Tag: کتے کا کاٹنا

  • ریبیز کا عالمی دن: عالمی ادارہ صحت کے پاکستان کے حوالے سے تشویشناک اعداد و شمار

    ریبیز کا عالمی دن: عالمی ادارہ صحت کے پاکستان کے حوالے سے تشویشناک اعداد و شمار

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے ہونے والی مہلک بیماری ریبیز کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان ریبیز سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے جس میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ دنیا میں ہر سال 59 ہزار افراد ریبیز کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے سنہ 2030 تک ریبیز سے ہونے والی اموات کا خاتمہ ممکن بنانا۔

    ریبیز سے جاں بحق ہونے والے افراد کی بڑی تعداد ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھتی ہے جس کی بنیادی وجہ آبادی کا تناسب اور مرض کے مہلک ہونے کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔ ایک بار یہ بیماری جڑ پکڑ لے تو ناقابل علاج بن جاتی ہے، ریبیز کا شکار بہت کم افراد زندہ بچ پاتے ہیں۔

    ریبیز سے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ محض کتے کے کاٹنے سے ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں بلکہ بندر، ریچھ یا بلی کے کاٹنے سے بھی ریبیز ہوسکتا ہے تاہم کتے کے کاٹنے سے اس کا تناسب 99 فیصد ہے۔

    ریبیز کا مرض لاحق ہونے سے مریض میں ہائیڈرو فوبیا ہوجاتا ہے، وہ پانی اور روشنی سے ڈرنے لگتا ہے، مریض پر جو گزرتی ہے وہ تو وہی جانتا ہے لیکن اسے دیکھنے والے بھی بڑی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔

    ایسے مریضوں کو اپنے ہی ہاتھوں تشدد سے بچانے کے لیے آخری چارہ کار کے طور پر رسیوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والے مرض کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، بعض اوقات متاثرہ شخص یا اس کے گھر والے زخم کی معمولی نوعیت کے سبب اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اس کے علاج کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے روایتی قسم کی مرہم پٹی یا زخم میں مرچیں بھر کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔

    جب مرض کی شدت بڑھتی ہے، مریض کو تیز بخار، کپکپی، جھٹکے اور رال ٹپکنا شروع ہوتی ہے تو اس وقت علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، تب تک یہ مرض لا علاج ہو چکا ہوتا ہے۔

    پاکستان ریبیز کے حوالے سے خطرناک ملک

    عالمی ادارہ صحت کے ریبیز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان ریبیز سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے اور ہر سال ملک میں ریبیز کی وجہ سے 2 ہزار سے زائد اموات ہوتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ مرض پاکستان میں نظر انداز کیا جانے والا مرض ہے، باوجود اس کے کہ ملک میں کتے کے کاٹنے کے واقعات عروج پر ہیں۔

    سنہ 2010 میں پاکستان میں سگ گزیدگی کے 97 ہزار واقعات بنیادی صحت کے مراکز سے رپورٹ ہوئے تھے۔ نجی اسپتالوں، حکیموں اور روحانی علاج کے لیے جانے والے ریبیز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر آبادی کتے کے کاٹنے کے بعد کے خطرات سے یا تو بے خبر ہے، یا ایسے واقعات کے بعد درست علاج کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

    عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں ریبیز کے پھیلاؤ کی اہم وجوہات میں جدید ویکسین کی عدم فراہمی اور سیاسی عوامل کو قرار دیا ہے۔

  • کتا کاٹ لے تو پلٹ کر اسے کاٹنا نہیں، ویکسین لگوانا چاہیے

    کتا کاٹ لے تو پلٹ کر اسے کاٹنا نہیں، ویکسین لگوانا چاہیے

    دو روز قبل شکار پور کا ایک بچہ لاڑکانہ میں مبینہ طور پر کتے کے کاٹنے ( اینٹی ریبیز) ویکسین نہ ملنے کے سبب جاں بحق ہوگیا، سگ گزیدگی کے واقعات پاکستان میں عام ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف سندھ میں ہر سال 1500 لوگ مختلف جانوروں کے کاٹنے سے ریبیز کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    حالیہ واقعے میں سندھ حکومت کا موقف ہے کہ بچے کو کئی دن قبل کتے نے کاٹا تھا ، گھر والے گھر میں ہی مختلف طریقوں سے علاج کرتے رہے جس سے وہ صحت یاب نہیں ہوا، اور جب اسے اسپتال لایا تو اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اسے ویکسین دی جاسکتی۔

