Tag: کتابیں

  • محکمہ تعلیم کی جانب سے طلبہ کیلیے بھیجی گئیں کتابیں بارش کی نذر (ویڈیو)

    محکمہ تعلیم کی جانب سے طلبہ کیلیے بھیجی گئیں کتابیں بارش کی نذر (ویڈیو)

    (20 اگست 2025): دیہی سندھ میں پہلے ہی تعلیم کی صورتحال ابتر ہے ایسے میں طلبہ کیلیے بھیجی جانے والی کتابیں بھی بارش کی نذر ہو گئیں۔

    اے آر وائی نیوز کے عمر کوٹ میں نمائندے ممتاز آریسر کے مطابق محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے اسکول کے طلبہ کے لیے بڑی تعداد میں کتابیں اور کاپیاں بھیجی گئی تھیں۔ جنہیں پورے ضلع کے سرکاری اسکولوں کے طلبہ میں تقسیم کیا جانا تھا۔

    تاہم طلبہ تک پہنچنے سے قبل بارش پہنچ گئی اور اسکول کے ایک کلاس روم میں رکھی یہ کتابیں برساتی پانی میں بھیگ گئیں اور بیشتر ناقابل استعمال ہو گئیں۔

    اس حوالے سے تعلقہ آفیسر ایجوکیشن مصطفیٰ سہتو کا کہنا ہے کہ کتابوں کو محفوظ جگہ پر رکھا گیا تھا، لیکن بارش اتنی ہوئی کہ وہ بھی اس کی زد میں آ گئیں۔

    افسر تعلیم کا کہنا تھا کہ کتابوں کو یہاں سے منتقل کر دیا گیا ہے۔ بارش ختم ہونے کے بعد طلبہ میں یہ کتابیں تقسیم کی جائیں گی۔

  • ’گہرا مطالعہ‘ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    ’گہرا مطالعہ‘ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    ناٹنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر گریجری کیوری (Gregory Currie) نے نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا کہ ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ادب کا مطالعہ ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے؛ کیوں کہ ’’خارج میں اس بات کا کوئی اطمینان بخش ثبوت نہیں ملتا کہ لوگ ٹالسٹائی یا دوسری عظیم ادبی تخلیقات کو پڑھ کر اخلاقی یا سماجی اعتبار سے بہتر انسان بن گئے۔‘‘

    حالاں کہ یہ بات انتہائی غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ثبوت موجود ہیں۔ یارک یونیورسٹی، کناڈا کے ماہر نفسیات ریمنڈ مار ( Raymond Mar) اور ٹورنٹو یونیورسٹی میں علمی نفسیات کے پروفیسر ایمرٹس کیتھ اوٹلی(Keith Oatley) نے 2006 اور 2009 میں ایک مشترکہ اسٹڈی شائع کروائی، جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ جو لوگ زیادہ تر فکشن کا مطالعہ کرتے ہیں، وہ دوسروں کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے اندر لوگوں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ بھی دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے اور وہ دنیا کو دوسروں کے نظریے سے دیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا سرا محققین کی اس دریافت سے بھی جڑتا ہے کہ جو لوگ زیادہ ہمدردانہ جذبات کے حامل ہوتے ہیں، وہ ناول پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ 2010 میں ریمنڈ نے بچوں کے سلسلے میں شائع شدہ اپنی اسٹڈی میں بھی اسی قسم کی باتیں لکھی تھیں، ان کے مطابق: ان کے سامنے جتنی زیادہ کہانیاں پڑھی گئیں، ان کے اذہان دوسروں کے خیالات کو سمجھنے کے اتنے ہی قریب ہوتے گئے۔

    مطالعے کی ایک قسم ہے، جسے Deep reading یا ’’گہرا مطالعہ ‘‘کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں ’’سطحی مطالعہ‘‘(superficial reading) کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے، جس کا اطلاق عموماً انٹرنیٹ، ویب سائٹس وغیرہ کے مطالعے پر کیا جاتا ہے۔ محققین اور مطالعہ و علمی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بہ تدریج گہرے مطالعے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے اور اسے خطرات لاحق ہیں، اس کے تحفظ کے لیے ویسی ہی کوشش کی ضرورت ہے، جیسی کہ ہم کسی تاریخی عمارت یا فنی و تہذیبی شہ پارے کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں۔ اگر گہرے مطالعے کا رجحان ختم ہوجاتا ہے تو اس سے نہ صرف آن لائن نشو و نما پانے والی ہماری نسلوں کا عقلی و جذباتی خسارہ ہوگا بلکہ اس سے ہماری تہذیب و ثقافت کے اہم جز مثلاً ناول، شاعری اور دوسری قسم کے ایسے ادب کی بقا کو بھی خطرات لاحق ہوجائیں گے، جس کے فروغ میں صرف وہ قارئین حصہ لیتے ہیں، جن کے اندر خاص طور پر لٹریچر کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

