Tag: کراچی کی کہانی

  • کراچی کے بااصول، بے داغ منتظمین کا تذکرہ

    کراچی کے بااصول، بے داغ منتظمین کا تذکرہ

    حکومت کی باگ ڈور سندھ کے کمشنر کے ہاتھ میں تھی۔ سندھ کا موجودہ علاقہ بمبئی صوبے میں شامل تھا۔ بمبئی کی گورنری سے سندھ کے فاصلے کے سبب مقامی انتظام چلانے کے تمام اختیارات کمشنر کے سپرد کر دیے گئے تھے۔

    کمشنر بھی بڑے بڑے انگریز مقرر ہوتے تھے۔ مرد آدمی، منتظم، با اصول، بے داغ۔

    یوں نہ ہوتا تھا کہ کمشنر دوسری طرف گردن پھیرے تو خلقِ خدا اس کے کردار پر نکتہ چینی شروع کر دے کہ فلاں معاملے میں نامراد اتنی رقم کھا گیا، اسمگلنگ کرنے والوں سے حصّہ وصول کرتا ہے، اتنے بنگلے بنوا لیے ہیں، رشوت اور تعلّقات کی بنیاد پر نوکریاں اور ٹھیکے بانٹتا ہے، اپنے ضمیر، ایمان اور انصاف کے اصولوں کو ترک کر کے اپنے بالا دستوں کے اشارے پر غلط کام کرتا ہے اور جھوٹی رپورٹیں بھیجتا ہے۔

    کمشنر کی مدد کے لیے ایک گورا آئی سی ایس افسر بطور اسسٹنٹ کمشنر اور تین دیسی ڈپٹی کلکٹر مقرر ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک کو نیٹِو اسسٹنٹ کمشنر کہا جاتا تھا۔ اس کا رابطہ پبلک سے ہوتا تھا۔ کمشنر کے سائے میں رہنے کی بدولت اس کی بھی بڑی دھاک ہوتی تھی۔ زمیں دار تو اس کے دروازے پر دھکّے کھایا کرتے تھے۔

    خان بہادر نبی بخش محمد حسین مرحوم، جو بعد میں کئی اونچے عہدوں سے ہوتے ہوئے آخر بہاولپور ریاست کے وزیرِ اعظم بنے، نام ور نیٹِو اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ خلافت تحریک کے زمانے میں انھوں نے انگریزوں سے وفاداری کا ثبوت دیا اور اس کے نتیجے میں انگریز کمشنر کی ناک کا بال بن گئے۔

    سندھ کے وڈیروں کے معاملے میں سفید و سیاہ کا اختیار انہی کے پاس تھا۔ کسی کو کہل، کسی کو ڈمر، کسی کو کچھ خطاب دلواتے، کسی کو کمشنر کے دربار میں کرسی مرحمت فرماتے۔ فریئر ہال کے پاس ان کا بنگلا تھا۔ وڈیروں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے رہا کرتے۔ ان کا رہن سہن اور طرزِ تعلّق انگریزی نمونے کا تھا اور کسی کو خواہ مخواہ اپنے سے بے تکلّف نہ ہونے دیتے۔

    کراچی کے کلکٹر بھی سینیئر آئی سی ایس انگریز ہوتے۔ کیا شان تھی، کیا آن بان تھی! سب سے پرے رہتے۔ جسے اچھا سمجھتے اس کی عزت کرتے، مگر اس طریقے سے کہ وہ ان سے قربت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جاڑوں میں شہر سے نکل کر ضلعے کا گشت کرتے۔ سامان اونٹوں پر، صاحب خود گھوڑے پر، اپنا خرچ، اپنا کھانا پینا، نہ بک بک نہ جھک جھک۔

    ان کے سرشتے دار، کارندے اور پٹّے والے البتّہ مختار کاروں اور تپّے داروں سے رسائی (مہمانی) وصول کیا کرتے مگر اس کی مقدار ایسی "کمر توڑ” نہ ہوتی تھی۔ دودھ، گھی، سیر دو سیر آٹا اور چاول، اور ایک آدھ مرغ وغیرہ۔

