Tag: کتابوں سے اقتباسات

  • جب دکن کے ’نظام‘ کو ’غدار‘ کہا گیا!

    جب دکن کے ’نظام‘ کو ’غدار‘ کہا گیا!

    ایک انتہائی پریشان کن ملاقات کے چند روز بعد قصرِ گورنر جنرل سے پھر میری طلبی ہوئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی غلام محمد صاحب نے کہا، ”میں نے تمھارے لیے ملازمت کا بندوبست کر دیا ہے۔ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    حیدر آباد میں، میں نے ”شہر بدر“ کی اصطلاح سن رکھی تھی۔ میرے مقدر میں کراچی بدر ہونا تھا۔ ان کے چہرے پر درشتی کے آثار دیکھ کر میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ”کیا حکومتِ پاکستان نے ’حیدر آباد ایجنسی‘ کو بند کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے اور کیا پاکستان نے حیدرآباد (دکن) پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم کر لیا ہے؟“ اس کا جواب بڑے تیز لہجے میں یہ تھا، ”تم سے میں نے ایک بار کہہ دیا کہ یہ میرا فیصلہ ہے۔“ اب میں کیا کہتا کہ ایک جمہوری نظام میں صدر مملکت کو یہ اختیار کیسے حاصل ہو گیا۔ اور ایک زیرِ نزاع بین الاقوامی مسئلہ میں یہ اقدام کیسے ممکن ہے، جب متعلقہ وزارت کو اس کا سرے سے علم ہی نہیں۔

    حضور نظام نے چند خطوط جو مجھے 1952ء اور 1953 میں لکھے تھے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ دھونس اور ناجائز دباؤ کی اس کیفیت کو دیکھ کر میں نے وہ خطوط پیش کیے۔ ان خطوط میں مجھے واضح طور پر ہدایت تھی کہ میں حیدر آباد کے موقف پر قائم رہوں اور جو کام کرتا رہوں اسے برابر کرتا رہوں۔ ان میں ایجنسی کے بند ہونے کی افواہوں پر تشویش کا اظہار بھی تھا۔ ان خطوط کو پڑھ کر وہ زیادہ بگڑے اور ان کے اصلی ہونے پر اپنے شبے کا اظہار کیا اور مجھ سے دریافت کیا کہ وہ مجھے کیسے اور کس طرح وصول ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ جہاں تک ان کے اصلی ہونے کا تعلق ہے، ان پر شبہ کرنا ایک طرح سے میری دیانت اور ایمان داری پر الزام دھرنے کے مترادف ہے۔ وہ خود حیدر آباد (دکن) کے وزیر مالیات کے عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں۔ ان سے بہتر حضور نظام کی ذاتی پرائیویٹ مہر سے کون واقف ہوگا۔ اس پر وہ منہ ہی منہ میں کچھ کہتے ہوئے اور غصے میں کانپتے ہوئے اپنے کمرے سے باہر برآمدے میں چلے گئے۔ رہ رہ کر مجھے خیال آتا تھا کہ اگر ہمارے مابین گفتگو کے ردعمل سے اس نحیف اور بیمار آدمی کی صحت پر کوئی مضر اثر پڑ جائے، تو میرا کیا حشر ہوگا۔ مروجہ سفارتی آداب میں بھی تو ان حالات میں کوئی رہبری نہیں ملتی! چند لمحات کے بعد جب وہ دوبارہ کمرے میں آئے تو کہا ”اگر بالفرض یہ نظام ہی کے خطوط ہیں، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تمھارے نظام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔“