    دماغی سائنس، نفسیات اور نیورو سائنس سے متعلق ایک حالیہ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’گہرا مطالعہ‘‘(جو دھیرے دھیرے، کتاب میں ڈوب کر کیا جاتا ہے اور جو محسوس تفصیلات اور اخلاقی و جذباتی اتار چڑھاؤ سے مالا مال ہوتا ہے) ایک منفرد تجربہ اور الفاظ کی ظاہری سمجھ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ حالاں کہ گہرے مطالعے کے لیے لازمی طور پر کسی مانوس اور پسندیدہ کتاب کا ہونا ضروری نہیں ہے، مطبوعہ صفحات میں فطری طور پر ایسی انفرادی صلاحیت ہوتی ہے، جو گہرے مطالعے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہائپر لنک سے آزاد کتاب قاری کو فیصلہ سازی کے تذبذب سے بچاتی ہے (کہ میں اس لنک پر کلک کروں یا نہ کروں؟) اور اسے پوری طرح مصنف کے بیانیے میں محو کر دیتی ہے۔

    یہ محویت یا استغراق ایک ایسے طریقۂ کار سے مربوط ہے جس کے ذریعے انسان کا دماغ کتاب میں مذکور مختلف تفصیلات، تلمیحات و استعارات سے مالا مال زبان سے معاملہ کرتا ہے۔ بایں طور کہ وہ ذہن کے پردے پر ایک عقلی نقشہ بناتا ہے جو کتاب کے ان مباحث پر قائم ہوتا ہے، جو اُس وقت ایکٹیو ہوسکتے ہیں جب وہ منظر حقیقی زندگی میں بھی سامنے ہو۔جذباتی احوال اور اخلاقی مسائل جو کہ ادب کے لازمی اجزا ہوتے ہیں، وہ بھی زبردست دماغی مشق کا ذریعہ ہیں، وہ ہمیں خیالی اور تصوراتی اشخاص کے دماغوں تک پہنچاتے اور جیسا کہ مطالعات و تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے، ہماری باہمی ہمدردی کی حقیقی صلاحیت میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ مگر یہ سب اس وقت نہیں ہوتا جب ہم انٹرنیٹ پر کوئی ویب سائٹ اسکرول کررہے ہوتے ہیں۔ گرچہ ہم اسے بھی پڑھنے سے تعبیر کر سکتے ہیں، مگر کتابوں کا گہرا مطالعہ اور منتشر معلومات پر مبنی ویب سائٹ کو دیکھنا، پڑھنا دونوں میں تجربے، نتائج اور ان سے حاصل ہونے والی صلاحیتوں کے اعتبار سے بہت فرق ہے۔ بہت سی ایسی دلیلیں ہیں، جو یہ بتاتی ہیں کہ آن لائن مطالعے میں قاری کا انہماک کم سے کم ہوتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے بھی بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہوتا، جو انٹرنیٹ کی دنیا سے کافی مانوس ہیں۔

    گہرا مطالعہ کرنے والا انسان ذہنی انتشار سے محفوظ ہوتا ہے اور وہ دورانِ مطالعہ سامنے آنے والے الفاظ کے درمیان پائے جانے والے باریک لغوی فرق کو بھی بخوبی سمجھتا ہے، پھر دورانِ مطالعہ بہ تدریج اس پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جسے ماہر نفسیات وکٹر نیل (Victor Nell) نے مطالعے سے لطف اندوزی کی نفسیات سے متعلق اپنی ایک تحقیق میں’’خواب آور کیفیت‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ نیل کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ جب ایک قاری مطالعے سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے، تو اس کے مطالعے کی رفتار دھیمی ہو جاتی ہے۔ الفاظ کو سرعت کے ساتھ سمجھنا اور صفحے پر آہستگی سے آگے بڑھنا دونوں مل کر گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے والے کو تحلیل و تجزیہ، چیزوں کو یاد رکھنے اور آرا و افکار کو نتیجہ خیز بنانے کا کافی وقت فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح قاری کو مصنف کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے کا وقت ملتا ہے، جس کے زیر اثر دو محبت کرنے والوں کی طرح یہ دونوں ایک طویل و گرم جوشانہ گفتگو میں منہمک ہوجاتے ہیں۔

    یہ وہ مطالعہ نہیں ہے جسے بہت سے نوجوان جانتے ہیں۔ ان کا مطالعہ وقتی فائدے کا حامل ہے اور دونوں میں وہی فرق ہے، جسے معروف ادبی نقاد فرینک کرموڈ (Frank Kermode) نے ’’جسمانی مطالعہ‘‘ اور ’’روحانی مطالعہ‘‘ کے ذریعے بیان کیا ہے۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو یہی باور کراتے رہے کہ ’’جسمانی مطالعہ‘‘ ہی سب کچھ ہے اور ابتدائی دور میں ہی مشق و ممارست کے ذریعے ہم نے انھیں روحانی مطالعے کا عادی نہیں بنایا، تو ہم انھیں ایک لطف انگیز و سرور بخش تجربے سے محروم رکھ کر دھوکے میں ڈالیں گے۔ ہم انھیں ایسے اعلیٰ اور روشنی بخش تجربے سے محروم کر دیں گے جو بطور انسان انھیں بلند کرسکتے ہیں۔

    ڈیجیٹل آلات سے نئی نسل کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے بعض ترقی پسند معلمین اور کسل مند والدین بچوں کی عادتوں کے ساتھ چلنے اور ان کی تعلیم کو بھی آن سکرین لانے کی باتیں کرتے ہیں، حالاں کہ یہ غلطی ہے۔ اس کی جگہ ضرورت ہے کہ ہم انھیں ایسی جگہیں دکھائیں جہاں وہ کبھی نہیں گئے۔ ایسی جگہیں جہاں وہ محض ’’گہرے مطالعے‘‘ کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔

