Tag: کراچی سینٹرل جیل

  • کراچی سینٹرل جیل کے پھانسی گھاٹ کی دہشت آج بھی برقرار، رونگٹے کھڑے کر دینے والی ویڈیو رپورٹ

    کراچی سینٹرل جیل کے پھانسی گھاٹ کی دہشت آج بھی برقرار، رونگٹے کھڑے کر دینے والی ویڈیو رپورٹ

    کراچی سینٹرل جیل میں پھانسی گھاٹ کی دہشت آج بھی اسی طرح برقرار ہے، جیسے آج سے 126 سال قبل انگریز دور میں سینٹرل جیل کو تعمیر کیا گیا تھا اور اس پھانسی گھاٹ کی ایک دہشت قائم ہوئی تھی۔

    پھانسی کی سزا پانے والے قیدیوں کو پھانسی سے قبل کیا کیا جاتا ہے اور رسی کو مکھن میں کیوں بھگویا جاتا ہے؟

    126 سال پرانی انگریز دور کی بنی کراچی سینٹرل جیل سے سیاسی اور دہشت گرد تنظیموں کا راج کیسے ختم ہوا؟ دو دوستوں کو پھانسی سے ایک دن پہلے کس نے معاف کیا؟

    اس رپورٹ میں پھانسی گھاٹ کے رونگٹے کھڑے کر دینے والے حقائق پیش کیے جا رہے ہیں۔

  • کراچی: پھانسی سے چند گھنٹے پہلے دو دوستوں کی معافی کیسے ہوئی؟

    کراچی: پھانسی سے چند گھنٹے پہلے دو دوستوں کی معافی کیسے ہوئی؟

    کراچی کے سینٹرل جیل میں دو ایسے دوست قیدی بھی موجود ہیں جنھیں پھانسی سے محض 24 گھنٹے قبل معافی دے دی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی سینٹرل جیل کو 1899 میں تعمیر کیا گیا تھا، جس وقت اس جیل کو تعمیر کیا گیا یہاں صرف 500 قیدیوں کی گنجائش تھی، 24 ایکٹر پر مشتمل اس جیل میں 2400 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ اس وقت 7 ہزار قیدی مختلف جرائم میں سزائیں کاٹ رہے ہیں۔

    کراچی سینٹرل جیل میں سزائے موت کے دو ایسے قیدی بھی موجود ہیں جو آپس میں دوست ہیں اور انھیں قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا جانا تھا مگر ورثا نے انھیں ایک دن قبل معاف کردیا۔

    سزائے موت کے ان قیدیوں میں سے ایک نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 2014 میں ہمارا بلیک وارنٹ جاری ہوا تھا اور ہمیں لٹکانا تھا، لٹکانے سے ایک دن پہلے ہی اسٹے ہوگیا کیوں کہ ہمیں ورثا نے معاف کردیا تھا، صدر سے ہماری اپیل ہے ہم پر رحم کیا جائے، ہم سے غلطی ہوگئی تھی۔

    قیدی نے کہا کہ ہم اس وقت بچے تھے، جب یہ واقعہ ہوا تو میری عمر ساڑھے 17 سال تھی اور یہ ساتھی قیدی بھی 18 سال کا تھا، ہماری غلطی کو سمجھتے ہوئے جب ہمیں مدعیوں نے معاف کردیا ہے تو ریاست ہمیں کس بات کی سزا دے رہی ہے، 19 سال سے ہم یہاں موجود ہیں۔

    جیل حکام نے بتایا کہ 2017 تک جیل کے حالات کافی برے تھے، یہاں لڑائی جھگڑے اور منشیات عام تھی جبکہ یہاں پولیس نفری کی بھی کمی تھی، اس دوران کراچی کے حالات بھی خراب تھے اور ہمارے کافی جوان شہید ہوئے۔

    2017 میں دو ہائی پروفائل قیدی بھاگ گئے تھے اس کے بعد مجھے یہاں تعینات کیا گیا تھا، آج جیل میں کسی بھی بعدمعاش اور دہشتگرد کی نہیں چلتی، یہاں
    سے قیدی انٹر اور گریجویشن بھی کررہے ہیں اور سالانہ کئی قیدی امتحانات دیتے ہیں۔

  • کراچی سینٹرل جیل میں قید دہشت گرد کی مختلف نمبروں سے سرکاری افسران کو دھمکیوں کا انکشاف

    کراچی سینٹرل جیل میں قید دہشت گرد کی مختلف نمبروں سے سرکاری افسران کو دھمکیوں کا انکشاف

    کراچی : سینٹرل جیل میں قید دہشتگرد کی سرکاری افسران کو دھمکیوں کا انکشاف ہوا، ملزم مختلف نمبروں سے فائر بریگیڈ ملازمین کو دھمکیاں دینے لگا۔

