Tag: کتاب

  • ملاعمر افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے، کتاب میں انکشاف

    ملاعمر افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے، کتاب میں انکشاف

    آدیس بابا : ایک کتاب "سیکرٹ لائف آف ملا عمر ” میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان کے بانی ملاعمر پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر مقیم تھے۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان کے بانی سمجھے جانے والے رہنما ملا محمد عمر کے بارے میں ایک نئی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے۔

    ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی بیٹے ڈیم کی نئی کتاب ‘دس سیکریٹ لائف آف ملا عمر’ میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر امریکی حکام یہ سمجھتے رہے تھے کہ وہ پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔

    صحافی بیٹے ڈیم نے لکھا ہے کہ ملا عمر افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکہ کے ایک اہم فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے۔ وہ امریکی فوجی اڈے فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے جہاں امریکی نیوی سیلز اور برطانوی ایس اے ایس کے فوجی تعینات تھے۔

    بیٹے ڈیم نے اپنی کتاب کی تحقیق میں پانچ سال صرف کیے، جس کے دوران انھوں نے متعدد طالبان رہنماؤں اور ممبران سے گفتگو کی، انھوں نے جبار عمری سے بھی گفتگو کی ، جنھوں نے 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملا عمر کے باڈی گارڈ کے طور پر خدمت انجام دی جب وہ زیر زمین چلے گئے۔

    صحافی بیٹے ڈیم لکھتی ہیں کہ جبار عمری کے مطابق انھوں نے ملا عمر کو 2013 تک پناہ دی تھی، جب طالبان رہنما بیماری کے سبب انتقال کر گئے۔

    کتاب کے مطابق امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے ملا عمر کو امریکی اڈے کے قریب خفیہ کمروں میں پناہ دی گئی تھی، ملا عمر کے سر کی قیمت امریکہ نے ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔

    صحافی نے اپنی کتاب میں دعوی کیا ہے کہ امریکی فوجیوں نے ایک موقع پر ملا عمر کو پناہ دی جانے والی جگہ کا معائنہ بھی کیا تھا لیکن وہ انھیں تلاش نہ کر سکے۔ اس کے بعد انھوں ایک دوسرے مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا جہاں سے صرف تین میل کے فاصلے پر ایک اور امریکی اڈہ تھا جہاں 1000 فوجیوں کا قیام تھا۔

    صحافی بیٹے ڈیم کہ مطابق انھیں بتایا گیا کہ ملا عمر خبروں کے حصول کے لیے بی بی سی کی پشتو سروس کا استعمال کیا کرتے تھے۔

    اس کتاب میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ طالبان کی جانب سے کیے گئے متعدد دعووں کے برعکس، ملا عمر اپنی تنظیم کو اپنی جائے پناہ سے چلانے میں کامیاب نہ تھے، البتہ یہ کہا گیا کہ انھی کی منظوری سے قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان کے دفتر کا قیام ہوا۔

    خیال رہے گذشتہ ماہ ڈچ زبان میں شائع ہونے والی کتاب بہت جلد اب انگریزی زبان میں بھی شائع ہونے والی ہے۔

  • بچوں کے لیے کھانے کے ساتھ کھلونوں کی جگہ کتابوں کا تحفہ

    بچوں کے لیے کھانے کے ساتھ کھلونوں کی جگہ کتابوں کا تحفہ

    دنیا بھر کی مختلف کمپنیاں گاہکوں کو لبھانے کے لیے نت نئی تکنیکیں استعمال کرتی ہیں اور ان کا ہدف مختلف عمر کے افراد ہوتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک کوشش معروف فوڈ چین بھی اپنے ننھے گاہکوں کے لیے کرتی ہے جس میں انہیں کھانے کے ساتھ کھلونے بھی دیے جاتے ہیں، اس ڈیل کو ہیپی میل کہا جاتا ہے۔

    تاہم نیوزی لینڈ میں ایک انوکھا تجربہ کیا گیا، جسے بعد ازاں بے حد پذیرائی ملی۔

    نیوزی لینڈ میں ہیپی میل میں بچوں کو کھلونوں کی جگہ کتابیں دی گئیں جسے دیکھ کر ننھے بچے اور ان کے والدین ایک لمحے کے لیے حیران رہ گئے۔

    کمپنی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فونز کی آمد کے ساتھ ننھے بچوں میں مطالعے کا رجحان کم ہوگیا ہے، ان کی یہ کاوش مطالعے کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔

    ہیپی میل میں بچوں کے مصنف رولڈ ڈہل کی کتابیں رکھی گئی ہیں جنہوں نے ’چارلی اینڈ دا چاکلیٹ فیکٹری‘ جیسے مشہور ناول سمیت بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔

