    کبوتر کی کھوپڑی میں سوئی آر پار پھنس گئی، جان بچانے کے لیے پیچیدہ آپریشن

    لمبارڈی: اٹلی کے علاقے لمبارڈی کے شہر مونزا میں ایک کبوتر کی کھوپڑی میں سرنج کی سوئی آر پار پھنس گئی تھی، جس کا آپریشن کر کے کبوتر کو بچا لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈارڈو نامی نر کبوتر کے بارے میں یہ اندازا لگایا گیا ہے کہ وہ کسی ظالم شخص کے ظلم کا تختہ مشق بنا تھا، جس نے اس کے سر میں سرنج کی 3 انچ لمبی سوئی چھبو دی تھی جو آر پار ہو گئی تاہم کبوتر کی خوش قسمتی تھی کہ ایک نازک آپریشن کے بعد سوئی نکال کر اسے بچا لیا گیا۔

    یہ کبوتر لمبارڈی کے شہر مونزا کے ویلا ریئل پارک میں دیکھا گیا تھا، لیکن دس دنوں تک پکڑے جانے سے بچا رہا، آخر کار بڑی کوششوں کے بعد مراکش سے تعلق رکھنے والے کتوں کے ایک ٹرینر سعید بائد نے اسے دو اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر پکڑ لیا۔

    کبوتر کو آکسیجن ماسک لگایا جا رہا ہے، سر میں آر پار گھسی ہوئی سوئی بھی واضح نظر آ رہی ہے

    سعید بائد نے مقامی اخبار کو بتایا کہ وہ روزانہ صبح 7 بجے پارک کھلنے پر وہاں پہنچ جاتے ہیں، انھوں نے کئی دنوں تک کبوتروں کے دو گروپس کی حرکات و سکنات نوٹ کیں، جس کبوتر کی کھوپڑی میں سوئی پھنسی تھی وہ دن میں تین مرتبہ خوراک کے لیے درخت سے نیچے اترتا تھا، اور دوسرے گروپ سے دور رہتا تھا، ہو سکتا ہے اس خوف کی وجہ سے کہ کوئی اس کے سر کو چھو نہ لے۔

    پیچیدہ آپریشن کے بعد کبوتر کی کھوپڑی سے نکالی گئی سرنج کی سوئی

    سعید کا کہنا تھا کہ انھوں نے بہت احتیاط کے ساتھ کئی دن تک کبوتر کو پکڑنے کی کوشش کی، آس پاس دوسرے لوگ بھی یہ مشن سمجھ گئے تھے، آخر کار پکڑے جانے کے بعد کبوتر کو جانوروں کے کلینک سرجری کے لیے لے جایا گیا۔

    اٹلی کے شہر میں رہائش پذیر، مراکش سے تعلق رکھنے والے کتوں کے ٹرینر سعید بائد

    انھوں نے بتایا کہ خوش قسمتی سے سوئی نے کبوتر کی آنکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا، یقیناً یہ سوئی کسی ظالم شخص نے اس کے سر میں قصداً چھبوئی ہوگی۔ کبوتر کا آپریشن کر کے سوئی نکالنے والے ویٹرنری ڈاکٹر ولیریا پیلیگرینو کا کہنا تھا کہ جب کبوتر ان کے پاس لایا گیا تو سوئی اس کی کھوپڑی کی سامنے والی ہڈی میں گھس کر پچھلی ہڈی سے باہر نکلی ہوئی تھی تاہم دماغ محفوظ رہا تھا۔

    ڈاکٹر نے کبوتر کے سر کے ایکسرے کے بعد پیچیدہ سرجری کی اور کامیابی کے ساتھ سوئی کو نکال لیا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔

  • جان جیکب کا کبوتر گھر جو آج بھی آباد ہے

    جان جیکب کا کبوتر گھر جو آج بھی آباد ہے

    جیکب آباد صوبہ سندھ کا وہ شہر ہے جو برطانوی دور کے ایک انگریز افسر جان جیکب کے نام سے موسوم ہے۔

    جان جیکب نے اس شہر کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس زمانے میں جب اہم سرکاری امور کی انجام دہی اور دیگر شہروں سے رابطے اور آمدورفت میں دشواری پیش آئی تو جان جیکب نے متعدد انتظامات کیے۔ اس وقت خط و کتابت اور پیغام رسانی بھی ایک بڑا مسئلہ تھا جس کا حل کبوتر جیسے خوب صورت اور معصوم پرندے کی شکل میں نکالا گیا اور یہ پیغام رسانی اور جاسوسی کے کام آیا۔

    جیکب آباد میں جنرل جان جیکب نے 1860 میں ایک کبوتر گھر تعمیر کروایا تھا جو آج بھی اس دور کی خوب صورت یادگار کے طور پر موجود ہے۔

    یہ صوبہ سندھ میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد کبوتروں کی نرسری تھی جسے انگریز افسر نے ابلاغی نظام اور جاسوسی کے مقصد کے تحت اپنی رہائش کے احاطے میں تعمیر کروایا تھا۔

    یہ کبوتر گھر 30 فٹ بلند ہے جس میں تین سو سے زائد آشیانے بنائے گئے ہیں اور یہ آج بھی کبوتروں کا مسکن ہے۔ تاہم اس عمارت کی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور رنگ پھیکا پڑ چکا ہے جب کہ صفائی ستھرائی کا خیال تو جان جیکب سے زیادہ کوئی رکھ ہی نہیں سکتا جسے اپنے ان کبوتروں سے بہت پیار تھا۔

  • گھوڑے کی کبوتروں کو دانہ چگنے میں مدد

    گھوڑے کی کبوتروں کو دانہ چگنے میں مدد

    آپ نے جانوروں کی آپس میں محبت و دوستی کی بے شمار کہانیاں سنی ہوں گی، لیکن امریکا کے اس گھوڑے کا عمل نہایت منفرد ہے جو خود قید ہونے کے باوجود ننھے پرندوں کا خیال رکھتا ہے۔

    امریکی شہر نیویارک کے ٹرمپ ٹاور کے باہر کسی سیاح نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی جس میں ایک گھوڑا اپنے آس پاس بیٹھے پرندوں کو دانہ چگنے میں مدد دے رہا ہے۔

    ان کبوتروں کے کھانے کے لیے ایک برتن میں دانہ موجود تو ہے لیکن وہ بہت گہرا ہے اور کبوتروں کے لیے اس میں اترنا ذرا مشکل ہے۔

    ان کے قریب کھڑے تانگے میں جتے گھوڑے نے ان کی مدد کی اور برتن میں منہ ڈال کر دانہ نکال کر کبوتروں کے آگے ڈھیر کردیا۔

    کبوتر گھوڑے کی اس مدد سے نہایت خوش ہوئے اور پھدک پھدک کر دانہ چگنے میں مگن ہوگئے۔