Tag: کتب خانہ

  • ’گہرا مطالعہ‘ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    ’گہرا مطالعہ‘ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    ناٹنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر گریجری کیوری (Gregory Currie) نے نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا کہ ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ادب کا مطالعہ ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے؛ کیوں کہ ’’خارج میں اس بات کا کوئی اطمینان بخش ثبوت نہیں ملتا کہ لوگ ٹالسٹائی یا دوسری عظیم ادبی تخلیقات کو پڑھ کر اخلاقی یا سماجی اعتبار سے بہتر انسان بن گئے۔‘‘

    حالاں کہ یہ بات انتہائی غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ثبوت موجود ہیں۔ یارک یونیورسٹی، کناڈا کے ماہر نفسیات ریمنڈ مار ( Raymond Mar) اور ٹورنٹو یونیورسٹی میں علمی نفسیات کے پروفیسر ایمرٹس کیتھ اوٹلی(Keith Oatley) نے 2006 اور 2009 میں ایک مشترکہ اسٹڈی شائع کروائی، جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ جو لوگ زیادہ تر فکشن کا مطالعہ کرتے ہیں، وہ دوسروں کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے اندر لوگوں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ بھی دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے اور وہ دنیا کو دوسروں کے نظریے سے دیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا سرا محققین کی اس دریافت سے بھی جڑتا ہے کہ جو لوگ زیادہ ہمدردانہ جذبات کے حامل ہوتے ہیں، وہ ناول پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ 2010 میں ریمنڈ نے بچوں کے سلسلے میں شائع شدہ اپنی اسٹڈی میں بھی اسی قسم کی باتیں لکھی تھیں، ان کے مطابق: ان کے سامنے جتنی زیادہ کہانیاں پڑھی گئیں، ان کے اذہان دوسروں کے خیالات کو سمجھنے کے اتنے ہی قریب ہوتے گئے۔

    مطالعے کی ایک قسم ہے، جسے Deep reading یا ’’گہرا مطالعہ ‘‘کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں ’’سطحی مطالعہ‘‘(superficial reading) کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے، جس کا اطلاق عموماً انٹرنیٹ، ویب سائٹس وغیرہ کے مطالعے پر کیا جاتا ہے۔ محققین اور مطالعہ و علمی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بہ تدریج گہرے مطالعے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے اور اسے خطرات لاحق ہیں، اس کے تحفظ کے لیے ویسی ہی کوشش کی ضرورت ہے، جیسی کہ ہم کسی تاریخی عمارت یا فنی و تہذیبی شہ پارے کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں۔ اگر گہرے مطالعے کا رجحان ختم ہوجاتا ہے تو اس سے نہ صرف آن لائن نشو و نما پانے والی ہماری نسلوں کا عقلی و جذباتی خسارہ ہوگا بلکہ اس سے ہماری تہذیب و ثقافت کے اہم جز مثلاً ناول، شاعری اور دوسری قسم کے ایسے ادب کی بقا کو بھی خطرات لاحق ہوجائیں گے، جس کے فروغ میں صرف وہ قارئین حصہ لیتے ہیں، جن کے اندر خاص طور پر لٹریچر کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

    دماغی سائنس، نفسیات اور نیورو سائنس سے متعلق ایک حالیہ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’گہرا مطالعہ‘‘(جو دھیرے دھیرے، کتاب میں ڈوب کر کیا جاتا ہے اور جو محسوس تفصیلات اور اخلاقی و جذباتی اتار چڑھاؤ سے مالا مال ہوتا ہے) ایک منفرد تجربہ اور الفاظ کی ظاہری سمجھ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ حالاں کہ گہرے مطالعے کے لیے لازمی طور پر کسی مانوس اور پسندیدہ کتاب کا ہونا ضروری نہیں ہے، مطبوعہ صفحات میں فطری طور پر ایسی انفرادی صلاحیت ہوتی ہے، جو گہرے مطالعے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہائپر لنک سے آزاد کتاب قاری کو فیصلہ سازی کے تذبذب سے بچاتی ہے (کہ میں اس لنک پر کلک کروں یا نہ کروں؟) اور اسے پوری طرح مصنف کے بیانیے میں محو کر دیتی ہے۔