    (دی ٹائم میگزین کے ایک مضمون کا یہ ترجمہ نایاب حسن نے کیا ہے)

  • سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں کباڑ میں فروخت کیے جانے کا انکشاف

    سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں کباڑ میں فروخت کیے جانے کا انکشاف

    بدین : ضلع بدین میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے ملنے والی سینکڑوں درسی کتب کباڑ کی دکان پر فروخت کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

    سندھ میں ایک جانب سرکاری تعلیمی ادروں میں درسی کتب  کا فقدان ہونے سے سینکڑوں طلباء کا مستقبل داو پر لگا ہوا ہے تو دوسری جانب وہی درسی کتب کباڑی کی دکان پہ فروخت کے لئے لائی جانے کا بڑا انکشاف سامنے آیا ہے ۔

     تفصیلات کے مطابق ضلع بدین کی تحصیل گولاڑچی میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے ملنے والی درسی کتابیں جو کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات میں مفت تقسیم کی جانی تھیں وہی کتابیں کباڑ کی دکان پر فروخت کے لئے لائی گئیں۔

    مذکورہ معاملے کا علم تعلقہ ایجوکیشن آفیسر کو ہوا تو فوری معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا اور کہا کہ محکمہ تعلیم کے دیگر اعلٰی حکام نے واقعے کو سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے۔

    گزشتہ روز سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی جانب سے ملنے والی درسی کتب گولاڑچی میں ایک کباڑ کی دکان پر فروخت کیلئے لائی گئیں، جبکہ دو روز قبل ہی سندھ میں درسی کتابوں کی تقسیم کا عمل شروع کیا گیا ہے چند اضلاع میں کتابیں بھجوائی بھی گئیں ہیں۔

    بدین کے ضلعے گولاڑچی میں یہ دوسرا واقعہ پیش آیا ہے جہاں سینکڑوں درسی کتب پہلے گندے سیم نالے میں پھینکی گئیں اور اب کباڑ خانے میں لائی گئیں، یہ کتابوں پرانی نہیں،کتابوں پر سال 2022 اور سال 2023 درج ہے۔

    واقعے کا علم ہونے پر کتابیں تعلقہ ایجوکیشن آفیسر نے اپنی تحویل میں لے لی ہیں تاہم یہ واقعہ سوچی  سمجھی سازش معلوم ہوتا ہے معلوم نہیں کہ یہ کتابیں کس نے فروخت کرنے کی کوشش کی ہیں تحقیقات کروائی جائینگی۔

    تعلقہ ایجوکیشن آفیسر کے کا کہنا تھا کہ اگر کسی اسکول کے  ٹیچر نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہے تو اس کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کریں گے۔

    سندھ کے سرکاری اسکولوں میں درسی کتب کی عدم فراہمی پر سکھر کی شہری وسماجی حلقوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے کہ کتابوں کی بے حرمتی کرنے والوں سمیت ان تمام سازشی عناصر سے کو سامنے لایا جائے۔

    انہوں نے حکومت سندھ و محکمہ تعلیم سندھ اور چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے بالا حکام سے سندھ کے سرکاری اسکولوں میں درسی کتابوں کی کمی کو بھی پورا کرکے کتابوں کی فراہمی یقینی بنانے سمیت لاکھوں طلباء کا مستقبل بچانے کا پرزور مطالبہ کیا۔

  • کراچی میں عالمی کتب میلے کا آغاز

    کراچی میں عالمی کتب میلے کا آغاز

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 17 ویں عالمی کتب میلے کا آغاز ہوگیا، میلے میں 17 ممالک کے 40 سے زائد ادارے اپنی کتب پیش کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے ایکسپو سینٹر میں 5 روزہ کتب میلے کا آغاز جمعرات 8 دسمبر سے ہوگیا جو اتوار 12 دسمبر 2022 تک جاری رہے گا۔

    کتب میلے میں کتابوں کے 330 اسٹالز لگائے گئے ہیں جن میں مقامی و بین الاقوامی مصنفین کی کتابیں موجود ہیں، 17 ممالک کے 40 ادارے میلے میں اپنی کتابیں پیش کریں گے۔

    کتب میلے میں 60 سے 70 فیصد رعایت پر کتابیں دستیاب ہوں گی۔

    منتظمین کا کہنا ہے کہ رواں برس کتب میلے میں 5 لاکھ سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہے جن میں کراچی سمیت ملک بھر کے شہری شامل ہیں۔

  • ڈیڑھ کروڑ کتابیں رکھنے والی دنیا کی نایاب لائبریری

    ڈیڑھ کروڑ کتابیں رکھنے والی دنیا کی نایاب لائبریری

    امریکا کی ییل یونیورسٹی کی لائبریری معلومات کا خزانہ ہے جہاں ڈیڑھ کروڑ سے زائد کتابیں موجود ہیں، ان کتابوں کی حفاظت کے لیے جدید میکنزم متعارف کروایا گیا ہے۔

    امریکی ریاست کنیکٹی کٹ میں موجود ییل یونیورسٹی اور اس کی لائبریری سنہ 1701 میں قائم کی گئی، اس کی لائبریری میں کئی سو سال پرانی کتب موجود ہیں۔

    ان قدیم کتابوں کی حفاظت اور انہیں گلنے سڑنے سے بچانے کے لیے ان کی بہت حفاظت کی جاتی ہے۔

