Tag: کرونا وائرس ویکسین

  • آکسفورڈ یونی ورسٹی کی کرونا ویکسین سے متعلق بڑی خوش خبری

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کی کرونا ویکسین سے متعلق بڑی خوش خبری

    لندن: برطانیہ کی آکسفورڈ یونی ورسٹی کی کرونا ویکسین آئندہ ماہ تیار ہونے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی فارماسیوٹیکل کمپنی آسٹرا زینیکا کے چیف ایگزیکٹو پاسکل سوریئٹ نے ایک انٹرویو میں خوش خبری دی ہے کہ کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے ان کی ویکسین اگلے ماہ تک تیار ہو سکتی ہے۔

    انھوں نے کہا آسٹرا زینیکا کی کرونا وائرس ویکسین دسمبر کے آخر تک استعمال کے لیے تیار ہوگی، اس کے لیے ریگولیٹری منظوری کا انتظار کیا جا رہا ہے، ریگولیٹری حکام ہمارے ڈیٹا پر مسلسل کام کر رہے ہیں۔

    پاسکل سوریئٹ نے سوئیڈن کے ایک اخبار کو انٹرویو میں کہا جب ہم تیار ہوجائیں اور حکام اس پر تیزی سے کام کریں تو جنوری یا دسمبر ہی کے اختتام پر ممکنہ طور پر ہم لوگوں کی ویکسی نیشن شروع کر دیں گے۔

    واضح رہے کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی اور آسٹرا زینیکا کی اس ویکسین کو کرونا وائرس کے علاج کے لیے چند بہترین کوششوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔

    کیا عام سے دوا سے کرونا وائرس کا علاج ممکن ؟

    آسٹرا زینیکا کے سی ای او نے کہا کہ شاید ہم اس ویکسین سے کبھی بھی پیسا نہ کما سکیں، کیوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ آپ کو کتنی بار ویکسین لگانے کی ضرورت پڑے گی، اگر یہ بہت مؤثر ہوئی اور لوگوں کو کئی برس تک تحفظ ملا اور اس دوران بیماری ہی غائب ہو گئی تو پھر کرونا ویکسین کی کوئی مارکیٹ نہیں ہوگی۔

    کرونا ویکسین سے آمدنی کے حوالے سے پاسکل سوریئٹ نے مزید کہا کہ اکثر ماہرین سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو ویکسین کی دوبارہ ضرورت ہوگی، اگر ایسا سالانہ بنیادوں پر ہوا تو ہم اس سے 2022 میں آمدنی حاصل کرنا شروع کریں گے، لیکن ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ویکسین واقعی کام کرتی ہے۔

    کیا سردیوں میں کرونا وائرس زیادہ خطرناک ہو جائے گا؟

    یاد رہے کہ اس ویکسین کی انسانوں پر آزمائش اپریل میں شروع ہوئی تھی، ستمبر میں ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوئی تھی، اس دوران ٹرائل میں شریک ایک شخص کو صحت کا کوئی مسئلہ لاحق ہونے پر ٹرائل کو عارضی طور پر روک دیا گیا تھا تاہم اس کے بعد اسے پھر سے شروع کیا گیا۔

    اس ویکسین کے لیے یورپی یونین، امریکا، برطانیہ، جاپان اور برازیل نے دوا ساز کمپنی کے ساتھ معاہدے کیے ہیں، چین میں اس ویکسین کے استعمال کی منظوری 2021 کے وسط میں دیے جانے کا امکان ہے۔

    یہ بھی یاد رہے کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی کی جانب سے دنیا بھر میں اپنی ویکسین فی ڈوز 3 ڈالرز میں فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

  • اقوام متحدہ نے کرونا ویکسین کے حوالے سے خبردار کر دیا

    اقوام متحدہ نے کرونا ویکسین کے حوالے سے خبردار کر دیا

    نیویارک: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کر دیا ہے کہ فی الوقت کرونا وائرس کی کوئی ویکسین نہیں ہے، ہمیں اس دوران ایک اہم سبق لینے کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یو این سیکریٹری جنرل نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فی الوقت کرونا وائرس کی کوئی ویکسین نہیں ہے تاہم ویکسین کی تیاری کی کوششیں جاری ہیں، ہمیں ویکسین کی تیاری کے دوران ایک سبق سمجھنے کی ضرورت ہے۔

    انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ صرف ویکسین کی تیاری بذات خود کرونا کے خلاف کافی نہیں ہے، ویکسین کی تیاری کے عمل کے دوران ہمیں عالمی یک جہتی کی بھی ضرورت ہے، عالمی یک جہتی ہی سے یہ یقینی ہو سکے گا کہ ہر فرد اور جگہ تک ویکسین کی رسائی ہے۔

    کروناوائرس: اقوام متحدہ نے ایک اور بڑے خطرے کا امکان ظاہر کردیا

    اس سے قبل یو این سیکریٹری جنرل نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بھی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وبا سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر قیادت کا فقدان نظر آیا، ہر ملک کی الگ پالیسی کرونا کے پھیلاؤ کی وجہ بنی۔ انھوں نے کہا کہ وبا سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات مل کر کرنے چاہیے تھے وہ نہیں کیے جا سکے۔

    دوسری طرف اقوام متحدہ نے وبا سے جڑے کئی اور خطروں سے بھی آگاہ کر دیا ہے، گزشتہ ماہ اقوام متحدہ نے تمام ممالک کے حکمرانوں کو خبردار کیا تھا کہ کرونا وائرس سے مستقبل میں مزید سنگین نتائج کے امکانات ہیں، کئی مقامات پر قحط بھی پڑ سکتا ہے، اس لیے مؤثر اقدامات نہ ہوئے تو مختلف علاقوں میں بھوک اور افلاس پھیل سکتی ہے۔

  • سائنس دانوں نے کرونا ویکسین کی تحقیق پر سوال اٹھا دیے

    سائنس دانوں نے کرونا ویکسین کی تحقیق پر سوال اٹھا دیے

    آکسفورڈ: برطانیہ میں کرونا ویکسین کی تیاری کے سلسے میں سائنس دانوں نے جاری تحقیق پر سوال اٹھا دیے ہیں۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ماہرین نے کرونا ویکسین کے تناظر میں اس خدشے کا اظہار کر دیا ہے کہ کو وِڈ نائنٹین اس قسم کا وائرس ہے کہ اس کا پھیلاؤ روکنا دشوار لگتا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ بندروں پر ویکسین کی آزمائش جزوی طور پر کامیاب ہوئی ہے، اور ویکسین آزمائش کے بعد بھی کچھ بندر دوبارہ کرونا کا شکار ہو گئے، اس تحقیق کے مطابق ویکسین سے وائرس کا پھیلاؤ روکنا دشوار ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ویکسین پر خدشات ظاہر کرنے والوں میں اہم اور نامور برطانوی سائنس دان شامل ہیں، دوسری طرف برطانوی حکومت نے ویکسین کی تیاری کے لیے لاکھوں پاؤنڈز مختص کیے ہیں، تاہم آکسفورڈ یونی ورسٹی کا کہنا ہے کہ ویکسین کی انسانی آزمائش کا مرحلہ کامیابی سے جاری ہے۔

    کرونا وائرس: وہ دوا جو ویکسین کا کام بھی کر سکتی ہے

    واضح رہے کہ چین، یورپ اور امریکا میں کرونا ویکسین سے جان چھڑانے کے لیے مؤثر ویکسین کی تیاریوں پر تیزی سے کام جاری ہے، اس سلسلے میں اربوں ڈالرز کے فنڈ مختص کیے گئے ہیں، لیکن عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے واضح طور پر کہا ہے کہ ایسی مؤثر ویکسین جو کرونا وائرس کو یقینی طور پر روک سکے، جلد تیار نہیں ہو سکتی، کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