    یہ محویت یا استغراق ایک ایسے طریقۂ کار سے مربوط ہے جس کے ذریعے انسان کا دماغ کتاب میں مذکور مختلف تفصیلات، تلمیحات و استعارات سے مالا مال زبان سے معاملہ کرتا ہے۔ بایں طور کہ وہ ذہن کے پردے پر ایک عقلی نقشہ بناتا ہے جو کتاب کے ان مباحث پر قائم ہوتا ہے، جو اُس وقت ایکٹیو ہوسکتے ہیں جب وہ منظر حقیقی زندگی میں بھی سامنے ہو۔جذباتی احوال اور اخلاقی مسائل جو کہ ادب کے لازمی اجزا ہوتے ہیں، وہ بھی زبردست دماغی مشق کا ذریعہ ہیں، وہ ہمیں خیالی اور تصوراتی اشخاص کے دماغوں تک پہنچاتے اور جیسا کہ مطالعات و تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے، ہماری باہمی ہمدردی کی حقیقی صلاحیت میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ مگر یہ سب اس وقت نہیں ہوتا جب ہم انٹرنیٹ پر کوئی ویب سائٹ اسکرول کررہے ہوتے ہیں۔ گرچہ ہم اسے بھی پڑھنے سے تعبیر کر سکتے ہیں، مگر کتابوں کا گہرا مطالعہ اور منتشر معلومات پر مبنی ویب سائٹ کو دیکھنا، پڑھنا دونوں میں تجربے، نتائج اور ان سے حاصل ہونے والی صلاحیتوں کے اعتبار سے بہت فرق ہے۔ بہت سی ایسی دلیلیں ہیں، جو یہ بتاتی ہیں کہ آن لائن مطالعے میں قاری کا انہماک کم سے کم ہوتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے بھی بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہوتا، جو انٹرنیٹ کی دنیا سے کافی مانوس ہیں۔

    گہرا مطالعہ کرنے والا انسان ذہنی انتشار سے محفوظ ہوتا ہے اور وہ دورانِ مطالعہ سامنے آنے والے الفاظ کے درمیان پائے جانے والے باریک لغوی فرق کو بھی بخوبی سمجھتا ہے، پھر دورانِ مطالعہ بہ تدریج اس پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جسے ماہر نفسیات وکٹر نیل (Victor Nell) نے مطالعے سے لطف اندوزی کی نفسیات سے متعلق اپنی ایک تحقیق میں’’خواب آور کیفیت‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ نیل کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ جب ایک قاری مطالعے سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے، تو اس کے مطالعے کی رفتار دھیمی ہو جاتی ہے۔ الفاظ کو سرعت کے ساتھ سمجھنا اور صفحے پر آہستگی سے آگے بڑھنا دونوں مل کر گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے والے کو تحلیل و تجزیہ، چیزوں کو یاد رکھنے اور آرا و افکار کو نتیجہ خیز بنانے کا کافی وقت فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح قاری کو مصنف کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے کا وقت ملتا ہے، جس کے زیر اثر دو محبت کرنے والوں کی طرح یہ دونوں ایک طویل و گرم جوشانہ گفتگو میں منہمک ہوجاتے ہیں۔

    یہ وہ مطالعہ نہیں ہے جسے بہت سے نوجوان جانتے ہیں۔ ان کا مطالعہ وقتی فائدے کا حامل ہے اور دونوں میں وہی فرق ہے، جسے معروف ادبی نقاد فرینک کرموڈ (Frank Kermode) نے ’’جسمانی مطالعہ‘‘ اور ’’روحانی مطالعہ‘‘ کے ذریعے بیان کیا ہے۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو یہی باور کراتے رہے کہ ’’جسمانی مطالعہ‘‘ ہی سب کچھ ہے اور ابتدائی دور میں ہی مشق و ممارست کے ذریعے ہم نے انھیں روحانی مطالعے کا عادی نہیں بنایا، تو ہم انھیں ایک لطف انگیز و سرور بخش تجربے سے محروم رکھ کر دھوکے میں ڈالیں گے۔ ہم انھیں ایسے اعلیٰ اور روشنی بخش تجربے سے محروم کر دیں گے جو بطور انسان انھیں بلند کرسکتے ہیں۔

