Tag: کبوتر بازی

  • کبوتر بازی کا انجام خوں ریز جھگڑا، لاشیں گر گئیں

    کبوتر بازی کا انجام خوں ریز جھگڑا، لاشیں گر گئیں

    فیصل آباد: پنجاب کے شہر فیصل آباد کے علاقے عبداللہ پل پر کبوتر بازی کا مقابلہ خوں ریز جھگڑے میں تبدیل ہو گیا، فریقین میں فائرنگ کے تبادلے میں 2 افراد ہلاک اور 4 زخمی ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق فیصل آباد میں کبوتر بازی کے جھگڑے میں ایک خاتون سمیت دو افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، حملہ آور فائرنگ کر کے موٹر سائیکلوں پر فرار ہو گئے۔

    تھانہ ڈی ٹائپ کالونی کے علاقے عبداللہ پل کے رہائشی اچھو گروپ اور یونس گروپ کے مابین پیر کی صبح کبوتروں کی بازی پر جھگڑا ہو گیا تھا۔ اس رنجش پر رات کو اچھو گروپ کے موٹر سائیکل سوار مبشر، قاسم، مدثر، ٹوڈی، بھالو سمیت 8 افراد نے یونس کے گھر جا کر فائرنگ کر دی۔


    جان کی پروا کیے بغیر جلتا ٹینکر چلا کر آبادی سے دور لے جانے والا بھی دم توڑ گیا


    گولیاں لگنے سے یونس، اس کی بیوی کنیزاں، شفاقت اور ناصر زخمی ہوئے، فائرنگ کے تبادلے میں 2 حملہ آور مبشر اور قاسم بھی زخمی ہوئے۔ ریسکیو ٹیم نے زخمیوں کو جنرل اسپتال سمن آباد منتقل کیا، جہاں کنیزاں اور مبشر دم توڑ گئے۔

    فائرنگ کے بعد حملہ آور فرار ہو گئے جن کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں، متاثرین کا کہنا ہے کہ پولیس نے بروقت کارروائی نہ کر کے نقصان کو بڑھنے دیا۔

    ادھر گوجرانوالہ میں اڑتالی ورکاں میں سابقہ رنجش پر فائرنگ سے 3 افراد قتل اور 2 زخمی ہو گئے ہیں، پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی، اور لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر دیا، ابتدائی تحقیقات کے مطابق واقعہ پرانی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔

  • زمانہ قدیم کی ڈاک اور کبوتروں کا شجرۂ نسب

    زمانہ قدیم کی ڈاک اور کبوتروں کا شجرۂ نسب

    پچھلے زمانے میں ان کبوتروں کی ڈاک سے شاہانِ وقت اور امرائے زمانہ نے اس قدر فوائد حاصل کیے ہیں کہ غالباً آج کل تمام دنیا کے کبوتروں کی تجارت میں اس قدر زمانہ منتفع نہ ہوتا ہوگا۔

    تاریخ کی کتابوں میں یہ مثل اور واقعات کے تاریخی حیثیت سے لکھا جاتا ہے اور علمِ ادب کی کتابیں اس حیوان کی صفات سے بھری پڑی ہیں۔

    اس وقت ہمارے سامنے علامہ جلال الدین سیوطی کی عجیب و غریب کتاب حسن المحاضرہ اخبار مصر و القاہرہ اور علامہ ابن فضل اللہ دمشقی کی التعریف بالمصطلح الشریف رکھی ہوئی ہیں اور ہم ان کی ورق گردانی سے اپنی انتشارِ طبیعت کی گردش کو دور کر رہے ہیں۔ ان دونوں کتابوں میں کبوتروں کی ڈاک کی پوری کیفیت اور احوال نہایت ہی دل چسپ طریقے سے تحریر کیے گئے ہیں۔

