Tag: کرار نوری

  • کرار نوری: اردو ادب کی ایک فراموش کردہ شخصیت

    کرار نوری: اردو ادب کی ایک فراموش کردہ شخصیت

    کرار نوری اردو ادب کا ایک ایسا فراموش کردہ نام ہے جسے کبھی بطور شاعر، ادیب اور مترجم پہچانا جاتا تھا۔ رفتارِ زمانہ اور گردشِ دوراں میں جہاں کئی اور قابل و باصلاحیت شخصیات کے نام ذہن سے محو ہو گئے، انہی میں ایک کرار نوری بھی ہیں۔ اسی لیے نئی نسل کے قلم کاروں اور قارئین میں‌ سے شاذ ہی ان سے واقف ہوں گے۔ شاعری کرار نوری کا مستند حوالہ اور ریڈیو پاکستان ان کی ایک مستحکم پہچان ہے۔

    کرار نوری کا اصل نام سیّد کرار میرزا تھا۔ وہ اپنے وقت کے عظیم شاعر مرزا غالب کے ایک شاگرد آگاہ دہلوی کے پَڑ پوتے تھے۔ کرار نوری کا وطن جے پور، دہلی تھا۔ وہ 30 جون 1916ء کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کرار نوری ہجرت کرکے پنجاب کے شہر راولپنڈی چلے آئے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد کراچی آکر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو پاکستان میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کرار نوری نے ادبی سفر بھی جاری رکھا۔ وہ متعدد اخبار و جرائد سے بھی منسلک رہے۔

    کرار نوری نے شہرِ قائد کے علمی و ادبی حلقوں‌ میں اپنی شاعری کے ذریعے پہچان بنائی تھی۔ ان کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ کرار نوری کا نعتیہ کلام ’’میزانِ حق‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آیا۔ 1990ء میں آج ہی کے دن وفات پانے والے کرار نوری کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے
    لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے

    ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا
    کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے

    کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے
    محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے

    حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح
    تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے

    نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں
    ہم دامنِ حیات پکڑ کر مچل گئے

  • کرار نوری:‌ ایک شاعر، صحافی اور مترجم

    کرار نوری:‌ ایک شاعر، صحافی اور مترجم

    کرار نوری کے نام اور علم و ادب کی دنیا میں ان کے مقام سے نئی نسل کی اکثریت ناواقف ہوگی، لیکن ان کا مستند حوالہ شاعری ہے جب کہ ریڈیو پاکستان ان کی پہچان ہے۔ ایک ادیب، مترجم اور صحافی کی حیثیت سے بھی کرار نوری نے اپنی شناخت بنائی اور 1990ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔

    کرار نوری کا اصل نام سیّد کرار میرزا تھا۔ وہ اپنے وقت کے عظیم شاعر مرزا غالب کے ایک شاگرد آگاہ دہلوی کے پَر پوتے تھے۔ ان کا وطن جے پور، دہلی تھا۔ کرار نوری 30 جون 1916ء کو پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے پنجاب کے شہر راولپنڈی چلے آئے اور وہاں‌ کچھ عرصہ قیام کے بعد کراچی کا رخ کیا اور یہاں‌ آکر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو پاکستان میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کرار نوری نے ادبی سفر بھی جاری رکھا۔ وہ متعدد اخبار و جرائد سے بھی منسلک رہے۔

    کرار نوری نے شہرِ قائد کے علمی و ادبی حلقوں‌ میں اپنی شاعری کے ذریعے پہچان بنائی تھی۔ ان کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ کرار نوری کا نعتیہ کلام بھی ’’میزانِ حق‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آیا۔ انھیں کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

    کرار نوری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے
    لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے

    ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا
    کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے

    کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے
    محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے

    حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح
    تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے

    نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں
    ہم دامنِ حیات پکڑ کر مچل گئے

  • ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی کرّار نوری کی برسی

    ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی کرّار نوری کی برسی

    آج اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی کرّار نوری کا یومِ وفات ہے وہ 1990ء میں آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔

    کرّار نوری کا اصل نام سیّد کرار میرزا تھا۔ وہ اپنے وقت کے عظیم شاعر مرزا غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پَر پوتے تھے۔ جے پور، دہلی کرار نوری کا وطن تھا جہاں انھوں نے 30 جون 1916ء کو آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے راولپنڈی میں‌ سکونت اختیار کرلی۔ بعد ازاں کراچی چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔

    کرّار نوری کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ انھوں نے نعتیہ شاعری بھی کی اور ’’میزانِ حق‘‘ کے نام سے نعتیہ کلام ان کی وفات کے بعد سامنے آیا۔

    کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ کرار نوری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے
    لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے

    ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا
    کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے

    کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے
    محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے

    حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح
    تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے

    نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں
    ہم دامنِ حیات پکڑ کر مچل گئے