Tag: کراچی شہر

  • کراچی میں کبھی برسات کے بعد بچّے بیر بہوٹیاں اور تتلیاں پکڑتے تھے!

    کراچی میں کبھی برسات کے بعد بچّے بیر بہوٹیاں اور تتلیاں پکڑتے تھے!

    صوبہ سندھ، بالخصوص کراچی جو ملک کا دارالخلافہ بھی رہا ہے، تقسیم سے پہلے انگریز دور میں سہولیات اور شہری انتظام و انصرام کے حوالے سے بھی بہت بہتر تھا، لیکن بعد میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ کارخانوں، بے ہنگم رہائشی تعمیرات اور سڑکوں پر بے تحاشا موٹر گاڑیوں نے اس کی آب و ہوا اور ماحول کو بڑا نقصان پہنچایا۔

    شہر میں آلودگی بڑھتی گئی جس کے مضر اثرات یہاں کی آب و ہوا، باغات، سبزہ و درختوں اور ان بے ضرر اور خوش نما حشرات پر بھی پڑے جو مختلف موسموں میں‌ نمودار ہوتے تھے۔ ان میں‌ تتلیاں اور بیربہوٹی شامل ہیں۔

    کراچی میں‌ بارش کے بعد جہاں حکومت اور انتظامیہ کو برساتی اور نکاسی آب کے بڑے نالوں کی صفائی نہ کروانے اور شہر کو برباد کر دینے کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے، وہیں کچھ بزرگ شہری ان دنوں کی یاد تازہ کررہے ہیں جب کراچی شہر کی آبادی کم تھی اور یہاں بارش کے بعد زندگی گویا کِھل اٹھتی تھی۔

    ممتاز صحافی، ادیب، مؤرخ، سیاست داں اور سفارت کار پیر علی محمد راشدی کی کتاب "کراچی کی کہانی” سے یہ لیا گیا یہ پارہ ایک ایسی برسات کی یاد دلاتا ہے جو کئی دہائیوں پہلے شہریوں کے لیے واقعی رحمت ثابت ہوتی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:

    "کراچی میں تتلیاں بھی بے تحاشا ہوتی تھیں۔ خاص طور پر برسات کے بعد۔

    ہم بچوں نے تتلیوں کو مختلف نام دیے ہوئے تھے۔ سبز اور سیاہ بادشاہ تتلی، نارنجی پروں پر سیاہ و سفید دھبے والی ملکہ تتلی، نقرئی جامنی شہزادی تتلی۔

    انعام بھائی نے ایک چھوٹا سا جالی کا ڈبہ بھی بنایا تھا جس میں وہ تتلیوں کو پکڑ کر بند کرتے۔ مجھے اور نور الصباح کو تتلیاں چُھونے کا بڑا شوق تھا۔ ہم منت سماجت کر کے ڈبے سے تتلی نکلواتے پھر فخر کے ساتھ انگلیوں پر یہ اترے رنگ ایک دوسرے کو دکھاتے۔

    بارش کے بعد میدان میں بیر بہوٹیاں امنڈ آتیں اور سب بچے ماچس کی خالی ڈبیائیں لیے بیر بہوٹیوں کو پکڑنے میں شام کر دیتے۔ پھر اپنی اپنی ڈھونڈی ہوئی بیر بہوٹیاں گنی جاتیں اور پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پر رکھی سرخ مخملی مخلوق پر انگلیاں پھیری جاتیں۔

    آج یہ بات یاد کرتے ہوئے بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں کبھی بچے تتلیاں اور بیر بہوٹیاں پکڑا کرتے تھے۔”

  • کراچی میں ٹرام: آغاز سے بندش تک

    کراچی میں ٹرام: آغاز سے بندش تک

    کراچی کے بزرگ شہریوں سے کبھی اہم اور مرکزی سڑکوں اور نصف صدی قبل اس شہر کی پبلک ٹرانسپورٹ یا نقل و حمل کے مختلف ذرایع کے بارے میں‌ دریافت کریں تو وہ "ٹرام” کا ذکر ضرور کریں گے جو اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔

    دہائیوں قبل اندرونِ شہر آمدورفت کے لیے عام طور پر سائیکل رکشا اور گھوڑا گاڑی کے بعد ٹرام ایک آرام دہ سہولت تھی۔

    1975 میں آج ہی کے روز ٹراموے کمپنی نے ٹرام بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    30 اپریل کے اس اعلان کے ساتھ ہی‌ نوّے سال تک کراچی کے مخصوص راستوں کی یہ سواری ہمیشہ کے لیے ساکت و جامد ہوگئی۔

    کراچی میں ٹراموے کمپنی کے آغاز کا سہرا شہر کے میونسپل سیکریٹری جیمز اسٹریچن کے سَر ہے، جو ایک انجینئر اور آرکیٹکٹ بھی تھے۔

    شہر میں ٹرام کے لیے لائنیں بچھانے کا کام 1883 میں شروع ہوا اور اکتوبر 1884 میں پایہ تکمیل کو پہنچا اور اگلے سال سروس کا آغاز کیا گیا۔

    اپریل اس کی بندش کا مہینہ ہی نہیں بلکہ ٹرام پہلی بار چلی بھی اسی مہینے کی 20 تاریخ کو تھی۔

    اس زمانے میں ٹرام بھاپ سے چلائی جاتی تھی جو آلودگی اور شور پیدا کرتی تھی اور اسی وجہ سے اسے بند کر کے چھوٹی اور ہلکی ٹرامیں چلائی گئیں جن کو گھوڑے کھینچتے تھے۔

    بیسویں صدی میں ٹرامیں ڈیزل سے چلنے لگیں جن کے کئی روٹ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ نظام نجی ملکیت میں‌ چلا گیا اور پھر ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔

  • جب کراچی کے ایک شہری کی گاڑی پُرتگال میں خراب ہوئی….

    جب کراچی کے ایک شہری کی گاڑی پُرتگال میں خراب ہوئی….

    تحریر: عمیر حبیب

    دیارِ غیر میں بسنے والے کسی بھی پاکستانی کی طرح ہم نے بھی صرف اپنا وطن ہی نہیں چھوڑا تھا، کئی راحتوں، آسائشوں، سہولیات کو اور سب سے بڑھ کر اپنوں کو چھوڑا اور ان سے بہت دور یہاں پُرتگال آ بسے۔ اس سفر اور نئی دنیا بسانے کے شوق میں ہم نے یقینا بہت کچھ کھویا، مگر حوصلہ نہیں۔ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا، ہمت کی اور آج اپنی لگن اور محنت سے یہاں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔

    پاکستان ہو یا پرتگال اور اسی طرح دیگر ممالک ہر جگہ مختلف نوعیت کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پرتگال اور پرتگالیوں کے بھی اپنے مسائل اور مشکلات ہیں، لیکن یہاں خاص طور پر کرونا جیسی وبا کے دنوں میں ایک خوش گوار تجربہ ہوا۔

    پرتگال کا سوشلسٹ طرز حکومت ہمارے نظامِ حکومت سے بالکل الگ ہے۔ ہمارے وطن پاکستان کا سیاسی نظام اور سماجی ڈھانچا دنیا سے کچھ الگ ہی ہے۔ کراچی کی بات کریں تو اگر کبھی رات گئے سنسنان سڑک پر ہماری گاڑی خراب ہو جائے تو یقین جانیے کسی جن بھوت کا سوچ کر نہیں، ڈاکو اور لٹیرے کے روپ میں ظاہر ہونے والے اپنے ہی جیسے کسی انسان کے ڈر سے ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں، خوف کے مارے پسینے چھوٹ سکتے ہیں۔ اس وقت گھر پر فون لگانے کی کوشش کی جاتی ہے، بھائی یا کسی دوست کا نمبر ملا کر اس سے مدد کی درخواست کرنا پڑتی ہے، اور ان میں سے کسی کے آنے پر گاڑی کو دھکا لگا کر یا کھینچ کر (Tow) گھر پہنچاتے ہیں، اور پھر اگلے روز گاڑی میکنک کے پاس لے جاؤ۔

