Tag: کرنل محمد خان

  • معروف مزاح نگار کرنل محمد خان کا تذکرہ

    معروف مزاح نگار کرنل محمد خان کا تذکرہ

    اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں کرنل محمد خان نے اپنی تخلیق کو جس طرح ظ‌رافت کے ساتھ افادی بنایا ہے، وہ بہت مزاح نگار کرسکے ہیں۔ ان کا فن محض وقت گزاری کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ وہ ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ آج کرنل محمد خان کی برسی ہے۔

    کرنل محمد خان کے اسلوب کی خصوصیات اس کی خیال آفرینی، فکر انگیزی اور لطافت و شگفتگی ہے جو مزاح نگاری میں ان کا امتیازی وصف بھی ہے۔ کرنل محمد خان کی ادبی شہرت کا سفر ان کی ایک تصنیف بجنگ آمد سے شروع ہوا جو قارئین میں بہت مقبول ہوئی۔ اردو زبان کے اس معروف مزاح نگار نے 23 اکتوبر 1999 کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    متحدہ ہندوستان کے ضلع چکوال کے چھوٹے سے علاقے بلکسر میں پیدا ہونے والے کرنل محمد خان کا سنہ پیدائش 1910 ہے۔ 1966 میں کی پہلی تصنیف بجنگ آمد کی اشاعت ہوئی تھی۔ اس کتاب کی مقبولیت کے بعد کرنل محمد خان نے اپنے قارئین کو مزید دو کتابیں بسلامت روی اور بزم آرائیاں پڑھنے کو دیں۔ کرنل محمد خان کی ایک کتاب تراجم پر مشتمل تھی جو بدیسی مزاح کے نام سے منظرِ‌عام پر آئی۔

    کرنل محمد خان تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانوی فوج سے وابستہ ہوگئے اور بجنگ آمد اسی زمانے کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے مزاح کے پیرائے میں سوانح رقم کی اور یہ کتاب فوج میں اُن کی شمولیت اور مختلف واقعات کے علاوہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران پیدا ہونے والی صورتِ حال اور مصنّف کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا پُر لطف بیان ہے۔ یہ کتاب ان کے زورِ قلم کی عمدہ مثال ہے۔ اس کتاب میں کرنل محمد خان نے چھٹیوں‌ پر اپنے گاؤں لوٹنے پر اپنے استقبال اور اپنی والدہ سے بولے گئے ایک جھوٹ کو نہایت پُراثر انداز میں کچھ یوں‌ بیان کیا ہے۔

    ”خبر مشہور ہو گئی کہ کپتان آگیا ہے، محمد خان آگیا ہے۔ کتنا دبلا پتلا تھا، اب دیکھو کیسا جوان نکلا ہے، صاحب بن گیا ہے، “سرگٹ” بھی پیتا ہے، مسکوٹ میں کھانا کھاتا ہے، نوکری پہرہ بھی معاف ہے۔

    گاؤں کے چھوٹے بڑے کام چھوڑ کر ملاقات کو آنے لگے۔ ہم نے پہلے دو دن میں کوئی ایک ہزار معانقے کیے ہوں گے اور بس اتنی ہی ہمارے گاؤں کی مردانہ آبادی تھی۔ چھاتی دکھنے لگی، لیکن دل کو ایک عجیب سکھ حاصل ہوا۔ مہینے بھر میں صرف چند روز اپنے گھر کھانا کھایا اور وہ بھی والدہ کے اصرار پر کہ مجھے اپنے بیٹے کو جی بھر کر دیکھ لینے دو اور بہت دیر دیکھ چکیں تو وہ کچھ کہا جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے۔

    “بیٹا اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو نا؟”

    میں والدہ کو دیکھتا اور سوچتا کہ اگر اس پیکرِ محبت کا وجود نہ ہوتا تو کیا مجھے وطن واپسی کا یہی اشتیاق ہوتا؟ بغیر کسی جھجک کے جواب دیا۔

