Tag: کتاب

  • عالمی کتب میلہ کامیابی کے نئے سنگِ میل پر، آئندہ حکومتی اشتراک سے انعقاد کا منصوبہ

    عالمی کتب میلہ کامیابی کے نئے سنگِ میل پر، آئندہ حکومتی اشتراک سے انعقاد کا منصوبہ

    کراچی: ایکسپو سینٹر کراچی میں عالمی کتب میلے کا آج تیسرا دن ہے، اس میلے میں اب تک 3 لاکھ سے زائد شہریوں نے شرکت کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایکسپو سینٹر کراچی میں جاری پانچ روزہ عالمی کتب میلے میں گزشتہ روز بھی شہریوں کی بڑی تعداد نے کتب میلے میں شرکت کی۔ صبح سے ہی بڑی تعداد میں اسکولز، کالجز اور یونیورسٹی، مدارس کے طلبہ سمیت سماجی، ادبی اور سرکاری شخصیات نے کتب میلے کا دورہ کیا۔

    پانچ روزہ عالمی کتب میلے کے تیسرے دن بھی ہزاروں کی تعداد میں کراچی کے مختلف نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات، اساتذہ اور ماہرین تعلیم شرکت کر رہے ہیں، کتب میلہ کے کنوینر وقار متین کے مطابق اب تک لاکھوں کتابیں فروخت ہو چکی ہیں۔

    کراچی انٹرنیشنل بک فیئر

    وقار متین کے مطابق آج بھی ریکارڈ تعداد میں شہریوں کی شرکت متوقع ہے، ایکسپو میں گنجایش نہ ہونے کے سبب متعدد پبلشرز کو جگہ بھی فراہم نہیں کی جا سکی ہے، اس لیے آئندہ سال ہم تمام ہال بک کرنے کی کوشش کریں گے۔

    وقار متین نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ آئندہ سال سندھ حکومت کے اشتراک سے کتب میلے کا انعقاد کریں، کیوں کہ کتب ملیہ کلچر کو سندھ کے دیگر اضلاع میں شروع کرنے کی تجاویز بھی آئی ہیں۔

    کتب میلے میں ترکی کی جانب سے لگایا گیا اسٹال لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا، مفت کتب تقسیم کی گئیں، ایڈیشنل ڈائریکٹر انسپکیشن اینڈ رجسٹریشن انسٹیٹیوشن رافعہ جاوید نے دورے کے موقع پر کہا عالمی کتب میلہ کراچی کے شہریوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، جناح ٹاؤن چیئرمین رضوان عبدالسمیع نے کہا ہمارے علاقے کے تمام اسکولز اس کتب میلے میں شرکت کریں گے اور اس کے لیے فنڈز بھی مختص کریں گے۔

    ترکی اسٹال کے نمائندہ محمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمارا بردار ملک ہے یہاں کے لوگ انتہائی پُر خلوص ہیں مجھے پاکستان بہت پسند آیا اگلے سال پھر آنے کا ارادہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں محمد کا کہنا تھا کہ اس جدید دور میں کتب کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے یہ کتب میلہ ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا نواجوان اس وقت بھی کتب میں دل چسپی رکھتا ہے۔

  • پائلو کوئیلو نے مریم نواز کے لیے کیا ٹویٹ کیا؟

    پائلو کوئیلو نے مریم نواز کے لیے کیا ٹویٹ کیا؟

    معروف برازیلین مصنف پاؤلو کوئیلو نے پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کی وائرل ویڈیو پر ان کے دفاع میں ٹویٹ کردیا۔

    مریم نواز کے حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو کے کلپس مختلف وجوہات پر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہے ہیں۔

    ایک کلپ میں وہ اپنی پسندیدہ کتابوں کے نام بتا رہی ہیں جبکہ انہوں نے جیل کی لائبریری کا بھی تذکرہ کیا ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین ان کا مضحکہ اڑا رہے ہیں۔

    ایک اور کلپ میں وہ شہرہ آفاق کتاب الکیمسٹ کے مصنف پائلو کوئیلو کو پائلو کوئیڈو کہتی سنائی دے رہی ہیں۔

