Tag: کتب خانے

  • دکن کے چند بڑے کتب خانے

    دکن کے چند بڑے کتب خانے

    حیدرآباد(دکن) میں بیسوں کتب خانے ہیں اور سب سے بڑا کتب خانۂ آصفیہ ہے۔ اسے نواب عماد الملک اور چراغ علما نے مل کر غالباً تیرہ سو ہجری میں قائم کیا جو کتب خانۂ آصفیہ کہلاتا ہے۔

    کتب خانۂ آصفیہ میں سولہ ہزار سے زیادہ قلمی نسخے ہیں جن میں قطب شاہی، عادل شاہی اور آصف جاہی دور کے ادبیوں اور شاعروں کی تصانیف ہیں۔ غالبؔ اور میرؔ کی تحریریں بھی ہیں اور اردو، عربی، فارسی کا کوئی موضوع ایسا نہ تھا جس کی کتابیں کتب خانے آصفیہ میں نہ ہوں۔ اردو عربی فارسی کی بہت پرانی اور نایاب کتابیں موجود ہیں۔ بعض تو سو سال پرانی ہیں۔ آصف جاہی دور کی یہ یاد گار اب آندھرا پردیش کی اسٹیٹ سینٹرل لائبریری کہلاتی ہے۔

    جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں بڑی روشن، کشادہ، جیتی جاگتی لائبریری ہے جہاں اردو فارسی اور عربی کی کتابوں کا بہت اچھا ذخیرہ ہے۔ دائرہ المعارف، حیدرآباد کا وہ شان دار ادارہ ہے جو بہت عرصے سے عربی علوم پر نہ صرف تحقیق کررہا ہے بلکہ اپنی تحقیق کی بناء پر نئی نئی کتابیں شائع کرتا ہے۔ کتب خانہ سالار جنگ (سالار جنگ میوزیم میں ہے) حیدرآباد میں ہاتھ سے لکھی ہوئی اردو، عربی اور فارسی کی کتابیں ہیں۔ یہاں قرآن مجید کے چار سو نسخے ہیں جو دسویں صدی کے خطِ گلزار میں لکھے ہوئے ہیں۔ کتب خانہ سالار جنگ کے ذخیرے کی ایک اور دولت اس کے مصور نسخے ہیں۔ جن میں گزرے وقتوں کی مصوری کے شاہکار ہیں۔ اسی طرح محمد قلی قطب شاہ کا دیوان ہے جس کا دنیا میں صرف ایک نسخہ ہے۔ یہ دیوان سولہویں صدی کے آخر میں قلی قطب شاہ کے دور میں لکھا گیا تھا۔

    حیدر آباد میں نایاب کتابوں کا ایک اور کتب خانہ ہے اور یہ کتب خانۂ سعیدیہ ہے۔ جو مدراس کے ایک عظیم علمی گھرانے کا ایک فرزند مفتی مولوی محمد سعید خاں کی یاد گار تھا۔ کتب خانہ سعیدیہ میں چار ہزار سے زیادہ نایاب قلمی کتابیں ہیں۔ اسلامی تاریخ اور دکنی تمدن پر بڑا ذخیرہ ہے۔ ٹیپو سلطان اور گلائیو کے ذاتی خط اور کئی شاہی فرمان محفوظ ہیں۔

    حیدرآباد میں کتابوں کا ایک ذخیرہ جو اردو خصوصاً دکنی ادب کی تاریخ میں جگہ پائے گا وہ ہے ادارۂ ادبیات اردو کا کتب خانہ- برصغیر میں جب اردو کی نئی نئی طباعت شروع ہوئی اس وقت کی کتابیں ادارۂ ادبیات اردو میں موجود ہیں۔ پرانے اخباروں کے فائل ہیں۔ اردو فارسی اور عربی مخطوطے اور اردو فارسی قدیم تذکرے اور دکنی ادبیات کے تمام پرانے دواوین، کلیات اور نثر کی داستانیں جمع ہیں۔

    (ڈاکٹر ثریّا بیگم محمود خان کے تحقیقی مضمون سے چند پارے)