    “جی ہاں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں۔” اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی۔

    ویسے سچ یہ تھا کہ ایک آدھ نہیں بلکہ ایک لاکھ چھوڑ کر بھی ہمیں اپنے ماتحت ڈھونڈنے کے لیے چراغ بلکہ سرچ لائٹ کی ضرورت تھی، لیکن وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟“

    کرنل محمد خان قیامِ پاکستان کے بعد پاک فوج سے منسلک رہے، وہ شعبۂ تعلیم میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے اور اسی عہدے سے ریٹائر‌ ہوئے۔

    بطور مزاح نگار کرنل محمد خان نے طنز سے معاشرتی ناہمواریوں کو نشانہ بنایا ہے، مگر ان کا وصف یہ ہے کہ وہ زندگی کو بالعموم خندہ پیشانی سے دیکھتے ہیں اور ناہمواریوں کو بھی خوش مزاجی سے قبول کرتے ہیں۔ کرنل محمد خان نے سفر نامے بھی لکھے اور اس میں بھی وہ اشیا اور مظاہر کو شوخ و شنگ نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے سفر کی روداد کو انشائی لطافت سے پیش کرتے ہیں۔

  • اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب میں‌ اعتماد کی کمی تھی!

    اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب میں‌ اعتماد کی کمی تھی!

    رضیہ ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں کیا فتنہ گرِ قد و گیسو تھی۔ پہلی نگاہ پر ہی محسوس ہوا کہ initiative ہمارے ہاتھ سے نکل کر فریقِ مخالف کے پاس چلا گیا ہے۔

    یہی وجہ تھی کہ پہلا سوال بھی ادھر سے ہی آیا: "تو آپ ہیں ہمارے نئے نویلے ٹیوٹر؟” اب اس شوخ سوال کا جواب تو یہ تھا کہ "تو آپ ہیں ہماری نئی نویلی شاگرد؟” لیکن سچّی بات یہ ہے کہ حسن کی سرکار میں ہماری شوخی ایک لمحے کے لیے ماند پڑ گئی اور ہمارے منہ سے ایک بے جان سا جواب نکلا:

    ” جی ہاں، نیا تو ہوں، ٹیوٹر نہیں ہوں۔ مولوی صاحب کی جگہ آیا ہوں۔”

    "اس سے آپ کی ٹیوٹری میں کیا فرق پڑتا ہے؟”

    "یہی کہ عارضی ہوں۔”

    "تو عارضی ٹیوٹر صاحب۔ ہمیں ذرا اس مصیبت سے نجات دلا دیں۔” رضیہ کا اشارہ دیوانِ غالب کی طرف تھا۔ میں نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا: "آپ دیوانِ غالب کو مصیبت کہتی ہیں؟”

    "جی ہاں! اور خود غالب کو بھی۔”

    "میں پوچھ سکتا ہوں کہ غالب پر یہ عتاب کیوں؟”

    "آپ ذرا آسان اردو بولیے۔ عتاب کسے کہتے ہیں؟”

    "عتاب غصّے کو کہتے ہیں۔”

    "غصّہ؟ ہاں غصّہ اس لیے کہ غالب صاحب کا لکھا تو شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے۔ پھر خدا جانے پورا دیوان کیوں لکھ مارا؟”

    "اس لیے کہ لوگ پڑھ کر لذّت اور سرور حاصل کریں۔”

    "نہیں جناب۔ اس لیے کہ ہر سال سیکڑوں لڑکیاں اردو میں فیل ہوں۔”

    "محترمہ۔ میری دل چسپی فقط ایک لڑکی میں ہے، فرمائیے آپ کا سبق کس غزل پر ہے؟” جواب میں رضیہ نے ایک غزل کے پہلے مصرع پر انگلی رکھ دی، لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں نے دیکھا تو غالب کی مشہور غزل تھی۔