    کراچی میں رات کے وقت گاڑی سڑک پر خراب ہو جائے تو آپ کو یا تو جان جانے کا ڈر ہوتا ہے یا مال جانے کا، مگر یہاں پرتگال میں گاڑی خراب ہوجائے تو کچھ الگ ہی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    گزشتہ دنوں لزبن میں جب ہم متعدد کوششوں کے باوجود اپنی گاڑی اسٹارٹ کرنے میں ناکام رہے تو مکینک سے رابطہ کیا۔ اس نے ہماری راہ نمائی کرتے ہوئے بتایا کہ جب بھی آپ کی گاڑی خراب ہو جائے تو آپ گاڑی میں بیٹھ کر سب سے پہلے متعلقہ انشورنس کمپنی کو فون کریں، اپنی لوکیشن بتائیں، گاڑی کے خراب ہونے کی وجہ، اور چند ضروری سوالات کے جواب دیں۔ وہ آپ کا نام، مکمل پتا، گاڑی کا نمبر وغیرہ پوچھیں گے، ساتھ ہی قریبی کسی مکینک کا پتا بھی، اس کے بعد گاڑی سے باہر نکل کر پیلی جیکٹ پہن لیں، اور وہ وارنگ سائن بورڈ جو ہر گاڑی میں لازمی ہوتا ہے، گاڑی کے پیچھے کچھ فاصلہ پر رکھ دیں۔ منٹوں میں مددگار آپ تک پہنچ جائیں گے اور بس باقی کام ان کا۔ اب آپ گاڑی کی طرف سے بے فکر ہوجائیں۔

    چند روز بعد چابی آپ کے ہاتھ میں ہو گی اور آپ گاڑی میں بیٹھے سفر کر رہے ہوں گے۔

    یہ شہریوں کو سہولت دینے اور ان کے بعض عام مسائل حل کرنے سے متعلق صرف ایک مثال ہے، باقی بہت سی چیزیں ہیں جو یہاں آپ کی زندگی کو پُرسکون بناتی ہیں۔ اگر ایسا کوئی نظام اور سہولت ہمارے ملک کے شہروں میں بھی عام ہوجائے تو کیا بات ہے۔

    (بلاگر بسلسلہَ روزگار پرتگال کے شہر لزبن میں مقیم ہیں)

  • بہار کالونی جسے علم کا جزیرہ کہیے!

    بہار کالونی جسے علم کا جزیرہ کہیے!

    قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کے جنوب میں لیاری ندی کے کنارے، سمندر سے نزدیک ( اب سمندر دور چلا گیا ہے) بِہار سے ہجرت کرنے والوں کے لیے ایک کالونی آباد کی گئی جو بِہار کالونی کہلائی۔

    یہاں کسی نے جھگی نہیں ڈالی، ایک کمرے یا دو کمرے کا مکان سہی سیمنٹ بلاک سے ہی تعمیر کیا، جس نے بھی اِس کالونی کا نقشہ بنایا، خوب بنایا۔

    ندی کی طرف کسی مکان کا رخ نہیں تھا، گلیاں البتہ ندی کے رخ پر تھیں، ندی میں سیلاب آگیا۔ خوب بارش ہوئی، سمندر چڑھا ہوا تھا۔ ندی لبالب بَھر گئی اور پھر جب ندی کے اس طرف شیر شاہ کالونی کے مکانات زیرِ آب آنے لگے تو کسی نے سڑک کاٹ دی اور سارا سیلاب بہار کالونی میں داخل ہوگیا اور گلیوں سے ہوتا ہوا آگے نکل گیا۔ کسی مکان کو نقصان نہیں پہنچا، کوئی دیوار نہیں گری۔