    ان رنگ برنگی کتابوں کے ساتھ مختلف اسٹیکرز بھی دستیاب ہیں جبکہ ان میں بچوں کو مختلف بیرونی سرگرمیاں کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ کتابیں ماحول دوست بھی ہیں، ان کی جگہ پلاسٹک کے کھلونے نہایت مختصر وقت کے لیے بچوں کے کھیلنے کے کام آتے ہیں جس کے بعد انہیں پھینک دیا جاتا ہے۔ یوں یہ کھلونے کچرے اور آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔

    فوڈ چین کے اس اقدام کو نہایت پذیرائی حاصل ہورہی ہے تاہم ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس پر تنقید کر رہے ہیں۔

    بعض افراد کا کہنا ہے کہ بچوں کے لیے مفت کتابیں ہماری قریبی لائبریری میں دستیاب ہیں تو پھر پیسے خرچ کر کے اور بچوں کے موٹاپے کی قیمت پر ان کتابوں کو خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔

    آپ کو یہ کوشش کیسی لگی؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • وہ عادات جو دماغی استعداد میں اضافے کے ساتھ آپ کو تازہ دم کردیں

    وہ عادات جو دماغی استعداد میں اضافے کے ساتھ آپ کو تازہ دم کردیں

    دن بھر تھکے ہارے ہونے کے بعد جب آپ گھر پہنچتے ہیں تو قدرتی طور پر آرام کرنا چاہتے ہیں۔ آرام کرنے کے لیے سونا، اور لیٹنا تو معمول کی بات ہے لیکن بعض افراد کوئی ایسا کام سر انجام دیتے ہیں جو ان کو پسند ہوتا ہے۔

    اس طریقے سے دراصل وہ اپنے ذہن کو تازہ دم کرتے ہیں۔ کچھ افراد ٹی وی دیکھتے ہیں، کچھ موسیقی، پینٹنگ یا لکھنے لکھانے کا کام کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ کام ایسے ہیں جنہیں کر کے ہم بیک وقت اپنی تھکن میں کمی اور دماغی استعداد میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کام کون سے ہیں۔

    ٹی وی کی جگہ کتاب پڑھیں

    2

    کتاب پڑھنا اور مطالعہ کرنا آپ کی معلومات اور تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے جبکہ اس کے لیے آپ کو کوئی خاص مشقت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ آپ اپنی سہولت کے مطابق آرام دہ حالت میں لیٹ یا بیٹھ کر مطالعہ کرسکتے ہیں۔

    اس کے برعکس ٹی وی دیکھنا آپ کے دماغ پر بوجھ ڈالتا ہے اور زیادہ دیر تک ٹی وی دیکھنا موٹاپے اور امراض قلب سمیت دیگر بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

    کمپیوٹر گیمز

    3

    ویسے تو ماہرین کمپیوٹر گیمز کھیلنے کو نقصان دہ عادت خیال کرتے ہیں لیکن کم وقت کے لیے کمپیوٹر گیمز کھیلے جائیں تو یہ آپ کی فوری فیصلہ کرنے اور حالات کے مطابق حکمت عملی اپنانے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔

    غیر ملکی زبان میں فلمیں

    4

    غیر ملکی فلموں کو ڈب کے بجائے ان کی اصل زبان میں ہی دیکھا جائے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مختلف زبانیں سیکھنے، بولنے اور سننے سے دماغ فعال ہوتا ہے اور اس کی کارکردگی اور استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

    دن میں کچھ وقت کا وقفہ

    5

    دن بھر کام کے دوران کچھ دیر کا وقفہ لیں اور اس دوران چائے یا گرین ٹی سے لطف اندوز ہوں۔ یہ آپ کے تھکے ہوئے اعضا کو پرسکون کرے گا اور آپ دوبارہ کام کرنے کے لیے تازہ دم ہوجائیں گے۔

    قیلولہ

    sleep

    دن میں 20 سے 30 منٹ کا قیلولہ نہ صرف آپ کی جسمانی توانائی میں اضافہ کرے گا بلکہ آپ کے دماغ کو بھی چاق و چوبند بنائے گا۔

    ذہین لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا

    6

    ایسے لوگ جن کا علم، تجربہ اور مطالعہ آپ سے وسیع ہو ان کے ساتھ وقت گزاریں اور گفتگو کریں۔ اس سے آپ کی دماغی وسعت میں اضافہ ہوگا اور آپ چیزوں کو نئے زاویوں سے دیکھنے اور پرکھنے کے قابل ہوسکیں گے۔

    بحث و مباحث میں حصہ لیں

    8

    اپنے جیسی دماغی استعداد کے حامل افراد سے مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے کریں۔ بحث آپ کے خیالات اور نظریات کو نئے زاویے فراہم کرے گی۔