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

    میں نے کہا، "یہ تو بڑی لاجواب غزل ہے، ذرا پڑھیے تو۔”

    "میرا خیال ہے آپ ہی پڑھیں۔ میرے پڑھنے سے اس کی لاجوابی پر کوئی ناگوار اثر نہ پڑے۔” مجھے محسوس ہوا کہ ولایت کی پڑھی ہوئی رضیہ صاحبہ باتونی بھی ہیں اور ذہین بھی لیکن اردو پڑھنے میں غالباً اناڑی ہی ہیں۔

    میں نے کہا، "میرے پڑھنے سے آپ کا بھلا نہ ہوگا۔ آپ ہی پڑھیں کہ تلفظ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔”

    رضیہ نے پڑھنا شروع کیا اور سچ مچ جیسے پہلی جماعت کا بچّہ پڑھتا ہے۔

    ” یہ نہ تھی ہماری قس مت کہ وصل۔۔۔۔” میں نے ٹوک کر کہا۔

    "یہ وصل نہیں وصال ہے، وصل تو سیٹی کو کہتے ہیں۔”

    رضیہ نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہم ذرا مسکرائے اور ہمارا اعتماد بحال ہونے لگا۔

    رضیہ بولی: "اچھا۔ وصال سہی۔ وصال کے معنی کیا ہوتے ہیں؟”

    "وصال کے معنی ہوتے ہیں ملاقات، محبوب سے ملاقات۔ آپ پھر مصرع پڑھیں۔” رضیہ نے دوبارہ مصرع پڑھا۔ پہلے سے ذرا بہتر تھا لیکن وصال اور یار کو اضافت کے بغیر الگ الگ پڑھا۔ اس پر ہم نے ٹوکا۔

    "وصال یار نہیں وصالِ یار ہے۔ درمیان میں اضافت ہے۔”

    "اضافت کیا ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے؟”

    "یہ جو چھوٹی سی زیر نظر آرہی ہے نا آپ کو، اسی کو اضافت کہتے ہیں۔”

    "تو سیدھا سادہ وصالے یار کیوں نہیں لکھ دیتے؟”

    "اس لیے کہ وہ علما کے نزدیک غلط ہے۔” یہ ہم نے کسی قدر رعب سے کہا۔

    علما کا وصال سے کیا تعلق ہے؟”

    "علما کا تعلق وصال سے نہیں زیر سے ہے۔”

    "اچھا جانے دیں علما کو۔ مطلب کیا ہوا؟”

    "شاعر کہتا ہے کہ یہ میری قسمت ہی میں نہ تھا کہ یار سے وصال ہوتا۔”

    "قسمت کو تو غالب صاحب درمیان میں یونہی گھسیٹ لائے، مطلب یہ کہ بے چارے کو وصال نصیب نہ ہوا۔”

    "جی ہاں کچھ ایسی ہی بات تھی۔”

    "کیا وجہ؟”

    "میں کیا کہہ سکتا ہوں؟”

    "کیوں نہیں کہہ سکتے۔ آپ ٹیوٹر جو ہیں۔”

    "شاعر خود خاموش ہے۔”

    "تو شاعر نے وجہ نہیں بتائی مگر یہ خوش خبری سنادی کہ وصال میں فیل ہوگئے؟”

    ” جی ہاں فی الحال تو یہی ہے۔ آگے پڑھیں۔” رضیہ نے اگلا مصرع پڑھا۔ ذرا اٹک اٹک کر مگر ٹھیک پڑھا:

    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    میں نے رضیہ کی دل جوئی کے لیے ذرا سرپرستانہ انداز میں کہا، "شاباش، آپ نے بہت اچھا پڑھا ہے۔”

    "اس شاباش کو تو میں ذرا بعد میں فریم کراؤں گی۔ اس وقت ذرا شعر کے پورے معنیٰ بتا دیں۔” ہم نے رضیہ کا طنز برداشت کرتے ہوئے کہا۔