    اگر یہاں آگ لگ جائے تو اس لائبریری میں ایسا خودکا سسٹم ہے جو کتابوں کی حفاظت کے لیے آکسیجن لیول اتنا کم کر دیتا ہے کہ آگ مزید نہیں پھیل سکتی، اس صورت میں یہاں موجود انسانوں کا دم گھٹ سکتا ہے لیکن یہ قدیم کتابیں بھی نہایت قیمتی ہیں۔

    عموماً کتابیں کچھ عرصے بعد انفیکشن یا کسی پیتھوجن کے حملے سے گلنا شروع ہو جاتی ہیں، یونیورسٹی نے اس مسئلے کے حل کے لیے تحقیق کی اور ایسا میکنزم متعارف کروایا جس سے پرانی کتابوں کو منفی درجہ حرارت سے ٹریٹ کر کے ان کی عمر کو بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ اصل نسخے بچ سکیں۔

    امریکا میں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی لائبریری بھی موجود ہے جو کانگریس لائبریری ہے، یہاں لگ بھگ 17 کروڑ کتب موجود ہیں جن کے بک شیلفس 800 میل کا احاطہ کرتے ہیں۔

  • موبائل اونٹ لائبریریوں نے دنیا کو حیران کر دیا

    موبائل اونٹ لائبریریوں نے دنیا کو حیران کر دیا

    ایتھوپیا: جہاں ایک طرف دنیا بھر میں کرونا وائرس وبا کی وجہ سے کروڑوں بچوں کا تعلیمی سلسلہ رکا، وہاں افریقی ملک ایتھوپیا میں دہری مصیبت آئی، ایک طرف پہلے سے جبری مشقت کی وجہ سے مقامی بچے تعلیم سے محروم رہے، دوسری طرف وبا نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔

    تاہم، ایتھوپیا کے دور دراز علاقوں میں بچوں کو جبری مشقت سے بچانے اور ان کو بہتر مستقبل فراہم کرنے کے لیے ایک ایسا منصوبہ پیش کیا گیا جس کے بارے میں جان کر دنیا حیران ہوئی، یہ انوکھا منصوبہ تھا موبائل اونٹ لائبریریوں کا۔

    ایتھوپیا میں کرونا وائرس کی وجہ سے مارچ میں اسکول بند ہو گئے تھے اور اس کے نتیجے میں تقریباً 26 ملین بچے گھروں میں بیٹھ گئے تھے، دوسری طرف ملک کے دیہی علاقوں میں پہلے ہی بچوں کو جبری مشقت اور کم عمری کی شادیوں کے خطرے کا سامنا تھا۔

    اس صورت حال میں ایک تنظیم نے ملک کے مشرقی صومالی علاقے میں بچوں کو تعلیم سے منسلک رکھنے کے لیے 20 سے زائد اونٹ وقف کر کے ان پر کتابوں سے بھری لکڑی کے صندوق لاد کر دیہات میں بچوں میں کتابیں تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے۔

    عالمی تنظیم ‘سیو دا چلڈرن‘ کے ملکی ڈائریکٹر ایکن اوگوتوگولاری کا کہنا تھا کہ ‘یہ بہت بڑا بحران ہے لیکن ہم پرعزم ہیں کہ کرونا کے دنوں میں جہاں تک ہو سکے مالی لحاظ سے کمزور بچوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

    واضح رہے کہ افریقی دیہی علاقوں میں اونٹ لائبریریوں کے اس منصوبے کا آغاز تو 10 برس قبل ہوا تھا، تاہم کرونا وبا کے باعث، ایتھوپیا کے اس علاقے میں اس منصوبے کے ذریعے 33 سے زائد دیہات میں 22 ہزار سے زائد بچوں کی مدد کی گئی ہے۔

    منصوبے کے تحت مقامی رضاکار بچوں کی کتابیں اونٹوں پر لاد کر گاؤں گاؤں جاتے ہیں اور وہاں خیمے لگا کر کم از کم 3 دن قیام کرتے ہیں، اس دوران بچے کتابیں وہاں بیٹھ کر بھی پڑھ سکتے ہیں اور گھروں میں بھی لے جا سکتے ہیں۔

  • سرکاری اسکولوں کو کتب کی فراہمی نہ ہوسکی، طلبا بغیر کتابوں کے جائیں گے

    سرکاری اسکولوں کو کتب کی فراہمی نہ ہوسکی، طلبا بغیر کتابوں کے جائیں گے

    کراچی: ملک بھر میں کل سے اسکول کھلنے جارہے ہیں تاہم محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے سرکاری اسکولوں کو کتب کی فراہمی نہ کی جاسکی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سرکاری اسکولوں کے لیے کتب کی چھپائی اور ترسیل میں ناکام ہوگیا، کتب نیا تعلیمی سال شروع ہونے سے قبل طلبا کو فراہم کی جانی تھیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری اسکولوں کو مفت کتب فراہم نہ ہوسکیں، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ نے کتب کی چھپائی کے لیے نجی پبلشر کو رقم ادا نہ کی، رقم نہ ملنے سے نجی پبلشر نے سرکاری کتب کی چھپائی 40 فیصد کم کردی۔

    ذرائع کے مطابق 40 فیصد کم کتابوں کی اشاعت کے علاوہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جو شائع کردہ کتابیں ہیں وہ بھی طلبا تک نہیں پہنچ سکیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کل سے شروع تعلیمی سیشن میں طلبا بغیر کتابوں کے جائیں گے، نویں دسویں کے علاوہ انٹر کی سطح کی کتب بھی دستیاب نہیں۔ نویں دسویں کی صرف مطالعہ پاکستان اور سندھی کی کتب فراہم کی گئی ہیں۔

    خیال رہے کہ کل مخصوص ہدایات کےساتھ ملک بھر کے اسکول کھول دیے جائیں گے، طالب علم مخصوص فاصلے سے کلاس میں بیٹھیں گے۔

    اسکولوں میں طلبا اور اسکول کے عملے کے لیے ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے، بیمار ہونے کی صورت میں طلبا کو اسکول میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔

  • الماریوں میں‌ سجی کتابوں‌ کے درمیان رکھی ہوئی لاشیں!