    تفصیلات کے مطابق کورنگی فائراسٹیشن حملے کے گرفتار ملزم کی جیل سے سرکاری افسران کو دھمکیاں کو انکشاف سامنے‌ آیا۔

    کورنگی فائراسٹیشن حملے کا ملزم مختلف نمبروں سے فائر بریگیڈ ملازمین کو دھمکیاں دے رہا ہے، ملزم بلال ظفر پر فائر بریگیڈ کے 6 افسران کے قتل کا الزام ہے۔

    محکمہ فائر بریگیڈ کے افسران نے درخواستیں ارسال کردیں ، درخواستیں رینجرز،پولیس اورسندھ ہائیکورٹ کوارسال کی گئیں۔

    جس میں کہا گیا ہے کہ ملزم فائر اسٹیشنز کے نمبروں پر کال کرکے دھمکیاں دے رہا ہے، دھمکیوں کے باعث فائر مین اوراسٹیشن انچارجز خوف میں مبتلا ہے۔

  • سینٹرل جیل میں شاہ رخ جتوئی کو بی کلاس کی سہولت میسر

    سینٹرل جیل میں شاہ رخ جتوئی کو بی کلاس کی سہولت میسر

    کراچی: قتل کے مجرم اور پھانسی کے منتظر قیدی شاہ رخ جتوئی کو سینٹرل جیل کی سب سے ہائی کیٹیگری’’ بی کلاس‘‘ کی سہولت دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس کی شاہ رخ کو ڈیتھ سیل بھیجنے کی ہدایت کے بر خلاف سینٹرل جیل میں بھی بی کلاس کی سہولت دے دی گئی، ملیر جیل میں بھی شاہ رخ کو ’’ بی کلاس‘‘ سہولتیں حاصل تھیں۔

    [bs-quote quote=”جیل حکام نے مبینہ طور پر بھاری نذرانہ لے کر شاہ رخ کو سہولتیں دیں: ذرائع” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد سے اب تک شاہ رخ جتوئی کو’’کامن کلاس‘‘ میں نہیں رکھا گیا، شاہ رخ جتوئی کو قانون کے مطابق ’’بی کلاس‘‘ دی گئی ہے، 2009 میں موت کے قیدی کی سزا سے متعلق تبدیلی کا آرڈر پاس ہوا تھا۔

    ذرائع نے بتایا کہ آرڈر کے مطابق جب تک ملزم اپیل میں ہے اسے کال کوٹری منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع نے یہ بھی کہا کہ بی کلاس گریجویٹ، سیاست دانوں اور بزنس کلاس افراد کو دی جاتی ہے۔

    خیال رہے کہ 27 اکتوبر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لانڈھی جیل کا دورہ کیا جہاں شاہ رخ جتوئی کو سی کلاس میں دیکھ کر وہ برہم ہوئے۔ انھوں نے ہدایت کی کہ شاہ رخ جتوئی کو فوری ڈیتھ سیل منتقل کیا جائے۔


    یہ بھی پڑھیں:  شاہ رخ جتوئی کو ڈیتھ سیل منتقل کیا جائے: چیف جسٹس برہم


    جیل ذرائع کی جانب سے قانون کی تبدیلی کا خط اے آر وائی نیوز نے حاصل کر لیا، جیل حکام نے مبینہ طور پر بھاری نذرانہ لے کر شاہ رخ کو سہولتیں دیں۔

    یاد رہے کہ 25 دسمبر 2012 کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ایک جھگڑے میں شاہ رخ جتوئی نے سندھ پولیس کے ایس پی اورنگ زیب کے بیٹے شاہ زیب خان کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

  • جیل میں قید خواتین اپنا جرم بے گناہی ثابت ہونے کی منتظر

    جیل میں قید خواتین اپنا جرم بے گناہی ثابت ہونے کی منتظر

     35 سالہ شاہدہ گزشتہ 10 سال سے کراچی سینٹرل جیل کی مکین ہے۔ اسے اغوا کے جرم میں 13 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ جب اسے سزا سنائی گئی تو اسے جیل میں اتنے سال ہوچکے تھے کہ وہ بھول گئی تھی کہ کھلی فضا میں سانس لینا کیسا ہوتا ہے۔

    شاہدہ کی سزا کے مزید 3 سال باقی ہیں۔ جیل سے باہر اس کے 3 بچے ہیں جو اپنی ماں کی آزادی کی راہ تک رہے ہیں۔

    اپنے بچوں کے ذکر پر شاہدہ کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ’وہ رشتے داروں کے گھر رہتے ہیں، اب تو اسکول بھی جاتے ہیں، ان کی فیس میں ہی دیتی ہوں، جی چاہتا ہے کہ جلدی سے قید کا عرصہ ختم ہو اور میں اپنے بچوں کے ساتھ جا کر رہوں‘۔