    تازہ ہوا میں چہل قدمی

    7

    روز صبح تازہ ہوا میں چہل قدمی کریں۔ یہ آپ کے دماغ سے منفی خیالات کو ختم کر کے اس کی استعداد اور آپ کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرے گی۔

  • اکرم کنجاہی: اثبات کا شاعر

    اکرم کنجاہی: اثبات کا شاعر

    رضاالحق صدیقی

    اکرم کنجاہی کا کہنا ہے کہ ان کا خمیر چناب کی رومان پرور مٹی سے اٹھا ہے اوران کی شاعری ان کی اس بات کا پرتو نظر آتی ہے۔

    حسن بذات ِخود ایک صداقت ہے اور صداقت بجائے خود ایک حسن ہے۔دونوں کے ملاپ سے عشق کا خمیر اٹھا ہے۔

    دامنِ صد چاک کا ایک ایک لفظ، ایک ایک مصرع گواہ ہے کہ شاعر نے بے پناہ ریاض اور تخلیقِ فن کے معاملے میں بے حد ذمہ داری اور دیانت داری سے کام لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکرم کنجاہی کی ہر نظم اور ہر غزل ہمیں تکمیل کا احساس دلاتی ہے۔ یقینا فن میں تکمیل کا وجود ہوتا ہی نہیں، فن کائنات کی طرح مسلسل بدلنے کا نام ہے ۔

    جذبات اور خلوص، محبت سبھی ہیں سرد

    سورج پہ گھر بناوں گا اک روز جا کہ میں

    چنانچہ تکمیل کے احساس سے میری مراد یہ ہے کہ وہ جو کسی فن پارے کے مطالعے کے بعد ایک آسودگی اورطمانیت کا احساس ہوتا ہے، اکرم کنجاہی کی نظموں اور غزلوں کی بنیادی خوبی ہے، نہ کہیں اظہار و ابلاغ میں تشنگی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی زبان و بیان میں۔ ایسی نک سک سے درست شاعری کے معاملے میں یہ خدشہ اکثر درپیش ہوتا ہے کہ شاعر ہیت کے حسن و آرائش کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کے سبب سے موضوع کے ساتھ کماحقہ انصاف نہ کر پایا ہو گا، مگراکرم کنجاہی کی شاعری نے اس خدشے کی نفی کر ڈالی ہے۔ چنانچہ یہ وہ نظمیں اور غزلیں ہیں جو اندر باہر سے خوبصورت ہیں۔

    اکرم کنجاہی

    ان کا خارجی حسن ان کے داخلی حسن کی آسودگی بخش تفہیم کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے، اور ان کے داخلی حسن پر خارج کا لباس جچتا ہے، یوں اکرم کنجاہی کی شاعری نے موضوع اور ہیت کی تفریق کا جھگڑا ہی ختم کر دیا ہے، کیوں کہ اس شاعری میں سب کچھ یک جان ہے اوریہ شاعری ایک تخلیقی اکائی بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔

    اکرم کنجاہی ان شاعروں میں سے نہیں ہے جن کا عمر بھر خود اپنے آپ سے ہی تعارف مکمل نہیں ہوتا۔ شاعری یقینا شاعر کی ذات کا اظہار ہوتی ہے، مگر شاعر جب تک اپنی ذات کی مکمل شناسائی حاصل نہیں کر پاتا، وہ ابلاغ کے معاملے میں مفلوج رہتا ہے، اور باقی زندگی اس مفلوج پن کے جواز ڈھونڈنے میں گذار دیتا ہے۔

    اکرم کنجاہی نے سب سے پہلے اپنی ذات کو جانچا، پرکھا اور برتا ہے۔ پھر جب اسے اپنی پہچان کی روشنی میسر آئی ہے ،تو اس نے اس روشنی میں زندگی کو جانچا،پرکھا اور برتا ہے اور یوں سنیاس اختیار کرنے کی بجائے زندگی اور اس کے مسائل اور ان مسائل کے مضمرات اور اسرار تک رسائی حاصل کی ہے۔ شاید یہی عجب ہے کہ وہ اجالے کا، زندگی کا، زندگی کے اثبات کا، انسان کے ارتقا کا شاعر ہے۔

    میں نے اکرم کنجاہی کو اس لئے اثبات کا شاعر کہا ہے کہ اثبات کی شاعری یقین و اعتماد کے بغیر مشکل، بلکہ نا ممکن ہے، یقین انسان کی قوتِ خیر و عدل کی آخری فتح پر اور اعتماد اس حقیقت پر کہ انسان کا مقدر آخر کار امن، محبت اور روحانی و مادی آسودگی ہے۔ اکرم کنجاہی کے ہاں یقین و اعتماد کی اس توانائی کی افراط ہے۔

