Tag: کتب بینی

  • مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    یونیسکو کے ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2003 کے مطابق دنیا بھر میں ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً ایک کتاب سے کم پڑھتا ہے، ہمارے روز مرہ مشاہدے میں بھی یہ بات سامنے آتی ہے، سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق ایک یورپین ایک سال میں اوسطاً 35 کتابیں پڑھتا ہے جب کہ ایک اسرائیلی شہری ایک سال میں اوسطاً 40 کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے، دوسری طرف عرب تھاٹ فاؤنڈیشن کی کلچرل ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2011 اس سے بھی بدترین صورت حال دکھا رہی ہے، اس کے مطابق ایک عمومی یورپین سال میں 200 گھنٹے مطالعہ کرتا ہے، جب کہ ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً 6 منٹ مطالعہ کرتا ہے۔

    ہمارے پڑوسی ممالک بھارت میں 10، بنگلادیش میں 42 اور چین میں 8 گھنٹے فی ہفتہ کتاب پڑھنے پر خرچ کیے جاتے ہیں، جب کہ دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں لیکن دنیا بھر کی کتب بینی کی فہرست میں سواے مصر اور ترکی کوئی تیسرا مسلم ملک شامل نہیں ہے۔ انگلینڈ میں 80 لاکھ افراد لائبریری سے براہ راست کتابیں لیتے ہیں، برطانوی لائبریریوں میں 9 کروڑ 20 لاکھ کتابیں ہیں۔ کل آبادی کا 60 فی صد (کل آبادی 6 کروڑ 70 لاکھ) لائبریری کی ایکٹیو ممبرشپ رکھتا ہے۔

    نئی کُتب

    عالمی سطح پر ہر سال 8 ہزار سے زائد نئی کتب کا اضافہ ہوتا ہے، علم دوست قومیں علم پر خرچ کرتی ہیں اور دنیا پر راج کرتی ہیں۔ یہ سارا خرچہ ہر فرد لاکھوں گنا زیادہ کر کے اپنے قوم کو واپس کرتا ہے، دنیا کے جن 28 ممالک میں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، ان میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔

    حیرت انگیز طور پر دنیا کی 56 بہترین کتابیں چھاپنے والی کمپینیوں میں کسی کا بھی دفتر کسی مسلم ملک میں نہیں ہے، اہل یورپ نے مسلمانوں کے علمی مراکز، بغداد بالخصوص ہسپانوی مراکز سے استفادہ کر کے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا تھا، ان کی محنت آج بھی لندن کی ’’انڈیا آفس لائبریری‘‘ میں موجود ہے، ان کتب کی تعداد 6 لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں قلمی کتابوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

    کتاب اور مطالعہ ہر معاشرے، مذہب اور ہر تمدن کی ضرورت رہی ہے، جن اقوام نے کتاب کو اپنایا وہ کامیاب ہوئیں، چاہے ان کی معاشی یا عسکری طاقت کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔

    کتب بینی میں کمی کے رحجان میں کئی عوامل شامل ہیں:

    آمریت اور بادشاہت

    سابق سربراہ شعبہ ابلاغ عامہ اردو یونیورسٹی ڈاکٹر توصیف کا کہنا ہے کہ عرصہ دراز سے مسلم ممالک میں آمریت اور بادشاہت کا دور دورہ رہا ہے۔ کتب بینی معاشرے میں روشن خیالی اور سوچ کو وسعت دیتی ہے۔ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے استحکام کو دوام بخشنے کے لیے معاشروں کو وسعت خیالی سے دور رکھا، جس کا اثر معاشرے میں سماجی اور ثقافتی طور پر مختلف حلقوں پر پڑا، ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں بھی آزاد خیالی اس وقت زیادہ تیزی سے پیدا ہوئی جب عوام نے آمریت اور بادشاہت سے جان چھڑا لی۔

    انھوں نے کہا تعلیمی نظام، والدین کی تربیت اور ماحول کی تبدیلی نے بھی کتب بینی کی کمی میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا کی دسترس بھی کتب بینی سے دوری کی ایک وجہ ہے، لیکن اس وجہ کو بنیادی تبدیلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یورپ میں ڈیجیٹل میڈیا سب سے پہلے آیا مگر وہاں پر کتاب پڑھنے کا رواج آج بھی قائم ہے۔