  • قیامِ پاکستان اور لائبریری تحریک

    قیامِ پاکستان اور لائبریری تحریک

    لاہور جو کتب خانوں کا شہر اور لائبریری تحریک کا مرکز تھا، قیامِ پاکستان کے وقت رونما ہونے والے واقعات کے باعث اس کی تمام تر لائبریری سر گرمیاں ماند پڑ چکی تھیں۔ کتب خانوں میں کام کرنے والے عملے کی اکثریت ہندوؤں کی تھی، ان کے ہندوستان چلے جانے کی وجہ سے کتب خانے بند ہو گئے۔

    ۱۹۱۵ء میں قائم ہونے والا ’لائبریری اسکول‘ بند ہو گیا، لائبریری پروفیشن کا ترجمان رسالہ ’ماڈرن لائبریرین‘ کی اشاعت بند ہو گئی۔ ایسی صورتِ حال میں کتب خانوں کا قیام اور لائبریری تحریک کو بالکل ہی ابتداء سے شروع کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ دور مصائب و مشکلات اور جدوجہد کا دور تھا۔ لائبریرین شپ سے تعلق رکھنے والی محترم شخصیات اور وہ لوگ جنہوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی سب ہی نے ان مشکل حالات میں لائبریرین شپ کے فروغ اور ترقی کے لیے خلوصِ دل کے ساتھ دن رات محنت کر کے نہ صرف لائبریری تحریک کی بنیاد رکھی بلکہ اسے پروان چڑھانے کی مسلسل انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کرتے رہے ان احباب نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ آج پاکستان لائبریرین شپ ترقی کے اعتبار سے دوسرے شعبوں سے کسی بھی طرح کم نہیں۔ ان قابلِ تعریف شخصیات میں خان بہادر اسد اللہ خان، محمد شفیع، نور محمد خان، خواجہ نور الٰہی، فضل الٰہی، عبدالسبحان خان، عبدالصبوح قاسمی، عبدالرحیم، ڈاکٹر محمد علی قاضی، الطاف شوکت، فرحت اللہ بیگ، جمیل نقوی، الحاج محمد زبیر، سید ولایت حسین شاہ، حبیب الدین احمد، ڈاکٹر عبدالمعید اور ابن حسن قیصر شامل ہیں۔ لائبریری تحریک کو منظم کرنے اور فروغ دینے میں یہ احباب انفرادی اور اجتماعی کوششیں کرتے رہے، ان میں ڈاکٹر عبدالمعید اگلی صف میں نظر آتے ہیں اور دیگر احباب ان کے شانہ بہ شانہ تھے، قیصر صاحب اس دور کے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔

    لاہور ہی میں برطانوی ہندوستان میں قائم ہونے والی پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۸ء میں مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے نام سے قائم ہوئی لیکن صوبوں کے ادغام کے بعد اسے دوبارہ پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن کا نام دے دیا گیا۔ اس ایسوسی ایشن نے دسمبر ۱۹۴۹ء میں ’’ ماڈرن لائبریرین‘‘ ( نیو سیریز) شائع کیا لیکن یہ جولائی ۱۹۵۰ء میں بند ہو گیا۔ ۱۹۴۸ء میں پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن نے لائبریری سائنس میں سر ٹیفکیٹ کورس شروع کیا لیکن یہ ایک سال میں بند ہو گیا۔ اِسی دوران ڈاکٹر عبدالمعید سندھ یونیورسٹی کے لائبریرین مقرر ہوئے اور لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے۔