    اگر صاحب کے باورچی خانے کے لیے کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو صاحب اس کا بِل اپنی جیب سے ادا کرتے۔

    (سندھ کے معروف راشدی خاندان کے پیر علی محمد راشدی سیاست، صحافت اور علم و ادب میں‌ ممتاز ہوئے، جن کی کراچی سے متعلق یادوں کی لفظی جھلکیوں‌ سے یہ پارہ منتخب کیا گیا ہے)

  • کراچی میں کبھی برسات کے بعد بچّے بیر بہوٹیاں اور تتلیاں پکڑتے تھے!

    کراچی میں کبھی برسات کے بعد بچّے بیر بہوٹیاں اور تتلیاں پکڑتے تھے!

    صوبہ سندھ، بالخصوص کراچی جو ملک کا دارالخلافہ بھی رہا ہے، تقسیم سے پہلے انگریز دور میں سہولیات اور شہری انتظام و انصرام کے حوالے سے بھی بہت بہتر تھا، لیکن بعد میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ کارخانوں، بے ہنگم رہائشی تعمیرات اور سڑکوں پر بے تحاشا موٹر گاڑیوں نے اس کی آب و ہوا اور ماحول کو بڑا نقصان پہنچایا۔

    شہر میں آلودگی بڑھتی گئی جس کے مضر اثرات یہاں کی آب و ہوا، باغات، سبزہ و درختوں اور ان بے ضرر اور خوش نما حشرات پر بھی پڑے جو مختلف موسموں میں‌ نمودار ہوتے تھے۔ ان میں‌ تتلیاں اور بیربہوٹی شامل ہیں۔

    کراچی میں‌ بارش کے بعد جہاں حکومت اور انتظامیہ کو برساتی اور نکاسی آب کے بڑے نالوں کی صفائی نہ کروانے اور شہر کو برباد کر دینے کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے، وہیں کچھ بزرگ شہری ان دنوں کی یاد تازہ کررہے ہیں جب کراچی شہر کی آبادی کم تھی اور یہاں بارش کے بعد زندگی گویا کِھل اٹھتی تھی۔

    ممتاز صحافی، ادیب، مؤرخ، سیاست داں اور سفارت کار پیر علی محمد راشدی کی کتاب "کراچی کی کہانی” سے یہ لیا گیا یہ پارہ ایک ایسی برسات کی یاد دلاتا ہے جو کئی دہائیوں پہلے شہریوں کے لیے واقعی رحمت ثابت ہوتی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:

    "کراچی میں تتلیاں بھی بے تحاشا ہوتی تھیں۔ خاص طور پر برسات کے بعد۔

    ہم بچوں نے تتلیوں کو مختلف نام دیے ہوئے تھے۔ سبز اور سیاہ بادشاہ تتلی، نارنجی پروں پر سیاہ و سفید دھبے والی ملکہ تتلی، نقرئی جامنی شہزادی تتلی۔

    انعام بھائی نے ایک چھوٹا سا جالی کا ڈبہ بھی بنایا تھا جس میں وہ تتلیوں کو پکڑ کر بند کرتے۔ مجھے اور نور الصباح کو تتلیاں چُھونے کا بڑا شوق تھا۔ ہم منت سماجت کر کے ڈبے سے تتلی نکلواتے پھر فخر کے ساتھ انگلیوں پر یہ اترے رنگ ایک دوسرے کو دکھاتے۔

    بارش کے بعد میدان میں بیر بہوٹیاں امنڈ آتیں اور سب بچے ماچس کی خالی ڈبیائیں لیے بیر بہوٹیوں کو پکڑنے میں شام کر دیتے۔ پھر اپنی اپنی ڈھونڈی ہوئی بیر بہوٹیاں گنی جاتیں اور پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پر رکھی سرخ مخملی مخلوق پر انگلیاں پھیری جاتیں۔

    آج یہ بات یاد کرتے ہوئے بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں کبھی بچے تتلیاں اور بیر بہوٹیاں پکڑا کرتے تھے۔”

  • سندھ یتیم ہو گیا!