    ڈیجیٹل آلات سے نئی نسل کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے بعض ترقی پسند معلمین اور کسل مند والدین بچوں کی عادتوں کے ساتھ چلنے اور ان کی تعلیم کو بھی آن سکرین لانے کی باتیں کرتے ہیں، حالاں کہ یہ غلطی ہے۔ اس کی جگہ ضرورت ہے کہ ہم انھیں ایسی جگہیں دکھائیں جہاں وہ کبھی نہیں گئے۔ ایسی جگہیں جہاں وہ محض ’’گہرے مطالعے‘‘ کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔

    (دی ٹائم میگزین کے ایک مضمون کا یہ ترجمہ نایاب حسن نے کیا ہے)

  • سندھ کے شہر حیدر آباد کے مشہور کتب خانے

    سندھ کے شہر حیدر آباد کے مشہور کتب خانے

    تاریخ‌ بتاتی ہے کہ سندھ دھرتی نے کئی تہذیبوں اور ثقافتوں کے خوب صورت رنگ دیکھے۔

    ہزاروں سال کے دوران اس دھرتی پر علم و فنون کے مختلف شعبوں‌ کی قابل اور عالم فاضل شخصیات نے آنکھ کھولی اور انھوں‌ نے اپنی دانش و حکمت کو تحریر و تصویر کیا اور یہی علمی سرمایہ کتب خانوں‌ تک پہنچا جن سے بے شمار تشنگانِ علم سیراب ہوئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

    ہم یہاں‌ "اسلامی کتب خانے” نامی کتاب سے ایک صفحہ نقل کر رہے ہیں‌ جس سے آپ حیدر آباد، سندھ کے چند اہم اور مشہور کتب خانوں کے بارے میں‌ جان سکتے ہیں۔ اس کتاب کے محقق اور مؤلف محمد زبیر (علی گڑھ) ہیں۔

    حیدرآباد میں جو کتب خانے قائم ہوئے ان میں کتب خانہ "شمس العلما مرزا قلیج بیگ” کی بھی تعریف کی گئی ہے۔ اس میں عربی، فارسی، ترکی اور سندھی کتابوں کے ذخائر موجود ہیں۔

    ضلع حیدرآباد کے قصبہ پیر جھنڈا میں "کتب خانہ پیر رشد ﷲ راشدی” کو قابلِ دید کہا جاتا ہے۔ پیر صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ "انہوں نے اس کتب خانے پر بے پناہ روپیا خرچ کیا۔ لندن کی لائبریری انڈیا آفس سے کتابوں کی فوٹو کاپیاں منگوائیں، ترکی اور مصر کے کتب خانوں سے نایاب کتابوں کی نقل اپنے خرچ پر کاتب بھیج کر کرائیں۔

    مولانا عبیداﷲ سندھی نے بھی اس کتب خانے سے استفادہ کیا تھا۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ "پیر صاحب کے پاس علومِ دینیہ کا بے نظیر کتب خانہ تھا۔ میں دورانِ مطالعہ وہاں جاتا رہا اور کتابیں مستعار بھی لاتا رہا۔ میری تکمیلِ مطالعہ میں اس کتب خانہ کے فیض کو بڑا دخل تھا۔”

    ان کے علاوہ اور بھی کتب خانوں کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً "کتب خانہ لواری شریف” ضلع حیدرآباد میں ہے۔ اس ضلع کے قصبات ٹنڈو سائیںداد میں "کتب خانہ خواجہ محمد حسین فاروقی مجددی” ، ٹنڈو میر نور محمد میں "کتب خانہ میر نور محمد”، مٹیاری میں "کتب خانہ پیر غلام محمد سرہندی” ، ہالا میں "کتب خانہ مخدوم مولانا غلام حیدر” ہیں۔ ان میں مخطوطات، نوادرات اور مطبوعات کے عمدہ ذخائر جمع ہیں۔

  • زنجیروں میں قید نایاب کتابیں

    زنجیروں میں قید نایاب کتابیں

    کیا آپ جانتے ہیں ایک زمانے میں کتابوں کو زنجیر سے باندھ کر رکھا جاتا تھا تاکہ کوئی انہیں چرا نہ سکے؟

    یہ قصہ ہے سترہویں صدی کا جب نایاب اور قدیم کتابوں کو چوری ہونے سے بچانے کے لیے زنجیروں سے منسلک کردیا جاتا تھا۔