    اب کراچی میں لائبریری سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ کراچی لائبریری ایسوسی ایشن ۱۹۴۹ء میں قائم ہوئی۔ اس ایسوسی ایشن نے لائبریری سائنس میں سر ٹیفکیٹ کورس بھی شروع کیا جو کراچی میں اپنی نوعیت کا اوّلین کورس تھا۔ اس کورس نے لائبریرین شپ کو بنیاد فراہم کرنے میں بہت مدد دی۔ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ ۱۹۵۰ء اور پا کستان لائبریری ایسوسی ایشن کی بنیاد کراچی میں مارچ ۱۹۵۷ء میں رکھی گئی۔ قیصر صاحب ان اداروں کے قیام اور سر گرمیوں میں دیگر احباب کے ہمراہ خاموشی سے جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں پاکستان لائبریرین شپ میں ایک ایسی انجمن معرضِ وجود میں آئی جس نے مختصر وقت میں کتب خانوں اور لائبریری تحریک کے فروغ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر دکھایا۔ یہ انجمن شہید حکیم محمد سعید کی سر پرستی میں ’انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات، اسپل (SPIL) کے نام سے قائم ہوئی۔ ایسوسی ایشن نے ملک کے مختلف شہروں میں لائبریرین شپ کے مختلف موضوعات پر یکے بعد دیگرے قومی نوعیت کے سیمینار، ورکشاپس اور کانفرنسیں منعقد کیں، کتب خانوں کے فروغ و ترقی کے منصوبے اور تجاویز حکومت کو پیش کیں۔ شہید حکیم محمد سعید نے نہ صرف اسپل (SPIL) کے پرچم تلے کتب خانوں کی ترقی کے لیے جدوجہد کی بلکہ دیگر لائبریری انجمنوں کی بھی سرپرستی کی اور ان کے تحت ہونے والے کتب خانوں کی ترقی کے پروگراموں کے ذریعہ حکومت کو ملک میں کتب خانوں کے قیام اور ترقی کا احساس دلاتے رہے۔

    قیامِ پاکستان کا ابتدائی دور مسائل اور مشکلات کا دور تھا۔ حکومت بعض اہم اور قومی نوعیت کے امور کی انجام دہی میں مصروف رہی جس کے نتیجہ میں تعلیم بشمول کتب خانوں کی جانب فوری توجہ نہ ہو سکی۔ ملک میں کتب خانوں کے قیام اور لائبریری تحریک کے سلسلے میں حکومتِ پا کستان کی جانب سے جو اوّلین اقدام سامنے آیا وہ امپیریل لائبریری کلکتہ کے سابق لائبریرین‘ انڈین لائبریری ایسوسی ایشن کے بانی سیکریٹری، لائبریری ایسوسی ایشن لندن کے فیلو اور اسا ڈان ڈکنسن کے شاگرد خان بہادر خلیفہ محمداسد اللہ خان کا تقرر وزارتِ تعلیم حکومت پاکستان میں بطور ’’آفیسر بکارِ خاص‘‘ (Officer on Special Duty) تھا جنہوں نے ہندوستان کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان ہجرت کی۔ خان بہادر صاحب کو ہندوستان لائبریرین شپ میں بہت ہی بلند مقام حا صل تھا۔ ۱۹۳۵ء میں برطانوی حکومت نے انہیں اُن کی اعلیٰ لائبریری خدمات کے اعتراف میں ’’خان بہادر‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ قدرت نے خان بہادر صاحب کو پاکستان میں بہت کم مہلت دی۔ وہ ۲۳ نومبر ۱۹۴۸ء کو رحلت کر گئے۔ مختصر عرصہ میں بھی انہوں نے پاکستان میں لائبریری تحریک اور ملک کی قومی لائبریری کی بنیاد رکھی۔ بقول ڈاکٹر ممتاز انور، اسداللہ نے افسر بکارِ خاص کی حیثیت سے کراچی میں مختصر عرصہ خدمات انجام دیں جہاں انہوں نے بنیادی نوعیت کے کام کیے۔ اس میں شک نہیں کہ ڈائریکٹریٹ آف آرکائیوز و لائبریریز اور نیشنل لائبریری ۱۹۴۹ء میں اسد اللہ کے کام کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئے۔ ‘ ڈاکٹر حیدر کا کہنا ہے کہ ’’ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو ایک بات مسلمہ ہے وہ یہ کہ ۱۹۴۹ء میں ڈائریکٹریٹ آف آرکائیوز و لائبریریز کا قیام بہادر صاحب کی کوششوں کا مرہون منت ہے۔‘‘

    اس طرح پاکستان میں لائبریری تحریک کا آغاز کراچی سے اور لاہور سے بیک وقت شروع ہوا۔ گویا لاہور سے انجمن سازی کا آغاز ہوا اور کراچی سے کتب خانوں کے قیام اور فروغ کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ بعد ازاں انجمن سازی کی سرگرمیاں کراچی سے پورے آب و تاب سے شروع ہو گئیں۔

    (کتاب یادوں کی مالا از قلم رئیس احمد صمدانی سے اقتباس)

  • الماریوں میں‌ سجی کتابوں‌ کے درمیان رکھی ہوئی لاشیں!

