Tag: کراچی میں اسٹریٹ کرائم

  • کراچی میں جرائم دہلی، ڈھاکہ اور تہران سے کم ہورہے ہیں، آئی جی سندھ کا دعویٰ

    کراچی میں جرائم دہلی، ڈھاکہ اور تہران سے کم ہورہے ہیں، آئی جی سندھ کا دعویٰ

    کراچی : آئی جی سندھ غلام نبی میمن شہر قائد میں بڑھتی ہوئی واردتوں پر دعویٰ کیا کہ کراچی میں جرائم دہلی، ڈھاکہ اور تہران سے کم ہورہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں پر کہا کہ کراچی میں جرائم دہلی، ڈھاکہ اور تہران سے کم ہورہے ہیں۔

    غلام نبی نے بتایا کہ رواں سال کراچی میں ڈکیتی مزاحمت پر 58 شہری جاں بحق ہوئے، ڈکیتی مزاحمت پر قتل کے 41 کیسز کو حل کیا، ملزمان پکڑےیامارےگئے۔

    آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ 53ملزمان کوگرفتارکیا گیا اور 17ہلاک ہوئے۔

    انھوں نے بتایا کہ ملزمان کی ای ٹیگنگ کیلئےقانون بن گیا،بجٹ میں رقم رکھی جائے گی، 4 ہزار کرمنلز کو ای ٹیگ کیا جائے گا۔

    آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ کراچی میں اسمارٹ کیمرے لگانے میں تاخیر ہوئی، پولیس کوڈیجیٹلائز کیاجارہا ہے، ڈیٹااپ گریڈ کر رہے ہیں۔

    خیال رہے کراچی میں بڑھتے جرائم کے باعث سینٹرل جیل قیدیوں سے بھر گئی ہے ، رواں سال کے ابتدائی پانچ ماہ میں چھ ہزار جرائم پیشہ افراد کو کراچی سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔

    جرائم پیشہ افراد کی گرفتاریوں کے باوجود کراچی میں آج بھی امن و امان کی صورتحال ابتر ہے، رواں سال ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ سے 73 افراد قتل ہوچکے ہیں۔

  • کراچی میں اسٹریٹ کرائم  پر وزیرداخلہ سندھ  کی نرالی منطق

    کراچی میں اسٹریٹ کرائم پر وزیرداخلہ سندھ کی نرالی منطق

    کراچی : وزیرداخلہ سندھ ضیا لنجار کراچی میں اسٹریٹ کرائم پر نرالی منطق لے آئے اور کہا کراچی میں اسٹریٹ کرائم بڑھاچڑھا کر بتایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرداخلہ سندھ نے میڈیا سے گفتگو میں اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے کہا کہ اسٹریٹ کرائم بڑھاچڑھا کربتایاجارہاہے، اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کیلئےسخت اقدامات کر رہے ہیں۔

    ضیالنجار کا کہنا تھا کہ آئی جی سندھ پرواضح کردیا اب ایس ایچ اوز تک بات نہیں رکے گی۔

    وزیرداخلہ سندھ نے خالد مقبول صدیقی کے عید کے بعد اپنا تحفظ خود کرنے کے بیان پر سوال کے جواب میں کہا کہ خالد مقبول ایسی بات نہ کریں ، جو گھوم پِھر کر انہی پر واپس آئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ شہر میں دو ہزار آٹھ سے تیرہ والےحالات نہیں، جب بوری بندلاشیں ملتی تھیں۔

    ضیالنجار نے یوم علی کے بعد کچے میں باضابطہ آپریشن شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گھوٹکی اورکشمور میں ایک ایک ہزاراضافی نفری بھی تعینات کی جائے۔

  • کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی وارداتیں ، نگراں وزیراعلیٰ کا آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو خط

    کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی وارداتیں ، نگراں وزیراعلیٰ کا آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو خط

    کراچی : وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس مقبول ر باقر نے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو خط لکھ کر امن وامان کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کراچی میں اسٹریٹ کرائم بڑھ رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ میں امن و امان کی مسلسل بگڑتی صورتحال پر نگران وزیر اعلیٰ سندھ نے آئی جی سندھ اور ڈی جی کو خط لکھا۔

    جس میں وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس ر مقبول باقر نے امن کی بگڑتی صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم جیسی واردات روزانہ بڑھتی جارہی ہیں سندھ کے بڑے شہروں سمیت دیہی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔

    وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ ڈکیتی، قتل، ٹارگٹ کلنگز، زیادتی، اغوا، میں اضافہ ہورہا ہے،موبائل چھیننا، منشیات فروشی اور بھتہ خوری سمیت دیگر جرائم بڑھ رہے ہیں، صوبے میں بڑھتے جرائم میں حالیہ اضافہ کافی تشویشناک ہے۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ جرائم کی بڑھتی لہر کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں، صوبے کے سنگین جرائم میں اضافہ خوش آئند نہیں ہے ، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا تمام جرائم کی مسلسل نشاندہی کررہا ہے۔

