Tag: کرونا وبا

  • کیا کرونا وبا ختم ہو گئی ہے؟ عالمی ادارہ صحت کی وضاحت جاری

    کیا کرونا وبا ختم ہو گئی ہے؟ عالمی ادارہ صحت کی وضاحت جاری

    کیا کرونا وبا ختم ہو گئی ہے؟ عالمی ادارہ صحت نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا اب بھی ایک ’گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی‘ ہے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا کے جلد ختم ہونے کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تین سال قبل شروع ہونے والی وبا ابھی تک صحت کا عالمی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

    دنیا بھر کے لوگوں کا خیال ہے کہ اب کرونا ختم ہو چکا ہے، روئٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے کرونا وبا کے خاتمے کا سوچنے والے افراد پر واضح کیا ہے کہ دنیا کے بعض خطوں میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کرونا وبا ختم ہو چکی ہے لیکن ایسا نہیں، یہ اب بھی گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی بنی ہوئی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی ’ایمرجنسی‘ کمیٹی نے واضح کیا کہ تاحال کرونا دنیا کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے، اس کے ختم ہونے کے خیالات درست نہیں۔

    یاد رہے کہ کرونا وبا کا آغاز دسمبر 2019 میں چین سے ہوا تھا، جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے فروری 2020 میں کرونا کو ’گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی‘ قرار دے دیا تھا۔ بعد ازاں وبا میں تیزی کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے کرونا وبا کو مارچ 2020 میں عالمگیر وبا قرار دے دیا۔

    اس کے بعد دنیا بھر میں کرونا وائرس سے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کیے گئے، لاک ڈاؤن نافذ کیے گئے، سفری پابندیاں عائد کی گئیں اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے پر مجبور کیا گیا۔

    گزشتہ تین سال سے تاحال دنیا کے متعدد ممالک میں کرونا سے تحفظ کے لیے لاک ڈاؤن سمیت دیگر بعض پابندیاں نافذ ہیں۔

    وبا کے آغاز سے لے کر اب تک دنیا بھر میں کرونا وائرس انفیکشن سے 63 کروڑ 15 لاکھ 41 ہزار 300 افراد متاثر ہو چکے ہیں، جب کہ وائرس نے 65 لاکھ 77 ہزار انسانوں کی جانیں نگلی ہیں۔

  • دنیا بھر میں لوگ ورک فرام ہوم کرنا چاہتے ہیں!

    دنیا بھر میں لوگ ورک فرام ہوم کرنا چاہتے ہیں!

    کرونا کی وبا نے جہاں دنیا کو خاصا تبدیل کیا، وہیں گھروں سے کام کرنے کا رجحان بھی متعارف ہوا، اب ڈھائی سال بعد بھی ورکرز اس رجحان کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

    ایک تازہ بین الاقوامی سروے کے نتائج کے مطابق دنیا بھر میں گھر سے کام کرنے والے ورکرز کی اتنی بڑی تعداد اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی اور یہ افراد گھروں سے کام کرنے کے اپنے موجودہ دورانیے میں اضافے کے بھی خواہاں ہیں۔

    جرمنی کے آئی ایف او انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کی جانب سے شائع ہونے والے اس سروے کے مطابق 27 ممالک میں تمام صنعتوں اور دیگر شعبوں میں ملازمین نے فی ہفتہ تقریباً ڈیڑھ دن گھر سے کام کیا۔

    ڈھائی سال سے جاری کرونا کی عالمی وبا کے دوران جرمنی میں ورکرز کے گھر سے کام کرنے کا اوسط دورانیہ اس سروے کے نتائج سے تھوڑا کم یعنی فی ہفتہ ایک چوتھائی دن بنتا ہے۔

    اس سروے کے نتائج کے مطابق ورکرز کے گھروں سے کام کرنے کا دورانیہ فرانس میں 1.3، امریکا میں 1.6 اور جاپان میں 1.1 دن ہے۔