    اس مخصوص واقعے میں کیا ہوا اور اصل غفلت کس کی ہے ، اس کا تعین تو تحقیقاتی کمیٹیاں کریں گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ ایک عام آدمی کو معلوم ہونا چاہیے کہ کتے کے کاٹنے کی صورت میں کیا کام فوری طور پر کرنے چاہیے ، یہ بنیادی معلومات کسی انسانی جان کے بچاؤ کا سبب بن سکتی ہے۔

    یاد رکھیں کہ ہر کتے کے کاٹنے سے ریبیز نہیں ہوتا لیکن کتے کے کاٹنے کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ، یہ ایک سنگین واقعہ ہے اور اس میں ذرا سی غفلت جان سے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔

    کتے کے کاٹنے کے بعد فوری اختیار کی جانے والی تدابیر

    اگر کسی شخص کو کتا کاٹ لے تو چاہیے کہ فوری طور پر زخم کا معائنہ کیا جائے کہ آیا صرف جلد پر خراشیں ہیں یا کتے کے دانتوں نے گوشت کو پھاڑ دیا ہے۔ معمولی خراشیں ہوں تو ان کا علاج گھر میں کیا جاسکتا ہے لیکن اگر کتا دانت گاڑنے میں کامیاب ہوگیا ہے تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرنا لازمی ہے۔

    زخم کو دھونا کیوں ضروری ہے؟

    جس جگہ کتے کے کاٹنے کا زخم ہو، اس متاثرہ حصے کو بہت زیادہ صابن اور نیم گرم پانی سے کئی منٹ تک دھوئیں، اس عمل سے زخم میں موجود کتے کے منہ سے منتقل ہونے والے جراثیموں کو صاف کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے لیے کوئی بھی صابن استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم اگر جراثیم کش صابن موجود ہو تو زیادہ بہتر ہے۔

    خون روکیں

    زخم کسی جانور کے کاٹے کا ہو یا کوئی اور ہر دو صورت میں زخم سے خون کا بہاؤ روکنا بے حد ضروری ہے ، بصورت دیگر زیادہ خون بہہ جانے سے بھی بعض اوقات جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ خون روکنے کے لیے زخم کو کسی صاف تولیے یا کپڑے سے دبائیں اور کچھ دیر دبائے رکھیں۔ خون کا بہاؤ رک جانے کے بعد اینٹی بایوٹک مرہم لگا کر بینڈیج کریں۔

    اگر خون کا بہاؤ نہیں رک رہا تو ایسی صورت میں کتے کے کاٹنے سے متاثرہ شخص کو فوری طبی امداد کی ضروری ہے ، جس کے لیے قریبی صحت مرکز یا اسپتال سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

    زخم کا باقاعدگی سے معائنہ

    ابتدائی طبی امداد اور ویکسینیشن کے بعد زخم بھرنے کے دورانیے میں انفیکشن کی دیگر علامات پر نظر رکھنا بے حد ضروری ہے، اگر زخم میں انفیکشن کا امکان نظر آئے تو ڈاکٹر سے فوری رجوع کریں، عام طور پر انفیکشن کی علامات کچھ ایسی ہوسکتی ہیں؛ درد بڑھ جانا سوجن، زخم کے ارگرد سرخی یا گرمائش کا احساس، بخار اور پیپ جیسا مواد خارج ہونا۔

    ریبیز کیا ہے؟

    ریبیز ایک وائرس ہے جو کہ پالتو اور جنگلی جانوروں بالخصوص کتوں کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہو کر سنٹرل نروس سسٹم کو تباہ کر دیتاہے اگر بروقت علاج نہ کروایا جائے تو دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور متاثرہ فرد کی موت ہو جاتی ہے۔ کتے کے علاوہ یہ بندر ، بلی ، گیدڑ، لومڑی اور چمگادڑ کے کاٹنے سے بھی انسان کے جسم منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ منتقل ہونے والا مرض ہے اور ریبیز کے متاثرہ مریض سے تعامل کی صورت میں یہ دوسرے انسان کو بھی منتقل ہوسکتا ہے۔