    مسئلہ سماجی، ثقافتی اور معاشی ہے

    ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عامر فیروز کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک میں کتب بینی کے رحجان میں کمی کی وجہ سماجی، ثقافتی اور معاشی ہے۔ وہ اس بات کو اس طرح سے بتاتے ہیں کہ سارا زور درسی کتابیں پڑھنے پر دیا جا تا ہے، جس سے روزگار کی امید ہوتی ہے۔ والدین نہ خود کتابیں پڑھتے ہیں نہ بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق کتابیں پڑھنے سے انسان کی سوچ کو وسعت ملتی ہے، جس سے وہ سوال کرنے کے قابل ہو جاتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر مسلم معاشروں میں آمریت اور بادشاہت ہے، اس لیے وہاں روشن خیالی کے ماحول کو جگہ نہیں ملتی۔

    ڈاکٹر عامر کا کہنا تھا کہ ایک اچھا ریڈر ہی اچھا لیڈر بنتا ہے۔ اس کی مثال انھوں نے دنیا کے ان رہنماؤں کی دی جو بہترین رہنما گزرے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی ابتدائی چار دہایوں کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت معاشرہ قدرے روشن خیال تھا۔ اور اس کی وجہ وہ لوگوں اور نوجوانوں میں کتب بینی کا رحجان اور اس کے ثمرات کو قرار دیتے ہیں۔

  • چند مقبول کتابیں جو کاروباری افراد کی راہ نمائی کرتی ہیں!

    چند مقبول کتابیں جو کاروباری افراد کی راہ نمائی کرتی ہیں!

    امریکا کے صدر روز ویلٹ کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہی دن میں کئی کتابیں پڑھ لیتے تھے۔ اپنی آپ بیتی میں انھوں نے اپنے ذوقِ کتب بینی اور صبح سے شام گئے تک کئی کتابیں ختم کرنے کی خصوصیت کا بھی ذکر کیا ہے۔

    آج وقت کی کمی اور ارتکازِ توجہ ایک عام مسئلہ ہے اور ایسا کرنا ہماری نظر میں ناممکن ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے بعض لوگوں نے اس عادت کے حوالے سے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہو، لیکن یہ سچ ہے کہ دنیا کی مشہور اور اپنے شعبے میں کام یاب تصوّر کی جانے والی کئی شخصیات کو کتب بینی کا شوق اور مطالعہ کرنے کی عادت رہی ہے۔ دنیا کے کام یاب ترین لوگ باقاعدگی سے کتابیں پڑھتے ہیں۔ یہاں ہم اُن کتابوں کا تذکرہ کررہے ہیں جنھیں پڑھ کر آپ یہ جان سکتے ہیں کہ کاروبار کو بتدریج وسعت دیتے ہوئے منافع بخش بنانے اور ہر سطح پر نمایاں ہونے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ یہ کتابیں بتاتی ہیں‌ کہ کیسے کسی کمپنی کا نام اور ساکھ بنائی جاسکتی ہے، مسابقت کی دوڑ کس طرح جیتی جائے اور کاروباری دنیا میں‌ مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے جدید رجحانات سے کیسے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

    Lies, Damned Lies, and Marketing
    یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو کاروبار کررہے ہیں اور اپنے برانڈ یا مصنوعات کی مؤثر تشہیر اور وسیع پیمانے پر فروخت چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کاروبار کی کام یابی میں مارکیٹنگ کا عمل دخل کلیدی حیثیت کا حامل ہے، لیکن اتل منوچا سمجھتے ہیں‌ کہ مارکیٹنگ کے ساتھ کچھ دوسری چیزیں بھی آپ کے کاروبار کو وسعت اور نفع بخش بناتی ہیں۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں‌ انہی باتوں پر روشنی ڈالی ہے۔

    مصنّف کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں مختلف عہدوں پر کام کرچکے ہیں اور اپنی کتاب میں انھوں‌ نے بھرپور تشہیر کے باوجود توقع کے مطابق نتائج کے حصول میں‌ ناکامی پر بات کی ہے۔