    الماریوں میں‌ سجی کتابوں‌ کے درمیان رکھی ہوئی لاشیں!

    آئیے سوئٹزرلینڈ کی ایک قدیم اور پُرشکوہ عمارت کی سیر کو چلتے ہیں۔

    اس عمارت میں‌ ایک کتب خانہ ہے جو ایبے لائبریری کے نام سے مشہور ہے۔ عمارت کا منفرد طرزِ تعمیر، خوب صورتی اور سجاوٹ دیکھ کر آپ دم بخود رہ جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ اندر جاکر آپ خوف زدہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر داخل ہونے سے پہلے آپ یہ جان لیں‌ کہ اس عظیم الشان عمارت میں چند حنوط شدہ جسم بھی رکھے ہوئے ہیں تو فیصلہ کرسکتے ہیں‌ کہ اندر داخل ہونا ہے یا نہیں، مگر ہمیں یقین ہے کہ تجسس خوف پر غالب آجائے گا اور آپ سوئٹزر لینڈ کے علاقے سینٹ گالیں‌ کی اس لائبریری کے اندر  ضرور جائیں گے۔

    یہ کتب خانہ قدیم رسائل، نوادر اور حیرت انگیز موضوعات پر کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کئی مخطوطات اور قدیم نقشے بھی محفوظ ہیں۔ صدیوں پہلے یہاں ایک معبد قائم کیا گیا تھا اور بعد کے ادوار میں یہاں کتب خانہ بنا دیا گیا۔ آج اس دو منزلہ کتب خانے کی شہرت دنیا بھر میں ہے۔

    یہ کتب خانہ ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس میں ہر طرف لکڑی کی الماریوں میں کتابیں محفوظ ہیں۔ یہاں کے در و دیوار سے اس عمارت کی شان و شوکت اور اس کا حسن جھلکتا ہے۔ یہاں لکڑی کا کام نہایت نفیس اور باریکی سے کیا گیا ہے۔ الماریوں کے علاوہ زینے اور چھت کو جس مہارت سے منقش اور مزین کیا گیا ہے اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔

    یہ عمارت فنِ تعمیر کا ایک شاہ کار بھی مانی جاتی ہے جس میں ہوا اور روشنی کی آمدورفت کا خاص اہتمام کیا گیا ہے جب کہ اس کے ہال کی بناوٹ بھی ایک خاص پیمائش اور ڈھب سے کی گئی ہے۔ 1983 میں اسے عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں لائبریری میں موجود حنوط شدہ لاشوں کی طرف۔ کہتے ہیں کہ یہ لگ بھگ تیرہ سو برس پہلے حنوط کیے گئے جسم ہیں جو مرکزی ہال میں کتابوں کی الماریوں کے درمیان رکھے ہوئے ہیں۔

  • پنجاب میں سکھوں کی 3 سو سال پرانی مقدس کتاب نے لوگوں کو حیران کر دیا

    پنجاب میں سکھوں کی 3 سو سال پرانی مقدس کتاب نے لوگوں کو حیران کر دیا

    لاہور: بہتر برس بعد پاکستان کے شہر لاہور میں سکھ مذہب سے متعلق تاریخی اہمیت کی حامل کتابوں کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا جہاں سکھوں کی 3 سو سال پرانی مقدس کتاب نے لوگوں کو حیران کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کے پانچ سو پچاسویں جنم دن کی تقریبات کے سلسلے میں لاہور میں اِن نادر ونایاب کتابوں کی نمائش ہوئی، یہ نمائش پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار منعقد کی گئی۔

    اپنی نوعیت کی اس منفرد کتابی نمائش کا اہتمام پنجاب پبلک لائبریری نے کیا، جب کہ اس نمائش کا افتتاح کینیڈا سے آئی ہوئی ممتاز سکھ لکھاری گرمیت کور نے کیا۔

     

    پنجاب پبلک لائبریری کے سربراہ کے مطابق اس کتب خانے میں سکھ مذہب سے متعلق سیکڑوں کتابیں موجود ہیں لیکن نمائش کا حصہ صرف ان کتابوں کو بنایا گیا ہے جو تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کا ہاتھ سے تحریر کردہ تین سو سال پرانا نسخہ بھی اس نمائش کا حصہ ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  ‘وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف نے سکھوں کے دل جیت لئے’