    ان کا یہ کلپ بھی خوب وائرل ہورہا ہے اور لوگ ان کا مذاق اڑاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

    تاہم اس وقت سوشل میڈیا صارفین حیران رہ گئے جب پائلو کوئیلو نے ایسے ہی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے مریم نواز کا دفاع کیا۔

    انہوں نے لکھا کہ میں بھی غیر ملکی نام پکارتے ہوئے تلفظ کی غلطی کر جاتا ہوں، لوگ زیادہ تنقید نہ کریں۔

    کوئیلو کے اس ٹویٹ کے نیچے بھی پاکستانیوں نے لڑنا جھگڑنا شروع کردیا اور اپنے پسندیدہ ساست دانوں کی حمایت کرنے لگے۔

  • ایمبر ہیئرڈ سابق شوہر کے بارے میں کتاب لکھیں گی

    ایمبر ہیئرڈ سابق شوہر کے بارے میں کتاب لکھیں گی

    معروف ہالی ووڈ اداکارہ ایمبر ہیئرڈ اپنے سابق شوہر جونی ڈیپ کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ ہارنے کے بعد شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں اور اب وہ ایک کتاب لکھنے کا سوچ رہی ہیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق سابق شوہر سے ہتک عزت کا مقدمہ ہارنے اور عدالت کی جانب سے انہیں 15 ملین ہرجانہ ادا کرنے کے حکم کے بعد سے ایمبر ہیئرڈ شدید سماجی و مالی مشکلات کا شکار ہیں۔

    ایمبر کا خیال ہے کہ ان کی طرف کی کہانی ابھی باقی ہے جو وہ کتاب لکھ کر دنیا کو بتانا چاہتی ہیں، ان کے خیال میں اب ان کے پاس کھونے کو مزید کچھ نہیں رہا، اور ہالی ووڈ میں بھی ان کا کیریئر تقریباً ختم ہوچکا ہے، تو وہ اپنی بائیو گرافی لکھنا چاہتی ہیں جس میں جونی ڈیپ سے تعلق کے بارے میں بھی تفصیلات ہوں گی۔

    ناقدین کا کہنا ہے کہ کتاب لکھ کر ایمبر اپنی بدنامی میں مزید اضافہ کرسکتی ہیں۔

    دوسری جانب جونی ڈیپ اور ان کے وکلا ایمبر کی ہر حرکت اور ہر بیان پر نظر رکھے ہوئے اور چوکنا ہیں، ان کا ارادہ ہے کہ اگر کتاب لکھتے ہوئے ایمبر نے حدیں پار کیں، جس کا قوی امکان موجود ہے، تو ایمبر کو ایک اور مقدمے کا سامنا کرنا ہوگا۔

    فی الحال ایمبر، ڈیپ کو ہرجانے کی رقم ادا کرنے سے قاصر ہیں جبکہ اپنا کیس ہرانے والے وکلا کی بھاری فیس اور دیگر قانونی اخراجات بھی ان کے ذمے تاحال واجب الادا ہیں۔

    کتاب لکھنے کا ایک مقصد معاشی نقصانات کا ازالہ بھی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی ساکھ پر مزید برا اثر پڑے گا۔

  • ایک ایسا کام جس سے قیدیوں کی سزا کم ہو سکتی ہے

    ایک ایسا کام جس سے قیدیوں کی سزا کم ہو سکتی ہے

    سوکرے: ایک وسطی جنوبی امریکی ملک میں حکام نے انوکھا پروگرام شروع کیا ہے کہ جیلوں میں قید شہریوں کی سزا کم ہو جائے گی اگر وہ کتابیں پڑھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق بولیویا دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں جیل میں کتاب پڑھنے والوں کی سزا کم کر دی جاتی ہے، یعنی قیدی کتابوں کی مخصوص تعداد پڑھ کر اپنی سزا کو کم کروا سکتا ہے۔

    بولیویا میں حکومت نے اس انوکھے پروگرام کا آغاز قیدیوں کو خواندہ کرنے کے لیے کیا، اس پروگرام کا نام ‘بکس بی ہائنڈ بارز’ رکھا گیا ہے، یہ پروگرام قیدیوں کی سزا کم کر سکتا ہے تاہم اس کا اصل مقصد لوگوں کو خواندہ کرنا ہے۔