    The Exit-Strategy Playbook
    اس کتاب کے مصنّف ایڈم کوفی ہیں‌۔ انھوں‌ نے کسی بھی کمپنی کو منافع بخش بنانے اور خاص سطح پر لا کر اسے فروخت کرنے کے بنیادی قوانین پیش کیے ہیں۔
    دنیا میں‌ بہت سے کاروباری افراد ایسے بھی ہیں‌ جو چند سال بعد ایک منافع بخش کمپنی کو چھوڑ کر نئے کاروبار کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ بعض‌ اوقات وہ ایسا کسی ذاتی مسئلے، کاروباری الجھنوں کی وجہ سے کرتے ہیں اور کبھی انھیں‌ اپنی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ یہ لوگ چیلنجز کا سامنا کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ اپنے منافع بخش کاروبار کو کسی بھی دل چسپی رکھنے والے کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں۔ مصنّف نے اس کتاب میں‌ بتایا ہے کہ ایسے بزنس مین کن اصولوں اور طریقوں پر عمل کرکے اپنی کمپنی کو کسی بھی سرمایہ کار کے لیے زیادہ پُرکشش بنا کر اسے خریدنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
    ایڈم مرفی کی یہ کتاب بتاتی ہے کہ کوئی بھی کاروباری ادارہ کس طرح‌ ایسا شان دار فریم ورک ترتیب دے سکتا ہے کہ اسے کوئی بھی خریدنے کو تیّار ہو۔

    Brands Don’t Win
    اسٹین برنارڈ کی یہ کتاب بتاتی ہے کہ وہی کمپنیاں اپنے اپنے شعبے میں‌ نمایاں ہوتی ہیں جو کسی طرح دوسروں سے مختلف انداز اپناتی ہیں، اور غیر روایتی طرز پر کام کرتے ہوئے اپنا مقام بناتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اسٹار بکس اور پیلوٹون نے بھی اپنے اپنے شعبہ کے متعین کردہ اصولوں اور مخصوص طریقۂ کار کے تحت کاروبار کیا ہوتا تو وہ کبھی نمایاں نہ ہوتیں۔

    Detox
    اس کتاب کی مصنّف میلنی پمپ ہیں جو ان تمام عناصر، اجزاء، رویّوں اور ثقافتی رجحانات کی نشان دہی کرتی ہیں جو کسی بھی کمپنی کو کام یابی سے دور کرسکتی ہیں۔ وہ ان عناصر اور مختلف عوامل کو ترقی کی راہ میں‌ رکاوٹ اور انفرادیت کے عمل میں زہر جیسا قرار دیتی ہیں۔

  • "میں مطالعہ کس طرح کرتا تھا؟”

    "میں مطالعہ کس طرح کرتا تھا؟”

    کتاب عملی میدان میں ہمیں اپنی سمت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے اور مطالعہ کی عادت انسان میں وہ صفات پیدا کرتی ہے جس کی بدولت وہ کائنات اور اپنی ذات میں غور و فکر کر کے زیادہ بہتر طریقے سے زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

    پیشِ نظر تحریر کو نواب بہادر یار جنگ کے شوقِ کتب بینی اور ذوقِ مطالعہ کی دل نشیں روداد کہا جاسکتا ہے جو خود نواب صاحب نے لکھی ہے۔ بہادر یارجنگ تحریکِ پاکستان کے ممتاز راہ نما، ایک مفکّر اور شعلہ بیاں مقرر تھے۔ انھوں نے "میں مطالعہ کس طرح کرتا تھا؟” کے عنوان سے کتاب اور مطالعہ کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرتا یہ مضمون سپردِ قلم کیا تھا۔ 1942ء میں شایع ہونے والے اس مضمون سے چند پارے ملاحظہ کیجیے۔

    بہادر یار جنگ لکھتے ہیں: "میری حالت ان نوجوانوں سے مختلف نہ تھی جو ابتدائی درسی کتابوں سے فارغ ہو کر عام مطالعہ کی ابتدا کرتے ہیں۔”

    "اس عمر میں جب کہ دماغی صلاحیتیں پوری طرح ابھری ہوئی نہیں ہوتیں اچھی اور بری کتاب کی تمیز بہت کم ہوتی ہے۔ قصص اور حکایات مبتدی کی توجہ کو جلد اپنی طرف پھیر لیتے ہیں۔ میرے مطالعہ کی ابتدا بھی حکاایت و قصص سے ہوئی۔”