    دوسری طرف چین میں کرونا وائرس کے خلاف ایسی دوا کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے جو نہ صرف مریضوں کو صحت یاب کرے گی بلکہ ویکسین کی طرح کام کر کے انھیں وائرس کے آیندہ حملے سے بھی تحفظ دے گی۔

  • کرونا وائرس ویکسین کس طرح کام کرے گی؟ اہم معلومات

    کرونا وائرس ویکسین کس طرح کام کرے گی؟ اہم معلومات

    نیویارک: ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کرونا کا خاتمہ ویکسین سے ہی ممکن ہے، سائنس دانوں اور ماہرین صحت نے ویکسین کی تین اقسام بتائی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق 2019 کے اختتام میں شروع ہونے والی کرونا وائرس کی وبا پوری دنیا میں تباہی مچا رہی ہے اور اب تک اس کے علاج کے لیے کوئی موثر ویکسین نہیں بنائی جا سکی۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کرونا کا خاتمہ ویکسین سے ہی ممکن ہے، ماہرین کرونا سے مقابلہ کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔سائنس دانوں اور ماہرین صحت نے نہ صرف یہ بتایا ہے کہ ویکسین کی کتنی اقسام ہیں بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ یہ کام کس طرح کرتی ہیں۔

    براہ راست ویکسین (Live vaccine)

    غیر فعال ویکسین (Inactivated vaccine)

    ڈی این اے یا ایم آر این اے ویکسین (Gene-based vaccine)

    براہ راست ویکسین:

    براہ راست ویکسین کا نقطہ آغاز ایک عام ویکسین پر مبنی وائرس ہے، یہ بیماری کا باعث نہیں بنتا لیکن ہمارے جسم کے خلیوں میں کئی گنا بڑھ سکتا ہے، یہ ویکٹر ہے جو مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے اور اس ویکسین پر مبنی وائرس کو جسم میں داخل کر کے بڑے وائرس یا معتدی امراض کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

    غیر فعال ویکسین:

    ان میں منتخب وائرل پروٹین یا غیر فعال وائرس ہوتے ہیں یہ روگجن وائرس پر مبنی ویکسین ہیں جو مردہ ہوتے ہیں، مردہ وائرس جسم میں زیادہ نہیں بڑھ سکتے۔جسمانی دفاعی نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اینٹی باڈیز ویکسین تیار کی جائیں۔ ایسی ویکسین حاصل کرنے والا فرد بیماری کو فروغ نہیں دیتا۔ یہ ویکسین پہلے سے ہی انفلوئنزا، پولیو، کھانسی، ہیپاٹائٹس بی اور تشنج جسی بیماری کے خلاف استعمال ہوئی ہے۔

    جین پر مبی ویکسین:

    جین پر مبنی ویکسین میں کرونا وائرس ڈی این این اے یا ایم آر این اے کی شکل میں خالص جینیاتی معلومات موجود ہے، اس طریقہ کار میں پیتھوجین سے جینیاتی معلومات کے الگ الگ حصوں کو نینو پارٹیکلز میں باندھ کر خلیوں میں داخل کیا جاتا ہے، ایک بار یہ جسم میں لگ جاتی ہے تو مدافعتی تحفظ کو مضبوط بناتی ہے۔

    واضح رہے کہ ان تمام ویکسینز کا ابتدائی مرحلے میں اب بھی تجربہ کیا جا رہاے ہے، پہلی اور واحد ویکسین جس کو فیز 1 کی منظوری ملی ہے وہ جرمنی میں تیار کردہ ایک ایم آر این اے ویکسین ہے جس کو انسانوں پر آزمایا جا رہا ہے۔

