Tag: کرونا وائرس کا ماخذ

  • کیا کرونا وائرس کے ماخذ کی سائنس دانوں کی تلاش میں سیاست دان رکاوٹ ہیں؟

    کیا کرونا وائرس کے ماخذ کی سائنس دانوں کی تلاش میں سیاست دان رکاوٹ ہیں؟

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقا کے وبائی امراض کے ایک نامور ماہر نے کہا ہے کہ مغربی ممالک کے سیاست دان کرونا وائرس کے ماخذ کی تلاش کی کوششوں میں دخل اندازی نہ کریں۔

    تفصیلات کے مطابق چینی میڈیا سے ایک انٹرویو میں وبائی امراض کے نامور ماہر پروفیسر سلیم عبدالکریم نے مغربی ممالک کے سیاست دانوں پر زور دیا ہے کہ وہ کووِڈ 19 وائرس کے ماخذ کی تلاش میں دخل اندازی نہ کریں تاکہ سائنس دان بنا کسی رکاوٹ کے وائرس کے ماخذ کی تلاش کر سکیں۔

    انھوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) مختلف ممالک کے سائنس دانوں کے ساتھ مل کر وائرس کے ماخذ کے بارے میں مشترکہ تحقیق کے لیے کوشاں ہے، جب کہ چین وائرس کے ماخذ کی تلاش میں عالمی ادارہ صحت کے ساتھ تعاون کرنے والا پہلا ملک ہے، چین نے عالمی ادارہ صحت سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے۔

    واضح رہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ نے خفیہ ادارے کو وائرس کے ماخذ کی تلاش پر مامور کیا ہے، اور لوگوں کو تشویش ہے کہ امریکا چین کے ساتھ سیاسی اختلاف کو وائرس کے ماخذ کی تلاش میں شامل کر رہا ہے، سلیم کریم کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو سائنسی پیمانے پر اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔

    خیال رہے کہ تاحال متعدد تحقیقی نتائج ثابت کرتے ہیں کہ چین کے شہر ووہان میں وبا کے پھیلاؤ سے قبل ہی دنیا کے متعدد خطوں بشمول یورپ اور امریکا میں ملتی جلتی علامات دیکھی گئی ہیں۔

    جنوبی افریقا کے وبائی امراض کے ماہر سلیم کریم نے کہا کہ وائرس کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہے، ہمیں الزام تراشی کی بجائے سائنس کی بنیاد پر اس معاملے کی تفتیش کرنی چاہیئے، وبا بدستور پھیل رہی ہے، امید ہے کہ کچھ سیاست دان بالخصوص امریکی سیاست دان عالمی ادارہ صحت کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔

  • کرونا وائرس کے ماخذ کی تلاش، جاپانی میڈیا کی انگلی امریکا کی طرف اٹھ گئی

    کرونا وائرس کے ماخذ کی تلاش، جاپانی میڈیا کی انگلی امریکا کی طرف اٹھ گئی

    ٹوکیو: نئے کرونا وائرس کے ماخذ کی تلاش کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں پر ردِ عمل میں جاپانی میڈیا نے امریکا کی جانب انگلی اٹھا دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جاپانی میڈیا نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے ماخذ کی تلاش پر سیاست بند ہونی چاہیے، اگر واقعی دنیا میں وائرس کا کھوج لگانا ضروری ہے، تو بنیادی توجہ امریکا پر مرکوز کرنی چاہیے اور دوہرے معیار پر مبنی سوچ کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

    جاپان کے آن لائن شائع ہونے والے اخبار، جاپان ٹوڈے نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے ماخذ کا پتا چلانا ہمارے لیے ضروری اور اہم ہے، لیکن اس کے ماخذ کا پتا لگانے کا کام جیو پولیٹیکل کھیل کی بجائے سائنسی ہونا چاہیے۔

    کرونا وائرس کے ماخذ کے حوالے سے نیا انکشاف

    ہفتے کے روز جاپانی خبروں کی ویب سائٹ پر ’کووِڈ 19 کے ماخذ کی تلاش پر سیاست بند کی جائے‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے مضمون میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور چین کی مشترکہ تحقیقات کا احترام کیا جانا چاہیے، اور اب چین کا مزید پیچھا نہیں کیا جانا چاہیے۔

    جاپان ٹوڈے کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کی تحقیقات کے نتائج کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے، بعض امریکی سیاست دانوں نے چین میں دوبارہ تحقیقات کا بار بار مطالبہ کیا ہے، لیکن امریکی قومی ادارہ برائے صحت نے ایک حالیہ تحقیق میں کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ دسمبر 2019 کے شروع ہی میں امریکا میں کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوگیا ہو۔

  • کرونا وائرس کے ماخذ کے حوالے سے نیا انکشاف

    کرونا وائرس کے ماخذ کے حوالے سے نیا انکشاف

    نیویارک: ایک امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کروناو ائرس کے ماخذ کا جائزہ شاید فیصلہ کن نہ ہو۔