    "مطلب صاف ہے، غالب کہتا ہے قسمت میں محبوبہ سے وصال لکھا ہی نہ تھا۔ چنانچہ اب موت قریب ہے مگر جیتا بھی رہتا تو وصال کے انتظار میں عمر کٹ جاتی۔”

    ” توبہ اللہ، اتنا Lack of confidence، یہ غالب اتنے ہی گئے گزرے تھےِ؟”

    گئے گزرے؟ نہیں تو۔۔۔غالب ایک عظیم شاعر تھے۔”

    "شاعر تو جیسے تھے، سو تھے لیکن محبت کے معاملے میں گھسیارے ہی نکلے”

    (ممتاز مزاح نگار کرنل محمد خان کے قلم سے)

  • اردو کے نام وَر مزاح نگار کرنل محمد خان کی برسی

    اردو کے نام وَر مزاح نگار کرنل محمد خان کی برسی

    آج اردو زبان کے معروف مزاح نگار کرنل محمد خان کا یومِ وفات ہے۔ 23 اکتوبر 1999 کو اس دنیا سے رخصت ہونے والے کرنل محمد خان کی ادبی شہرت کا سفر ان کی ایک تصنیف بجنگ آمد سے شروع ہوا جو قارئین میں بہت مقبول ہوئی۔

    کرنل محمد خان متحدہ ہندوستان کے ضلع چکوال کے چھوٹے سے علاقے بلکسر میں پیدا ہوئے۔ ان کی تاریخِ پیدائش 5 اگست 1910 ہے۔ 1966 میں انھوں نے اپنی پہلی تصنیف بجنگ آمد کی اشاعت سے خود کو مزاح نگاری کے میدان میں متعارف کروایا۔ بعد کے برسوں میں قارئین نے ان کی مزید دو کتابیں بسلامت روی اور بزم آرائیاں پڑھیں۔ کرنل محمد خان کی تراجم پر مشتمل ایک کتاب بدیسی مزاح کے نام سے منظرِ‌عام پر آئی۔

    وہ برطانوی فوج سے وابستہ رہے اور بجنگ آمد اسی زمانے کی مزاح کے پیرائے میں لکھی ایک سوانح ہے جس میں انھوں نے اپنی فوج میں شمولیت اور مختلف واقعات کو بیان کرتے ہوئے دوسری جنگِ عظیم کے دوران بیتے واقعات اور اس وقت کے حالات کو پُر لطف انداز میں رقم کیا ہے۔ یہ کتاب ان کے زورِ قلم کی عمدہ مثال ہے جس میں انھوں نے چھٹیوں‌ پر اپنے گاؤں لوٹنے پر اپنے استقبال اور اپنی والدہ سے بولے گئے ایک جھوٹ کو کچھ یوں‌ بیان کیا ہے۔

    ”خبر مشہور ہو گئی کہ کپتان آگیا ہے، محمد خان آگیا ہے۔ کتنا دبلا پتلا تھا، اب دیکھو کیسا جوان نکلا ہے، صاحب بن گیا ہے، “سرگٹ” بھی پیتا ہے، مسکوٹ میں کھانا کھاتا ہے، نوکری پہرہ بھی معاف ہے۔

    گاؤں کے چھوٹے بڑے کام چھوڑ کر ملاقات کو آنے لگے۔ ہم نے پہلے دو دن میں کوئی ایک ہزار معانقے کیے ہوں گے اور بس اتنی ہی ہمارے گاؤں کی مردانہ آبادی تھی۔ چھاتی دکھنے لگی، لیکن دل کو ایک عجیب سکھ حاصل ہوا۔ مہینے بھر میں صرف چند روز اپنے گھر کھانا کھایا اور وہ بھی والدہ کے اصرار پر کہ مجھے اپنے بیٹے کو جی بھر کر دیکھ لینے دو اور بہت دیر دیکھ چکیں تو وہ کچھ کہا جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے۔

    “بیٹا اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو ناں؟”