    "مدرسہ اور گھر پر اساتذہ کی گرفت سے چھوٹنے کے بعد جو اوقاتِ فرصت مل جاتے وہ زیادہ تر کسی ناول یا افسانہ کی نذر ہو جایا کرتے تھے۔ کھیل کود سے مجھے کچھ زیادہ دل چسپی نہ تھی۔ یا سچّی بات یہ ہے کہ کھیل کود کے قابل ہی نہیں بنایا گیا تھا۔ قد کی بلندی نے اب اعضا میں تھوڑا تناسب پیدا کر دیا ہے۔ ورنہ اپنی عنفوانِ شباب کی تصویر دیکھتا ہوں تو موجودہ متحارب اقوام کے بنائے ہوئے کسی آتش افروز بم کی تشبیہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ چار قدم چلتا تھا تو ہانپنے لگتا تھا اور کھیلنے کے بجائے خود دوسروں کے لیے تماشہ بن جاتا تھا۔ اس لیے میری زندگی کا عملی دستور "اگر خواہی سلامت برکنار است” تھا۔ نگاہیں کبھی کھیلتے ہوئے احباب پر پڑتی تھیں اور کبھی صفحاتِ کتاب کے میدان میں دوڑنے لگتی تھیں اور جب پلے گراؤنڈ سے اٹھ کر گاڑی میں سوار ہوتا تو مدرسہ سے گھر پہنچنے تک ناول کے ایک دو باب ضرور ختم ہو جاتے تھے۔”

    "رفتہ رفتہ اس شوق نے جنون کی شکل اختیار کر لی۔ عمر جیسے جیسے بڑھتی گئی یہ جنون ویسے ویسے اعتدال پر آتا گیا۔ ایک طرف موضوعِ مطالعہ میں تبدیلی ہوئی اور افسانوں اور حکایات کی بجائے سوانح عمری اور سیرت کا مطالعہ شروع ہوا اور مطالعہ کے اوقات متعین و معین ہونے لگے۔”

    "بیسویں صدی عیسوی کے ہر نوجوان کی طرح شاعری کا خبط شعور کی ابتدا کے ساتھ پیدا ہو چکا تھا اور شوقِ شعر گوئی نے شعرا کے تذکروں اور دواوین کی طرف متوجہ کردیا تھا۔ آج اپنے کلام کا پرانا نمونہ سامنے آجاتا ہے تو بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ لیکن آج سے 25 برس قبل ہم اپنے آپ کو غالب اور ذوق سے کچھ زیادہ نہیں تو کم بھی نہ سمجھتے تھے۔ ہماری شعر گوئی اور مطالعۂ دواوین کا سب سے اچھا وقت صبح کے ابتدائی لمحات ہوا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے ادب نے ایک معیاری کیفیت پیدا کی تو خود بخود یہ احساس ہونے لگا کہ شاعر پیدا ہوتا ہے، بنتا نہیں۔ اور ہماری میز سے ہٹ کر دواوین الماریوں کی زینت بنتے گئے۔ اور بانگِ درا کے سوا میز پر کچھ باقی نہیں رہا۔ آخری دور میں اگر کسی کے کلام نے اقبال کے کلام کا ساتھ دیا تو وہ مولوی روم کی مثنوی اور سعدی کی گلستاں تھی۔”

    "مطالعہ کا طریقہ یہ تھا کہ ایک پنسل ہاتھ میں اور ایک نوٹ بک جیب میں ہوتی۔ میرے کتاب خانے میں مشکل سے کوئی کتاب ہوگی جس پر تاریخ ابتداء اور انتہائے مطالعہ درج نہ ہو۔ جو فقرے ادبی، تاریخی یا کسی اور حیثیت سے پسندیدہ ہوتے اس پر یا تو کتاب ہی میں نشان لگا دیا جاتا اور بار بار اس پر نظر ڈالی جاتی یا پھر نوٹ بک پر درج کرلیا جاتا اور اس کو یاد کرنے کی کوشش کی جاتی۔ والدِ مرحوم کی خدمت میں شمالی ہند کے اکثر اصحاب تشریف لایا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو سن کر اپنی زبان کے نقائص کا احساس بڑھتا گیا۔ نتیجہ سب سے زیادہ توجہ زبان کی درستی پر مرکوز رہی۔ کوئی اچھی ترکیب سے کوئی نئی تشبیہ، کوئی انوکھا استعارہ نظر سے گزرتا تو سب سے بڑی فکر یہ دامن گیر ہوجاتی تھی کہ اس کو جلد سے جلد صحیح طریقے پر اپنی گفتگو میں استعمال کر لیا جائے۔”