    ادب کے بعض عناصر کو یہ ضد ہوتی ہے کہ کسی شاعر کے فن کو کسی قسم کے سیاسی اور سماجی تناظر میں رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ اگر ہم سیاسی اور سماجی تناظر کو نظرانداز کر کے کسی شاعر کا جائزہ لیں گے، تو یوں سمجھیں کہ ہم اس زندگی اور اس ماحول کو نظر انداز کر رہے ہیں، جو شاعر کے کلام سے منعکس ہوا ہے اور اسے منعکس ہونا چاہیے کہ شاعر کے دل و دماغ اگر حساس نہیں ہوں گے تو وہ شعر ہی کیوں کہے گا،ایسا ہمارا ماننا ہے۔

    سیاست اور معاشرت کا تناظر کسی فن پارے کو  داغ دار نہیں بناتا، بلکہ اسے روشن کرتا ہے اور اکرم کنجاہی کے کلام کو سیاسی اور سماجی تناظر میں رکھ کر دیکھے بغیر ہم ان کے حسنِ کلام سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو سکتے ،اس لئے کہ یہ وہ شاعر ہے ،جس نے اپنی ذات کے آئینے میں پوری طرح زندگی کا مشاہدہ کیا ہے اور اگر اس زندگی میں سے سیاست اور معاشرت کو خارج کر دیا جائے تو تہذیب اور کلچر کے چہرے بھی اجنبی اجنبی سے معلوم ہونے لگتے ہیں،

    اب تو یہ خوہشات کا ساماں اٹھا کے پھینک

    اب بوجھ اپنی ذات پہ اپنا ہوا وجود

    اکرم کنجاہی مزاجاََ ایک نرم گفتار شاعر ہیں، مگر  اس نرمی میں متاثر کرنے کی جو قوت ہے ، وہ انہیں کتنے ہی بلند بانگ شاعروں سے اونچا کر دیتی ہے،یہ نرمی صرف ان شاعروں کے ہاں ہوتی ہے ،جو اپنی ذات کے علاوہ گردو پیش کے حالات و مسائل کو پوری طرح سمجھ چکے ہوتے ہیں، ایسے شاعر کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے کیا کہنا ہے ، کس زاویے سے کہنا ہے اور کس لہجے میں کہنا ہے، یہی وجہ ہے کہ زندگی کی نئی معنویتوں کا ادراک رکھنے کے باوجود اور جدید ہیت کا ایک بلیغ ترجمان ہونے کے باوجود اکرم کنجاہی اظہار کے معاملے میں اتنا سادہ ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سامنے کی بات کہہ دی ہو ، مگر ذرا سا رکیے، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سادگی کتنی تہہ دار ہے اور اس سنجیدگی میں کتنی شوخی ہے۔پھر الفاظ کے اندرونی اور بیرونی آہنگ کا رمز شناس ہونے کی وجہ سے اکرم کنجاہی شعر کی صورت میں دل و دماغ پر وار کرتا ہے، جو بڑا کٹیلا ہوتا ہے اور یہی کٹیلا پن ان کے لہجے کی پہچان اور انفرادیت ہے۔

    ہمیشہ پا بہ گِل رہتے ہیں ہجرت کر نہیں سکتے

    پرمدے اڑ بھی جائیں تو شجر رویا نہیں کرتے

  • امریکی لائبریری نے ٹرمپ مخالف کتاب لینے سے انکار کر دیا

    امریکی لائبریری نے ٹرمپ مخالف کتاب لینے سے انکار کر دیا

    ورجینا: امریکی لائبریری کی انتظامیہ نے ٹرمپ مخالف کتاب کو اپنے شیلف میں رکھنے سے انکار کر دیا.

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست مغربی ورجینیا میں ایک لائبریری نے ٹرمپ مخالف صحافی باب ووڈ ورڈز کی کتاب Fear: Trump in the White House کی مفت کاپی کو وصول کرنے سے انکار کر دیا.

    لائبریری کی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ انھیں ووڈ ورڈز کی کتاب لینے میں کوئی دلچسپی نہیں، ان کے بیش تر صارفین ٹرمپ کے حامی ہیں، گذشتہ انخابات میں‌ یہاں سے ٹرمپ نے واضح کامیابی حاصل کی تھی.

    یاد رہے کہ امریکی صحافی نے اپنی کتاب میں امریکی صدر کو کڑی کا تنقید کا نشانہ بنایا تھا. کتاب میں کئی اہم انکشافات کیے گئے ، جن کے مطابق خود وائٹ ہاؤس انتظامیہ ان پر بھروسا نہیں‌ کرتی.