    خیال رہے کہ بولیویا میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا نہیں دی جاتی، تاہم وہاں عدالتی نظام نہایت سست ہونے کی وجہ سے قیدیوں کو طویل عرصے جیلوں میں رہنا پڑتا ہے۔

    مذکورہ پروگرام کا آغاز بولیویا کے تقریباً 47 جیلوں میں کیا جا چکا ہے، جہاں 800 سے زائد قیدی مطالعہ شروع کر چکے ہیں اور کئی افراد لکھنا بھی سیکھ چکے ہیں۔

    جیل انتظامیہ کے مطابق قیدیوں میں ایک خاتون قیدی جیکولین بھی ہیں جو 8 کتابیں پڑھ چکی ہیں اور پڑھنے کے 4 ٹیسٹ بھی پاس کر چکی ہیں۔

    اس منصوبے کا ہدف وہ غریب اور ان پڑھ قیدی ہیں جو کسی وجہ سے لکھ اور پڑھ نہ سکے، رپورٹس کے مطابق قیدیوں کی بڑی تعداد نے اس پروگرام میں دل چسپی کا اظہار کیا ہے۔

  • انسان کی سب سے بڑی ایجاد کیا ہے؟

    انسان کی سب سے بڑی ایجاد کیا ہے؟

    اگر میں ہر ہفتے ایک کتاب ختم کروں تو میں اپنی پوری زندگی میں صرف چند ہزار کتابیں پڑھ سکوں گا۔ یہ ایک بڑی لائبریری کا ایک فی صد بھی نہیں ہوا۔ فیصلہ صرف یہ کرنا ہوگا کہ کون سی کتاب پڑھی جائے؟

    کتاب کتنی عجیب چیز ہے۔ ایک درخت کی چھال سے بنی ہوئی چپٹی سی چیز جس پر مضحکہ خیز تصوریں بنی ہوئی ہیں۔ لیکن آپ اس پر ایک نظر ڈالیں تو آپ ایک دوسرے شخص کے دماغ میں پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا شخص جو ہزاروں سال پہلے مر چکا ہے۔ صدیوں کا فاصلہ ہونے کے باوجود وہ بالکل واضح لفظوں میں آپ سے مخاطب ہو جاتا ہے۔

    تحریر شاید انسان کی سب سے بڑی ایجاد ہے۔ یہ ان انسانوں کو ایک دوسرے سے ملا دیتی ہے جو ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ یہ مختلف دور کے باشندوں سے روشناس کرا دیتی ہے۔

    کتاب وقت کی زنجیروں کو توڑ دیتی ہے۔ کتابیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان بھی کمال کر سکتا ہے۔ لائبریریوں کے کمرے ان کمالات سے بھرے ہوئے ہیں۔

    اسکندریہ کی لائبریری قائم ہوئے 2300 سال گزر چکے ہیں۔ اس دوران تقریباً سو نسلیں پیدا ہوکر مر چکی ہیں۔ اگر علم صرف زبان کے ذریعے سے دوسروں کو منتقل ہوتا تو ہمیں اپنے ماضی کے بارے میں کتنا کم علم ہوتا۔ ہماری ترقی کی رفتار کتنی سست ہوتی۔ ہر چیز اس پر منحصر ہوتی کہ ہمیں کیا بتایا گیا ہے اور وہ کس حد تک درست ہے۔ قدیم علم لوگوں تک پہنچتے پہنچتے بدلتا رہتا اور آخر کار ضائع ہو جاتا۔

    کتابیں ہمیں وقت میں سفر کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ لائبریری پورے پورے سیّارے اور پوری پوری تاریخ کے عظیم ذہنوں اور عظیم استادوں سے ہمارا رشتہ جوڑ دیتی ہے۔ اور انسانی نسل کے اجتماعی شعور میں اپنا حصّہ بٹانے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔

    میں سمجھتا ہوں کہ ہماری تہذیب کی صحّت ہمارے شعور کی گہرائی اور مستقبل کے بارے میں ہمارا تجسّس کا امتحان اس سے ہوتا ہے کہ ہم اپنی لائبریریوں کو کیسے رکھتے ہیں۔
    ایک وقت کے عام کھانے کی قیمت میں آپ روم کے عروج و زوال کا مزہ لے سکتے ہیں۔ کتابیں علم کا خزانہ ہیں۔ یہ ہمارے genes سے دماغ تک اور دماغ سے کتابوں تک کے لمبے ارتقائی سفر کی گواہ بھی ہیں۔

    دماغ رات کو بھی اطلاعات جذب کرنے اور تقسیم کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ اطلاعات اسے زندہ رکھتی ہیں اور وہ صلاحیت مہیا کرتی ہیں جو بدلتے ہوئے حالات میں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ انسان کا genes سے دماغ اور دماغ سے کتابوں تک کا سفر جاری ہے۔

    (کارل ساگان کی کائنات (cosmos) نامی تصنیف سے اقتباس جس کے مترجم منصور سعید ہیں)

  • اونٹ جو بلوچستان کے دیہات میں علم کی روشنی پھیلا رہا ہے

    اونٹ جو بلوچستان کے دیہات میں علم کی روشنی پھیلا رہا ہے

    بلوچستان کے دور دراز جنوب مغربی صحرائی علاقے میں قدم بڑھاتا روشن نامی اونٹ ایسا سامان ڈھو رہا ہے، جو انمول ہے، اس پر ان بچوں کے لیے کتابیں لدی ہوئی ہیں جو کووڈ 19 کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول نہیں جا پا رہے۔

    پاکستان میں گزشتہ سال مارچ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے اور گزشتہ ایک سال میں یہ بہت کم عرصے کے لیے ہی کھل پائے ہیں۔ ملک بھر میں 5 کروڑ اسکول جانے کی عمر رکھنے والے بچے اور یونیورسٹی کے طلبہ اب اپنے گھروں ہی میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں گھر سے پڑھنا مشکل ہے کیونکہ یہاں کئی دیہات انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتے۔

    یہی وجہ ہے کہ ایک ہائی اسکول پرنسپل رحیمہ جلال کو کیمل لائبریری پروجیکٹ کا خیال آیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے پچھلے سال اگست میں اس لائبریری کا آغاز کیا تھا کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے علاقے اور ارد گرد کے دیہات کے بچے اسکول بند ہونے کے باوجود پڑھیں۔

    رحیمہ جلال مند گرلز ہائی اسکول کی پرنسپل ہیں اور وفاقی وزیر دفاعی پیداوار پاکستان زبیدہ جلال کی بہن ہیں لیکن اتنے بڑے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے مقامی لوگوں کی بہبود اور تعلیم کو اپنا مقصد حیات بنا رکھا ہے۔ اس منصوبے کے تحت وہ فیمیل ایجوکیشن ٹرسٹ اور الف لیلہ بک بس سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

    اب کیمل لائبریری کے تحت روشن نامی اونٹ بلوچستان کے ضلع کیچ کے چار مختلف دیہات کے لیے کتابیں لے جاتا ہے۔ وہ ہفتے میں تین مرتبہ ہر گاؤں میں جاتا ہے اور ہر گاؤں میں تقریباً دو گھنٹے قیام کرتا ہے۔ بچے کتابیں حاصل کرتے ہیں اور روشن کے اگلے دورے پر اسے واپس کرتے ہیں۔ کچھ کتابیں بچوں میں مفت بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔

    انہی بچوں میں سے ایک 9 سالہ عنبرین ہیں، جو بلوچی زبان میں کہتی ہیں کہ مجھے تصویروں والی کتابیں پسند ہیں کیونکہ تصویریں دیکھ کر کہانی زیادہ اچھی طرح سمجھ آتی ہے۔

    رحیمہ جلال اس منصوبے کو مزید دیہات تک پھیلانا چاہتی ہیں لیکن اس کے لیے انہیں سرمائے کی ضرورت ہے۔ ان کے منصوبے کا اس وقت خرچہ تقریباً 118 ڈالرز ماہانہ ہے۔