    ایک شاہدہ ہی نہیں، کراچی سینٹرل جیل میں اس جیسی بے شمار خواتین ہیں جو اپنی رہائی کی منتظر ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ شاہدہ کو معلوم ہے اسے گھر کب واپس جانا ہے، زیادہ تر خواتین نہیں جانتیں کہ ان کے کردہ یا ناکردہ جرم کی سزا کب ختم ہوگی اور وہ کب گھروں کو لوٹ سکیں گی۔

    یہ وہ خواتین ہیں جو انڈر ٹرائل ہیں یعنی ان کے مقدمات زیر تفتیش ہیں۔ کراچی سینٹرل جیل میں اس وقت 125 خواتین موجود ہیں جن میں سے صرف 23 سزا یافتہ ہیں، بقیہ سب اپنے مقدموں کے فیصلوں کی منتظر ہیں۔

    زرینہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ زرینہ گزشتہ 5 سال سے جیل میں ہے اور تاحال اسے علم نہیں کہ اس پر جو الزام لگایا گیا ہے آیا وہ جھوٹا ثابت ہوگا اور وہ بری ہوسکے گی، یا الزام ثابت ہونے کے بعد اسے مزید ایک طویل عرصہ جیل میں ہی گزارنا ہوگا۔

    زرینہ کے اوپر قتل کا الزام ہے، لیکن بقول اس کے وہ قتل اس نے نہیں کیا۔ ’قتل میرے بھائی نے کیا، سب نے اس کو بچانے کے لیے مجھے پولیس کے حوالے کردیا۔ شاید ان کے لیے اس کی زندگی اہم تھی میری نہیں‘۔

    ہر دوسرے تیسرے ماہ زرینہ اپنے کیس کی سماعت کے لیے عدالت جاتی ہے، اور ہر بار ’سماعت ملتوی کی جاتی ہے‘ کے اذیت ناک الفاظ سن کر واپس جیل آجاتی ہے۔ ’ معلوم نہیں میں دوبارہ کھلی فضا میں سانس لے بھی سکوں گی یا نہیں‘۔

    کچھ ایسا ہی احوال بچہ جیل کا ہے۔ بچہ جیل میں بھی صرف چند سزا یافتہ ہیں جبکہ بقیہ سب انڈر ٹرائل ہیں۔

    16 سال سے کم عمر تک کے یہاں آنے والے بچے زیادہ تر منشیات فروشی کے جرم میں یہاں موجود ہیں۔ ایک آدھ ایسا بھی ہے جس نے ریپ کی ناکام کوشش کی۔

    ان بچوں کو وکیل کی خدمات زیادہ تر مختلف این جی اوز کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے۔ کچھ بچے ایسے بھی ہیں جن کے پاس جرمانے کی رقم دینے کے لیے پیسے نہیں چنانچہ انہیں مزید کچھ عرصہ جیل میں گزارنا پڑتا ہے۔

    ایسے موقع پر بھی مختلف این جی اوز ان کے جرمانے کی رقم ادا کردیتی ہیں۔

    یہ صرف کراچی سینٹرل جیل کا احوال نہیں۔ ملک کے طول و عرض میں ایسی بے شمار جیلیں ہیں جن میں لاتعداد قیدی موجود ہیں جو اپنے مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ عدالتی نظام اور پولیس کی تفتیش میں سقم ان کے معمولی سے جرم کی قید کو اس قدر طویل بنا دیتے ہیں کہ جیل سے نکل بھی آئیں تو سوچتے ہیں ’جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں‘۔

    لیکن اس تاخیر کی وجہ کیا ہے؟

    لاہور کے ایک وکیل صفدر شاہین نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت پولیس کو 14 دنوں کے اندر سیکشن 173 کی رپورٹ یعنی چالان پیش کرنا لازمی ہے۔ اب یہاں پولیس کی کارکردگی کی بات آجاتی ہے اور یہیں سے تاخیر کا آغاز ہوتا ہے، یہ چالان بعض اوقات سالوں پر محیط ہوجاتا ہے اور پولیس مہینوں سالوں تک یہ چالان عدالت میں پیش نہیں کرتی۔

    اب اس چالان کو پیش نہ کرنے کی بھی بے شمار وجوہات ہیں۔ جہاں ذرا سا ملزم یا اس کے اہلخانہ نے پولیس کے مطالبات کو ماننے سے انکار کیا، یا ان سے تلخ کلامی کی، یہیں سے پولیس کی ان سے مخاصمت شروع ہوجاتی ہے۔

    صفدر شاہین کا کہنا تھا کہ ایسے موقع پر کسی بھی کیس میں اگر کوئی اکیلی عورت پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو سب سے پہلے پولیس کا جو مطالبہ ہوتا ہے وہ سب ہی جانتے ہیں۔

    یہ صورتحال دونوں صورتوں میں لاگو ہوتی ہے۔ پہلے پولیس مدعی یعنی شکایت کرنے والے سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ناکامی کی صورت میں ملزم کو پکڑنے میں تساہل دکھاتی ہے۔