    ان کے غصے سے تمتماتے چہرہ کو دیکھ کر پہلے تو میں چند لمحات خاموش رہا، مگر پھر اس خیال سے کہ اگر یہ بات میں نے اس وقت نہ کہی، تو پھر اسے کہنے کا مجھے کبھی موقع نہیں ملے گا۔ میں نے عرض کیا ”جناب یہی وہ نظام ہیں، جنھوں نے پاکستان کے آڑے وقت پر آپ کی درخواست پر فراخ دلی سے مالی مدد کی تھی اور جن کے دیے ہوئے خریط کو حیدرآباد کے المیے کے چار پانچ برس بعد ہی آپ تسلیم کرتے ہیں۔“ انھوں نے جواب دیا ”وہ غدار ہے…!“ یہ کہہ کر نامعلوم، انھوں نے منہ ہی منہ میں کیا کہا۔ چند لمحات کے بعد اپنے غصے پر ذرا قابو پایا تو فرمایا۔ ”میں بہرحال حیدر آباد ایجنسی کو بند کر رہا ہوں۔ تمھارے لیے ریلوے میں ایک ملازمت کا انتظام ہو گیا ہے۔ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    زبردستی ملازمت اختیار کرنے اور کراچی میری رخصتی پر اصرار میرے لیے ناقابل فہم تھا۔ میں ایک مخمصے میں پڑ گیا، مگر اپنے جذبات اور ردعمل کو نظرانداز کر کے میں نے اپنی بات کی طرف رجوع کر کے عرض کیا ”مگر جناب جب تک حیدر آباد کا مقدمہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے اور زیر تصفیہ ہے، ایجنسی بند کیسے ہو سکتی ہے؟ نواب زادہ لیاقت علی خاں نے مجھے اس بارے میں آپ کی موجودگی میں یقین دہانی کرائی تھی۔“ یہ سن کر وہ طیش میں آگئے…. ”میں نہیں جانتا لیاقت علی خاں نے تمھیں کیا یاد دہانی کرائی تھی۔ بہرحال حالات بدل گئے ہیں۔ ہم لیاقت علی خاں کی یقین دہانیوں کے پابند نہیں ہیں۔ بہتر ہے کہ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    حالات ہی نہیں بدلے تھے، اقدار بدل گئی تھیں۔ نظریں بدل گئی تھیں۔ میں نے اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے کی کوشش کی اور جس میٹنگ میں مجھے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی اس کی مصدقہ روداد کا ذکر کیا تو ان کا پارہ اور چڑھ گیا اور انھوں نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا، ”اگر تم میرے کہنے پر عمل نہیں کرو گے، تو میں ایجنسی کے اخراجات کی ادائیگی کی ممانعت کر دوں گا۔“ یہ دھمکی سن کر مجھ پر سکتے کا عالم طاری ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اگر روپے پیسے کے معاملے میں یوں بندش ہوگی تو میں اسٹاف کی تنخواہیں کہاں سے دوں گا اور ایجنسی کیسے چل سکے گی۔ اگر میں تنِ تنہا ڈٹے رہنے کا قصد بھی کر لوں، تو پھر کیا کروں گا اگر حکومتِ پاکستان میرا خریطہ واپس لے لے۔

    میری خاموشی پر انھوں نے کہا۔ ”اس لیے بہتر ہے کہ تم لاہور چلے جاؤ۔ مجھے معلوم ہے کہ ریلوے کے جس عہدے پر تمھارے تقرر کی تجویز زیر غور ہے، تم اس سے بہت سینئر عہدے پر تھے۔“ پھر بڑی شانِ بے اعتنائی سے فرمایا۔ ”مگر اس سے زیادہ ہم تمھارے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔“ میں نے بھرے دل سے جواب دیا۔ ”میں نے نہ تو کسی ملازمت کی آپ سے درخواست کی ہے اور نہ ہی میں نے براہ راست یا بالواسطہ آپ سے اس قسم کی کسی خواہش کا اظہار کیا ہے۔“ اس پر انھوں نے سوال کیا ”پھر آخر تم کیا کرو گے؟“

    میں نے جواب دیا۔ ”اللہ رزاق بھی ہے اور مسبب الاسباب بھی۔ وہ انشا اللہ رزق بھی دے گا اور اس کا سبب بھی بنا دے گا۔“ میرا یہ جواب سن کر انھوں نے ایک ایسی بات کہی جسے سن کر میں ششدر رہ گیا۔ ”تم بات بات میں اللہ کو کیوں بیچ میں لاتے ہو۔“

    اسی سکتے کے عالم میں میرے منہ سے یہ بات نکل گئی۔ ”اگر مملکتِ اسلامیہ پاکستان میں اللہ کا نام نہ لیا جائے، تو پھر آخر کہاں لیا جائے۔“

    اس پر انھوں نے غصے میں فرمایا۔ اچھا میں بحث نہیں کرتا۔ تم میں کج بحثی کی بہت عادت ہے۔ تم جا سکتے ہو۔“

    (مشتاق احمد خان کی خود نوَشت ”کاروانِ حیات“ سے منتخب پارہ)

  • کائنات کی حقیقت اور انسان کی خواہش

    کائنات کی حقیقت اور انسان کی خواہش

    جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے وہ برابر اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ جس کائنات میں وہ آ نکلا ہے اس کی حقیقت معلوم کرے!

    اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اس کائنات کی حقیقت معلوم نہ ہو گی وہ جان نہیں سکتا کہ خود اس کی حقیقت کیا ہے۔ اور کائنات کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے۔ کائنات کی حقیقت سے اسے اپنی حقیقت کا سراغ ملتا ہے، کیوں کہ وہ خود بھی کائنات کا ایک اہم جزو ہے۔ اور اپنی حقیقت وہ اس لیے جاننا چاہتا ہے تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ اسے اپنی عملی زندگی کا استعمال کس طرح کرنا چاہیے اور اس زندگی کا اصل مقصد کیا ہے اور وہ اپنی عملی زندگی کی تشکیل اور تعمیر کس طرح سے کرے کہ اس سے اپنے لیے اسی دنیا میں یا اگلی دنیا میں (اگر وہ بھی ہو تو) بہترین قسم کے نتائج اور ثمرات حاصل کر سکے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کائنات کے متعلق ہر قسم کے تسلی بخش سوالات کا جواب حاصل کر لے گا تو اسی جواب میں اسے اپنے متعلق ہر قسم کے ممکن سوالات کا تسلی بخش جواب بھی مل جائے گا اور پھر وہ اس جواب کی روشنی میں اپنے تمام مسائل کا صحیح حل معلوم کر سکے گا اور اپنی زندگی کا استعمال صحیح طریقے سے کر سکے گا۔

    یہی وجہ ہے کہ کائنات کی حقیقت کا جو تصور بھی وہ قائم کرتا ہے وہ اپنی عملی زندگی کو نہایت احتیاط کے ساتھ اس کے مطابق بناتا ہے گویا اس کے لیے حقیقت تلاش کرنا نہ تو کوئی تفریحی مشغلہ ہے اور نہ ہی کوئی علمی یا نظری مسئلہ بلکہ ایک شدید عملی ضرورت ہے جس کی اچھی یا بری تشفی اس کی روزمرہ زندگی کے تمام حالات اور اس کی تمام چھوٹی اور بڑی تفصیلات کو معین کرتی ہے۔

    بدنی ضروریات کی تشفی کو تو ہم ایک عرصہ تک التوا میں بھی ڈال سکتے ہیں لیکن اگر ہم اس ذہنی اور عملی ضرورت کو ایک لمحہ کے لیے بھی ملتوی کر دیں تو ہمارا دماغی توازن بگڑنے لگتا ہے اور ہم جنون، ہسٹریا، خوف، غم، پریشانی ایسے ذہنی امراض کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

    یہ کہنا غلط ہے کہ حقیقت کائنات کے تصورات یا نظریات حکماء یا فلاسفہ سے مخصوص ہوتے ہیں۔ دراصل انسان کی فطرت اس طرح سے بنی ہے کہ آج تک کوئی تندرست فرد عالم یا جاہل ایسا نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے جو حقیقت کائنات کا کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، مختصر یا مفصل، منظم یا غیر منظم، عالمانہ یا جاہلانہ تصور نہ رکھے اور اپنی ساری زندگی کو اس کے مطابق نہ بنائے۔ حکماء یا فلاسفہ صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو اور لوگوں کی نسبت زیادہ ذہین اور زیادہ باریک بین ہوتے ہیں اور اپنے ذوق اور اپنی افتاد طبیعت کے لحاظ سے حقیقتِ کائنات کے مسئلہ پر غور و خوض کرتے ہیں اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے زیادہ موزوں اور مستعد ہوتے ہیں جیسے بعض افراد عام لوگوں کے لیے غلہ پیدا کرنے یا کپڑا بننے اور بدنی ضروریات کی چیزیں تیار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اسی طرح سے نوعِ بشر کے حکماء اور فلاسفہ عام لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت کی چیز یعنی حقیقت کائنات کا صحیح تصور جو ہماری زہنی اور روحانی سطح کی ضروریات سے تعلق رکھتا ہے بہم پہنچانے میں لگے رہتے ہیں۔

    ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ حقیقتِ کائنات کے متعلق خود ان کا اور دوسرے لوگوں کا تصور زیادہ سے زیادہ صحیح ہو تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اپنی عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ صحیح بنا سکیں لیکن حقیقت کائنات کے تصور کی ضرورت ہر انسان کے لیے اس قدر شدید اور فوری اور ناقابلِ التوا ہوتی ہے کہ لوگ کبھی فلسفیوں اور حکیموں کی تحقیق اور تجسس کے ایسے نتائج کا اظہار نہیں کرتے جو آئندہ کسی وقت دستیاب ہونے والے ہوں بلکہ جو نظریات پہلے ہی موجود ہوتے ہیں ان میں سے کوئی نظریہ قبول کر کے اس پر عمل درآمد شروع کر دیتے ہیں اور وہی نظریہ اپنی اولادوں کو وراثت میں سونپ جاتے ہیں لیکن اگر بعد میں آنے والی نسلیں کسی اور نظریہ سے جو کسی اور حکیم یا فلسفی نے پیش کیا ہو متاثر ہو جائیں تو اپنے نظریہ کو بدل لیتی ہیں اور پھر ان کی ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے مطابق بدل جاتی ہے۔

    تاریخ کے بڑے بڑے انقلابات اسی طرح داناؤں، فلسفیوں اور حکیموں کے نظریات سے پیدا ہوتے ہیں۔

    (اقتباس کتاب "حکمتِ اقبال” از محمد رفیع الدین)