    "جب ہم اپنے گھر میں جوان اور بڑے سمجھے جانے لگے تو ہماری بیٹھک کے کمرے الگ کر دیے گئے تھے اور احباب کی محفلیں جمنے لگی تھیں۔ لغویات سے فطرتاً نفرت تھی۔ علم و ادب زندگی کا سب سے دل چسپ مشغلہ بن گئے تھے۔ ابتداً محض تفریح کے طور پر میں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ یعنی یہ ہوتا کہ الہلال، ہمایوں، ہزار داستان، معارف، زمانہ یا کوئی اور معیاری ادبی و علمی رسالہ یا کوئی اچھی کتاب کسی ایک صاحب کے ہاتھ میں ہوتی اور اکثر میں ہی قاری کی خدمت انجام دیا کرتا۔ ایک ایک فقرے پر اکٹھے خیال آرائیاں ہوتیں، اختلاف و اتفاق ہوتا۔ بحث و تکرار ہوتی اور یہ بحث دماغ کے صفحہ پر خیالات کے کبھی نہ مٹنے والے تسامات کا باعث بنتی۔”

    "تجربے نے بتلایا کہ خاموش اور انفرادی مطالعہ سے یہ مشترک مطالعہ کا طریقہ زیادہ مفید اور زیادہ کارآمد ہے، جب سیر و تراجم تذکرہ و تاریخ سے آگے بڑھ کر ذوقِ مطالعہ نے ٹھوس اور سنجیدہ فلسفیانہ و سیاسی، اخلاقی و مذہبی علوم کی طرف توجہ کی تو ایک اور طریقے نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا۔ فلسفہ اور علمِ کلام یا مذہب و سیاست کے کوئی مقامات اگر سمجھ میں نہ آتے تو میں ان کو اپنی اس چھوٹی نوٹ بک میں جو میرے جیب کا مستقل سرمایہ بن گئی تھی، نوٹ کرتا اور جن بزرگوں کی نظر ان علوم پر میرے نزدیک عمیق تھی ان سے ملاقات کے جلد سے جلد مواقع تلاش کرتا اور ان سے ان اشکال کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ آج اپنے ان لمحات کو اپنی حیاتِ گزشتہ کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتا ہوں۔”

    "لوگ صرف کتاب پڑھنے کو مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک کسی کے مطالعہ کا مطالعہ یہی سب سے اچھا مطالعہ ہے۔ جب والد مرحوم کے انتقال کی وجہ سے اٹھارہ برس کی ابتدائی عمر ہی میں میرے سَر پر گھر کی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ پڑ گیا اور مدرسہ کی تعلیم ناقص حالت میں ختم ہوگئی۔ تو میرے مطالعہ کا سب سے بہترین طریقہ یہ تھا کہ جن لوگوں نے مختلف اصنافِ علم میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا ہو ان کو اپنے اطراف جمع کرلوں یا ان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور ان کی عمر بھر کے مطالعہ کا نچوڑ ان سے سنوں اور پھر کانوں کے ذریعہ اس کا مطالعہ کروں، اسی تمنا نے آوارہ گردی و صحرا نوردی پر آمادہ کیا۔”

    "لوگ اوراقِ کاغذ کے مجموعے کو الٹنے اور اس پر لکھی ہوئی سیاہ لکیروں کو پڑھنے کا نام مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے پیشِ نظر ہمیشہ سے ایک اور کتاب رہی ہے جس کے صرف دو ورق ہیں لیکن جس میں سب کچھ ہے اور یہ کتاب صحیفۂ کائنات ہے۔ آسمان اور زمین کے ان دو اوراق کے درمیان مہر و ماہ، کواکب و سیارات، شفق، قوس قزح، ابر و باد، کوہ صحرا، سمندر و ریگستان نے ایسے ایسے خطوط کھینچے ہیں جن میں فکر کرنے والی نگاہ اپنے لیے سب کچھ حاصل کرسکتی ہے۔”

    "آہ دنیا بدل گئی، فرصت کے وہ رات دن اب خود میرے لیے افسانہ بن گئے۔ اب ان کو جی ڈھونڈتا ہے مگر پا نہیں سکتا۔ قوم و ملّت کی جو ذمہ داریاں ہم نے ابتدائی اوقاتِ فرصت کو صرف کرنے کے لیے اپنی مرضی سے قبول کی تھی، اپنی زندگی کے سارے لمحات پر مسلط ہو گئیں۔ کتاب سامنے آتی ہے تو تنگیِ وقت کا تصور آہ بن کر زبان سے نکلتا ہے۔ اخبار ہی پڑھنے سے فرصت نہیں کتاب کا ذکر کیا۔ اب کتاب پڑھنے کی سب سے اچھی جگہ ریل گاڑی کا ڈبہ ہے اور سفر کی وہ منزلیں جو طے ہونے سے رہ جائیں۔”