    میں والدہ کو دیکھتا اور سوچتا کہ اگر اس پیکرِ محبت کا وجود نہ ہوتا تو کیا مجھے وطن واپسی کا یہی اشتیاق ہوتا؟ بغیر کسی جھجک کے جواب دیا۔

    “جی ہاں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں۔” اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی۔

    ویسے سچ یہ تھا کہ ایک آدھ نہیں بلکہ ایک لاکھ چھوڑ کر بھی ہمیں اپنے ماتحت ڈھونڈنے کے لیے چراغ بلکہ سرچ لائٹ کی ضرورت تھی، لیکن وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟“

    کرنل محمد خان قیامِ پاکستان کے بعد ریٹائرمنٹ تک پاک فوج سے منسلک رہے، وہ شعبۂ تعلیم میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔

  • وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟

    وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟

    گاڑی لاہور کے اسٹیشن پر رکی اور میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو ہمیں وہی کالج کے دنوں کے مانوس در و دیوار نظر آئے۔ وہی رس بھری پنجابی آوازیں کانوں میں پڑیں اور وہی بھاگ بھری قمیصیں اور شلواریں دکھائی دیں۔ ایک غیبی طاقت نے ہمیں لاہور اترنے پر مجبور کر دیا۔

    اسٹیشن سے نکل کر پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ لاہور کے گلی کوچوں میں پیدل چلنا بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔ ہم چوبیس گھنٹے لاہور ٹھہرے، ٹھہرے کیا اپنے آپ کو لاہور کے سپرد کر دیا اور یوں محسوس ہوا جیسے ہوائے لاہور ہماری سہ سالہ اجنبیت کو دھو کر ہماری باضابطہ تطہیر کررہی ہے۔

    دوسرے روز گھر پہنچے تو چھوٹوں کو بڑا پایا اور بڑوں کو اور بڑا، لیکن گاؤں کی بڑی خبر یہ نہ تھی کہ ہم نے انھیں کیسا پایا بلکہ یہ کہ ہم خود کیسے پائے گئے۔

    خبر مشہور ہو گئی کہ کپتان آگیا ہے، محمد خان آگیا ہے۔ کتنا دبلا پتلا تھا، اب دیکھو کیسا جوان نکلا ہے، صاحب بن گیا ہے، "سرگٹ” بھی پیتا ہے،
    مسکوٹ میں کھانا کھاتا ہے، نوکری پہرہ بھی معاف ہے۔

    گاؤں کے چھوٹے بڑے کام چھوڑ کر ملاقات کو آنے لگے۔ ہم نے پہلے دو دن میں کوئی ایک ہزار معانقے کیے ہوں گے اور بس اتنی ہی ہمارے گاؤں کی مردانہ آبادی تھی۔ چھاتی دکھنے لگی، لیکن دل کو ایک عجیب سکھ حاصل ہوا۔ مہینے بھر میں صرف چند روز اپنے گھر کھانا کھایا اور وہ بھی والدہ کے اصرار پر کہ مجھے اپنے بیٹے کو جی بھر کر دیکھ لینے دو اور بہت دیر دیکھ چکیں تو وہ کچھ کہا جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے۔

    "بیٹا اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو ناں؟”

    میں والدہ کو دیکھتا اور سوچتا کہ اگر اس پیکرِ محبت کا وجود نہ ہوتا تو کیا مجھے وطن واپسی کا یہی اشتیاق ہوتا؟ بغیر کسی جھجک کے جواب دیا۔

    "جی ہاں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں۔” اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی۔

    ویسے سچ یہ تھا کہ ایک آدھ نہیں بلکہ ایک لاکھ چھوڑ کر بھی ہمیں اپنے ماتحت ڈھونڈنے کے لیے چراغ بلکہ سرچ لائٹ کی ضرورت تھی، لیکن وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟

    (کرنل محمد خان کی کتاب بجنگ آمد سے اقتباس)