    ہم قارئین کی دل چسپی کے لیے ان دونوں مستند کتابوں اور نیز بعض اور ادب کی معتبر کتابوں سے (مثل مصنفات قاضی محی الدین اور کاتب عماد وغیرہ وغیرہ کے اور بعض مغربی تصنیفات سے) کچھ ان کا حال ترجمہ کر کے ترتیب دیتے ہیں جس سے ہماری نئی روشنی کے پرستاروں کو معلوم ہوگا کہ ’’ایجادات‘‘ کا سلسلہ کچھ اس نئے زمانے ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ پچھلے زمانوں میں بھی حیرت انگیز ایجادات کا سلسلہ دیکھنے والوں کو متعجب بنا چکا ہے۔

    ہم کو خوف ہے کہ کوئی صاحب ہمارے اس بیان کو شاعرانہ خیال پر محمول نہ فرمائیں کیوں کہ بلبل کے نغموں اور کبوتر کی نامہ بری کو حضرات شعرا نے بالخصوص بہت چھکایا ہے اور ان کی دیوانِ اوّل سے آخر تک اس کے بیانات سے بھرے پڑے ہیں۔ مگر نہیں! اس وجہ سے کسی ایسے تاریخی واقعے کی صحّت میں جس سے تمام مستند تاریخیں مالا مال ہوں کچھ فرق نہیں آ سکتا۔

    اس کا موجد کون ہے؟
    اس امر کا پتہ لگانا دراصل نہایت مشکل ہے کہ اس کا موجد کون ہے؟ مغربی اور مشرقی تاریخیں اس بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ ہاں اسلامی تاریخ اس امر کا ضرور پتہ دیتی ہے کہ اسلامی سلسلۂ سلطنت میں سب سے پہلے نور الدین محمود زنگی کے وقت میں اس کی ابتدا ہوئی اور گویا اسلام میں اس کی داغ بیل ڈالنے والا نور الدین ٹھہرا۔

    بعض تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس زمانے میں شام اور مصر پر یورپ کے متواتر حملے ہو رہے تھے اور بے خبری کے سبب سے موقع پر کسی قسم کی شاہی فوج نہیں پہنچ سکتی تھی، اس وقت نور الدین محمود زنگی نے کبوتروں کی ڈاک اپنے تمام قلمرو میں قائم کی۔ اور ان کے ذریعے سے خبر رسانی کا انتظام کیا۔

    اس کا فائدہ یہ ہوا کہ یورپ کی دست اندازیوں سے پہلے سلطان کو خبر ہو جایا کرتی تھی اور وہ موقع پر فوج بھیج کر اس کا کافی انسداد کر دیتا تھا۔ اس طریقے کے برتنے سے تھوڑے ہی دنوں میں سلطان کی سلطنت امن و امان میں آ گئی اور ہر طرف اس کے انتظام کا ڈنکے بجنے لگے۔

    لیکن اب بحث طلب یہ امر ہے کہ سلطان نے کس سن میں یہ انتظام کیا؟ جس سے یہ نتیجہ نکل سکے کہ اسلام میں کس سن سے اس ڈاک کی ابتدا ہوئی۔ مؤرخین کو اس میں اختلاف ہے مگر ہمارے نزدیک سب سے زیادہ مستند قول یہ ہے کہ ’’یہ انتظام 567ھ میں ہوا۔‘‘ پس مسلم دنیا میں اس طریقہ کو رائج کرنے والا جسے اضافی حیثیت سے موجد کہنا چاہیے، ’نور الدین محمود زنگی‘ ہے۔

    نورالدین کے بعد مشہور اسلامی فاتح صلاح الدین کے زمانے میں بھی اس سے کام لیا گیا۔

    بغداد میں بھی خلیفہ الناصر الدین اللہ نے ادھر خاص توجہ کی تھی اور ایک محکمہ کبوتروں کی غور و پرداخت کے لیے قائم کیا تھا۔ مصر میں جس وقت اس کی قسمت کی باگ فاطمی خلفا کے ہاتھ میں تھی، کبوتروں کی ڈاک کا بہت رواج تھا۔ ان لوگوں نے بہ نسبت اور بادشاہوں کے اِدھر زیادہ توجہ کی تھی۔