    الماریوں میں‌ سجی کتابوں‌ کے درمیان رکھی ہوئی لاشیں!

    آئیے سوئٹزرلینڈ کی ایک قدیم اور پُرشکوہ عمارت کی سیر کو چلتے ہیں۔

    اس عمارت میں‌ ایک کتب خانہ ہے جو ایبے لائبریری کے نام سے مشہور ہے۔ عمارت کا منفرد طرزِ تعمیر، خوب صورتی اور سجاوٹ دیکھ کر آپ دم بخود رہ جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ اندر جاکر آپ خوف زدہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر داخل ہونے سے پہلے آپ یہ جان لیں‌ کہ اس عظیم الشان عمارت میں چند حنوط شدہ جسم بھی رکھے ہوئے ہیں تو فیصلہ کرسکتے ہیں‌ کہ اندر داخل ہونا ہے یا نہیں، مگر ہمیں یقین ہے کہ تجسس خوف پر غالب آجائے گا اور آپ سوئٹزر لینڈ کے علاقے سینٹ گالیں‌ کی اس لائبریری کے اندر  ضرور جائیں گے۔

    یہ کتب خانہ قدیم رسائل، نوادر اور حیرت انگیز موضوعات پر کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کئی مخطوطات اور قدیم نقشے بھی محفوظ ہیں۔ صدیوں پہلے یہاں ایک معبد قائم کیا گیا تھا اور بعد کے ادوار میں یہاں کتب خانہ بنا دیا گیا۔ آج اس دو منزلہ کتب خانے کی شہرت دنیا بھر میں ہے۔

    یہ کتب خانہ ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس میں ہر طرف لکڑی کی الماریوں میں کتابیں محفوظ ہیں۔ یہاں کے در و دیوار سے اس عمارت کی شان و شوکت اور اس کا حسن جھلکتا ہے۔ یہاں لکڑی کا کام نہایت نفیس اور باریکی سے کیا گیا ہے۔ الماریوں کے علاوہ زینے اور چھت کو جس مہارت سے منقش اور مزین کیا گیا ہے اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔

    یہ عمارت فنِ تعمیر کا ایک شاہ کار بھی مانی جاتی ہے جس میں ہوا اور روشنی کی آمدورفت کا خاص اہتمام کیا گیا ہے جب کہ اس کے ہال کی بناوٹ بھی ایک خاص پیمائش اور ڈھب سے کی گئی ہے۔ 1983 میں اسے عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں لائبریری میں موجود حنوط شدہ لاشوں کی طرف۔ کہتے ہیں کہ یہ لگ بھگ تیرہ سو برس پہلے حنوط کیے گئے جسم ہیں جو مرکزی ہال میں کتابوں کی الماریوں کے درمیان رکھے ہوئے ہیں۔

  • 1857: جب کتب خانے برباد ہوئے!

    1857: جب کتب خانے برباد ہوئے!

    انقلابات و حوادثِ زمانہ کے ہاتھوں علم و فضل اور تہذیب و تمدن کے مراکز بھی ایسے برباد ہوئے کہ زمانہ اس پر روتا ہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ صدیاں گریہ کریں تب بھی تلافی کہاں ممکن۔ ہم کتب خانوں کی بات کررہے ہیں جن کا دامن دنیا بھر کے انمول موتیوں سے بھرا ہوا تھا۔ تشنگانِ علم آتے اور سیراب ہوتے۔

    تاریخ کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوگا کہ جس طرح دنیا بھر میں اور قرطبہ، بغداد، قاہرہ و دیگر سلطنتوں کے زوال کے ساتھ ہی بادشاہوں اور صاحبانِ علم کی خصوصی سرپرستی اور مالی معاونت سے اذہان و قلوب کو منور کرنے والے کتب خانے ویران ہوگئے، اسی طرح لوٹ مار کے بعد ان میں اکثر برباد کر دیے گئے۔ توڑ پھوڑ کے ساتھ کتب خانوں کو جلا دیا گیا اور سپاہِ مخالف نے زیرِ قبضہ علاقوں کو روشنی سے محروم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کچھ کمی نہ کی۔