    اسی طرح اگر مدعی صاحب حیثیت ہو تو بے شک اس نے کسی پر جھوٹا الزام لگایا ہو، پولیس ملزم سمیت اس کے پورے گھر والوں کو حوالات میں لا پٹختی ہے ورنہ انہیں اس اس طرح سے تنگ کیا جاتا ہے کہ ملزم کے اہلخانہ مرنے کا سوچنے لگتے ہیں۔

    اس کے ساتھ ساتھ ملزم پر اس قدر تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس ذہنی اذیت سے باہر نہیں نکل پاتا۔

    دوسری وجہ گواہان کا عدالت میں پیش نہ ہونا ہے۔ ان کی عدالت میں نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ تو ان کی سیکیورٹی نہ ہونا ہے۔ اگر فریقین میں سے ایک شخص طاقتور ہو تو اس کے خلاف گواہی دینے والے کی جان اور عزت ویسے ہی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اسے دھمکیوں کا سامنا ہوتا ہے جن پر بعض اوقات عمل بھی ہوجاتا ہے۔

    صفدر شاہین نے بتایا کہ ہائی پروفائل کیسز میں تو یہ باقاعدہ چین چلتی ہے، ایک کے بعد ایک گواہ اپنی جان، مال یا عزت سے ہاتھ دھوتا رہتا ہے نتیجتاً بقیہ گواہ خود ہی منحرف ہوجاتے ہیں یا عدالت میں پیش ہی نہیں ہوتے۔

    ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پولیس اتنے عرصے بعد چالان پیش کرتی ہے، اور اتنے عرصے بعد گواہ کو طلبی کا سمن جاری ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے یہ تو 6 مہینے یا سال پہلے کا واقعہ ہے مجھے تو اب یاد بھی نہیں کہ میں نے کیا دیکھا تھا اور کیا نہیں۔

    بعض کیسز میں پولیس کو گواہی دینی ہو تو وہ کبھی بھی تیاری کر کے نہیں آتے جن کی وجہ سے یا تو ملزم کو شک کا فائدہ مل جاتا ہے یا کوئی بے گناہ جیل میں سڑتا رہتا ہے۔

    تفتیشی افسر کی غفلت

    کیسوں میں تاخیر، اصل ملزمان کی آزادی اور بے گناہوں کے جیل میں ہونے کی ایک وجہ پولیس کی تفتیش میں سستی اور غفلت بھی ہے۔

    صفدر شاہین نے اپنے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سنہ 2016 میں کالعدم تنظیم کے کچھ دہشت گرد گرفتار کیے گئے، لیکن اس بات کے شواہد اور ثبوت نہیں مل سکے کہ وہ واقعی اس تنظیم سے منسلک ہیں چنانچہ انہیں بری کردیا گیا۔

    اس میں تفتیشی افسر کی غلطی تھی کہ اس نے ثبوت جمع کرنے میں تساہل سے کام لیا یا واقعی اسے ثبوت نہ مل سکے۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ تفتیشی افسر نے درست طریقے سے تفتیش نہیں کی اور اس پر تفتیشی افسر کو معطل بھی کیا گیا۔

    صفدر کا کہنا تھا کہ ممکن ہو کہ گرفتار نوجوان واقعی تنظیم کے کارندے ہوں لیکن ان کے تنظیم سے تعلق کے ثبوت نہیں ملے، امکان یہی تھا کہ وہ عام طالب علم ہیں ایسی صورت میں سزا ہوجانے کے بعد ان کا پورا کیریئر برباد ہوسکتا تھا۔

    کیا ایسی صورت میں عدالت اس بات کی پابند نہیں کہ وہ پولیس کو دوبارہ تفتیش کا حکم دے؟ اس بارے میں صفدر شاہین نے کہا کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے، کوئی بہت ہی بڑا اور اثرانداز پہلو تفتیش میں نظر انداز کردیا گیا ہو جس کی وجہ سے ملزم کی گرفتاری یقینی ہو تو عدالت دوبارہ اس کی تفتیش کا حکم دیتی ہے ورنہ عموماً عدالت کے فیصلے حتمی چالان پر ہی منحصر ہوتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض سیاستدان کھلے عام کرپشن کے باوجود عدالت سے اسی لیے بری ہوجاتے ہیں کہ ان کے خلاف ثبوتوں کی کمی نہیں ہوتی، لیکن تحقیقاتی ادارے یا پولیس کی جانب سے ان ثبوتوں کو اکھٹا کرنے اور عدالت میں پیش کرنے میں غفلت برتی جاتی ہے۔

    اس کی ایک بدترین مثال کراچی کی اسما نواب کا کیس ہے۔ اسما نواب نے اپنے گھر والوں کے قتل کے جرم میں 20 سال جیل میں گزارے لیکن المیہ اس بات کا ہے کہ تاحال یہ تعین نہیں ہوسکا کہ آیا وہ واقعی مجرم تھی یا نہیں۔