    یہاں آباد ہونے والے بزرگوں میں ممتاز عالمِ دین مولانا عبدالقدوس ہاشمی، روزنامہ ”منشور“ دہلی کے ایڈیٹر حسن ریاض، اسلامی اسکالر پروفیسر یحیٰی ندوی، تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سید نجم الہدیٰ، میجر آفتاب حسن، سیّد محی الدین، سید تقی الدین۔ یہ حضرت حیدرآباد دکن میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انھیں مشہور انگریز پائلٹ سڈنی کاٹن راتوں رات اُڑا کر کراچی لے آیا تھا۔

    ریٹائرڈ کیپٹن طاہر حسین ملک جو ٹی۔ ایچ ملک کے نام سے مشہور تھے، پاکستان آکر وکالت کی تعلیم حاصل کی اور پریکٹس کرنے لگے۔ 25 دسمبر (سال یاد نہیں) کو قائدِاعظم کے مزار پر قرآن خوانی کرتے ہوئے دل بند ہوگیا اور وہیں جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔

    ڈاکٹر عقیل حسن، حکیم احسن ابراہیمی اور ایک ہومیو پیتھ ڈاکٹر جن کا نام بھول رہا ہوں انہوں نے بڑی خدمت کی کیوں کہ شروع میں ملیریا کا مرض عام تھا۔ زمین سیم زدہ تھی، بعد میں دو سیلابوں کی ’برکت‘ سے دو، دو فٹ مٹی نے آکر بہار کالونی کی تقدیر بدل دی۔

    جوانوں میں بیشتر میٹرک پاس کرکے آئے تھے۔ ملازمت کی اور شبینہ کلاسوں میں پڑھتے ہوئے گریجویٹ بنے، ماسٹرز کیا، پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اس طرح تقریباً سبھی خود پرداختہ و ساختہ(Self made) ہوئے۔ ان جوانوں میں ایک سید ابوظفر آزاد بھی تھے۔ علم اگر روشنی ہے اور جہالت اندھیرا تو یہ جوان آگے چل کر روشنی کا مینار نظر آیا۔ ایک آلِ حسن ملک ابراہیمی تھے جو انگریزی روزنامہ میں مراسلے لکھتے تھے۔

    (کتاب بہار دانش سے اقتباس)

  • وزیر اعلیٰ سندھ  کا آج  کراچی شہر کے مختلف علاقوں، اسپتالوں کا دورہ

    وزیر اعلیٰ سندھ کا آج کراچی شہر کے مختلف علاقوں، اسپتالوں کا دورہ

    کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے آج  کراچی شہر کے مختلف علاقوں، اسپتالوں اور ہیٹ اسٹروک کیمپو ں کا اچانک دورہ کیا ۔

    وزیر اعلیٰ سندھ نے اسپتالوں اور ہیٹ اسٹروک کیمپوں کے انتظامات کا جائزہ لیا اور سرکاری اداروں کی طرف سے کئے گئے انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ میڈیا سے گفتگو میں قائم علی شاہ نے بتایا کہ سندھ حکومت نے عباسی شہید اسپتال کو 8.5کروڑ روپے جاری کر دیئے ہیں اور اب اسپتال میں انتظامات کافی بہتر ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ عوام کی طرف سے کے الیکٹرک اور حیسکو کے خلاف لوڈ شیڈنگ کی بے شمار شکایات آر ہی ہیں لیکن آئینی طور پر بجلی ہمارا سبجیکٹ نہیں بلکہ آئینی طور پر وفاق کا معاملہ ہے ۔

    ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ کراچی شہر میں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہے اور اس حوالے سے تمام کو ششوں کوبروئے کار لا رہے ہیں، پولیس اہلکاروں کے قاتلوں کو کسی بھی صورت نہیں بخشا جائیگا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ شہر میں موجود نالوں کی عدم صفائی پر کے ایم سی کے دو افسران کو معطل کیا تھا اور آج بھی نالوں کی صفائی کا جائزہ لے رہے ہیں۔

    اس موقعہ پر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کے ایم سی اور محکمہ بلدیہ کو بارشوں سے قبل نالوں کی صفائی کے احکامات جاری کئے۔