    روشن کے مالک مراد علی کہتے ہیں کہ انہیں یہ لائبریری کا کام بہت پسند ہے۔ انہیں بچوں کو کتابیں پڑھتا دیکھ کر بہت خوشی ملتی ہے۔

  • سعودی استاد کی اپنے ہم وطنوں کی بھلائی کے لیے قابل فخر کوشش

    سعودی استاد کی اپنے ہم وطنوں کی بھلائی کے لیے قابل فخر کوشش

    ریاض: سعودی عرب میں ایک استاد نے قابل تقلید قدم اٹھا کر اپنے گھر کی بیرونی دیوار پر عوامی بک شیلف بنا دیا، شیلف سے مقامی شہری کتابیں لے بھی جاتے ہیں اور وہاں نئی کتابیں رکھنے بھی لگے ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق ایک سعودی استاد حسن آل حمادہ نے اپنے گھر کی دیوار پر کتابوں کے تبادلے کے لیے بک شیلف نصب کیا ہے، مذکورہ استاد مشرقی سعودی عرب کی کمشنری القطیف کے رہتے ہیں۔

    ان کے قائم کردہ اس شیلف سے مقامی شہری کتابیں لے بھی جاتے ہیں اور وہاں نئی کتابیں رکھنے بھی لگے ہیں۔

    ایک مقامی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے حسن آل حمادہ نے اس حوالے بتایا کہ انہوں نے اپنی پہلی کتاب سنہ دراصل 1997 میں شائع کی تھی، تب سے وہ یہ سوچتے رہے کہ لوگوں میں کس طرح مطالعے کی عادت کو فروغ دیا جائے۔

    انہوں نے بتایا کہ 3 برس قبل مکان کی دیوار میں بک شیلف قائم کرنے کا خیال آیا تھا مگر کئی رکاوٹیں ایسی آئیں کہ اس پر عملدر آمد نہ ہوسکا۔ اس سال سعودی عرب کے 90 ویں قومی دن کے موقع پر اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا۔

    ان کے مطابق پہلے دن 90 کتابیں بک شیلف میں رکھی تھیں جو اب بڑھ کر 270 ہوچکی ہیں۔ مقامی شہری اس میں بے حد دلچسپی لے رہے ہیں۔

    آل حماد کا کہنا تھا کہ گھر کی دیوار میں بک شیلف قائم کرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ بعض لوگ کتابیں پڑھتے ہیں اور پھر ان کے گھروں میں انہیں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ایسے افراد بجائے ان کتابوں کو ضائع کرنے کے یہاں بک شیلف میں لا کر رکھ سکتے ہیں۔

    اسی طرح کئی افراد مطالعہ کرنا چاہتے ہیں مگر وہ کتاب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، انہی تمام افراد کے لیے یہ بک شیلف تعلیم اور مطالعے کا ایک ذریعہ ثابت ہورہا ہے۔

  • 14 سالہ طالبہ نے کتاب لکھ کر بڑے بڑوں کو حیران کردیا

    14 سالہ طالبہ نے کتاب لکھ کر بڑے بڑوں کو حیران کردیا

    کراچی: بچپن، بچپنے اور شرارتوں سے آراستہ ہے تاہم کبھی کبھار بچوں کی عقل و ذہانت اور سنجیدگی بڑوں کو بھی مات کرجاتی ہے، ایسے ہی 14 سال کی بچی دعا نے کم عمری میں کتاب لکھ کر بڑے بڑوں کو حیران کردیا۔

    دعا صدیقی نے 13 سال کی عمر میں انگریزی میں نظمیں لکھنا شروع کیں اور صرف ایک سال کے اندر 100 نظمیں لکھ ڈالیں جو اب کتاب کی صوت میں موجود ہیں۔ ان کی کتاب کا نام آئی ہیڈ آ ڈریم ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے دعا نے بتایا کہ وہ ہر چیز کا مشاہدہ کرتی ہیں اور بعد ازاں اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتی ہیں جو انہوں نے نظموں کی صورت میں کیا۔

