Tag: کرار حسین

  • پروفیسر کرار حسین ایک قابلِ فخر علمی شخصیت

    بلوچستان میں قوم پرستی کے عروج کا زمانہ تھا کہ بلوچستان کی قیادت نے کراچی کے اردو بولنے والے ایک استاد کو بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنانے کا فیصلہ کیا۔

    پھر جب وہ استاد کوئٹہ سے کراچی واپس روانہ ہوئے، تو انھیں رخصت کرنے سارا شہر امنڈ آیا۔ یہ سراپا محبت استاد پروفیسر کرار حسین تھے، جو آٹھ ستمبر، 1911ء کو کوٹہ (راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت میرٹھ میں ہوئی۔ آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو)، ایم اے (انگریزی) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ پہلے انڈین نیشنل کانگریس اور پھر خاکسار تحریک سے وابستہ ہوئے، اس کے بعد کسی اور جماعت کی طرف نہیں دیکھا، میرٹھ سے خاکسار تحریک کا ترجمان اخبار ”الامین“ بھی جاری کیا تھا۔

    تعلیم کی تکمیل کے بعد انھوں نے تدریس کو اپنا شغل بنایا۔ میرٹھ کالج میں انگریزی کے لیکچرر ہوئے۔ جنوری 1948ء میں گاندھی جی کے قتل کے بعد مسلمانوں کے بارے میں کچھ ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں کہ ہندوستان بھر کے نمایاں اور مشہور مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ کرار صاحب بھی چند دن جیل میں رہے۔ اس واقعے کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں وہ اسلامیہ کالج کراچی کے بعد خیر پور، میر پور خاص، کوئٹہ کے گورنمنٹ کالجوں کے پرنسپل رہے۔ سرکاری ملازمت سے سبک دوش ہونے بعد کچھ عرصہ جامعہ ملیہ، کراچی میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ بعد میں کراچی میں اسلامک ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر رہے۔

    کرار حسین اسلام میں ترقی پسند نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ ان کی تصانیف میں قرآن اور زندگی، مطالعۂ قرآن، اور غالب: سب اچھا کہیں جسے، سوالات و خیالات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تقاریر کے کئی مجموعے کتابی صورت میں شایع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر کرار حسین نے سات نومبر، 1999ء کو کراچی میں وفات پائی اور سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

    (مرسلہ: اسلم ملک)

  • عقل و خرد کے موتی رولنے والے پروفیسر کرّار حسین کا تذکرہ

    عقل و خرد کے موتی رولنے والے پروفیسر کرّار حسین کا تذکرہ

    پروفیسر کرّار حسین علم و آگاہی کا دبستان تھے۔ پاکستان میں دہائیوں تک عقل و خرد کے موتی رولنے والی اس بے مثل شخصیت سے جہانِ فکر و فن کی کئی ممتاز اور نمایاں شخصیات نے تعلیم اور راہ نمائی حاصل کی۔ پروفیسر کرّار حسین نے7 نومبر 1999ء کو اس دنیا سے کوچ کیا۔

    1911 ء میں انھون نے راجستھان کے ضلع کوٹہ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ پرائمری تعلیم ایک انگریزی اسکول سے حاصل کی اور گھر پر قرآن پڑھا۔ کرّار حسین نے 1925ء میں میٹرک اور 1927ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ وہ ذہین طالبِ علم اور شروع ہی سے غور و فکر کے عادی رہے۔ کتب بینی کا شوق تھا اور مطالعہ نے انھیں‌ سیاست کی طرف بھی مائل کیا۔ یہی وجہ ہے تھی کہ وہ زمانہ طالبِ علمی میں طلبہ تنظیم اور سیاست میں نہایت فعال رہے۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصّہ لیتے تھے۔ تقریری مقابلوں، ذہنی آزمائش اور مقابلۂ مضمون نویسی میں وہ اپنا نام ضرور لکھواتے تھے۔ انگریزی، اُردو ادب، تاریخ، فلسفہ، مذہب اور معاشرتی مسائل ان کے پسندیدہ مضامین اور موضوعات تھے، جب کہ فارسی ادبیات میں ازحد دل چسپی تھی۔

    آگرہ کے ’’سینٹ جونز کالج‘‘ میں داخلہ لینے کے بعد ہاسٹل میں رہے جہاں کرّار حُسین کا اکثر وقت تعلیمی مصروفیات کے ساتھ مطالعہ اور سماجی مسائل میں‌ غؤر و فکر کرتے ہوئے گزرنے لگا۔ اسی زمانے میں سیاسی محاذ پر فرنگی راج کے خلاف تحریکیں بھی زور پکڑ رہی تھیں۔ وہ ’خاکسار تحریک‘‘ سے وابستہ ہوگئے، لیکن یہ وابستگی طویل عرصے تک برقرا نہ رہ سکی۔

    1932ء میں کرّار حسین نے میرٹھ کالج سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا اور اگلے سال اسی کالج میں انگریزی ادب کے استاد بن کر تدریسی سفر کا‌ آغاز کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ متعدد کالجوں اور جامعات سے وابستہ ہوئے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ تدریس ان کی شخصیت کا ایک لازمی حصّہ تھا۔

    خاکسار تحریک سے علیحدگی کے بعد انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت بدلنے اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے انگریزی اور اردو زبان کے دو پرچوں کا اجرا کیا۔ وہ اپنے سیاسی، سماجی اور فکری شعور و تجربات کی روشنی میں ان پرچوں میں‌ مضامین لکھتے رہے اور وہ وقت آیا جب سرکار نے ان پرچوں کے اجرا کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کیے۔ یہاں تک کہ دونوں پرچے مالی مسائل کا شکار ہوکر بند ہو گئے۔ ساتھ ہی کرّار حُسین کو ناپسندیدہ قرار دے کر داخلِ زنداں کر دیا گیا۔ رہائی پانے کے بعد وہ 1948ء میں پاکستان آگئے اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔

    یہاں اسلامیہ کالج کراچی میں انگریزی کے پروفیسر ہوگئے اور پھر اِسی کالج میں وائس پرنسپل کے طور پر تعینات رہے۔ 1955-67ء تک میرپور خاص، خیر پور اور کوئٹہ میں مختلف کالجوں میں پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بعد میں‌ کراچی واپس آئے اور جامعہ مِلّیہ کالج میں انگریزی کے پروفیسر کے طور پر تدریس کا آغاز کیا۔ 1977ء سے 1999ء تک کراچی میں ’’اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے ڈائریکٹر رہے۔

    پروفیسر کرّار حُسین رکھ رکھاؤ میں شائستگی اور اپنی انکساری و سادہ دلی کے ساتھ ایک نہایت شفیق استاد کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ان کی شخصیت میں جہان و معانی کی دنیا آباد تھی۔ ان کی تصانیف میں قرآن اور زندگی اور غالب: سب اچھا کہیں جسے شامل ہیں۔ ان کی تقاریر کے کئی مجموعے بھی کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