    جن تاریخی کتابوں کو اس نمائش کا حصہ بنایا گیا ہے ان میں سری گورو گوبند سنگھ مہاراج نظم کی سوانح عمری، تذکرہ بابا گورو نانک، پوتہی جپ، سکھوں کی تاریخ، سکھ مذہب اور اسلام سمیت دیگر کئی نایاب کتب شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ پنجاب میں سکھوں کے مذہبی پیشوا بابا گرونانک کا جبہ دریافت ہوا ہے، یہ جبہ شاہی قلعے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کمرے سے ملا، ڈائریکٹر فقیر خانہ میوزیم کا کہنا تھا کہ سکھوں کے دیگر گروؤں کے زیر استعمال اشیا بھی دریافت ہوئی ہیں، یہ جبہ مزید تحقیقات کے لیے قومی اداروں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔

    ڈائریکٹر فقیر سیف الدین نے کہا کہ گرونانک کا جبہ رنجیت سنگھ کو کرتارپور کے بزرگ نے پیش کیا تھا، رنجیت سنگھ کے لاہور قلعہ میں زیر استعمال کمرے سے نوادرات بھی دریافت ہوئے، گرونانک کا جبہ جلد سکھ برادری کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔

  • سال 2018 کی اہم کتابیں اور چند سوالات

    سال 2018 کی اہم کتابیں اور چند سوالات

    تحریر و تجزیہ: سیمیں کرن

    ایک ایسے وقت میں، جب یہ شوروغوغا ہے کہ ادب پھل پھول نہیں رہا، کتاب کلچر کو انٹر نیٹ نگل لیا ہے، دنیا ایک بالکل نئی کروٹ لے چکی، وہاں موجودہ اردو ادب کو پرکھنے اور اُس پر بات کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

    کیا اُردو ادب تخلیق نہیں ہو رہا؟ ایسا ادب جو بین الاقوامی معیارات کا مقابلہ کر سکے، کیا کتاب کلچر ہمارے بیچ سے غائب ہو چکا ہے؟ کیا کتاب کی جگہ واقعی نیٹ اور سوشل میڈیا لے چکا ہے؟

    اِن سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ناگزیر اِس لیے بھی ہو جاتا ہے کہ نئی صدی کی دوسری دہائی اختتام پذیر ہے اور گذشتہ بیس تیس برس ایک مکمل بدلے اورنئے سماج کے دعوے دار ہیں، جہاں سیاست ہماری جذباتی دنیا میں بری طرح داخل ہو چکی ہے، عام شخص کا سیاسی شعور مزید بالغ ہو چکا ہے۔

    [bs-quote quote=”قرة العین حیدر کہتی ہیں: ”پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔“ اور اگر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    اُردو زبان کا شمار برصغیر کی اہم زبانوں میں ہوتا ہے، ایک ایسی زبان جسے پڑھنے اور بولنے والے دُنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں، جو پاکستان کی قومی زبان ہے، یہ ہندوستان میں ایک بڑی آبادی میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، ہندوستان اُردو ادب میں مسلسل حصہ بھی ڈالا جا رہا ہے، لیکن اِس کے باوجود اُردو ادب زوال پذیر ہے کا سلوگن کیوں گردش عام ہے؟

    اِن حالات میں اس سوال کے معنی خیزی نہ صرف ادب کے لکھاری کے لیے بڑھ جاتی ہے بلکہ قاری بھی اس سوال کوپوچھنے میں حق بجانب ہے، اس خطے کا سماج ایک گھٹن، انتشار اور شدت پسندانہ رویوں کا ثمرکاٹ رہا ہے، پاکستان میں غیر مستحکم جمہوری اقدار اور ہندوستان میں شدت پسند ہندو سیاست، جو اُردو کو ایک اقلیت کی زبان بنانے کے درپے ہے، یہ وہ مسائل، چیلنجز اور سوال ہیں جو اُردو ادیب کو درپیش ہیں اور جن کو جواب ڈھونڈنے میں شاید اس کا حل بھی پنہاں ہے۔

    یہ سوال اہم ہے کہ کیا آج کا ادیب موجودہ سوالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمارے پاس اِس سوال کا کوئی واضح جواب ہے ،تو یقیناً ہم باقی سوالوں اور  مسائل کی جانب مثبت پیش رفت کے قابل ہوں گے۔

    یہ سوال اپنی جگہ ہیں، مگر کتابوں کی اشاعت، اُس کاتذکرہ ناگزیر ہی نہیں، بلکہ خوش آئند بھی ہے اور اِس دعوے کی نفی بھی کہ ادب زوال پذیر ہے اور ناپید ہو رہا ہے۔

    فکشن کے میدان میں قابل ذکر کتب

    سال 2018 میں سامنے آنے والی کتب و جرائد کا جائزہ لیا جائے، تو ہمارے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے، صورت حال یقینا خوش آئند اور اُمید افزا ہے۔ قرة العین حیدر کہتی ہیں: ”پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔“ اور اگر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں۔ اِس سال ایسا بہت کام ہوا جو نہ صرف قابلِ ذکر ہے، بلکہ اُردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھا جائے گا۔