    ٹرائل کورٹ نے اسما کو سزائے موت سنائی، تاہم اپیل دائر کی گئی کہ جن ثبوتوں کی بنا پر اسما کو سزا دی گئی وہ غیر مؤثر تھے۔ ہائی کورٹ میں کیس چلا اور عدالت نے قرار دیا کہ واقعی وہ ثبوت اسما کو سزا دلوانے کے لیے ناکافی تھے جس کے بعد عدالت نے اسے بری کردیا۔

    اس سارے عمل میں 20 سال کا عرصہ لگ گیا، یعنی 20 سال میں بھی ہماری پولیس ثابت نہیں کرسکی کہ آیا وہ واقعی مجرم تھی یا نہیں۔

    انصار برنی ٹرسٹ سے ایک خاتون وکیل شگفتہ خان نے بتایا کہ یہ ایک لمبی چین ہے جو پولیس سے شروع ہو کر، وکیلوں، بار اور عدالتوں تک جاتی ہیں۔ ہمارا نظام قانون خامیوں اور سقم سے بھرا پڑا ہے۔

    ان کے مطابق کیس کو طویل کرنے کا جو سلسلہ پولیس سے شروع ہوتا ہے تو وہ وکلا اور عدالتوں تک جاتا ہے۔ وکیل کی چھٹیاں، خود جج کی چھٹیاں، یوں تاریخ پر تاریخ ملتی رہتی ہے اور بے گناہوں کی زندگی جیل میں گزرتی رہتی ہے۔

    ایک اور وکیل امجد علی نے بتایا کہ لاہور میں ایک خاتون کو شوہر کے قتل کے جرم میں گرفتار کیا گیا، بعد ازاں اسے عمر قید کی سزا ہوگئی۔ خاتون نے مزید کئی شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ اپنی اپیل ہائیکورٹ میں بھجوائی، لیکن وہ اپیل جیل میں ہی پڑی رہی اور ہائیکورٹ تک پہنچی ہی نہیں۔

    وہ اپیل 18 سال تک جیل میں پڑی رہی، بعد ازاں کسی طرح وہ اپیل مرحومہ عاصمہ جہانگیر تک پہنچی تو ان کی کوششوں سے ہائی کورٹ نے اپیل سنی، تب معلوم ہوا کہ خاتون پر جھوٹا الزام لگایا گیا، یوں 18 سال بعد اسے جرم بے گناہی کی سزا کاٹنے کے بعد رہا کردیا گیا۔

    اسی طرح ایک شخص کو سزائے موت دینے کے بعد جب اس کی اپیل سنی گئی تو اسے بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کردیا گیا، ’لیکن وہ پہلے ہی اپنے گناہ اور بے گناہی سے بے نیاز ہوچکا تھا‘۔

    ان کے مطابق بعض کیسز کے فیصلے بہت جلدی میں بھی کردیے جاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کیسز میڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ججز اپنی جان چھڑانے کے لیے، قطع نظر تفتیش اور جرم ثابت ہونے کے، وہ ایسا فیصلہ کردیتے ہیں جس کی میڈیا اور عوام کو توقع ہوتی ہے۔ ’شاید انہیں عام لوگوں کے ردعمل کا خوف ہوتا ہے‘۔

    امجد علی کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصہ چاہیئے جس میں پہلے تو ہمارے قوانین میں سے خامیاں دور کی جائیں تاکہ بے گناہ، بے گناہ ثابت ہوں اور اصل مجرم جیل میں جائیں۔ ’بعد ازاں تھانوں کا کلچر، پولیس میں اصلاحات، عدالتوں کا نظام ۔۔ گو کہ سفر لمبا ہے لیکن امید قائم رہنی چاہیئے‘۔

    کراچی سینٹرل جیل ۔ قیدیوں کا تربیتی ادارہ

    اگر بات کی جائے کراچی سینٹرل جیل کی، تو اس کا کم عمر قیدیوں (بچہ جیل) اور زنانہ حصہ ایک قید خانہ کم اور تربیت گاہ زیادہ لگتا ہے۔

    دوسری جیلوں کی نسبت یہاں کے بیرکس کھلے اور کشادہ ہیں۔ ایک بیرک میں 20 قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ بیرکس اتنی بڑی ہیں کہ سونے کے لیے سارے قیدیوں کے پلنگ بچھا دیے جاتے ہیں، تب بھی بیرک کا ایک حصہ خالی رہتا ہے جہاں قیدی بیٹھ کر کھانا پینا اور گپ شپ کرتے ہیں۔

    جیل میں دیا جانے والا کھانا بھی دیگر جیلوں کے برعکس صاف ستھرا اور غذائیت بخش ہے۔ یہاں قیدیوں کو تینوں وقت دالیں، سبزیاں، گوشت اور چاول میسر ہیں جس کی وجہ سے قیدیوں کو کھانے پینے میں کوئی شکایت نہیں۔

