Tag: کراچی کی لائبریری

  • تمام عمر کی یاور کتاب ہوتی ہے!

    تمام عمر کی یاور کتاب ہوتی ہے!

    قدیم زمانے سے لے کر موجودہ عہد تک کتاب کے سہارے انسان نے شعور اور آگاہی کے مدارج طے کیے اور معاشرے اپنے ذخیرۂ کتب کی مدد سے مہذب اور ترقی یافتہ ہوئے۔ آج ہم ڈیجیٹل دور میں زندہ ہیں اور آن لائن لائبریریوں سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اس سہولت اور ترقی کو اگر اُس علم کی دین بتایا جائے جو کاغذ اور روشنائی کی صورت میں ہم تک پہنچا تو غلط نہ ہوگا۔

    یہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے چند عوامی کتب خانوں کا تذکرہ ہے جو کبھی مطالعے کا ذوق و شوق رکھنے والوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

    رہِ وفا میں سبھی ساتھ چھوڑتے ہیں مگر
    تمام عمر کی یاور کتاب ہوتی ہے

    تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کا پہلا کتب خانہ ساتویں صدی قبلِ مسیح میں اس زمانے کے عظیم تہذیبی اور ثقافتی مرکز عراق میں بنایا گیا تھا۔ یہ قول رومی فلسفی مارکس سیسیرو سے منسوب ہے کہ ”کتابوں کے بغیر کمرہ ایسا ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔“

    ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں چالیس سے زائد پبلک لائبریریاں، پندرہ جامعات کے بڑے کتب خانے، تین تدریسی لائبریریاں، 4 تاریخی لائبریریاں اور 10 کتب خانۂ خاص موجود ہیں اور ان کے علاوہ بھی شخصیات کے ذاتی کتب خانے بھی عوام کو علم کے موتی سمیٹنے کا موقع دے رہے ہیں۔ کراچی کی چند لائبریریوں کا مختصر تعارف حاضر ہے۔

    خالق دینا لائبریری:
    خالق دینا لائبریری کا نام نیٹیو جنرل لائبریری تھا جو 1856ء میں قائم کی گئی تھی۔ یہ کراچی کا پہلا عوامی کتب خانہ تھا۔ اس کی عمارت کا ڈیزائن موسز سومیک نے تیار کیا تھا۔ 1905ء میں اسے ایک مخیّر شخصیت خالق دینا سے منسوب کر دیا گیا اور خالق دینا لائبریری کہا جانے لگا۔ 2002ء میں اس عمارت کی تزئین و آرائش کی گئی تھی۔

    فریئر ہال لائبریری:
    فریئر ہال لائبریری کراچی کا قدیم ترین کتب خانہ ہے۔ اسے اکتوبر 1865ء میں عوام کے لیے کھولا گیا تھا۔ اس لائبریری کو سندھ کے دوسرے کمشنر بارٹل فریئرنے تعمیر کروایا تھا اور عمارت کا نقشہ کرنل ہینری ونکنز نے بنایا تھا۔ اس دور میں لائبریری کی تعمیر پر تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار روپے کی لاگت آئی تھی اور اس میں سندھ کی کئی مخیّر اور علم دوست ہستیوں نے اپنا حصّہ ڈالا تھا۔

    محمود حسین لائبریری:
    جامعہ کراچی کا مرکزی کتب خانہ 1952ء میں قائم ہوا تھا جسے 1975ء میں علم دوست اور استاد ڈاکٹر محمود حسین کی وفات کے بعد ان کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ یہاں ہزاروں قلمی دستاویزات اور نایاب کتب بھی ہیں جن میں قدیم نسخے بھی شامل ہیں۔

    غالب لائبریری:
    1970ء میں ناظم آباد کے علاقے میں معروف شاعر فیض احمد فیض اور دانشور مرزا ظفر الحسن نے غالب لائبریری قائم کی تھی۔ اس لائبریری کا مقصد اردو زبان و ادب اور بالخصوص غالب کے فن و فکر کو ترویج دینا تھا۔ اس کتب خانے کا قیام ادارۂ یادگارِ غالب کے تحت عمل میں لایا گیا تھا جو مذکورہ شخصیات کی خواہش اور کاوش کا نتیجہ تھا۔

    ڈی ایچ اے سنٹرل لائبریری:
    ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی نے نومبر 1991ء کو ڈیفنس فیز 2 میں یہ کتب خانہ قائم کیا تھا جو جدید دور میں اپنے خوب صورت ڈیزائن اور فن پاروں کی وجہ سے جاذبِ نظر بھی ہے۔