    سب سے پہلا تذکرہ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ”منطق الطیر ، جدید “کا ہے۔ تارڑ صاحب کے ناول کے کچھ اِختصاصات ہیں، جن میں پرندے سرفہرست ہیں۔ فریدالدین عطا رکے یہ پرندے مستنصر حسین تارڑ کی باطنی دنیا میں ہی نہیں پھڑپھڑاتے، بلکہ یہ پرندے ان کی ادبی کائنات میں بھی پرواز کرتے ملتے ہیں۔ یہ پرندے ” خس و خاشاک زمانے میں “ بھی منسوب ٹھہرتے ہیں۔ یہ تارڑ کے ساتھ ساتھ محوِپرواز رہتے ہیں۔ ایسا ناول لکھنے کی ہمت مستنصر حسین تارڑ جیسا کہنا مشق ادیب ہی کر سکتا تھا۔ جس کے ساتھ مطالعہ کی کثرت ہم رکاب ہے وہ چاہے سفر کی صورت ہو یا کتاب کی۔ تارڑ ہر صورت مطالعہ کے خوگر ہیں اور یہی اُس کی تحریر کو ایک لازوال چاشنی عطا کرتی ہے۔ اُنھوں نے ان گذشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب کو بلا مبالغہ ایسے بڑے ناولز سے نوازا، جس کو اہم عالمی ادب کے سامنے فخر سے رکھ سکتے ہیں۔

    خالد فتح محمد بھی اُن ناموں میں شامل ہیں جنھوں نے اُردو ادب میں معتبر اضافہ کیا ہے۔ اُن کا اسلوب سادہ و دل نشین ہے، بغیر کسی اُلجھا وے کے وہ اپنی بات و سوچ قاری تک پہنچا دیتے ہیں۔ ”شہر مدفون“ اور ” خلیج “کے بعد اُن کا تازہ ناول ”سانپ سے زیادہ سراب “ سامنے آیا ہے۔

    محمد الیاس بھی اُن معتبر ناموں میں شامل ہیں، جنھوں نے گذشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ متعدد افسانوی مجموعے اور ناول اُن کے کریڈٹ پر ہیں۔ کہر، برف، بارش، پروا اور دھوپ جیسے بڑے ناول وہ اردو اَدب کو دے چکے ہیں اور امسال اُن کا ناول ” عقوبت“ اُمید ہے کہ اشاعت ہو کر سامنے آ جائے گا۔

    اختر رضا سلیمی بھی ایک اہم ناول نگار کی صورت اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ برس اُن کے پہلے ناول ”جاگے ہیں خواب میں“ کا تیسراایڈیشن شائع ہوا، جب کہ دوسرا ناول ”جندر“ بھی سامنے آیا، اس سال اِن کے دو ناولوں کا خوب تذکرہ رہا۔ ہزارہ کے پس منظر میں لکھے گئے یہ دونوں ناولز یقیناً ایک گراں قدر اضافہ ہیں۔

    سید کاشف رضا کا ناول ”چاردرویش اور کچھوا“ اِس برس کا ایک اہم اور عمدہ ناول ہے۔ ناول، آغاز میں دیے ژاں بودریلارد کے اِس بیان کی بہترین مثال ہے کہ آج کا فن حقیقت میں مکمل طور پر گھس گھسا چکا ہے اور دوسرے باب کے آغاز میں ژاں بودریلارد کا کہنا ہے کہ اول تو یوں کہ فن بنیادی حقیقت کا عکس ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ اِس کا بیانیہ حقیقت میں گھس گھسا چکا ہے یا کسی حقیقت کا عکس ہے۔ پاکستان کا سیاست کا ایک باب بے نظیر کی شہادت اور طالبان کی کاشت کاری ایسے موضوعات کی عکس بنیادی مصنف کچھ ایسے کی ہے کہ گویا کوئی قلم سامنے چل رہی ہے، جس میں مصنف خود کسی کچھوے کے خول میں جا چھپا ہے۔

    [bs-quote quote=”تمام تر مسائل کے باوجود ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کتابیں سامنے آ رہی ہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    آمنہ مفتی کا ناول ”پانی مر رہا ہے“ بھی قابلِ تذکرہ ہے، وہ ایک عمدہ لکھاری اور ڈرامہ رائٹر ہے، فارس مغل بھی ایک تیز رفتار لکھاری ہیں اور یکے بعد دیگرے اُن کے دو ناول سامنے آئے ہیں۔ ”ہم جان“ اُن کا پہلا ناول تھا اور اِس برس اُن کا ناول ”سوسال وفا“ سامنے آیا ہے، جس میں ایک حساس اور سنجیدہ موضوع کو ایک محبت کی کہانی کی صورت میں پیش کیا ہے۔

    مشرف عالم ذوقی افسانے اور ناول کی دنیا کاوہ اہم نام ہے، جو اب اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، گذشتہ دودہائیوں میں وہ سلگتے مسائل اور عالمی و سماجی بدلاؤ کو اپنے ناولز کا موضوع بناتے رہے ہیں، اِس برس اُن کی ایک ہی تسلسل میں پانچ طویل کہانیاں، ہندوستان کے سیاسی پس منظر اور گھٹن کی بہترین عکاس رہیں۔

    ڈاکٹر ناصر عباس منیر جو ایک معتبر ادبی نقاد ہیں کا افسانوی مجموعہ ”راکھ سے لکھی گی کتاب “ قابلِ ذکر اضافہ ہے، سید ماجدشاہ کے افسانوی مجموعے ”ق“ کے بعد”ر“ ان کا دوسرا مجموعہ ہے۔ جو اُن کے مختصر افسانوں و افسانچوں پہ مشتمل ہے۔

    امین ھایانی کایہ دوسرا افسانوی مجموعہ ”بے چین شہر کی ُپرسکون لڑکی“ سامنے آیا ہے۔ محترم حمید شاہد کے رائے فلیپ پر شامل ہے۔ امین ھایانی کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک دردمند اور حساس لکھاری ہیں۔