    زنجیروں میں قید کتابوں پر مشتمل ایسی ہی ایک لائبریری اب بھی موجود ہے۔

    انگلینڈ کے علاقے ہرفورڈ کے کلیسا میں موجود یہ لائبریری اپنی نوعیت کی انوکھی لائبریری ہے۔ یہ کتب خانہ سنہ 1611 میں بنایا گیا اور یہاں 15 سو کتابیں موجود ہیں جو تمام نہایت قدیم اور نایاب ہیں۔

    یہی نہیں ان کتابوں کو آج بھی اسی طریقے سے رکھا جاتا ہے جیسے صدیوں قبل رکھا جاتا تھا، یعنی زنجیروں سے باندھ کر۔

    کتب خانے کی منتظم بتاتی ہیں کہ جس ترتیب سے کتاب شیلف میں رکھی جاتی ہے تو کتاب کا نام والا حصہ سامنے ہوتا ہے، اگر وہاں زنجیر باندھی جائے تو زنجیر باآسانی کھینچ کر کتاب پھاڑی جا سکتی ہے۔

    اس کے برعکس کتابوں کے سرورق کے کونے پر زنجیر منسلک کی جاتی ہے۔ اس زنجیر کے ساتھ کتاب کو اگر روایتی طریقے سے رکھا جائے تو زنجیر کھینچنے سے کتاب کے پھٹنے کا خدشہ ہے۔

    چنانچہ ان کتابوں کو شیلف میں الٹا رکھا جاتا ہے یعنی صفحات سامنے کی طرف ہوتے ہیں۔

    کتابوں کی پہچان کے لیے ہر شیلف کے ایک طرف کتابوں کی فہرست بھی موجود ہے تاکہ مطلوبہ کتاب باآسانی ڈھونڈی جاسکے۔

    منتظم کے مطابق گو کہ ان زنجیروں کو کھولنے کے لیے نئی چابیاں بنا لی گئی ہیں تاہم ہمارے پاس قدیم اور اصل چابی اب بھی موجود ہے۔

    کتب خانے میں موجود قدیم کتابیں زیادہ تر سترہویں صدی کی ہیں، تاہم کچھ ایسی بھی ہیں جو بارہویں صدی میں لکھی گئیں اور سترہویں صدی میں ان کی جلد سازی کی گئی۔

    ان کتابوں کا رسم الخط بھی قدیم ہے جو اب تبدیل ہوچکا ہے۔

    بعض کتابوں میں تصاویر بھی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرون وسطیٰ کی مصوری اور رنگوں کا استعمال کس طرح ہوتا تھا۔

    کیا آپ اس کتب خانے کا دورہ کرنا چاہیں گے؟

  • دنیا کی خوبصورت ترین لائبریری

    دنیا کی خوبصورت ترین لائبریری

    جمہوریہ چیک کا دارالحکومت پراگ یورپ کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اس شہر کی بنیاد تقریباً 880 عیسوی میں رکھی گئی تھی۔

    اس شہر میں بے شمار لائبریریز یا کتب خانے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک کتب خانہ کیلیمنٹیم لائبریری بھی ہے جسے اگر دنیا کی خوبصورت ترین لائبریری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

    مزید پڑھیں: یورپ کے خوبصورت ترین شہر پراگ کی سیر کریں

    گیارہویں صدی عیسوی میں تعمیر کیے جانے والے اس کتب خانے کا نام ایک مذہبی پیشوا سینٹ کلیمنٹ کا نام پر رکھا گیا ہے۔ پندرہویں صدی عیسوی میں یہاں ایک بدھ خانقاہ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔

    سنہ 1622 میں اس کتب خانے کو ایک جامعہ میں تبدیل کردیا گیا جو اس وقت عیسائی دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی قرار پائی۔

    مختلف نوع کی عمارات میں تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس مقام کے رقبے میں بھی توسیع کی جاتی رہی اور آج اسے یورپ میں سب سے زیادہ عمارات کا حامل رقبہ قرار دیا جاتا ہے۔

    یہاں موجود کتابوں میں کچھ کتابیں ایسی بھی ہیں جو قدیم دور کے اہم مذہبی رہنماؤں کے زیر مطالعہ رہیں۔ بعض کتابوں پر ان اہم شخصیات کے ہاتھ سے لگائے گئے نشانات بھی موجود ہیں۔