    ایس بی پی لائبریری:
    اسٹیٹ بینک آف پاکستان لائبریری کراچی کے علاقہ بولٹن مارکیٹ، آئی آئی چندریگر روڈ پر قائم کی گئی تھی۔ اس لائبریری کا قیام 1949ء میں عمل میں‌ آیا تھا اور مختلف اوقات میں اس لائبریری کو تین بار شفٹ بھی کیا گیا۔

    بیتُ الحکمت لائبریری:
    یہ کراچی میں قائم جنوبی مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔ اسے 1989ء میں بنایا گیا تھا اور قدیم بغداد میں مسلم تاریخ کے ”بیتُ الحکمۃ“ کے نام پر اسے بھی یہ نام دیا گیا۔ یہ لائبریری ہمدرد یونیورسٹی میں‌ قائم ہوئی جس سے بالخصوص طلبہ استفادہ کرتے ہیں۔

    بیدل لائبریری:
    جولائی 1974ء میں ایک کمرے کو 300 کتب و رسائل سے سجانے کے بعد ڈاکٹر ظفیر الحسن اس لائبریری کو مزید خزانۂ علم سے آراستہ کرنے میں جٹ گئے تھے۔انھوں نے اس لائبریری کا نام فارسی کے قادرُالکام اور نام ور شاعر بیدل کے نام پر رکھا تھا۔

  • سندھ کے شہر حیدر آباد کے مشہور کتب خانے

    سندھ کے شہر حیدر آباد کے مشہور کتب خانے

    تاریخ‌ بتاتی ہے کہ سندھ دھرتی نے کئی تہذیبوں اور ثقافتوں کے خوب صورت رنگ دیکھے۔

    ہزاروں سال کے دوران اس دھرتی پر علم و فنون کے مختلف شعبوں‌ کی قابل اور عالم فاضل شخصیات نے آنکھ کھولی اور انھوں‌ نے اپنی دانش و حکمت کو تحریر و تصویر کیا اور یہی علمی سرمایہ کتب خانوں‌ تک پہنچا جن سے بے شمار تشنگانِ علم سیراب ہوئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

    ہم یہاں‌ "اسلامی کتب خانے” نامی کتاب سے ایک صفحہ نقل کر رہے ہیں‌ جس سے آپ حیدر آباد، سندھ کے چند اہم اور مشہور کتب خانوں کے بارے میں‌ جان سکتے ہیں۔ اس کتاب کے محقق اور مؤلف محمد زبیر (علی گڑھ) ہیں۔

    حیدرآباد میں جو کتب خانے قائم ہوئے ان میں کتب خانہ "شمس العلما مرزا قلیج بیگ” کی بھی تعریف کی گئی ہے۔ اس میں عربی، فارسی، ترکی اور سندھی کتابوں کے ذخائر موجود ہیں۔

    ضلع حیدرآباد کے قصبہ پیر جھنڈا میں "کتب خانہ پیر رشد ﷲ راشدی” کو قابلِ دید کہا جاتا ہے۔ پیر صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ "انہوں نے اس کتب خانے پر بے پناہ روپیا خرچ کیا۔ لندن کی لائبریری انڈیا آفس سے کتابوں کی فوٹو کاپیاں منگوائیں، ترکی اور مصر کے کتب خانوں سے نایاب کتابوں کی نقل اپنے خرچ پر کاتب بھیج کر کرائیں۔

    مولانا عبیداﷲ سندھی نے بھی اس کتب خانے سے استفادہ کیا تھا۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ "پیر صاحب کے پاس علومِ دینیہ کا بے نظیر کتب خانہ تھا۔ میں دورانِ مطالعہ وہاں جاتا رہا اور کتابیں مستعار بھی لاتا رہا۔ میری تکمیلِ مطالعہ میں اس کتب خانہ کے فیض کو بڑا دخل تھا۔”

    ان کے علاوہ اور بھی کتب خانوں کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً "کتب خانہ لواری شریف” ضلع حیدرآباد میں ہے۔ اس ضلع کے قصبات ٹنڈو سائیںداد میں "کتب خانہ خواجہ محمد حسین فاروقی مجددی” ، ٹنڈو میر نور محمد میں "کتب خانہ میر نور محمد”، مٹیاری میں "کتب خانہ پیر غلام محمد سرہندی” ، ہالا میں "کتب خانہ مخدوم مولانا غلام حیدر” ہیں۔ ان میں مخطوطات، نوادرات اور مطبوعات کے عمدہ ذخائر جمع ہیں۔