    مغل اور دیگر مسلم ریاستوں کے والی و امرا کی سرپرستی میں کئی کتب خانے ہندوستان میں بھی موجود تھے جو کسی جنگ کے دوران ہی برباد نہیں ہوئے بلکہ لوٹ مار کی بھی نذر ہوئے۔ یہاں ایسے چند واقعات کا تذکرہ اہلِ علم و فن کو رنجیدہ کر دے گا۔

    1739 میں نادر شاہ کے حملے میں دہلی کے کئی کتب خانے برباد ہوئے۔ افواج نے فقط مال و دولت ہی نہیں سمیٹا بلکہ کتب خانوں سے قدیم نسخے اور نوادر بھی لوٹ کر لے گئیں۔

    1757 میں ابدالی نے ہندوستان پر لشکر کشی کی تو دہلی کا علمی خزانہ برباد ہوا۔ کہتے ہیں غلام قادر روہیلے نے قرآنی نسخے اور نادر کتابیں تک شاہی کتب خانے سے سمیٹ لی تھیں۔

    یہ تو اس زمانے کے بادشاہوں کی لڑائیوں اور جنگوں کے دوران ہونے والی لوٹ مار تھی، مگر 1857 میں یعنی ہندوستان کی جنگ آزادی کے دوران بھی کئی نایاب قلمی نسخے، نوادر اور اہم موضوعات پر کتب برباد ہو گئیں اور عوام نے کتب خانوں میں لوٹ مار کی۔
    کتب خانوں کی بربادی اور لوٹ مار کا نقشہ شمس العلما مولوی ذکا اللہ نے یوں کھینچا ہے۔

    ‘‘کتب خانے لٹنے شروع ہوئے۔ لٹیرے عربی، فارسی اردو وغیرہ کی کتابوں کے گٹھر باندھ کر کتب فروشوں، مولویوں اور طالب علموں کے پاس بیچنے لے گئے۔ بعض طلبا بھی جو کتابوں کے شائق تھے، اچھی اچھی کتابیں لے گئے۔ لوگوں نے کتابوں کے اچھے اچھے پٹے اتار لیے کہ جلد سازوں کے ہاتھ بیچیں گے اور باقی کو پھاڑ کر پھینک دیا۔’’

    اس وقت مغلوں کے علاوہ سلطان ٹیپو وغیرہ کے کتب خانوں کی بہت سی کتب انگلینڈ بھیج دی گئیں۔ یہ کتابیں وہاں کے کتب خانوں میں سجائی گئیں۔

    علامہ اقبال انہی کتابوں کو جب یورپ میں دیکھا تو کہا۔

    مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
    جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

  • جدید ٹیکنالوجی ’’ لائبریریز ‘‘  کو ویران کرنے کی ذمہ دار

    جدید ٹیکنالوجی ’’ لائبریریز ‘‘ کو ویران کرنے کی ذمہ دار

    عصر حاضر میں ہونے والی جدید ایجادات کے باعث جہاں انسانی زندگی آسان ہوئی وہیں کچھ اہم روایات اور ثقافتیں معدوم ہوگئیں، جن میں سب سے اہم لائبریریز ہیں۔ انٹرنیٹ اور ای کتابوں کے آنے کے بعد مطالعے کا ذوق رکھنے والے افراد نے کتب خانوں کا رخ کرنا کم کردیا ہے، جدید ٹیکنالوجی کے باوجود لائبریری کا وجود باقی ہے تاہم اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو مستقبل میں کتب خانے بالکل ویران بھی ہوسکتے ہیں۔

    ایک وقت تھا کراچی کی شناخت کتب خانوں سے ہی ہوتی تھی کیونکہ شہر میں 30 سے زائد لائبریریز موجود تھیں جہاں سے طالب علم اور مطالعے کا ذوق رکھنے والے افراد استفادہ کرتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔کراچی کی لائبریریز طلب علموں کی ضروریات پوری کرنے کا آسان ذریعہ بھی تھیں۔

    شہر قائد میں قائم فریئر ہال میں موجود لیاقت لائبریری 1865 میں قائم ہوئی جہاں قیمتی اور اہم تصانیف موجود ہیں، حکومتی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے کتابوں اور الماریوں کو دیمک لگ چکا ہے۔