    وہ کہتی ہیں کہ انہیں بچپن سے مشہور رائٹر بننے کا شوق تھا۔ وہ اب تک ماحولیاتی مسائل، خواتین کی خود مختاری اور ڈپریشن جیسے موضوعات کو اپنی نظموں کا حصہ بنا چکی ہوں۔

    دعا کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ہر شخص کو اپنی عمر سے آگے کی چیز سوچنی چاہیئے اور وہ خدا کی شکر گزار ہیں کہ اس نے انہیں اس صلاحیت سے نوازا۔

    دعا کی کتاب امیزون پر دستیاب ہے جبکہ اسے آن لائن بھی پڑھا جاسکتا ہے۔

  • ٹی وی دیکھنا زیادہ فائدہ مند ہے یا مطالعہ کرنا؟

    ٹی وی دیکھنا زیادہ فائدہ مند ہے یا مطالعہ کرنا؟

    ہم میں سے اکثر افراد اپنا فارغ وقت ٹی وی دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں جبکہ کچھ افراد یہ وقت کتاب پڑھتے ہوئے گزارتے ہیں، سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ مطالعہ کرنا ٹی وی دیکھنے سے بہتر ہے۔

    مختلف سماجی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی ہم ٹی وی دیکھتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ ہر وقت کچھ ایسا ہو جس سے ہم کچھ نیا سیکھیں۔

    اس کے برعکس جب ہم کوئی کتاب مکمل کر کے اٹھتے ہیں تو یہ ہمیں کاملیت کا احساس دیتی ہے، ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہم نے مطالعے سے کچھ نہ کچھ نیا سیکھا ہوتا ہے اور ہم اپنی معلومات میں اضافہ محسوس کرتے ہیں۔

    سنہ 2013 میں جاپان میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق وہ بچے جو اپنا زیادہ وقت ٹی وی دیکھتے ہوئے گزارتے تھے ان کے آئی کیو لیول میں کمی دیکھی گئی۔

    اس کے برعکس امریکا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق کتاب مکمل کرلینے کے بعد اگلے 5 روز تک پڑھنے والے کا دماغ چاک و چوبند اور تخلیقی راہ پر گامزن رہتا ہے۔

    مطالعہ کرنے سے پڑھنے والے کے ذخیرہ الفاظ میں بھی اضافہ ہوتا ہے جبکہ اس کے اندر لکھنے کی صلاحیت بیدار (یا اگر پہلے سے ہو تو) بہتر ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق زیادہ ٹی وی دیکھنے کے مختلف طبی نقصانات بھی ہیں جن میں سر فہرست وزن میں اضافہ اور آنکھوں کو نقصان پہنچنا ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ٹی وی دیکھنے کا وقت کم کر کے مطالعے کا وقت بڑھایا جائے۔

    آپ اپنے فارغ وقت میں دونوں میں سے کس کام کو ترجیح دیتے ہیں؟

  • اسلام کو نہ ٹک ٹاک سے خطرہ ہے، نہ ہی کتابوں سے: فواد چوہدری

    اسلام کو نہ ٹک ٹاک سے خطرہ ہے، نہ ہی کتابوں سے: فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہمیں فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم اور شدت پسندی سے خطرہ ہے۔ محلوں میں مقید حضرات ایسی آگ کو ہوا نہ دیں کہ خود جل جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسلام کو نہ ٹک ٹاک سے خطرہ ہے، نہ ہی کتابوں سے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمیں فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم سے خطرہ ہے اور شدت پسندی سے خطرہ ہے۔ محلوں میں مقید حضرات احتیاط کریں، ایسی آگ کو ہوا نہ دیں کہ خود جل جائیں۔

    انہوں نے پنجاب اسمبلی میں پاس کیے جانے والے قانون کے حوالے سے کہا کہ میں نے یہ قانون نہیں پڑھا لیکن اس وقت پارلیمان خصوصاً پنجاب میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ ہر رکن روزانہ ایک نئی تحریک لے کر آتا ہے اور بتایا جاتا ہے اگر یہ نہ ہوا تو اسلام خطرے میں ہے۔

    فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ یہ خطرناک رویہ ہے اس سے ہم فرقہ ورانہ اور مذہبی شدت پسندی کے گرداب میں دھنستے جائیں گے۔