    لائبریری کے در و دیوار اور چھتوں پر خوبصورت نقش نگاری کی گئی ہے جس میں قدیم دور کا روایتی و مذہبی رنگ نمایاں ہے۔ چھت پر حضرت عیسیٰ کی شبیہہ سمیت کئی مذہبی رہنماؤں کی شبیہیں بھی یہاں کندہ ہیں۔

    اس کتب خانے کا بنیادی فن تعمیر تو گیارہویں صدی کا ہے، تاہم جیسے جیسے اس کے رقبے میں توسیع کی گئی، نئی بننے والی عمارات کو اس دور کے فن تعمیر کے مطابق بنایا گیا جس کے بعد اب یہ مختلف ادوار کی خوبصورت فن تعمیرات کا شاہکار معلوم ہوتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • انسانی لائبریری میں جیتی جاگتی کتابیں

    انسانی لائبریری میں جیتی جاگتی کتابیں

    لائبریری یا کتب خانے میں جانا، وہاں بیٹھ کر کتابیں پڑھنا اور وقت نہ ہونے کے باعث ان کتابوں کو مستعار گھر لے آنا، اور پھر پڑھ کر واپس کردینا تو ایک عام سی بات ہے، لیکن کیا آپ نے جیتی جاگتی کتابیں دیکھی ہیں جو خود آپ کو اپنی کہانی سنائیں؟

    سننے میں حیران کن بات لگتی ہے، مگر کئی مغربی ممالک میں اب ایسے ہی کتب خانوں کا رواج فروغ پا رہا ہے جسے انسانی کتب خانے یا ہیومن لائبریری کا نام دیا جاتا ہے۔

    یہ لائبریری عام کتب خانوں سے ہٹ کر ہے۔ یہاں انسان، کتابوں کی صورت آپ کا استقبال کریں گے اور اپنے تجربات سنا کر آپ کے علم اور مشاہدے میں اضافہ کریں گے۔

    library-2

    ان کتابوں سے آپ سوالات بھی کر سکتے ہیں۔ آخر ہیں تو یہ انسان، جیتے جاگتے، ہنستے روتے انسان۔

    ان کتب خانوں میں مختلف حوالہ جات سے کتابوں (انسانوں) کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: 100 سال قدیم تھیٹر عظیم الشان کتاب گھر میں تبدیل

    مثال کے طور پر اگر آپ کسی پناہ گزین کے بارے میں معلومات چاہتے ہیں، تو آپ کو کسی ایسے شخص کے ساتھ بٹھا دیا جائے گا جو خود پناہ گزین ہوگا۔

    library-4

    اسی طرح یہاں مختلف بیماریوں جیسے ایڈز یا آٹزم کا شکار، بے روزگار، زیادتی اور تشدد، تنہائی، ذہنی امراض اور زندگی کے دیگر تلخ تجربے سہنے والے افراد آپ کے منتظر ہوں گے کہ آپ آئیں اور وہ آپ کو اپنی زندگی کی کہانی سے آگاہ کریں۔

    یہاں آپ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد سے بھی مل کر اس شعبہ کی زندگی کے بارے میں جان سکتے ہیں۔

    library-3

    library-5

    یہاں داخلے کا طریقہ کار بھی عام لائبریریوں جیسا ہے۔ آپ لائبریری میں چیک ان کرتے ہیں، وہاں موجود افراد کے مختصر تعارف میں اپنی دلچسپی کے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں جس کے بعد لائبریرین آپ کو آپ کی مطلوبہ ’کتاب‘ سے ملوا دیتا ہے۔

    لائبریری میں وقت گزارنا یوں تو علم اور تجربے میں قیمتی اضافے کا سبب بنتا ہے، لیکن اس طرح کی لائبریری میں وقت گزارنا یقیناً ایک شاندار تجربہ ہوگا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چین میں 12 لاکھ کتابوں پر مشتمل خوبصورت لائبریری

    چین میں 12 لاکھ کتابوں پر مشتمل خوبصورت لائبریری

    بیجنگ: چین میں کتابوں کی عظمت کے شایانِ شان خوبصورت ترین لائبریری کا افتتاح کردیا گیا جسے دیکھ کر حصول علم کے متوالے حیران رہ گئے۔