    بچوں کے لیے یہاں پر اسکول، مدرسہ، کمپیوٹر ٹریننگ سینٹر، ہیئر سیلون، جم اور کاریگری کا مرکز موجود ہے۔ اس سب کا مقصد بچوں کو تعلیم سے روشناس کروانا اور کاریگری کا کام سکھانا ہے تاکہ جب یہ جیل سے رہا ہوں تو جیل میں گزارا گیا وقت ان کے کسی کام آسکے۔

    خواتین کے لیے بھی یہاں پر سیلون، کمپیوٹر ٹریننگ روم اور سلائی کڑھائی کا مرکز موجود ہے جبکہ ان کے ساتھ موجود بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا اسکول بھی قائم ہے۔

    سلائی کڑھائی کرنے والی خواتین جو کپڑے بناتی ہیں انہیں باہر لے جا کر فروخت کیا جاتا ہے جس کی آمدنی ان خواتین کو دی جاتی ہے۔ اسی آمدنی سے 35 سالہ قیدی شاہدہ اپنے بچوں کے اسکول کی فیسیں ادا کر پاتی ہے۔

    سلائی کڑھائی کی استانی سے گفتگو

    سلائی کڑھائی کے مرکز کی استانی ایک معمر خاتون نسیم احمد ہیں۔ وہ سنہ 1994 سے اس مرکز سے وابستہ ہیں۔ انہیں قانونی معاونت کے لیے کام کرنے والے ادارے لیگل ایڈ اور اپوا (آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن) کی جانب سے یہاں مقرر کیا گیا ہے۔

    نسیم احمد بتاتی ہیں کہ جیل میں انہیں بالکل گھر جیسا ماحول لگتا ہے، کوئی بھی خاتون قیدی کہیں سے بھی آئی ہو وہ کچھ عرصہ بعد بالکل گھل مل جاتی ہے۔ ’مجھے وہ اپنے بڑے کی حیثیت دیتی ہیں، مجھ سے اپنی باتیں بھی کہتی ہیں، اپنے دکھ سکھ بھی کہتی ہیں، روتی بھی ہیں‘۔

    نسیم احمد کا کہنا ہے کہ گو کہ قیدی خواتین کو جیل میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں لیکن بہرحال اپنا گھر، اور اپنے یاد آتے ہیں۔ ’سلائی کڑھائی کرنا ان کے فارغ وقت کو بامقصد بنانے کی کوشش کرنا ہے جبکہ خواتین قیدی منفی سوچوں سے بھی محفوظ رہتی ہیں اور ڈپریشن یا اداسی کا شکار کم ہوتی ہیں‘۔

    ماہرین طب بھی موجود

    جیل میں خواتین اور بچوں کے طبی مسائل کے حل کے لیے علیحدہ ڈاکٹرز بھی موجود ہیں۔

    ڈاکٹر نسیم لیاقت گزشتہ 6 سال سے سینٹرل جیل کے زنانہ حصے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ جیل کی قیدیوں کو عموماً موسمی بخار، یا جسم کے مختلف حصوں میں درد کی شکایات ہوتی ہیں تاہم بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جو پہلے سے شوگر یا بلڈ پریشر کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسی قیدیوں کو باقاعدگی سے ان کی دوائیں فراہم کی جاتی ہیں۔

    ڈاکٹر نسیم کا کہنا ہے کہ بعض قیدی خواتین حاملہ بھی آتی ہیں۔ ان کے حمل کا عرصہ تو جیل ڈاکٹر کی زیر نگرانی گزرتا ہے تاہم ڈیلیوری کے لیے انہیں سول اسپتال بھیجا جاتا ہے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں فوری طور پر ماں یا بچے کا درست علاج کیا جاسکے۔

    انہوں نے بتایا کہ گھر سے دور بند ماحول میں رہنے والی خواتین ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ ’جیل میں ہفتے میں ایک بار ماہر نفسیات یہاں کا دورہ کرتے ہیں اور بہت شدید نفسیاتی پیچیدگی کا شکار مریضاؤں کے لیے علاج تجویز کرتے ہیں‘۔

    ڈاکٹر نسیم کے مطابق ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کاؤنسلنگ کے ذریعے خواتین کی ذہنی حالت میں بہتری لائی جاسکے اور دواؤں کی ضرورت نہ پڑے، تاہم سنجیدہ نوعیت کے کیس میں دوا بھی دی جاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ قیدی خواتین کے ساتھ جو بچے موجود ہیں ان کی بھی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے اور ان کی ضروری ویکسی نیشن بھی کی جاتی ہے۔

