Tag: کتاب

  • کتاب کو کھولے بغیر پڑھنا ممکن

    کتاب کو کھولے بغیر پڑھنا ممکن

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ کسی کتاب کو بغیر چھوئے پڑھا جاسکے؟ کتاب کو پڑھنے کے لیے اسے چھونا اور کھولنا ضروری ہے۔ چھوئے اور کھولے بغیر اسے پڑھنا صرف جادوئی فلموں میں ہی ممکن ہے۔ لیکن اب یہ جادوئی تصور حقیقت بننے جارہا ہے۔

    امریکا کی میسا چوسٹس یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایسی ٹیکنالوجی تخلیق کرلی ہے جس کی مدد سے کتاب کو کھولے بغیر اس کے اندر لکھے ہوئے لفظ آپ کے سامنے آجائیں گے۔

    اس ٹیکنالوجی میں ٹیراہرٹز شعاعوں کے ذریعہ کتاب کے اندر لکھے الفاظ کی تصویر کشی کی جائے گی اور یہ الفاظ ایک علیحدہ کاغذ پر آپ کے سامنے لکھے ہوئے آجائیں گے۔

    جادوئی کتاب: پڑھنے کے لیے حل کرنا ضروری *

    ٹیراہرٹز شعاعیں ایکس ریز سے مختلف ہوتی ہیں اور یہ لکھے ہوئے لفظ اور سادہ کاغذ میں فرق کر سکتی ہیں۔

    اس ٹیکنالوجی میں میوزیم کے مالکان نے بے حد دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ ٹیکنالوجی کامیابی سے استعمال کے قابل قرار دے دی جاتی ہے تو انہیں ان قدیم اور تاریخی کتابوں کو پڑھنے میں آسانی ہوگی جو نہایت خستہ ہیں اور خستگی کی وجہ سے ان پر لکھے ہوئے لفظ پڑھے نہیں جاسکتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کاغذ کے علاوہ مختلف اقسام کی اشیا پر لکھی گئی تحاریر کو بھی پڑھ سکے گی۔

  • ایما واٹسن کی مطالعے کی ترغیب

    ایما واٹسن کی مطالعے کی ترغیب

    مشہور فلم سیریز ہیری پوٹر میں ہرمائنی کے کردار سے شہرت پانے والی ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن آج کل ایک منفرد مہم پر ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو مطالعہ کی ترغیب دینے کے لیے لندن کے ٹیوب اسٹیشن کے مختلف مقامات پر کتابیں چھپا دیں تاکہ لوگ انہیں ڈھونڈ کر پڑھیں۔

    کتاب ’چھپانے‘ کی یہ انوکھی ترکیب مشہور گیم ’پوکیمون گو‘ کے بعد سامنے آئی جس میں کھیل کھیلنے والوں کو مختلف مقامات پر پوکیمون نامی کارٹون کریکٹر کو ڈھونڈنا ہوتا ہے۔

    اس کھیل کی طرز پر برسلز میں ایک اسکول پرنسپل نے کتاب کی تلاش پر مشتمل ایک کھیل کا آغاز کیا جس میں وہ کسی مقام پر کوئی کتاب چھپا دیتے اور اس کے بعد اپنے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر اشارتاً بتاتے کہ وہ کتاب کہاں ہوسکتی ہے۔

    کتاب ڈھونڈنے والے کو اسے پڑھنے کے بعد کہیں اور چھپانا پڑتا ہے جس کے بعد مزید کئی افراد اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

    کچھ اسی کسی قسم کی مہم پر آج کل ایما واٹسن بھی ہیں اور اس کا آغاز انہوں نے لندن کے ٹیوب اسٹیشن سے کیا جہاں مختلف مقامات پر انہوں نے کئی کتابیں رکھیں۔

    @booksontheunderground @oursharedshelf #Mom&Me&Mom

    A video posted by Emma Watson (@emmawatson) on

    رکھی جانے والی کتابیں مشہور امریکی شاعرہ مایا اینجلو کی کتاب ’مام اینڈ می اینڈ مام‘ کے نسخے ہیں جو تقریباً 100 کی تعداد میں کئی جگہوں پر چھوڑے گئے ہیں۔

    @oursharedshelf’s Nov & Dec book is #Mom&Me&Mom by Maya Angelou

    A photo posted by Emma Watson (@emmawatson) on

    ایما واٹسن نے کتاب کے ساتھ ایک نوٹ بھی رکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ یہ کتاب بہت محبت اور توجہ کے ساتھ رکھی گئی ہے۔

    emma-2

    ایما واٹسن رواں سال کے آغاز میں ایک آن لائن ’فیمنسٹ بک کلب‘ بھی قائم کرچکی ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر بھی ہیں اور دنیا بھر میں خواتین کی خود مختاری کے لیے ’ہی فار شی‘ نامی مہم چلا رہی ہیں۔

    اس مہم کے تحت خواتین کی خود مختاری اور ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے مردوں کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔

    ایما واٹسن نے اپنے قائم کردہ بک کلب میں بھی ایسی ہی کتابیں رکھی ہیں جو صنفی برابری کے حوالے سے شعور دیتی ہیں۔ ان کی کتاب تلاش کرنے کی مہم بھی اسی بک کلب کا حصہ ہے۔

  • مختصر کہانیاں فراہم کرنے والی مشین

    مختصر کہانیاں فراہم کرنے والی مشین

    ہم میں سے بہت سے افراد بس اسٹاپ یا اسٹیشن پر ٹرین یا بس کا انتظار کرتے ہوئے کیا کرتے ہیں؟ انتظار کے کٹھن لمحات کاٹنے کے لیے ہمارا سب سے پہلا انتخاب موبائل فون ہوتا ہے جس میں ہم بے مقصد فیس بک اور ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہیں۔

    لیکن فرانس نے اپنے لوگوں کو اس انتظار کی زحمت سے بچانے کا ایک دلچسپ طریقہ نکال لیا۔ اس نے ان منتطر افراد کے لیے مختلف بس اور ٹرین اسٹیشنوں پر وینڈنگ مشینیں نصب کردیں جو کافی یا چائے نہیں بلکہ مختصر کہانیاں فراہم کرتی ہیں۔

    machine-2

    یہ وینڈنگ مشین بٹن دبانے پر بالکل مفت، آپ کو ایک کاغذ پر چھپی ایک مختصر سی کہانی فراہم کرے گی جسے پڑھ کر آپ اپنا وقت کاٹ سکتے ہیں۔

    اس وینڈنگ مشین میں یہ سہولت بھی ہوگی کہ آپ اپنے انتظار کی مدت کے مطابق 1، 3 یا 5 منٹ میں پڑھنے والی کہانی منتخب کر سکتے ہیں۔

    machine-5

    اس آئیڈیے کی خالق کرسٹوفی نامی پبلشر ہیں جو مختصر کہانیاں چھاپتی ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ وہ مطالعہ کے ختم ہوتے رجحان کو پھر سے زندہ کریں اور لوگوں میں اس کو دوبارہ سے مقبول بنائیں۔

    machine-3

    کرسٹوفی نے بتایا کہ اس آئیڈیے کی تکمیل کے بعد بے شمار لوگوں نے انہیں کہانیاں لکھ کر بھیجیں جو چاہتے ہیں کہ ان کی کہانی کو اس مشین سے نکلنے والے کاغذوں پر پرنٹ کیا جائے۔

    machine-4

    یہ مشینیں ابتدا میں صرف ایک ٹرین اسٹیشن پر نصب کی گئی، مگر اس کی مقبولیت کے بعد اب ملک بھر کے مختلف ٹرین اور بس اسٹیشنز پر ایسی مشینیں نصب کی جارہی ہیں۔

  • سو سالہ قدیم تھیٹر عظیم الشان کتاب گھر میں تبدیل

    سو سالہ قدیم تھیٹر عظیم الشان کتاب گھر میں تبدیل

    آج کل کے دور میں کتاب خریدنا ایک آسان عمل بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ڈھیروں سائٹس کے ذریعہ آپ گھر بیٹھے اپنی پسند کی کتاب نہایت موزوں قیمت پر منگوا سکتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ایک بک شاپ ایسی بھی ہے جہاں لوگ کتاب خریدنے تو جاتے ہی ہیں لیکن صرف اسے دیکھنے کے لیے آنے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔

    یہ کتاب گھر یا بک شاپ ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں ہے جہاں ایک قدیم تھیٹر کو بک شاپ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اب یہ جگہ تاریخ اور مطالعہ دونوں کے شوقین افراد کا مرکز بن چکی ہے۔

    book-8

    book-7

    دراصل یہ کتابوں کا ایک سپر اسٹور ہے جس کے اندر کتابوں کی 734 دکانیں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ یہاں پڑھنے کے لیے مختلف حصے بھی مخصوص کیے گئے ہیں۔

    book-5

    book-3

    سو سال قدیم یہ تھیٹر اپنے زمانے میں بھی فن و ادب کا مرکز رہا ہوگا جس کا اندازہ اس کے در و دیوار اور چھت پر کی گئی مصوری کو دیکھ کر ہوتا ہے۔

    book-9

    book-2

    تھیٹر سے بک شاپ میں تبدیل کرنے کے لیے اس پر ارجنٹینی ماہر تعمیر فرنینڈو مینزون نے کام کیا۔ فرنینڈو نے اس میں صرف الماریوں اور صوفوں کا اضافہ کیا جبکہ بقیہ تمام ساز و سامان ویسے کا ویسا ہی رہنے دیا۔

    book-4

    book-6

    اسٹور میں جانے والے افراد خوبصورت اسٹیج، ریشمی پردے، شاندار مصوری اور سلیقہ سے سجی لاکھوں کتابیں دیکھ کر سحر زدہ رہ جاتے ہیں۔