  • Tsundoku: وہ اصطلاح جو ایک دل چسپ بحث چھیڑ سکتی ہے

    Tsundoku: وہ اصطلاح جو ایک دل چسپ بحث چھیڑ سکتی ہے

    فلسفہ، مصوری، موسیقی کے رسیا اور انگریز مصنف سیموئیل بٹلر سے منسوب قول ہے کہ "کتابیں قیدی روحوں کی طرح ہوتی ہیں یہاں تک کہ کوئی انھیں کسی شیلف سے لے جائے اور آزاد کر دے۔”

    دنیا بدل چکی ہے، کتاب پڑھنے اور مطالعے کے شوقین تو شاید اب بھی بہت ہوں، لیکن ورق گردانی کی عادت پر انٹرنیٹ اور کمپیوٹر اسکرین کا رنگ گہرا ہوتا جارہا ہے۔ یوں تو دنیا بھر میں‌ لوگ اب بھی کتب خریدتے اور پڑھتے ہیں، مگر یہ جان کر شاید آپ کو حیرت ہو کہ ان میں‌ سے بعض ایسے ہیں‌ جو صرف کتاب سجانے کے لیے گھر لاتے ہیں، اس کا مطالعہ کبھی نہیں کرتے۔

    سن ڈوکُو (Tsundoku) انہی لوگوں‌ کے لیے ایک اصطلاح ہے جس نے جاپان میں‌ جنم لیا۔ اس اصطلاح میں‌ Tsun سے مراد حاصل یا اکٹھا کرنا اور جمع کرنا ہے اور Doku کا مطلب پڑھنا یا مطالعہ کرنا ہے۔

    یہ اصطلاح ایسے فرد کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کتب اکٹھی کرنے کا شوق رکھتا ہو اور انھیں اپنے بک شیلف میں‌ باقاعدہ ترتیب اور قرینے سے رکھ دیتا ہے اور گاہے گاہے بک شیلف کی صفائی اور کتابوں‌ پر جمنے والی گرد بھی جھاڑتا رہتا ہے، لیکن ان کا مطالعہ نہیں‌ کرتا!

    ماہرین کا کہنا ہے اکثریت کے لیے یہ اصطلاح نئی بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں‌ ہے کہ یہ حالیہ برسوں‌ یا چند دہائیوں کے دوران وضع کی گئی ہے‌۔ یہ اصطلاح 1879 میں برتی گئی اور غالب امکان ہے کہ یہ اس سے بھی زیادہ پرانی ہو۔

  • دبئی کی سڑکوں پر اسٹاف کے بغیر کتابوں کے حیرت انگیز اسٹالز

    دبئی کی سڑکوں پر اسٹاف کے بغیر کتابوں کے حیرت انگیز اسٹالز

    دبئی اور شاپنگ ایسے الفاظ ہیں جنھیں ہم لکھتے ہیں، پڑھتے ہیں، اور سنتے ہیں تو گلیمر کی ایک الگ دنیا کا تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔

    لیکن ایک دن آپ دبئی کی سڑکوں پر نکلتے ہیں اور آپ کو چوں کہ پڑھنے کا شوق ہے، کتاب کو آپ کی زندگی میں ایک اہم مقام حاصل ہے، تو آپ کے قدم بر لبِ سڑک کتابوں کے ایک اسٹال کے پاس رُک جاتے ہیں۔

    [bs-quote quote=”دبئی کے سات مختلف مقامات پر اس نام کے سات اسٹالز قائم ہیں، جہاں کوئی اسٹاف موجود نہیں اور یہ سات دن، دن رات کھلے رہتے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اب آپ ایک ایسی ’بُک شاپ‘ میں ہیں جہاں صرف کتابیں ہی آپ کا استقبال کرتی ہیں، جی، آپ کے استقبال کے لیے یہاں کوئی انسان موجود نہیں۔ لیکن یہ کوئی جادوئی منظر ہرگز نہیں۔

    اس ’کُتب خانے‘ میں آپ کی ایمان داری کا امتحان ہے، یہاں سینکڑوں کتابیں ہیں، اپنی پسند کی کتاب اٹھائیں اور وہاں موجود ایک ڈبے میں اس کی رقم ڈال دیں اور ادھر ادھر دیکھے بغیر مزے سے گھر کے لیے چل دیں۔