    تفصیلات کے مطابق وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے ماخذ کے جائزے سے شاید کوئی واضح فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

    کرونا وبا پوری دنیا میں پھیلنے کے بعد سے مستقل طور پر یہ تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ یہ وائرس کہاں سے پھیلا، اور اس کا ماخذ کیا تھا، اس حوالے سے رپورٹ کے مطابق واشنگٹن نے بھی اس بات کا جائزہ لینے کے لیے انٹیلیجنس ایجنسیوں کو متحرک کیا تھا، کہ آیا کرونا وائرس متاثرہ جانور سے آیا تھا یا وائرولوجی لیب سے خارج کیا گیا تھا۔

    امریکا میں اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بائیڈن اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ 90 دن کے جائزے کے بعد بھی شاید ہمارے پاس قطعی جواب نہ ہو، تاہم امریکی صدر ایک مرکوز ، جامع اور وقت پر مبنی کوشش کرنا چا ہتے ہیں۔

    کرونا وائرس کا پہلا کیس کب سامنے آیا تھا؟

    رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کو جولائی کے وسط میں تازہ ترین اطلاع موصول ہونے کی امید ہے، جس میں گزشتہ 45 دنوں کے دوران کی گئی تحقیقات کی پیش رفت کے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔

    واضح رہے کہ سائنس دانوں نے سائنسی طریقوں کی مدد سے کو وِڈ 19 کے پہلے کیس کے دورانیے کا تخمینہ لگایا ہے، اس تخمینے کے مطابق دنیا میں کو وِڈ نائنٹین کا پہلا کیس چین میں اوائل اکتوبر سے نومبر 2019 کے وسط میں سامنے آیا ہوگا، اور دنیا میں پہلا فرد ممکنہ طور پر 17 نومبر 2019 کو وائرس سے متاثر ہوا ہوگا۔

  • کیا کرونا وائرس کا آغاز امریکا سے ہوا؟

    کیا کرونا وائرس کا آغاز امریکا سے ہوا؟

    بیجنگ/لندن: متعدی امراض کے ایک چینی ماہر نے آخر کار وہ سوال اٹھا دیا ہے، چین میں کرونا وائرس کے ماخذ کے حوالے سے متعدد عالمی رپورٹس کے بعد جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق متعدی امراض کے ایک چینی ماہر نے کہا ہے کہ کو وِڈ 19 کے ماخذ کی تحقیق کا اگلا مرحلہ امریکا میں ہونا چاہیے، کیوں کہ امریکا نے لوگوں میں وائرس کی جلد تشخیص میں سست روی کا مظاہرہ کیا۔

    ادھر ایک امریکی طبی سائنس دان نے امریکی ٹی وی میزبان جان اسٹیورٹ کے بیان کو سائنس دانوں پر حملہ قرار دیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ نیا کرونا وائرس حادثاتی طور پر ایک لیبارٹری سے خارج ہوا تھا۔

    چینی ماہر ژینگ گوآنگ نے بیجنگ سے شائع ہونے والے اخبارگلوبل ٹائمز سے گفتگو میں وجہ بتائی کہ امریکا میں پوری دنیا سے زیادہ حیاتیاتی لیبارٹریز موجود ہیں، اس لیے حیاتیاتی ہتھیاروں کے حوالے سے بھی امریکا کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔

    گلوبل ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور فرانس جیسے ممالک میں مزید سائنسی شواہد سامنے آئے ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ باضابطہ طور پر وائرس کی تصدیق سے پہلے ہو سکتا ہے کہ ان ممالک میں کرونا وائرس کے کیسز موجود ہوں، نیز اس طرح کے شواہد کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

    دوسری طرف نیشنل اسکول آف ٹراپیکل میڈیسن کے ڈین اور ٹیکساس چلڈرن ہاسپٹل سینٹر برائے ویکسین ڈویلپمنٹ کے شریک ڈائریکٹر، ڈاکٹر پیٹر ہوٹیز نے ٹی وی میزبان اسٹیورٹ اور دیگر کو یہ پُرزور مشورہ دیا ہے کہ وہ کرونا وائرس کے ماخذ پر بات کرتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں۔

    امریکی ٹی وی میزبان جان اسٹیورٹ نے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ کو وِڈ نائنٹین ایک لیب سے حادثاتی طور پر خارج ہوا تھا، تاہم ہوٹیز نے اس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگ حقیقت پر تفریحی اقدار کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن ایسی باتوں سے بہت زیادہ نقصان پہنچتا ہے، کیوں کہ کرونا وائرس پر کام کرنے والے میرے سمیت بہت سے دوسرے سائنس دان اسے اپنے اوپر ایک حملہ خیال کرتے ہیں۔