Tag: کرونا انفیکشن

  • کرونا انفیکشن: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صحت سے متعلق اچھی خبر

    کرونا انفیکشن: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صحت سے متعلق اچھی خبر

    اسلام آباد: بھارتی ڈیلٹا وائرس کے شکار سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طبیعت سنبھل گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پولی کلینک اسپتال کے ذرائع نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آکسیجن سیچوریشن لیول نارمل ہو گیا ہے، ڈاکٹرز نے ان سے کہا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو گھر جا سکتے ہیں۔

    تاہم ڈاکٹرز کے مشورے کے باوجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کچھ وقت اسپتال میں رہنے پر اصرار کیا ہے۔

    یاد رہے کہ 26 جولائی کو کرونا وائرس کی بھارتی قسم سے متاثر ہونے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کی طبعیت بتدریج بہتر ہو گئی تھی، دونوں کے ٹیسٹ رپورٹس بھی نارمل تھے، بتایا گیا تھا کہ ویکسینیشن کی وجہ سے وہ کرونا وائرس سے زیادہ متاثر نہیں ہو سکے تھے۔

    کرونا کی ڈیلٹا قسم سے متاثر ہونے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ‌ اسپتال منتقل

    تاہم 31 جولائی کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ڈاکٹرز کی ہدایت پر اہل خانہ نے اسپتال منتقل کر دیا تھا، اس ایک روز قبل ان کا سٹی اسکین کیا گیا تھا، جس کی رپورٹ کو ڈاکٹرز نے تسلی بخش قرار نہیں دیا۔

    اس سے قبل کرونا میں مبتلا ہونے کے بعد سے اُن کا اور اہلیہ کا گھر پر ہی علاج جاری تھا، ڈاکٹرز اور پاک فوج کے سینئر ترین ڈاکٹر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا معائنہ کیا اور انھیں اسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی تھی۔

  • کرونا انفیکشن کی شدت اور انسانی جینز میں کیا تعلق ہے؟ بڑی تحقیق کے نتائج سامنے آ گئے

    کرونا انفیکشن کی شدت اور انسانی جینز میں کیا تعلق ہے؟ بڑی تحقیق کے نتائج سامنے آ گئے

    ہلسنکی: کرونا وائرس کی وبا کے آغاز ہی سے دنیا بھر سے ہزاروں سائنس دانوں پر مشتمل ایک ٹیم نے اس اہم ترین سوال کا جواب تلاش کرنا شروع کر دیا تھا کہ بعض مریضوں میں کووِڈ 19 شدید اور جان لیوا انفیکشن کیوں پیدا کرتا ہے، جب کہ دیگر لوگوں میں معمولی علامات ہی نمودار ہو پاتی ہیں، اور اس سلسلے میں کون سے جینیاتی عوامل کارفرما ہیں۔

    مارچ 2020 میں اکھٹے ہونے والے سائنس دانوں نے ایک نہایت جامع خلاصہ جریدے نیچر میں شایع کیا ہے، جس میں انسانی جینوم میں ایسے 13 مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے، جو قوی طور پر شدید کرونا انفیکشن کے ساتھ جڑے ہیں۔

    محققین نے اس سلسلے میں کچھ عمومی عوامل کی بھی نشان دہی کی ہے، جیسا کہ سگریٹ نوشی اور موٹاپا۔ یہ نتائج اب تک کی سب سے بڑی جینوم تحقیقات کے بعد سامنے آئے ہیں، جس میں تقریباً 50 ہزار کرونا مریضوں اور 20 لاکھ غیر انفیکٹڈ افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    یہ عالمی کوشش ’کووِڈ نائٹین ہوسٹ جینیٹکس انیشیئٹیو‘ مارچ 2020 میں اینڈریا گانا نے قائم کی تھی، جو کہ فن لینڈ مالیکیولر میڈیسن انسٹیٹیوٹ کے گروپ لیڈر ہیں، ان کے ساتھ اس ادارے کے ڈائریکٹر مارک ڈیلی بھی ہمراہ تھے، یہ آج انسانی جینیٹکس کا سب سے وسیع ترین اشتراک ہے، جس میں فی الوقت 25 ممالک سے 3 ہزار 300 مصنفین شامل ہیں اور 61 مطالعہ جات ہو چکی ہیں۔

    اس تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ انسانی جینز کووِڈ 19 کی شدت میں کردار ادا کرتے ہیں، اس سے قبل بیماری کی شدت بڑھنے والے متعدد عناصر کی نشان دہی کی گئی تھی، جیسا کہ عمر، جنس، طرز زندگی وغیرہ۔