    اسی طرح بچہ جیل کے لیے مختص ڈاکٹر روزانہ 35 سے 40 بچوں کو دیکھتی ہیں جنہیں موسمی بخار، الرجی، ایگزیما یا کھیلتے ہوئے چھوٹی موٹی چوٹ لگ جاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بچے چونکہ صفائی کا کم خیال رکھتے ہیں لہٰذا انہیں جلدی بیماریوں کی شکایت بھی ہوجاتی ہے جس کے لیے ہفتے میں دو بار ڈرماٹولوجسٹ جیل کا دورہ کرتے ہیں۔

    جیل میں ایمرجنسی یونٹ نہیں لہٰذا کسی سرجری یا آپریشن کی صورت میں بچوں کو بھی سول اسپتال بھیجا جاتا ہے۔

    جیل ملزم کو مجرم نہ بنا سکے

    جیل کی سپریٹنڈنٹ شیبا شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ کراچی سینٹرل جیل کو ایک ماڈل جیل بنایا جائے۔ عموماً جیلوں کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بے گناہ بھی آجائے تو وہ مجرم بن کر نکلے۔ ’یہاں آنے والے قیدیوں کی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے جبکہ انہیں ہنر مند بھی بنایا جاتا ہے کہ جیل میں گزارے گئے ان کے سال ضائع نہ ہوں‘۔

    شیبا شاہ کا کہنا تھا کہ جیل میں آنے والے کم عمر خواتین یا بچے جب جیل سے باہر نکلیں تو ان کے پاس کوئی ہنر ہوگا اور وہ تعلیم یافتہ ہوں گے تو ہی گزرے وقت سے بڑھ کر آگے جاسکیں گے، ورنہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔

  • کراچی سینٹرل جیل میں جشن آزادی کے رنگ

    کراچی سینٹرل جیل میں جشن آزادی کے رنگ

    جشن آزادی ایک ایسا موقع ہے جسے پاکستان میں بسنے والا ہر شخص یکساں جوش و جذبے سے مناتا ہے۔

    اپنے وطن کا حصول، اس میں آزادی سے زندگی گزارنے کا عزم اور یکساں حقوق فراہم کیے جانے کا موقع وہ خوشی دیتا ہے کہ عارضی قید و بند اپنی اہمیت کھو دیتی ہے اور ہر شخص آزادی کی خوشی میں سرشار نظر آتا ہے۔

    ایسی ہی خوشی کراچی کی سینٹرل جیل میں بھی دکھائی دی جہاں موجود قیدی بھی آج کا دن بہت جوش و خروش سے منا رہے ہیں۔

    کراچی کی سب سے بڑی سینٹرل جیل کو آج سبز ہلالی جھنڈیوں اور پرچموں سے سجایا گیا ہے اور اس میں جیل انتظامیہ اور قیدیوں نے مل کر کام کیا ہے۔

    جیل کے داخلی دروازے کو بھی سبز پرچم کی صورت پینٹ کیا گیا ہے۔

    تمام راہداریوں کو جھنڈیوں سے نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔

    جیل میں رہنے والے قیدیوں کا کہنا ہے کہ گو کہ وہ قید ہیں تاہم علیحدہ وطن کی آزادی ان کے لیے بھی یکساں خوشی کا باعث ہے اور وہ جیل میں رہتے ہوئے بھی اس دن کو شایان شان طریقے سے منا رہے ہیں۔

    جیل میں رہنے والے بچے جو اپنی ماؤں کے ساتھ قید ہیں وہ بھی نہایت خوش دکھائی دے رہے ہیں اور یوم آزادی کی مناسبت سے لباس پہن کر جشن آزادی منا رہے ہیں۔

    تمام قیدی سبز ہلالی پرچم لہرا کر، قومی ترانہ اور قومی نغمے پڑھ کر مملکت خداداد کے یوم آزادی کو بھرپور طریقے سے منا رہے ہیں۔

  • کراچی سینٹرل جیل سے 90 خطرناک قیدی مختلف جیلوں میں منتقل

    کراچی سینٹرل جیل سے 90 خطرناک قیدی مختلف جیلوں میں منتقل

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کی سینٹرل جیل سے 90 خطرناک قیدیوں کو مختلف جیلوں میں منتقل کر کے سینٹرل جیل میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی سینٹرل جیل میں قید دہشت گردوں کے آپس میں رابطوں اور سی ٹی ڈی کی جانب سے سینٹرل جیل میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے انکشاف کے بعد اہم اقدامات کیے گئے۔

    انتہائی خطرناک 90 قیدیوں کو مختلف جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔ کالعدم تنظیم کے 2 اہم قیدیوں کو راولپنڈی منتقل کیا گیا۔ 8 خطرناک ملزمان لاڑکانہ جبکہ 80 قیدی سکھر جیل منتقل کر دیے گئے۔

    کراچی سینٹرل جیل سے 68 قیدیوں کو جلد فوجی عدالتوں کے حوالے کردیا جائے گا۔ سینٹرل جیل سے 2 خطرناک قیدیوں کے فرار کے بعد اپیکس کمیٹی نے قیدیوں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی جیل میں ملاقات کیلئے آنے والوں سے رشوت دگنی وصول