    علامات

    اس بیماری ابتدائی علامات میں بخار اورجانور کے کاٹنے سے متاثرہ مقام پر سنسناہٹ شامل ہو سکتی ہے اور ان علامات کے بعد پرتشدد سرگرمی، بے قابو اشتعال، پانی کا خوف، جسم کے اعضاء کو ہلانے کی ناقابلیت، ذہنی انتشار اور ہوش کھونا جیسی کوئی ایک یا کئی علامات ہو تی ہیں۔

    علامات ظاہر ہونے کے بعد، ریبیز کا علاج کافی مشکل ہوتا ہے ۔مرض کی منتقلی اور علامات کے آغاز کے درمیان کی مدت عام طور پر ایک سے تین ماہ ہوتی ہے۔ تاہم، یہ وقت کی مدت ایک ہفتے سے کم سے لے کر ایک سال سے زیادہ تک میں بدل سکتی ہے۔

    اینٹی ریبیز ویکسین

    کتے کے کاٹنے کی صورت میں متاثرہ شخص کو اینٹی ریبیز ویکسین دینا بے حد ضروری ہے ، یہ صرف اسی صورت میں نہیں دی جاتی جب متاثرہ شخص کو حتمی طور پر معلوم ہو کہ جس کتے نے اسے کاٹا ہے ، اس کی ویکسینیشن ہوچکی ہے اور بالخصوص اسے اینٹی ریبیز ویکسین لگائی گئی ہے ، پاکستان جیسے ممالک میں جہاں آوارہ کتوں کی بہتات ہے وہاں مریض کو اینٹی ریبیز ویکسین نہ لگانے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔

    ویکسین کا پہلا شاٹ جانور کے کاٹنے کے بعد جس قدر جلد ممکن ہو مریض کو لگ جانا چاہیے ، جتنی زیادہ تاخیر کی جائے گی اتنا زیادہ مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ویکسین کی مقدار اور شاٹس کی تعداد کا تعین ڈاکٹر مریض کی جنس ، عمر اوراس کے جسمانی خدو خال جیسا کہ قد اور وزن کو دیکھتے ہوئے طے کرتا ہے ، لہذا ویکسین کسی مستند ادارے سے ہی لگوانی چاہیے۔


    یاد رہے کہ ریبیز کی ویکسین مرض کی علامت ظاہر ہونے سے پہلے لگوانا ہوتی ہیں ، یہ وائرس دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے ، ایک بار اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے تو پھر مریض کی جان بچانا انتہائی مشکل ہوتا ہے ، دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جنہوں نے علامات ظاہر ہونے کے بعد ویکسین لی اور وہ بچ گئے۔

    اگر مریض کو گزشتہ پانچ سال کے عرصے میں ٹیٹنس کا انجکشن نہیں لگا ہے اورزخم کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں انفیکشن کا امکان ہوسکتا ہے تو ضروری ہے کہ اینٹی ریبیز ویکسین کے ساتھ مریض کو ٹیٹنس کا انجکشن بھی دیا جائے۔

    اس معاملے میں سب سے زیادہ ضرورت آگاہی کی ہے ، اکثر لوگ غربت یا اپنی ذمہ داریوں میں مشغول ہوکر متاثرہ شخص کو ویکسین لگوانے میں تاخیر کردیتے ہیں، ایک شخص جس کی جان بچائی جاسکتی ہے وہ محض اس لیے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے کہ اس کے لواحقین نے معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

    دوسری جانب سرکاری اسپتال کے ڈاکٹروں کو بھی چاہیے کہ جب کوئی سگ گزیدگی سے متاثرہ مریض ان کے پاس آئے تو بے شک اس کا زخم چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، کتے کے کاٹنے کے بعد علاج کا جو مروجہ پراسس ہے ا سے پورا کریں اور مریض کے لواحقین کو مکمل آگاہی فراہم کریں کہ یہ معاملہ کس قدر سنجیدہ ہے اور انہیں اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرنا ہے۔

    یاد رکھیں! اینٹی ریبیز کی بروقت ویکسین ایک قیمتی انسانی جان بچا سکتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر شخص اپنے حصے کی ذمہ داری بروقت ادا کرے۔