    خط میں مزید کہنا تھا کہ انتخابی امیدواروں پر حملہ اور دن دیہاڑے اغوا کے واقعات کی بھی رپورٹس ہیں،معاشرے میں خواتین، بچے و بوڑھوں کو ان جرائم سے کافی نقصان اٹھا نا پڑ رہا ہے، صحافیوں، وکلاء ، ڈاکٹرز، تاجرز اور دیگر پیشہ ور افراد کو جان و مال کے خطرات لاحق ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ بگڑتی صورتحال کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے بدستور خاموش کیوں ہیں؟ آئین میں درج شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنائیں۔

  • کراچی میں بڑھتی ہوئی اسٹریٹ کرائم کی وجوہات کیا ہیں؟

    کراچی میں بڑھتی ہوئی اسٹریٹ کرائم کی وجوہات کیا ہیں؟

    شہر قائد کراچی پاکستان کا دل ہی نہیں بلکہ معاشی شہ رگ بھی ہے، یہاں چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی روزگار کمانے آتے ہیں۔

    کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے، اسلحہ بردار دہشت گرد پورے شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں، یہ سفاک ملزمان اپنے مقصد کے حصول کیلئے کسی شہری کی جان جانے کی ذرا بھی نہیں پرواہ نہیں کرتے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’ذمہ دار کون‘ میں میزبان کامل عارف کے مطابق کراچی میں کسی شہری کو لوٹنا کوئی بڑی بات نہیں ہر شخص اس لیے خوفزدہ ہے کہ ڈاکو نہ صرف سڑکوں بلکہ گھر کی دہلیز پر بھی واردات سے گریز نہیں کرتے۔

    اس حوالے سے شہریوں کا کہنا ہے کہ کراچی پورے ملک کا ایسا واحد شہر ہے جہاں لوگ کمانے بھی آتے ہیں اور لوٹنے بھی آتے ہیں۔ ایک شہری کا کہنا تھاکہ پولیس کیلئے ضروری لے کہ وہ لوگوں کو اس بات اعتماد دلائے کہ وہ ان کے تحفظ کیلئے ہے اگر پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت ختم کردی جائے تو وہ اپنا بہتر کردار ادا کرسکتی ہے۔

    ایک شہری کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب بھی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے تو اسٹریٹ کرائم بھی بڑھ جاتے ہیں، اس حوالے سے انتطامیہ کیا کرتی ہے وہ سب بیت جانتے ہیں، پولیس جرائم پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔

    اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں یہ بات خاص اہمیت کی حامل ہے کہ ملزمان کی بڑی تعداد کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جو انتہائی قابل افسوس اور تشویشناک ہے۔

    سچل تھانے کے ایس ایچ او اورنگزیب نے بتایا کہ ہماری حدود میں 20 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں اور ہمارے پاس مجموعی طور پر 150 اہلکار ہیں جو دو حصوں میں ڈیوٹی ادا کرتے ہیں، یہ کہا جاسکتا ہے کہ 20 لاکھ کی آبادی کیلئے ایک وقت میں صرف 50 اہلکار سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں۔

    ایس ایچ او اورنگزیب نے بتایا کہ ان وارداتوں کی بڑی وجہ معاشی تنگدستی ہے، انہوں نے بتایا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پورے خاندان وارداتیں کرتے ہیں۔

    ایس ایس پی ایس آئی یو عارف عزیز کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملکی میں جرائم کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے، اور سال میں ایک بار ایسا پیریڈ ضرور آتا ہے کہ اسٹریٹ کرائم کی شرح بہت تیزی سے بڑھتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اکثر ملزمان کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ واردارت کرو جب پکڑے جاؤ تو کچھ عرصہ جیل کاٹ کر دوبارہ سے وارداتیں کرنا شروع کردو جبکہ کچھ ملزمان نشے کی لت کو پورا کرنے کیلئے واردارتیں کرتے ہیں۔

    کراچی کی سڑکوں کی کل پیمائش 9ہزار 500 سو کلومیٹر ہے، گزشتہ ایک سال کے دوران چوری اور چھینا چھپٹی کی کارروائیوں کی کل تعداد 1 لاکھ کے قریب ہے۔ کراچی پولیس ذرائع کے مطابق اہلکاروں کی کل تعداد 35ہزار کے لگ بھگ ہے۔ جن میں سے 7 سے 8 ہزار اہلکار وی آئی پی ڈیوٹیز پر تعینات ہیں جو بہترین تربیت یافتہ بھی ہیں۔

    اس طرح ڈھائی کروڑ والے اس شہر کی آبادی کیلئے صرف 25 سے 26 ہزار اہلکار تعینات ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ایک ہزار شہریوں کیلئے صرف ایک اہلکار دستیاب ہے۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جرائم کا تدارک کیسے کیا جائے، ملزم کو پکڑے جانے کے بعد اس کو جرم سے باز رکھنے کیلئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ وہ دوبارہ اس راہ پر نہ چلے، جیلیں بھرنا مسئلے کا حل نہیں ان کی اصلاح بھی کرنا ہوگی اگر وہ بے روزگاری کی وجہ سے جرم کررہا ہے تو حکومت کا فرض ہے کہ اسے روزگار فراہم کرے ورنہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