    چین کے شہر تیانجن میں نہایت شاندار کتب خانہ تیار کیا گیا ہے جو خوبصورتی، ڈیزائن اور سہولت کا انوکھا شاہکار ہے۔

    پانچ منزلہ لائبریری میں 12 لاکھ کتابیں موجود ہیں جو دنیا بھر کے زبانوں اور ادب کی ہیں۔ کتب خانے کے مرکزی بیضوی انداز کے ہال کو درمیان سے دیکھنے پر آنکھ کا گمان ہوتا ہے۔

    یہاں لوگ کتابیں نہ بھی پڑھیں تب بھی گھوم پھر کر لائبریری ضرور دیکھتے ہیں۔

    جدید طرز کی اس لائبریری میں دفاتر اور میٹنگ رومز کے علاوہ کمپیوٹر، آڈیو اور ویڈیو کمرے بھی موجود ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دبئی کے ساحل پر قائم لائبریری

    دبئی کے ساحل پر قائم لائبریری

    مطالعے کے شوقین افراد جب تفریح کے لیے جاتے ہیں تب بھی انہیں مطالعے اور کتاب کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے افراد ساحل کنارے بھی ٹھنڈی ہوا میں لیٹ کر کتاب پڑھنا چاہتے ہیں۔

    ایسے ہی شوقین افراد کے لیے دبئی میں ساحل پر ایک کتب خانہ قائم کردیا گیا ہے جو اپنی نوعیت کا منفرد کتب خانہ ہے۔

    دبئی کے ساحل پر قائم اس لائبریری کا مقصد صرف مطالعے کے شوقین افراد کے لیے نہ صرف تفریح طبع کا سامان فراہم کرنا ہے بلکہ ساحل پر آنے والے دیگر افراد کو بھی مطالعے کی طرف راغب کرنا اور علم اور معلومات کا پھیلاؤ ہے۔

    یہ لائبریری دبئی کے پرکشش ساحل کو سیاحوں کے لیے مزید پرکشش بنانے کا سبب بھی ہیں۔

    یہاں عربی اور انگریزی زبان میں کتابیں رکھی گئی ہیں کہ تاکہ غیر ملکی سیاح بھی ان کتابوں کو پڑھ کر متحدہ عرب امارات کی تاریخ، ثقافت اور تمدن کے بارے میں جان سکیں۔

    دبئی کی مقامی حکومت کی جانب سے قائم کی جانے والی یہ بیچ لائبریری ماحول دوست بھی ہے۔ ان میں چھوٹے سولر پینل لگائے گئے ہیں جو دن بھر سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرتے ہیں اور رات میں اس بجلی سے یہاں لگی روشنیاں جل اٹھتی ہیں۔

    حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس نوعیت کی کم از کم 8 لائبریریاں قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں یہ پہلی لائبریری ہے۔

  • آڈیو بک: مستقبل کی اہم ضرورت؟

    آڈیو بک: مستقبل کی اہم ضرورت؟

    نیویارک: دن بدن مصروف ہوتی زندگی میں کتاب پڑھنا ایک عیاشی کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے جو فرصت کی طلبگار ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے دور کے چلن کو دیکھتے ہوئے آئندہ آنے والا وقت آڈیو بکس یعنی صوتی کتابوں کا ہے جن کی فروخت میں اضافہ ہورہا ہے۔

    امریکا میں آڈیو بک اسٹور مک ملن آڈیو کے صدر میری بیتھ روچ کا کہنا ہے کہ ان کے اسٹور سے آڈیو بکس لے جانے والے افراد نے اسے ملٹی ٹاسکنگ ٹول قرار دیا۔ یعنی وہ کوئی کام کرتے ہوئے بیک وقت کتاب کو سن بھی سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں جب کمپیوٹر اور مختلف اسکرینوں پر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے، کتاب کو سننا ہی نئی کتابوں سے واقفیت اور معلومات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    مطالعے کے اس رجحان کو دیکھتے ہوئے امریکا میں اب کئی پبلشرز کتاب کو چھاپنے کے ساتھ اسے صوتی شکل میں پیش کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔

    روچ کا کہنا ہے کہ لوگ ان آڈیو بکس کو شاپنگ کرتے، جاگنگ یا ورزش کرتے، گھر میں مختلف امور سر انجام دیتے یا کار میں سفر کے دوران سنتے ہیں۔