    مزید پڑھیں: صدر بننے کے بعد ٹرمپ اب تک 5 ہزار بار جھوٹ بول چکے ہیں: امریکی رپورٹ


    اس کتاب پر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے شدید تنقید کی گئی. ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹس میں کتاب کے مندرجات کو آڑے ہاتھ لیا اور اس میں‌بیان کر دہ باتوں‌کو کو من گھڑت اور حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔

    لائبریری انتظامیہ کے رویے پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی جارہے اور اسے آزادی اظہار کے منافی قرار دیا جارہا ہے.

    واضح رہے کہ باب ووڈ ورڈز کی کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی. اب تک اس کی سات لاکھ سے زاید کاپیاں‌ فروخت ہوچکی ہیں.

  • صدرٹرمپ شامی صدربشارالاسد کو قتل کرانا چاہتے تھے، بوب وڈورڈز کا انکشاف

    صدرٹرمپ شامی صدربشارالاسد کو قتل کرانا چاہتے تھے، بوب وڈورڈز کا انکشاف

    واشنگٹن : امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق مصنف بوب وڈورڈز کی نئی کتاب کے انکشافات نے ہلچل مچا دی، کتاب میں دعوی کیا گیا ہے کہ صدرٹرمپ شامی صدربشارالاسد کو قتل کرانا چاہتے تھے جبکہ صدر ٹرمپ نے کتاب کو منفی قراردے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بوب وڈورڈز کی نئی کتاب فئیر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق نئے انکشافات کے بعد ہلچل مچ گئی، کتاب کے مصنف کا کہنا ہے ٹرمپ کی صدارت نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہے اور وہ صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت کی تحقیقات سے خوفزدہ تھے۔

    کتاب میں دعوی کیا گیا کہ اپریل 2017 میں جب شام میں کیمیائی حملے کی اطلاع ملی تو صدر ٹرمپ شامی صدربشار الاسد کو قتل کرانا چاہتے تھے لیکن وزیردفاع جیمزمیٹس نے بات نہیں مانی اور کہا معاملہ خود نمٹا دیں گے جبکہ ٹرمپ اور ان کا اسٹاف لوگوں سے نامناسب سلوک کرتا ہے۔

    بوب وڈورڈز نے کتاب میں کہا چیف آف اسٹاف وائٹ ہاؤس جون ایف کیلی نے ٹرمپ کو احمق قرار دیا، کیلی کا کہنا تھا ٹرمپ کو کسی چیز پر قائل کرنا دیوار سے سر ٹکرانے کے متردادف ہے۔ٹرمپ کے ساتھ کام کرنا زندگی کی بدترین ملازمت ہے۔

    مذکورہ کتاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی 20 ماہ کی صدارت کے دوران وائٹ ہاؤس میں ہونے والے معاملات پرروشنی ڈالی گئی ہے۔

    صدرٹرمپ نے کتاب کومنفی قراردیتے ہوئے کہا ایسی باتوں کا عادی ہوگیا ہوں۔

    یاد رہے رواں سال کے آغاز میں صحافی مائیکل وولف کی کتاب ’فائر اینڈ فیوری: ان سائیڈ دی ٹرمپ وائٹ ہاؤس‘ میں‌ بھی صدر ٹرمپ سے متعلق انکشافات کئے گئے تھے۔

    مزید پڑھیں : ٹرمپ صدر بننے سے خوف زدہ تھے: امریکی صدر سے متعلق سنسنی خیز انکشافات

    نیویارک میگ نامی جریدے میں اس کتاب کا ایک حصہ شایع ہوا تھا، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے ابتدائی دنوں‌ پر روشنی ڈالی گئی تھی، آرٹیکل کے مطابق ٹرمپ اپنی تقریبِ حلف برداری میں‌ شدید غصے میں تھے، کیوں‌ کہ معروف فلمی ہستیوں‌ نے تقریب میں‌ آنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے مسلسل لڑ رہے تھے۔

    مصنف کے مطابق ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس سے خوف آتا ہے، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنا علیحدہ بیڈ روم تیار کروایا، وہ اس کے دروازے پر تالا لگوانے چاہتے تھے، مگر سیکریٹ سروس راہ میں رکاوٹ بن گئی، جس کا کہنا تھا کہ انھیں صدر کی حفاظت کے لیے کمرے تک رسائی درکار ہے۔

  • لیمپ کی طرح روشنی دینے والی کتاب

    لیمپ کی طرح روشنی دینے والی کتاب

    مطالعے کے شوقین افراد جانتے ہیں کہ ان کے لیے لیمپ کس قدر ضروری ہے خاص طور پر اگر وہ رات کے وقت مطالعہ کریں اور اہلخانہ کی نیند نہ خراب کرنا چاہیں۔