  • عالمی رہنماؤں نے کرونا ویکسین ہر امیر غریب تک پہنچانے کا عزم کر لیا

    عالمی رہنماؤں نے کرونا ویکسین ہر امیر غریب تک پہنچانے کا عزم کر لیا

    جنیوا: عالمی رہنماؤں نے کرونا وائرس کے خلاف ویکسینز، دوا اور ٹیسٹ پر کام کی رفتار کو تیز تر کرنے کا عزم کر لیا، رہنماؤں نے یہ عزم بھی کیا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف ویکسین کو ہر امیر غریب ملک تک پہنچایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق کو وِڈ نائنٹین کی روک تھام کے سلسلے میں عالمی رہنماؤں نے نیا عزم کر لیا، ایک ویڈیو کانفرنس میں عالمی رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ کرونا کے خلاف ویکسینز، ادویہ اور ٹیسٹنگ صلاحیت کے حصول کو مزید تیز کیا جائے گا اور انھیں پوری دنیا میں پھیلایا جائے گا۔

    کرونا کی عالمگیر وبا سے لڑنے کے سلسلے میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ‘لینڈ مارک کولیبریشن’ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کر دیا ہے، جس کے سلسلے میں عالمی رہنماؤں کی ویڈیو کانفرنس کی گئی، جس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، جرمن چانسلر انجیلا مرکل، اور جنوبی افریقی صدر سیرل رامافوزا نے بھی شرکت کی، تاہم امریکا نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اس اقدام کا ساتھ نہیں دیا۔

    کورونا ویکسین ٹرائل میں رجسٹرڈ آکسفورڈ کی پوری فیملی تاریخ رقم کرنے کی خواہشمند

    اس اقدام کا مقصد ایک طرف کو وِڈ نائنٹین سے تحفظ، تشخیص اور علاج کے لیے محفوظ اور مؤثر ویکسینز، ٹیسٹ اور ادویہ کی تیاری کے عمل کو تیز تر کرنا ہے، دوسری طرف اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ کرونا کے علاج تک غریب اور امیر دونوں کی یکساں رسائی ہو۔

    کانفرنس میں ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈھانم کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک مشترکہ خطرے کا سامنا ہے اس لیے اسے مشترکہ سوچ ہی سے شکست دی جا سکتی ہے۔ انھوں نے افتتاحی خطاب میں یہ بھی کہا کہ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ اگر ذرایع دستیاب ہوتے بھی ہیں تو یہ یکساں سطح پر دستیاب نہیں ہوتے، ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔

    انھوں نے کہا کہ 2009 میں جب سوائن فلو کی وبا پھیلی تو یہ تنقید سامنے آئی تھی کہ ویکسینز کی تقسیم یکساں طور پر نہیں کی گئی تھی، کیوں کہ دولت مند ممالک نے زیادہ خرید لی تھیں۔

    گلوبل فنڈ ٹو فائٹ آن ایڈز کے سربراہ پیٹر سینڈز نے کہا کہ اب ہم نے یہ یقینی بنانا ہے کہ جن لوگوں کو ضرورت ہو، انھیں ویکسینز مل جائیں، ہمیں ایڈز سے سبق لینا ہوگا، اینٹی ریٹرووائرل ادویہ کی وسیع سطح پر دستیابی سے قبل لاکھوں لوگ مر گئے تھے۔

  • آسٹریلیا میں کرونا وائرس ویکسین کی جانچ کا عمل شروع ہو گیا

    آسٹریلیا میں کرونا وائرس ویکسین کی جانچ کا عمل شروع ہو گیا

    میلبورن: آسٹریلیا نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ایک مؤثر ویکسین کی کلینکل ٹیسٹنگ سے قبل کا مرحلہ شروع کر دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق آسٹریلوی قومی سائنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس نے کووِڈ نائنٹین کے لیے مؤثر ویکسین کی جانچ کا پہلا مرحلہ شروع کر دیا ہے، اور اس طرح آسٹریلیا بھی کرونا کی وبا کو روکنے کی عالمی دوڑ میں شامل ہو گیا۔

    کامن ویلتھ سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن (CSIRO) کے مطابق 2 مؤثر ویکسینز کی یہ پری کلینکل ٹیسٹنگ فیرٹس (بڑی قسم کا ایک نیولا) پر کی جا رہی ہے، اس جانچ کے پہلے مرحلے میں تین ماہ لگیں گے، ریسرچ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر راب گرینفل کا کہنا تھا کہ نتائج نکلنے کے بعد بھی کوئی بھی ویکسین اگلے سال کے اخیر سے پہلے عوام کے لیے دستیاب نہیں ہو سکے گی۔