    مزید پڑھیں: حسرت موہانی لائبریری عوام کے لیے کھول دی گئی

    اسی طرح کراچی کی ایک اور محمود حسن لائبریری 1952 میں قائم ہوئی جہاں اس وقت بھی ساڑھے تین لاکھ سے زائد قیمتیں کتابیں موجود ہیں، اسی طرح ڈیفنس سینٹرل لائبریری جو برطانوی سفارت خانے میں موجود ہے یہاں بھی مختلف موضوعات کی 70 ہزار سے زائد تصانیف موجود ہیں۔

    کتب خانے شہر کے منظر نامے سے غائب کیوں ہونے لگے؟

    لائبریریز کے بھوت بنگلے جیسا منظر پیش کرنے کی وجہ قارئین کی تعداد کا کم ہونا ہے کیونکہ بیشتر کتب خانوں کی انتظامیہ کتاب کے کرائے کے عوض جمع ہونے والی رقم سے ہی مرمت اور نئی تصانیف خریدنے کا کام کرتی تھیں، اب اکثر صارفین انٹرنیٹ کے ذریعے موبائل یا کمپیوٹر پر ہی اپنی متعلقہ کتاب کا مطالعہ باآسانی کرلیتے ہیں۔

    نامور سینئر صحافی اختر بلوچ کا کہنا تھا کہ ’علمی مطالعے یا تحقیق کے لیے جن کتابوں یا مواد کی ضرورت ہوتی ہے وہ باآسانی موبائل فون کی مدد سے مل جاتا ہے، جدید دور کی وجہ سے لوگوں کی کتب خانوں میں آمد ورفت کم ہوگئی اور آہستہ آہستہ لائبریرز کی تعداد بھی وقت کے ساتھ کم ہوتی گئی‘۔

    یہ بھی پڑھیں: دنیا کی خوبصورت ترین لائبریری

    اُن کا کہنا تھا کہ ایک وقت ایسا تھا کہ جب نامور مصنفین اور شعرا کے افسانے خریدنے کی قارئین سکت نہیں رکھتے تھے تو وہ لائبریری سے چند پیسوں کے عوض کتاب حاصل کر کے اس کا باآسانی مطالعہ کرلیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہر دو یا تین گلیوں کے فاصلے پر ایک لائبریری ضرور موجود ہوتی تھی اسی طرح شہر کی ایک آنہ لائبریری بہت مشہور تھی جو صرف ایک آنے کے عوض کتاب کرائے پر فراہم کرتی تھی۔

    انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ دو یا تین لوگ مل کر کتاب کا کرایہ دیتے تھے اور سب کی کوشش ہوتی تھی وہ مطالعہ کرلے، کتب خانے ویران ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مطالعے کا شوق ختم ہوگیا بلکہ اب صورتحال بہت تبدیل اور نظام بہت زیادہ جدید ہوگیا کیونکہ اب قاری کو واٹس ایپ، گوگل، وکی پیڈیا کی سہولت آسانی سے مل جاتی ہے اور وہ اپنا کام کامیابی سے کرلیتا ہے۔

    اسے بھی پڑھیں: چین میں 12 لاکھ کتابوں پر مشتمل خوبصورت لائبریری

    پڑھیں: فریئر ہال کی قدیم لائبریری تباہی کے دہانے پر

    اختر بلوچ کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ اپنی تحریر ، بلاگ، مقالے میں مستند بات یا تاریخی حوالہ دینا چاہتے ہیں تو اُس کے لیے کتاب کا موجود ہونا بہت ضروری ہے، انٹرنیٹ پر جو کتابیں موجود ہیں ان کے بھی مکمل مطالعے کے لیے رقم دینی ضروری ہوتی ہے، اس لیے کتاب کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ایک سند ہے۔

    لائبریریوں کی تاریخ

    دنیا کی پہلی لائبریری کا قیام شام میں پانچ سال قبل ہوا، قدیم ترین کتب خانے 2500 قبل مسیض میں قائم ہوئے جہاں آج بھی کتابوں اور تصانیف کو مکمل حفاظت کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور مطالعے کا ذوق رکھنے والے تاریخی تصانیف سے استفادہ کرتے ہیں۔