    ایسے میں یہ کتاب ان کے لیے نہایت موزوں ہوسکتی ہے جو بذات خود ایک لیمپ ہے۔

    لومیو نامی لیمپ یا کتاب کھلتے ہی اپنے قرب و جوار کو روشنی سے منور کردیتا ہے۔

    360 ڈگری زاویے پر مڑ جانے والی یہ کتاب آپ کا موبائل فون بھی چارج کرسکتی ہے۔ جبکہ خود یہ 8 گھنٹے روشنی دینے کے بعد صرف 3 گھنٹے میں چارج ہوجاتی ہے۔

    آپ اپنے کمرے یا ڈرائنگ روم کی کلر اسکیم کے حساب سے اس کا سرورق بھی بدل سکتے ہیں۔

    کیا آپ کو بھی ایسے ہی لیمپ کی ضرورت ہے؟

  • ہماری زندگی سے آہستہ آہستہ غائب ہوجانے والی چیزیں

    ہماری زندگی سے آہستہ آہستہ غائب ہوجانے والی چیزیں

    وقت بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ آج ہمیں اپنی زندگی میں جو سہولیات اور آسائشیں میسر ہیں، صرف ایک عشرے قبل ان کا تصور بھی ناممکن تھا۔

    لیکن دعا دیجیے جدید دور کو جو ایک طرف تو ہمارے لیے کئی سہولیات لے کر آیا ہے، وہیں اس نے ہمیں کئی چیزوں سے محروم بھی کردیا ہے۔

    شاید آپ نے کبھی غور نہ کیا ہو لیکن ہماری زندگی سے بہت سی چیزیں آہستہ آہستہ غائب ہو رہی ہیں اور بہت جلد یہ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گی۔

    آئیے دیکھتے ہیں ہم کن چیزوں سے محروم ہورہے ہیں۔


    اندھیرا آسمان

    1

    آپ یاد کریں کہ آپ نے آسمان کی اصل رنگت کو آخری بار کب دیکھا تھا؟ یقیناً آپ کو یاد نہیں ہوگا۔

    تیز رفتار ٹیکنالوجی کی بدولت روشنیاں ہماری زندگیوں میں اس قدر حاوی ہوچکی ہیں کہ یہ ہماری رات کو بھی دن بنا دیتی ہیں۔

    ہم اب بھول گئے ہیں کہ آسمان کے رنگ کیسے ہوتے ہیں، خصوصاً رات کو تاروں کا چمکنا، یا اندھیری راتوں میں آسمان کا نظارہ کیسا ہوتا ہے۔


    چابیاں

    2

    اگر آپ پرانے پاکستانی اور بھارتی ڈرامے دیکھیں تو اس میں آپ کو چابیاں نہایت اہم نظر آئیں گی۔ گھر میں بڑی بہو کی آمد کے ساتھ چابیاں اس کے سپرد کردینا ایک پرانی روایت تھی جو اس بات کو ظاہر کرتی تھی کہ اب گھر بہو کے حوالے ہے۔

    لیکن نئے دور کے ساتھ نہ صرف یہ روایت بلکہ ہر قسم کی چابیاں ہی ختم ہورہی ہیں۔ جدید دور میں تیزی سے سماجی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔

    چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے کا رواج، خاندان کے مختلف جوڑوں کا الگ الگ گھروں میں رہنا، اور ذاتی زندگی میں کسی کی مداخلت برداشت نہ کرنے کا رجحان ہماری نانی دادی کے زمانے کی بہت سی روایات کو ختم کرچکا ہے۔

    دوسری طرف اب الماریوں، تجوریوں، اور گاڑیوں کی چابیوں کا استعمال بھی ختم ہونے جارہا ہے اور ان کی جگہ آٹو میٹک لاکس اور اسمارٹ آلات نے لے لی ہے۔


    کتاب

    3

    آج کل مطالعہ کا رجحان تو ویسے بھی کم ہوگیا ہے لیکن بہت جلد اس کا طریقہ بھی تبدیل ہوجائے گا۔

    اگلے چند سال میں ہم اور ہمارے بچے روایتی کتاب کے بجائے اسمارٹ اسکرین پر مطالعہ کریں گے۔


    ڈاک خانہ

    4

    پاکستان میں محکمہ ڈاک ایک عرصہ سے زبوں حالی کا شکار ہے اور ایک طویل عرصہ قبل ہی ہم اس کا استعمال چھوڑ چکے ہیں۔

    رابطوں کے لیے خطوط بھیجنا اب قصہ پارینہ بن چکا ہے اور اسمارٹ فونز کی بدولت ہم دنیا کے کسی بھی حصہ میں بیٹھے اپنے کسی پیارے سے کسی بھی وقت رابطہ کر سکتے ہیں۔