    سندھ یتیم ہو گیا!

    صوبہ سندھ، بالخصوص کراچی جو کسی زمانے میں ملک کا دارالخلافہ تھا، اس کی سیاسی اہمیت اور سماجی حالت و حیثیت نہایت شان دار اور قابلِ ذکر تھی۔

    شہر کی ممتاز اور نمایاں شخصیات اپنے قول، فعل اور کردار کی وجہ سے پہچانے جاتے، ہر جگہ عزت اور تکریم پاتے اور بڑی آن بان والے تھے۔

    ہم یہاں پیر علی محمد راشدی کی کتاب "کراچی کی کہانی” سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو اس دور کی نام ور اور باوقار شخصیات اور اس زمانے کے سیاسی و سماجی حالات کی ایک خوب صورت جھلک پیش کرتا ہے۔

    "سیاسی اعتبار سے کراچی میں سندھ کے بزرگوں کی بڑی تعداد تھی۔ ایک ہی وقت میں بڑے بڑے لوگ وہاں پیدا ہوتے رہے۔ سندھ کی سیاست کے تمام عروج و زوال وہیں پیش آتے۔ کس کس کا نام لیا جائے؟

    مسلمان، ہندو، پارسی لیڈر، سب با وقار، اعلیٰ اخلاق کے صاحبان اور اعلیٰ اصول رکھنے والے۔

    سیٹھ ہر چند رائے وِشنداس، جمشید مہتا، سر حاجی عبدالله ہارون، غلام علی چھاگلا، سیٹھ غلام حسین قاسم، واجا فقیر محمد درا خاں، میر ایوب خاں، طیّب علی علوی، حاتم علوی، خان بہادر ماما، خان بہادر ولی محمد حسن علی، بابا میر محمد بلوچ، حکیم فتح محمد سیوھانی، مولانا محمد صادق کھڈّے والے، مولانا عبدالکریم درس اور ان کے فرزند اور جانشین مولانا ظہور الحسن درس، شیخ عبد المجید سندھی، جہانگیر پنتھکی، سر جہانگیر کوٹھاری، سر کاوس جی جہانگیر، سر مونٹیگو ویب، اے ایل پرائس، خان صاحب بابو فضل الہی، محمد ہاشم گذدر، بی ٹی ٹھکّر، روپ چند بیلا رام، موتی رام عیدن مل، قاضی خدا بخش، قاضی عبدالرحمن اور دوسرے۔

    1924 کے لگ بھگ سندھ کے دیہات کے کئی سربرآوردہ بزرگوں نے بھی کراچی میں بنگلے بنوا کر زیادہ تر وہیں رہنا شروع کر دیا، مثلاً سر شاہنواز خان بھٹّو، خان بہادر محمد ایوب کھوڑو اور جی ایم سیّد۔ ان کے کراچی میں رہنے کی بدولت سندھ کے مرکزی شہر کراچی اور سندھ کے دیہات کی سوچ بچار میں خاصی موافقت نظر آنے لگی۔

    جب تک اس پائے کے بزرگوں کے ہاتھ میں سندھ کی سیاست رہی، سندھ کی شان اور مان ہی کچھ اَور تھا۔ خود ان لوگوں کا ذاتی کلچر اور بزرگی کا انداز پدرانہ اور مشفقانہ تھا۔ وہ صوبے کے تمام ماحول پر اثرانداز رہے۔

    کس کی مجال تھی کہ اخلاق سے گری ہوئی بات کرے یا سیاست میں بداخلاقی کا مظاہرہ کرے۔ غرض یہ لوگ سندھ کے جملہ معاشرے کے ستون تھے۔ میں یہ فرق بخوبی محسوس کر رہا ہوں۔ ان کی آنکھیں بند ہونے سے سندھ یتیم ہو گیا ہے، نہ کوئی روکنے ٹوکنے والا رہا نہ ہمت کر کے حق بات کہنے والا۔