    امریکا میں کرونا وائرس کی ایک اور ویکسین تیار

    انھوں نے اسکائپ پر دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہم بدستور 18 ماہ کے عرصے کے لیے پرامید ہیں کہ اس عرصے میں ویکسین عام صارفین کے لیے فراہم کر سکیں، ہمیں بہت سارے تکنیکی چیلنجز کا سامنا ہے، ہمارے سائنس دان قابل ذکر رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں، اس بات سے اندازہ لگائیں کہ وہ پری کلینکل ٹیسٹنگ کے مرحلے تک 8 ہفتوں میں پہنچے ہیں، جس تک پہنچنے کے لیے عموماً 2 سال لگتے ہیں۔

    روسی سائنس دانوں نے بھی کروناوائرس کی ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کردیا

    راب گرینفل کا کہنا تھا کہ انسانوں پر ایک یا دونوں ویکسینز کی جانچ کا آغاز رواں ماہ کے آخر میں یا اگلے ماہ کے شروع میں ہونے کی توقع ہے۔ ریسرچ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ جو جانچ کی جا رہی ہے اس میں ویکسین کے استعمال کا طریقہ کار بھی شامل ہے، یہ دیکھا جائے گا کہ بازو کے مسل میں اور ناک میں اسپرے کے طور پر اس کی افادیت کتنی ہوگی۔

  • کرونا وائرس ویکسین کی تیزی سے تیاری کے لیے طریقہ دریافت ہو گیا

    کرونا وائرس ویکسین کی تیزی سے تیاری کے لیے طریقہ دریافت ہو گیا

    سنگاپور: سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انھوں نے جینیاتی تبدیلیوں کی نشان دہی کے لیے ایک ایسا طریقہ دریافت کیا ہے جو کرونا وائرس کے خلاف تیار کی جانے والی ویکسینز کے ٹیسٹ کے مراحل کو تیز تر کر دے گا۔

    سنگاپور کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے جو تکنیک دریافت کی ہے اس کے ذریعے ممکنہ ویکسینز کے مؤثر ہونے کے بارے میں محض چند دن میں پتا چل سکے گا، اس سلسلے میں سنگاپور کے مذکورہ میڈیکل اسکول کو جہاں یہ تکنیک ڈویلپ کی گئی ہے، امریکی بایو ٹک کمپنی نے ممکنہ ویکسینز بھی فراہم کر دی ہیں، جن پر تجربات جاری ہیں۔

    میڈیکل اسکول کے انفکشس ڈیزیز پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اوئی انگ آنگ نے میڈیا کو بتایا کہ انسانی رد عمل کی بنیاد پر ویکسین ٹیسٹ میں عام طور سے مہینوں لگ جاتے ہیں، تاہم نئے طریقے سے چند ہی دن میں ویکسین کے مؤثر ہونے کے بارے میں معلوم ہو جائے گا، اس طریقے میں جین میں ہونے والی تبدیلی سے یہ معلوم ہوگا کہ کون سے جینز متحرک ہو گئے ہیں اور کون سے غیر متحرک۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ویکسین سے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے فوری تجزیے سے اس کے مؤثر ہونے اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں جلد تعین ہو سکے گا، اس سے قبل ویکسین لینے والے افراد کے جسمانی رد عمل پر انحصار کیا جاتا تھا۔

    سنگاپور کے سائنس دانوں نے یہ بھی واضح کیا کہ تاحال ایسی کوئی منظور شدہ دوا یا حفظ ماتقدم کی ویکسین سامنے نہیں آئی ہے جو کرونا وائرس کے لیے تیر بہ ہدف ہو، اکثر مریضوں کو صرف ایسی دوائیں دی جا رہی ہیں جو علامات کم کرنے میں معاون ہیں، جیسا کہ سانس لینے میں دشواری کے لیے دوا۔