    اس محکمہ کو بھی بہت جلد باقاعدہ طور پر ختم کردیا جائے گا کیونکہ اس کی جگہ رابطوں کے آسان ذرائع یعنی موبائل اور اسمارٹ فون کے ذریعہ ویڈیو کالنگ، وائس کالنگ، میسجنگ اور ای میلنگ وغیرہ لے لیں گی۔


    زرد بلب

    5

    ہمارے گھروں میں جلتے زرد بلب ایک زمانے میں اردو ادب کا بھی حصہ تھے جو عموماً اداسی اور تنہائی کی نشاندہی کرتے تھے۔ تاہم اس کا استعمال بھی بہت کم ہوچکا ہے۔

    اس کی ایک وجہ تو ان بلبوں کا بجلی کا زیادہ خرچ کرنا ہے۔ ایک زرد بلب 40 سے 100 میگا واٹ بجلی خرچ کرتا ہے جو توانائی اور پیسے دونوں کا ضیاع ہے۔

    ان بلبوں کی جگہ اب زیادہ روشنی مگر کم بجلی خرچ کرنے والی روشنیوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اب ہمارے گھروں میں بھی 90 فیصد یہی ایل ای ڈی اور کم توانائی والی روشنیاں استعمال کی جاتی ہیں۔


    کلچ پیڈل

    6

    جدید دور میں گاڑی کا ہر نیا ماڈل پہلے سے زیادہ جدید اور آٹو میٹک ہوتا جارہا ہے۔

    گاڑی میں کلچ اور پیڈل بہت جلد ایک گم گشتہ شے بن جائیں گے اور شاید ہمارے بچے کبھی اس دقت اور مشقت سے آشنا نہ ہوسکیں جو گاڑی چلانا سیکھنے اور گاڑی چلانے میں اٹھانی پڑتی ہے۔


    تخلیہ

    7

    جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا جائے گا، لوگوں کی پرائیوسی بھی ختم ہوتی جائے گی۔

    جا بجا لگے کیمرے، خفیہ اور کھلے عام کی جانے والی نگرانی کے مختلف نظام اور خود ہمارا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر زندگی کے ہر مرحلے کو شیئر کرنا تخلیے یا پرائیوسی کو ایک خواب و خیال بنا دے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کامیاب افراد کی زندگی کا ایک لازمی اصول

    کامیاب افراد کی زندگی کا ایک لازمی اصول

    کامیاب افراد میں کئی عادات مشترک ہوتی ہیں۔ دراصل یہ مثبت عادات ہی کسی شخص کے زندگی میں کامیاب یا ناکام ہونے کا تعین کرتی ہیں۔ لیکن ان میں ایک عادت ایسی ہوتی ہے جو ان کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔

    وہ عادت اگر عام افراد میں بھی موجود ہو تو انہیں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

    مزید پڑھیں: کامیاب اور ناکام افراد میں فرق

    کیا آپ جانتے ہیں وہ عادت کون سی ہے؟

    وہ عادت ہے ہر وقت کچھ نیا سیکھنے کی۔ جب ہم عملی زندگی میں آتے ہیں تو ہمارے پاس وقت کی قلت ہوجاتی ہے اور اس کا سب سے منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ ہم کچھ نیا سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    ہم کتاب پڑھنا، انٹرنیٹ یا ٹی وی سے کوئی معلوماتی چیز سیکھنا اور ایسے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں جن سے ہمیں کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔

    لیکن یہی وہ عادت ہے جس نے ایک اوسط درجے کے طالب علم کو امریکا کی تاریخ کا ایک کامیاب سیاستدان بنا دیا۔

    جی ہاں، بینجمن فرینکلن جو ایک معروف سیاستدان، سائنسدان، تاجر، مصنف اور مفکر تھا، زمانہ طالبعلمی میں ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا۔ وہ جیسے تیسے امتحانات پاس کرتا تھا اور اسے کتابیں پڑھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔

    لیکن عملی زندگی میں آنے کے بعد اس نے ایک چیز کو اپنی زندگی کا لازمی اصول بنالیا تھا۔ وہ اصول ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کا تھا جس کے لیے وہ بے تحاشہ مطالعہ کیا کرتا۔ اس نے دنیا پر اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے اور اس کے لیے جو اس نے واحد راستہ اپنایا وہ کتابیں پڑھ کر سب کچھ سیکھنے کا تھا۔

    وہ روز صبح جلدی اٹھ کر کچھ وقت لکھنے اور پڑھنے میں صرف کیا کرتا تھا اور یہی اس کی کامیابی کی وجہ تھی۔