    آڈیو بکس اس مقصد کے لیے بنائی جانے والی ایپس کے ذریعے اسمارٹ فونز میں ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں۔

  • دنیا کی پہلی برفانی لائبریری

    دنیا کی پہلی برفانی لائبریری

    روس میں دنیا کی پہلی برفانی لائبریری کا افتتاح کردیا گیا۔ اس انوکھی لائبریری میں برف کی دیواروں پر مختلف اقوال و جملے لکھے گئے ہیں۔

    اپنی نوعیت کی منفرد اس لائبریری کے لیے دنیا بھر سے ہزاروں افراد نے اپنے پسندیدہ عبارات و منتخب جملے بھیجے جنہیں برف سے بنی دیواروں پر کندہ کیا گیا۔

    russia-6

    russia-2

    russia-4

    اس لائبریری میں انگریزی، روسی، کورین اور چینی زبان میں مختلف کتابوں سے لی گئی عبارتیں درج ہیں۔

    russia-3

    russia-5

    کھلے آسمان تلے سجائی جانے والی یہ لائبریری اپریل تک قائم رہے گی، اس کے بعد جب گرمیوں کا آغاز ہوگا تو یہ لائبریری پگھل جائے گی۔

  • مراکش میں دنیا کے قدیم ترین کتب خانے کی بحالی

    مراکش میں دنیا کے قدیم ترین کتب خانے کی بحالی

    رباط: مراکش کے شہر فیض میں واقع دنیا کے قدیم ترین کتب خانہ ’القروین‘ کو عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

    یہ لائبریری 1 ہزار 1 سو 57 سال پرانی ہے اور یہ دنیا کی قدیم ترین اور اب تک فعال جامعہ القروین کا حصہ ہے۔

    l8

    جامعہ القروین 859 عیسوی میں قائم کی گئی تھی۔ اس لائبریری میں ایک عرصے سے مرمت کا چھوٹا موٹا کام کیا جارہا تھا لیکن 2012 میں مراکشی نژاد کینیڈین ماہر تعمیرات عزیزہ شاونی نے اس کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا۔

    اس سے قبل یہ لائبریری صرف تعلیمی اداروں اور طلبا کے لیے مختص تھی۔

    l5

    جامعہ القروین 859 میں ایک تاجر کی بیٹی فاطمہ الفریہ نے قائم کی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب الجبرا کی ابتدائی شکل ایجاد ہوئی۔ لائبریری میں فاطمہ کا اس تعلیمی ادارے سے حاصل کیا جانے والا ڈپلومہ ایک لکڑی کے تختہ پر نصب ہے۔

    عزیزہ شاونی نے اس پروجیکٹ پر 4 سال کام کیا جس کے بعد لائبریری میں موجود فوارے اور خطاطی اپنی اصل شکل میں بحال ہوگئے۔ لائبریری کی تعمیر میں پتھروں سے خوبصورت اور منفرد نقش و نگار اور محراب بنائے گئے ہیں۔

    l7

    لائبریری میں 4000 کے قریب غیر شائع شدہ مسودات موجود ہیں۔ یہاں نویں صدی کے قرآن، جن پر کوفی دور کی خطاطی کی گئی ہے جبکہ حضور اکرم کے حالات زندگی کا قدیم ترین مسودہ بھی موجود ہے۔

    l6

    لائبریری کے سرپرست عبدالفتح بوگشوف ہیں۔ وہ یہاں موجود تمام کتابوں اور مسودوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔

    l4

    یہاں 14ویں صدی کے شمالی افریقی مؤرخ ابن خلدون کی مشہور تصنیف ’مقدمہ‘، جبکہ اسلام کے قانون نظام کی تشریح کرتا ایک قدیم ترین نسخہ کا اصل مسودہ بھی موجود ہے۔ یہ مسودہ خطاطی کی طرز پر لکھا گیا ہے۔

    l3

    l2

    یہاں کی ایک اور قیمتی کتاب نویں صدی کا ایک قرآن ہے جو اب تک اپنی اصل جلد میں ہے۔

    l1

    اس لائبریری کو کھولے ہوئے چند ہی دن گزرے ہیں مگر اب تک دنیا بھر سے بے شمار سیاح اور تاریخ کے طالبعلم اس کا دورہ کر چکے ہیں۔