    کراچی جیل میں ملاقات کیلئے آنے والوں سے رشوت دگنی وصول

    کراچی : قیدیوں کے فرار ہونے کے بعد کراچی سینٹرل جیل میں قیدیوں سے ملاقات کے لئے آنے والوں سے رشوت دگنی کردی گئی، رشوت نہ دینے پر قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا۔

    تفصیلات کے مطابق سینٹرل جیل میں کرپشن کا بازار مزید گرم ہوگیا، سینٹرل جیل کراچی میں کالعدم تنظیم کے دو قیدیوں کے فرار ہونے والے واقعے اور جیل میں ہونے والے آپریشن کے بعد قیدیوں سے ملاقات کیلئے آنیوالے ان کے اہل خانہ سے رشوت دگنی کردی گئی۔

    متاثرہ شہری کے مطابق سختی کے نام پر گیٹ سے لے کرملاقات تک ہر اہلکار کو 100سے 300روپے دینے پڑتے ہیں۔

    متاثرہ شہری کے مطابق علاج کیلئے جانے والے عام قیدیوں سے بھی پیسے لئے جاتے ہیں اور جو زیادہ پیسے دے اسے دیگر سرکاری اسپتالوں میں بھی شفٹ کروادیا جاتا ہے۔


    مزید پڑھیں: سینٹرل جیل کراچی، قیدی اسپتال کے بہانے گھرپہنچ جاتے ہیں


    متاثرہ شہری کے مطابق جیل انتظامیہ کو پیسے نہ دو تو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ تمھارے قیدی کو قتل کرکے خود کشی ظاہر کردیں گے۔


    مزید پڑھیں: کراچی جیل سے قیدیوں کے فرار میں جیل حکام ملوث نکلے


    ایک جانب جیل انتظامیہ کی سیکورٹی اور انتظامی معاملات میں مکمل نااہلی سامنے ائی ہے تو وہی جیل میں کرپشن کا بازار بھی گرم ہے جسے کوئی روکنے والا نہیں۔


    مزید پڑھیں: کراچی جیل کا نظام قیدی چلاتے ہیں، حکام نہیں، سی ٹی ڈی 


     

  • کراچی سینٹرل جیل میں قیدیوں کا احتجاج، ہنگامہ آرائی

    کراچی سینٹرل جیل میں قیدیوں کا احتجاج، ہنگامہ آرائی

    کراچی : سینٹرل جیل کے قیدیوں نے انتظامیہ کی جانب سے کھانے پینے کے برتن اورتمام اشیاء واپس لیے جانے کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے جیل کے اندر ہنگامہ کھڑا کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی سینٹرل جیل میں صورتحال اس وقت کشیدہ ہوگئی جب دارالقرآن وارڈ کے قیدیوں نے اچانک وارڈ سے باہر آکر ہنگامہ آرائی شروع کردی۔

    احتجاج کا مقصد قیدیوں سے کھانے پینے کے اس سامان کی واپسی تھا جو گزشتہ روزواپس لے لیا گیا تھا، قیدیوں کے مشتعل ہونے پرجیل کے اندر اہلکاروں کو الرٹ کرنے کیلئے سائرن بجائے گئے اورجیل کے اندر ہائی الرٹ کردیا گیا۔


    مزید پڑھیں: سینٹرل جیل سے کالعدم جماعت کے 2 خطرناک قیدی فرار


    قیدی اپنے حقوق کیلئے نعرے بازی کرتے رہے، ذرائع کے مطابق گزشتہ روز جیل سے دو قیدیوں کے فرار ہونے کے واقعے کے بعد دیگر قیدیوں سے کھانے پینے کے برتن اور دیگر سامان واپس لے لیا گیا تھا۔


    مزید پڑھیں: سینٹرل جیل سے قیدیوں کے فرار میں جیل حکام ملوث


    بعد ازاں پولیس، رینجرز اور ایف سی کے عملے نے مشتعل قیدیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پایا۔ اور انہیں ان کے وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔

  • کراچی سینٹرل جیل کی سیکورٹی ہائی الرٹ

    کراچی سینٹرل جیل کی سیکورٹی ہائی الرٹ

    کراچی: سینٹرل جیل کی سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کردیا گیا ہے۔

    اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ آفیسر ایف سی شہلا قریشی کے مطابق کراچی سینٹرل جیل کو ہائی الرٹ کرتے ہوئے تربیت یافتہ کمانڈوز تعینات کردیئے گئے ہیں انکا کہنا تھا کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے مشتبہ افراد کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کردیا گیا ہے، انکا کہنا تھا کہ فاٹا سے ایف سی کے مزید کمانڈوز بھی آنے والے روز میں تعینات کئے جائیں گے۔