    سبین علی نوجون لکھاریوں میں ایک عمدہ اضافہ اور اہم نام ہیں مختلف اور اہم موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں۔ صاحبِ مطالعہ اور عمدہ تنقیدی فکر رکھتی ہیں۔

    جواد حسنین بشر جواد جو ابن مسافر کے قلمی نام سے لکھتے ہیں، ان  کے یکے بعد دیگرے دو افسانوی مجموعے آئے ہیں۔ پہلا مجموعہ ”سفرناتمام “تھا اور اِس برس دوسرا مجموعہ ”ہاتھ ملاتا دریا اور مقدس بیٹی“ منظرعام پر آیا ۔ جواد ایک جرات آمیز افسانہ نگار ہیں اور نئے موضوعات پہ لکھنے کے خوگر روایتی موضوعات کے علاوہ جدید موضوعات و مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ 

    ایک نظر شعری مجموعوں‌ پر

    شعری دنیا پہ نظر ڈالیں تو کئی مجموعے منظرعام پر آئے، امجد اسلام امجد جیسے سینئر شاعر کی کتاب امجد فہمی حال ہی میں شایع ہوئی۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا نیا شعری مجموعہ انتشار آیا، نصیر احمد ناصر کے کلیات کے علاوہ ملبے میں ملی چیزیں کا نیا ایڈیشن سامنے آیا۔ نئی نسل و نئے شعرا بڑی تعداد میں سامنے آ رہے ہیں، ڈاکٹر جواز جعفر کی نظموں کا مجموعہ ”متبادل دنیا کاخواب“ قابلِ ذکر ہے۔

    شہزاد نیر جو ایک اہم اور کہنہ مشق شاعر ہیں، اُن کا شعری مجموعہ خواہشار بھی قابلِ ذکر ہے۔ ارشد معراج کی نظموں کا مجموعہ ”دوستوں کے درمیاں“ قابلِ ذکر ہے۔ حفیظ تبسم کا نظموں کا مجموعہ ”دشمنوں کے لےے نظمیں“اِک نئے ذائقے کا آہنگ ہے۔

    ظہور چوہان جن کے تین مجموعے اِس سے پہلے آ چکے، اُن کا شعری مجموعہ ”رودنی دونوں طرف“ اِس برس منظرعام پر آیا۔ شوزیب کاشر،اک جواں سالہ خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر ہیں اور شعری دنیا میں عمدہ اضافہ ہیں۔ اُن کا شعری مجموعہ ”خمیازہ“ اِس برس شایع ہوا۔

    ثمینہ تبسم ایک منجھی ہوئی شاعرہ ہیں، چار کتب پہلے منظر عام پر آ چکیں، اِس برس اُن کی کتاب ”سربلندی تیری عنایت ہے اشاعت پذیر ہوئی ہے، ناز بٹ کی نظموں و غزلوں کا پہلا مجموعہ ”وارفتگی“ منظرعام پر آیا ہے.

    شعر و ادب کی تخلیقی کتب کے علاوہ کچھ اور اہم قابلِ ذکر کتابیں ہیں، جن کا ذکر ہونا چاہیے۔

    جبار مرزا ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں ہیں،اُن کی کتاب ”نشانِ اِمتیاز“ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر سے متعلق چار عشروں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے، جمیل احمد عدیل کے فن پر شایع ہونے والی کتاب ”صاحبِ اسلوب“ کے نام سے اُن کے ادبی محاسن کا احاطہ کیا گیا ہے، یاسرجواد جو کہ ایک معروف مترجم و محقق ہیں، اِس برس اُن کی سرائیکی ویب کی تاریخ، نوبیل اِنعام یافتہ ادیبوں کے خطبات، پنجاب میں دیسی تعلیم (سرلائنز)، ضرب الامثال اور محاورے (فرہنگِ آصفیہ سے ماخوذ) منظرعام پر آئیں۔

    ”فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت“ فرخ ندیم کی کاوش ہے جو نئے تنقیدی فریم میں ادب کو دیکھنے کی کاوش ہے۔

    حرف آخر

    جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، جہاں اِسے کتاب کلچر کو نگلنے کا ملزم ٹھہرایا جا رہا ہے، وہیں اسی سوشل میڈیا کے مختلف فورمز اردو ادب کے فروغ کے لئے اپنا سود مند حصہ ڈال رہے ہیں، یہ اردو ادب کی نئی بستیاں ہیں، جہاں نیا لکھاری بھی پیدا ہوا رہا ہے اور قارئین بھی ۔ ہاں، لکھاری کنفیوز ہے کہ نہیں جانتا کہ اسے کیا لکھنا ہے، کہاں لکھنا ہے اور کہاں چھپنا ہے مگر اس کے سامنے امکانات کی وسیع تردنیا ہے۔

    اِس منظر نامے پہ نگاہ دوڑائیں تو ایک اور دروزہ کھلتا ہے۔ اِک اور منظرنگاہوں کے سامنے ہے وہ یہ کہ تمام تر مسائل اور  کے باوجود ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کتابیں سامنے آ رہی ہیں، ہاں اِک گھٹن زدہ اور انتشار کے شکار معاشرے کے ادیب کو دھند کے اِس بار نئے افق تلاش کرنے ہیں۔

    کیا وہ ایسا کر پائے گا یہ سوال باقی رہے گا؟