    ہم دبئی جیسے شان دار شہر کے بارے میں سنتے، پڑھتے آئے ہیں کہ یہ ایک ’سیف سٹی‘ ہے اور ’بُک ہیرو‘ نامی کتابوں کے یہ اسٹالز اس اس کی بہترین مثال ہے کہ یہ واقعی محفوظ شہر ہے اور یہاں کے لوگ ایمان دار ہیں۔

    بُک ہیرو کے اسٹالز دراصل عوامی اعتماد پر چلتے ہیں، دبئی کے سات مختلف مقامات پر اس نام کے سات اسٹالز قائم ہیں، جہاں کوئی اسٹاف موجود نہیں اور یہ سات دن، دن رات کھلے رہتے ہیں۔ اسٹالز کے علاوہ بُک ہیرو کی موبائل دکان بھی مختلف علاقوں میں مختلف اوقات میں کتاب خریدنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔

    یہاں کتابیں عموماً دس یا بیس درہم کی ہوتی ہیں اور کتابوں پر قیمت کے اسٹیکر لگے ہوتے ہیں، آپ کتاب اٹھائیں اور رقم ’ٹرسٹ باکس‘ میں ڈال دیں۔


    اس حیرت انگیز ناول نگار کے بارے میں ضرور پڑھیں:  جاپانی کافکا اور مورا کامی کی پراسرار دنیا


    بُک ہیرو کے اسٹالز الفجران، موٹر سٹی، مرینا واک، البرشا پونڈ پارک اور دیگر مقامات پر موجود ہیں۔ ہر اسٹال میں سینکڑوں کتابیں رکھی ہیں۔ بُک ہیرو کی مالک اسپین سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون Montserrat Martin ہے۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ کتاب کی جگہ کوئی چیز لے ہی نہیں سکتی۔ کتاب کا ورق، جو ہاتھ کی دو انگلیوں کے درمیان آتا ہے، اس کے چھونے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔

    (بہ شکریہ جناب عقیل عباس جعفری)
  • کتب میلہ، چوتھے روز بھی گہما گہمی برقرار، فاروق ستار کی آمد

    کتب میلہ، چوتھے روز بھی گہما گہمی برقرار، فاروق ستار کی آمد

    کراچی : ایکسپو سینٹر میں 15 دسمبر سے جاری کتب میلے کے چوتھے روز زبردست گہما گہمی ہے، اساتذہ اور طالب علم کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی سہولیات ہونے کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایکسپو سینٹر کراچی میں 15 دسمبر سے جاری پانچ روزہ بارہویں کتب میلے کی میں کتب بینوں کی کثیر تعداد اپنی پسندیدہ کتب کی رعائیتی قیمتوں پر دستیابی سے مستفید ہو رہے ہیں، بین الاقوامی پبلشرز کی موجودگی نے اس کتب میلے کی اہمیت مزید بڑھا دی ہے۔

    book-fair-post-1

    اس موقع پر اساتذہ اور طلبہ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے جدید دور میں بھی کتاب کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ مسلم ہے اور سنجیدہ افراد اب بھی کتاب پڑھنے کو ہی اہمیت دیتے ہیں، کتاب کے صفحات کا اپنا لمس اور خوشبو ہے جو انٹر نیٹ پر دستیاب کتب سے حاصل نہیں ہو سکتی۔

    book-fair-post-2

    بین الاقوامی کتب میلے کے چوتھے روز ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر محمد فاروق ستار نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کے ہمراہ نے کتب میلے کا دورہ کیا اور تعلیمی سرگرمی پر منتظم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے حکومت سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب اور لائبریریز کے قیام کا مطالبہ بھی کیا۔

    واضح رہے کہ کراچی میں ہونے والے اس عالمی کتب میلے کے منتظم خالد عزیز ہیں، جو پاکستان پبلشرز اور بک سیلرز ایسوسی ایشن کے چیئر مین بھی ہیں جب کہ کتب میلے میں ایران، بھارت، ترکی، سنگا پور اور ملائیشیاء سمیت دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے پبلشرز کے تین سو تیس اسٹال لگائے گئے ہیں جہاں سائنس، مذہب، تاریخ ،ادب اور دیگر موضوعات پر کتب دستیاب ہیں۔