    ماہرین نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ایک ویکسین کی مکمل طور پر تیاری میں ابھی بھی ایک سال کا عرصہ درکار ہے۔ ادھر اوئی انگ آنگ نے کہا کہ وہ ایک ہفتے میں چوہوں پر ویکسین ٹیسٹ کرنا شروع کریں گے جب کہ انسانوں پر تجربات رواں سال کے دوسرے نصف میں شروع ہونا متوقع ہے۔

  • چین کا اگلے ماہ کرونا وائرس ویکسینز متعارف کرانے کا اعلان

    چین کا اگلے ماہ کرونا وائرس ویکسینز متعارف کرانے کا اعلان

    بیجنگ: چین نے ایک ایسے موقع پر جب دنیا بھر میں نئے کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ماہ ویکسینز متعارف کرانے والا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چین نے کہا ہے کہ اگلے ماہ اپریل سے کرونا وائرس کے لیے چند ویکسینز باقاعدہ طور پر طبی یا ایمرجنسی استعمال کے لیے دستیاب ہوں گی۔ یہ اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب نہایت مہلک وائرس COVID 19 اب تک 103 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، اور متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 6 ہزار 203 ہو چکی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق چین کے سائنس دان 5 ٹیکنالوجیز کا بہ یک وقت استعمال کرتے ہوئے جسم کو وائرس سے محفوظ رکھنے والی مصنوعات تیار کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔

    چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ٹیکنیکل ڈویلپمنٹ اینڈ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ژینگ ژنگوے نے میڈیا کو بتایا کہ امید ہے کہ اپریل تک چند ویکسینز کلینکل یا ایمرجنسی استعمال کے مرحلے میں داخل ہو جائیں گی، کرونا ایک نیا وائرس ہے اس لیے ہم مختلف تجربات کے ذریعے اسے مسلسل سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ویکسینز کی تیاری کے لیے 8 رکنی ایک خصوصی ٹیم بنائی گئی ہے۔

    کرونا بے قابو، 103 ممالک لپیٹ میں، 106,203 متاثر، اٹلی میں 16 ملین لوگوں کا لاک ڈاؤن

    یہ ماہرین پانچ مختلف طریقوں سے ویکسینز تیار کر رہے ہیں، جن میں ایک طریقہ غیر فعال ویکسین کا ہے، جس میں مرے ہوئے جراثیم کا استعمال کیا جاتا ہے، جو جسم میں جا کر مرض کے خلاف اینٹی باڈی پیدا کر دیتا ہے۔ دوسرا طریقہ سب یونٹ ویکسین کا ہے جس میں جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے اسپائک پروٹین (S protein) کی نقل تیار کی جاتی ہے جو انسانی جسم میں معالجاتی مدافعتی رد عمل کو متحرک کر دیتی ہے۔

    تیسرا ممکنہ طریقہ نیوکلک ایسڈ امونائزیشن پر مشتمل ہے، جس میں دو ذیلی اقسام شامل ہیں: ایک mRNA ویکسین اور دوم DNA ویکسین۔ اس طریقہ کار میں تیار کردہ ایس پروٹین انسانوں میں داخل کیا جاتا ہے، تاکہ انسانی جسم مزید ایس پروٹین پیدا کر سکے، اور اس طرح جس میں جراثیم کے خلاف اینٹی باڈیز بننے لگتی ہیں۔

    دوسرے دو طریقے کیریئر ویکسینز پر مشتمل ہیں، ایک میں اڈینو وائرسز کا استعمال کیا جا رہا ہے اور دوسرے میں انفلوئنزا وائرسز کا۔ adeno viruses پہلی بار اڈینوئڈ ٹشو میں دریافت ہوئے تھے، اور یہ ڈی این اے وائرسز کے گروپ کا کوئی بھی وائرس ہے، ان میں سے اکثر وائرس نظام تنفس کے امراض کی وجہ بنتے ہیں۔

    چینی حکام کا کہنا ہے کہ ان پانچوں قسم کی ویکیسنز کے جانوروں پر تجربات جاری ہیں۔