    صرف ایک بینجمن فرینکلن پر ہی کیا موقوف، دنیا کا ہر کامیاب شخص اپنے دن کا کچھ حصہ مطالعہ کے لیے ضرور وقف کرتا ہے۔

    دنیا کی سب سے بڑی ملٹائی نیشنل کمپنی تشکیل دینے والے وارن بفٹ اپنے دن کے 5 سے 6 گھنٹے مطالعہ میں صرف کرتے ہیں۔ اس دوران وہ 5 اخبار اور کارپوریٹ رپورٹس کے 500 صفحات پڑھتے ہیں۔

    مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس ہر ہفتے ایک کتاب پڑھتے ہیں۔

    فیس بک کے بانی مارک زکر برگ 2 ہفتوں میں ایک کتاب پڑھتے ہیں۔

    اسپیس ایکس کے سی ای او ایلن مسک بچپن سے دن میں 2 کتابیں پڑھتے ہیں۔

    مشہور ٹی وی میزبان اوپرا ونفرے اپنی کامیابی کی وجہ کتابوں کو قرار دیتی ہیں۔

    طبی ماہرین نے بھی مطالعہ کو ذہنی صحت کے لیے نہایت مفید قرار دیا ہے۔ یہ آپ کی دماغی کارکردگی اور اس کے افعال میں اضافہ کرتی ہے جبکہ آپ کی قوت تخیل کو وسیع کرتی ہے جس کے باعث آپ نئے نئے آئیڈیاز سوچ سکتے ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق روزانہ صرف آدھے گھنٹے کا مطالعہ آپ کی زندگی میں کئی برس کا اضافہ بھی کر سکتا ہے۔

    تو پھر آپ کب سے اس اصول کو اپنی زندگی کا حصہ بنا رہے ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • درخت اگانے والی کتاب

    درخت اگانے والی کتاب

    اگر آپ کتاب دوست انسان ہیں تو آپ نے بے شمار کتابیں پڑھی ہوں گی، کچھ کو سنبھال کر رکھا ہوگا، جبکہ کچھ کتابوں کو اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو دے دیا ہوگا۔

    تاہم ہر شخص یہ زحمت نہیں کرتا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کتابوں کو بے مصرف جان کر ردی میں ڈال دیتی ہے جس سے اور کوئی نقصان ہو نہ ہو، ان درختوں کی قربانی ضرور ضائع ہوجاتی ہے جو اس کتاب کے کاغذ بنانے کے لیے کاٹے گئے ہوتے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق کاغذ بنانے کے لیے ہر سال پوری دنیا میں 3 سے 6 ارب درخت کاٹے جاتے ہیں جس کے باعث دنیا بھر کے جنگلات کے رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

    اسی طرح نئے سال میں بچوں کی پرانی نصابی کتابیں بھی ردی میں دے دی جاتی ہیں جو بہر صورت ہمارے شہروں کے کچرے میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    تاہم ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کتاب کو ردی میں جانے سے بچانے کے لیے اسے کارآمد بنا ڈالا اور اسے درخت اگانے والی کتاب بنا دیا۔

    بیونس آئرس کے اس شہری نے بچوں کی اس کتاب کے کاغذات کو تیزاب کی آمیزش کے بغیر تیار کیا ہے۔ اس کے بعد اسے پرنٹ کر لینے کے بعد کاغذ پر ہاتھ سے جاکرندا نامی درخت کے بیج سی دیے جاتے ہیں۔

    جاکرندا نامی نیلے پھولوں کا یہ درخت وسطی و جنوبی امریکا کا مقامی درخت ہے۔

    کتاب کو پڑھ لینے کے بعد بچوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اسے زمین میں دفن کردیں اور روزانہ اسے پانی دیں۔ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کتاب سے پودا اگ آتا ہے جو کچھ عرصے میں تناور درخت بن جاتا ہے۔

    کتاب کے اشاعتی ادارے کا کہنا ہے کہ درخت اگانے والی اس کتاب کے ذریعے وہ بچوں میں زمین کے تحفظ اور ماحول اور درختوں سے محبت کا شعور اجاگر کر رہے ہیں۔

    ادارے نے کتاب کے لیے ٹیگ لائن متعارف کروائی ہے، ’بچے اور درخت ایک ساتھ نشونما پائیں‘۔

    ان کے مطابق بچپن سے ہی کتاب کے ذریعے درخت کی دیکھ بھال بچوں کو ایک ماحول دوست انسان بننے میں مدد دے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس درخت سے ان کی جذباتی وابستگی بھی ہوگی جو مرتے دم تک انہیں درخت کا خیال رکھنے پر مجبور کرے گی۔

    جنگل میں مہمات پر مبنی اس کتاب کو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبولیت مل رہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