    کبوتروں کی تعلیم اور ان کی غور و پرداخت
    ہر ایک قسم کے کبوتروں میں نامہ بری کے لیے ’’موصل‘‘ کے کبوتر سب سے اعلیٰ گنے جاتے تھے اور ان کو مناسیب کہتے تھے۔ اور پھر ان کبوتروں میں خاص خاص نسل کے کبوتر عمدہ اور قیمتی گنے جاتے تھے۔

    چنانچہ بغداد میں خلیفۂ ناصر کے وقت میں ایک ایک موصلی عمدہ کبوتر ہزار ہزار دینار تک فروحت ہوتا تھا۔ ان کے خاص خاص شجرۂ نسب ہوا کرتے تھے اور نسب نامے بڑی تحقیق کے ساتھ لکھے جاتے تھے۔ ان کی غور پرداخت کے لیے خاص ایک وسیع محکمہ قائم کیا گیا تھا (یہ محکمہ 591 ہجری میں قائم کیا تھا) جن میں ان کی تعلیم کے لیے اس فن کے جاننے والے مقرر کیے جاتے تھے۔ اور اس محکمہ میں اس قسم کی کتابیں تصنیف ہوئی تھیں، جن میں ان کے نسب نامے اور طریقہ تعلیم وغیرہ بطور دستورالعمل کے درج ہوں۔

    چناں چہ قاضی محی الدین بن ظاہر نے ایک کتاب ان کے عادات، خصائل اور طریقِ پیغام رسانی پر لکھی ہے جس کا نام تمائم الحاتم ہے۔ الغرض ان کی غور پرداخت کی طرف خاص توجہ تھی اور بڑی محنتوں اور صرفِ کثیر کے بعد کہیں ان سے مفید کام لیے جاتے تھے۔

    (ہندوستان کے صاحبِ اسلوب ادیب اور انشا پرداز ابوالکلام آزاد کے مضمون سے اقتباس)

  • جان جیکب کا کبوتر گھر جو آج بھی آباد ہے

    جان جیکب کا کبوتر گھر جو آج بھی آباد ہے

    جیکب آباد صوبہ سندھ کا وہ شہر ہے جو برطانوی دور کے ایک انگریز افسر جان جیکب کے نام سے موسوم ہے۔

    جان جیکب نے اس شہر کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس زمانے میں جب اہم سرکاری امور کی انجام دہی اور دیگر شہروں سے رابطے اور آمدورفت میں دشواری پیش آئی تو جان جیکب نے متعدد انتظامات کیے۔ اس وقت خط و کتابت اور پیغام رسانی بھی ایک بڑا مسئلہ تھا جس کا حل کبوتر جیسے خوب صورت اور معصوم پرندے کی شکل میں نکالا گیا اور یہ پیغام رسانی اور جاسوسی کے کام آیا۔

    جیکب آباد میں جنرل جان جیکب نے 1860 میں ایک کبوتر گھر تعمیر کروایا تھا جو آج بھی اس دور کی خوب صورت یادگار کے طور پر موجود ہے۔

    یہ صوبہ سندھ میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد کبوتروں کی نرسری تھی جسے انگریز افسر نے ابلاغی نظام اور جاسوسی کے مقصد کے تحت اپنی رہائش کے احاطے میں تعمیر کروایا تھا۔

    یہ کبوتر گھر 30 فٹ بلند ہے جس میں تین سو سے زائد آشیانے بنائے گئے ہیں اور یہ آج بھی کبوتروں کا مسکن ہے۔ تاہم اس عمارت کی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور رنگ پھیکا پڑ چکا ہے جب کہ صفائی ستھرائی کا خیال تو جان جیکب سے زیادہ کوئی رکھ ہی نہیں سکتا جسے اپنے ان کبوتروں سے بہت پیار تھا۔