    اس تحقیق میں مشرقی ایشیائی یا جنوبی ایشیائی افراد میں جنیوم میں 2 لوکیشنز کو یورپی افراد کے مقابلے میں زیادہ عام دریافت کیا گیا، تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جینز کا ایک دوسرے سے ملنا کووِڈ نائنٹین کی سنگین شدت اور دیگر امراض کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

    مثال کے طور پر ایک جین ڈی پی پی 9 کو کووِڈ نائنٹین کی سنگین شدت سے منسلک کیا گیا ہے، جس کو پہلے پھیپھڑوں کے کینسر اور پھیپھڑوں کے دیگر امراض کا حصہ بھی بتایا گیا تھا، اسی طرح ’ٹی وائے کے 2‘ نامی جین جو کچھ آٹو امیون امراض پر اثرانداز ہوتا ہے، کو بھی کووِڈ 19 کی سنگین شدت کا باعث دیکھا گیا۔

    ایک اور جینیاتی مقام اے بی او تھا، جو کسی فرد میں خون کے گروپ کا تعین کرتا ہے اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وہ بیماری سے متاثر ہونے کا خطرہ 9 سے 12 فی صد تک بڑھا دیتا ہے۔ اس سے ان تحقیقی رپورٹس کو تقویت ملتی ہے جن میں خون کے مخصوص گروپس اور کووِڈ 19 سے متاثر ہونے کے خطرے کے درمیان تعلق کا ذکر کیا گیا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ صرف وائرل جینوم نہیں بلکہ انسانی جینوم بھی اہمیت رکھتا ہے، یہ واضح ہے کہ جینز کووِڈ نائنٹین کی شدت میں ایک کردار ادا کرتے ہیں اور یہ خطرہ بڑھانے والے متعدد عناصر میں سے ایک ہے۔ اس تحقیق پر ابھی بھی کام جاری ہے اور بہت کچھ دریافت کیا جانا باقی ہے۔

    اب محققین یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر کووِڈ نائنٹین کو شکست دینے والے کچھ افراد مہینوں تک طویل المیعاد علامات کا سامنا کیوں کرتے ہیں۔

  • کرونا کو شکست دینے والے جوان افراد سے متعلق نیا انکشاف

    کرونا کو شکست دینے والے جوان افراد سے متعلق نیا انکشاف

    نیویارک: امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں یہ بات واضح طور پر سامنے آ گئی ہے کہ کرونا وائرس کو شکست دینے والے جوان افراد ایک بار پھر اس وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک نئی طبی تحقیق میں معلوم ہوا کہ اگرچہ کرونا وائرس کے مریضوں میں اینٹی باڈیز بن جاتے ہیں جو آئندہ بیماری سے تحفظ فراہم کرتے ہیں، تاہم اس کے باوجود جوان افراد کو اس سے مکمل تحفظ نہیں ملتا، محققین کا کہنا ہے کہ جوان افراد کرونا وائرس سے دوبارہ بیمار ہو سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق نیویارک سٹی کے اسپتال ماؤنٹ سِنائی میں 3 ہزار سے زیادہ صحت مند جوان میرین اہل کاروں پر کی گئی، اور اس کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شایع کیے گئے، نتائج سے معلوم ہوا کہ کو وِڈ ری انفیکشن جوان افراد میں عام ہے، یعنی ایک بار کرونا سے صحت یاب ہونے کے باوجود انھیں دوبارہ انفیکشن ہو سکتا ہے۔

    محققین نے ان نتائج کے تناظر میں جوان افراد کی ویکسی نیشن کو بہت ضروری قرار دیا، کیوں کہ اس سے مدافعتی رد عمل زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور وائرس کی آگے منتقلی کی شرح کم ہو جاتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ کرونا سے محفوظ لوگوں میں اس سے متاثر ہونے کا خطرہ ایک بار کرونا سے متاثرہ لوگوں کے مقابلے 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے 3 ہزار 249 مردوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 18 سے 20 سال کے درمیان تھیں، تحقیق کے دورانیے میں 1 ہزار 98 افراد (یعنی 45 فی صد) میں پہلی بار کو وِڈ کی تشخیص ہوئی جب کہ 10 فی صد میں دوسری بار بیماری کی تشخیص ہوئی۔

    تحقیق میں معلوم ہوا کہ جن افراد کو دوبارہ بیماری لاحق ہوئی، ان میں کرونا وائرس کے خلاف متحرک ہونے والی اینٹی باڈیز کی سطح کم تھی، تاہم پہلی بار بیمار ہونے والوں کے برعکس ان میں وائرل لوڈ اوسطاً 10 گنا کم تھا، اور زیادہ تر ایسے افراد میں کرونا کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