  • جادوئی کتاب: پڑھنے کے لیے حل کرنا ضروری

    جادوئی کتاب: پڑھنے کے لیے حل کرنا ضروری

    کچھ کتابوں کو پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ اس میں بتائے گئے دقیق فلسفہ مبہم ہوتے ہیں اور بہت کم لوگ انہیں سمجھ پاتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ نے ایسی کتاب دیکھی ہے جسے پڑھنے کے لیے اسے حل کرنا پڑے؟

    امریکی ریاست پنسلوینیا کے رہائشی وٹنی بریڈی نے ایسی کتاب بنائی ہے جس کے اگلہ صفحہ تک پہنچنے کے لیے اسے ’حل‘ کرنا پڑتا ہے۔

    book-2

    ایک پزل کی طرح بنائی گئی یہ کتاب لکڑی سے بنی ہوئی ہے اور اس کے صرف 5 صفحات ہیں۔

    book-3

    اس کے ہر صفحہ میں مشکل اور پیچیدہ بھول بھلیوں جیسے نٹ اور بولٹ لگائے گئے ہیں اور صفحہ پلٹنے کے لیے ذہانت سے ان سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔

    book-5

    book-6

    book-8

    book-9

    book-10

    کتاب میں مشہور مصور لیونارڈو ڈاونچی کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح وہ اپنی پینٹنگز کو چوروں سے بچانے کے لیے جال بچھایا کرتا تھا۔ اس کی پینٹنگز چرانے کے لیے آنے والے چور اگر ذہین ہوتے تو اس جال سے بچ نکلتے ورنہ پکڑے جاتے۔

    book-4

    یہ کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ پڑھنے والا مجبوراً لکڑی کی اس کتاب کو ’حل‘ کر کے آگے پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

    book-7

    بظاہر دیکھنے میں یہ کتاب جادوئی فلموں میں دکھائی جانے والی کتاب جیسی لگتی ہے جس میں بے شمار راز چھپے ہوتے ہیں۔

    اس کے خالق وٹنی بریڈی کا ارادہ ہے کہ وہ اس طرح کی ایک بڑی کتاب تشکیل دے گا جو کئی صفحات پر مشتمل ہوگی۔

  • پوکیمون نہیں، کتاب ڈھونڈیں

    پوکیمون نہیں، کتاب ڈھونڈیں

    برسلز: ’پوکیمون گو‘ کی مقبولیت کے بعد بیلجیئم میں ایک پرائمری اسکول کے پرنسپل نے ایسا آن لائن گیم بنا لیا جو کھیلنے والوں کو کتابیں ڈھونڈنے پر اکسائے گا۔

    پوکیمون گو کچھ عرصہ قبل ہی متعارف کیا جانے والا گیم ہے جس میں کھیلنے والے کیمرے اور جی پی ایس ڈیوائس کے ذریعہ کارٹون کریکٹر پوکیمون کو ڈھونڈتے ہیں۔ اسی کی طرز پر بیلجیئم کے اسکول پرنسپل ایویلن گریگور نے فیس بک گروپ کے ذریعہ ایک نیا کھیل ایجاد کیا جس کا نام ’کتاب کی تلاش کرنے والے‘ رکھا گیا ہے۔

    book-2

    اس گیم میں کھیلنے والے ایک کتاب کی تصویر پوسٹ کرتے ہیں اور اشارتاً اس کے مقام کے بارے میں بتاتے ہیں۔ جو شخص اس کتاب کو ڈھونڈ لے وہ اسے اپنے پاس رکھ کر پڑھ سکتا ہے۔

    کتاب کو ڈھونڈنے والا کتاب پڑھنے کے بعد اسے دوبارہ کسی جگہ چھپا دیتا ہے اور لوگ پھر سے اسے ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

    پوکیمون گو ذاتی معلومات افشا کرسکتا ہے *

    گریگور اس بارے میں بتاتے ہیں کہ ان کی لائبریری بالکل بھر چکی تھی اور اس میں کتابیں رکھنے کی بالکل جگہ نہیں تھی۔ ’اپنے بچوں کے ساتھ پوکیمون گو کھیلتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں ان کتابوں کو بھی ایسے ہی چھپا دوں تاکہ جس کو یہ کتاب ملے وہ اس سے فیض اٹھا سکے‘۔

    ان کتابوں کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں رکھ کر چھپایا جاتا ہے تاکہ وہ بارش اور دیگر نقصانات سے محفوظ رہ سکیں۔

    book-3

    گریگوری کے مطابق ان کا خاندان اب اس کام میں اتنا مگن ہوچکا ہے کہ روز صبح کی واک کے دوران وہ ایک کتاب ڈھونڈتے ہیں جبکہ مزید 4 کتابوں کو پڑھنے والوں کے لیے مختلف جگہوں پر چھپا دیتے ہیں۔

    واضح رہے رواں برس جولائی میں متعارف کیا جانے والا گیم پوکیمون گو ایک ماہ میں ہی مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ چکا ہے اور اس کی بنانے والی کپمنی ننٹینڈو کو اب تک 222 ملین ڈالرز کا فائدہ ہوچکا ہے۔