    آئی ایف او کے ایک محقق اور ورکرز کے گھر سے کام کرنے کے مطالعے کے ایک شریک مصنف ماتھیاس ڈولز کے مطابق، جس طرح کرونا کی وبا نے انتہائی مختصر وقت میں کام سے جڑی زندگی کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا، اس سے پہلے اس طرح کا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا۔

    جرمن سائنسدان نے سٹین فورڈ اور پرنسٹن یونیورسٹیوں سمیت امریکا، برطانیہ اور میکسیکو کے پانچ دیگر تحقیقی اداروں کے ساتھ اشتراک میں سروے کیا۔

    ایک اور سروے میں انکشاف ہوا کہ ملازمین اپنے باسز کے مقابلے میں گھر سے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس سروے میں شامل تمام 27 ممالک میں اوسطاً 36 ہزار جواب دہندگان ہفتے میں 1.7 دن گھر سے کام کرنا چاہتے تھے۔

    کمپنیاں اپنے عملے کو دفتر میں زیادہ دیکھنا چاہتی ہیں، اس ضمن میں کمپنیوں کی طرف سے اپنے ملازمین کے لیے اوسطاً ہر ہفتے گھر سے صرف 0.7 دن کام کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

    سروے کے مطابق جنوبی کوریا میں لوگ اپنے گھر سے کم سے کم یعنی ہر ہفتے صرف آدھا دن کام کرتے ہیں، تاہم جنوبی کوریا سمیت متعدد ممالک میں خاص طور پر اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے حامل کارکنوں کے ایک بڑی تعداد نے اس سروے میں حصہ لیا، لہٰذا یہ نتائج تمام ممالک کے لیے یکساں موازنہ پیش نہیں کرتے۔

  • کرونا کی وبا کا خاتمہ قریب آ گیا: سربراہ عالمی ادارہ صحت

    کرونا کی وبا کا خاتمہ قریب آ گیا: سربراہ عالمی ادارہ صحت

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ نے کہا ہے کہ کرونا کی وبا کا خاتمہ قریب آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ ٹیڈروس ایڈھانم نے بدھ کے روز کہا کہ دنیا کبھی بھی COVID-19 کے وبائی مرض کو ختم کرنے کے لیے اس سے بہتر پوزیشن میں نہیں رہی۔

    انھوں نے ورچوئل پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ ابھی کرونا وبا ختم نہیں ہوئی لیکن اب اس کا خاتمہ جلد نظر آ رہا ہے۔

    یہ اقوام متحدہ کے اس ادارے کی طرف سے سب سے زیادہ حوصلہ افزا بیان ہے، ڈبلیو ایچ او نے جنوری 2020 میں بین الاقوامی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اور تین ماہ بعد کووِڈ نائنٹین کو عالمگیر وبا (پینڈیمک) کے طور پر بیان کرنا شروع کیا، جس سے اب تک دنیا بھر میں 65 لاکھ سے زائد انسان مر چکے ہیں۔

    دنیا بھر میں کووِڈ سے ہونے والی ہفتہ وار اموات کی تعداد مارچ 2020 کے بعد سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے، ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی اس کا ذکر کیا، اور کہا ہمیں اختتام نظر آ رہا ہے اور ہم اچھی پوزیشن میں بھی ہیں، مگر ابھی رک نہیں سکتے اور اپنے کام کو جاری رکھنا ہوگا۔

    انھوں نے کہا اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا تو ہمیں وائرس کی مزید اقسام، مز ید اموات اور مزید غیر یقینی صورت حال کے خطرے کا سامنا ہو سکتا ہے، تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہی ہوگا۔

    واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او نے کرونا وائرس کے حوالے سے 6 پالیسی پیپر بھی جاری کیے ہیں، ڈاکٹر ٹیڈروس کے مطابق یہ پالیسی پیپرز دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ہیں تاکہ وہ اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے کر انھیں مضبوط بنا سکیں۔

  • وبا کے دنوں میں بڑی شہرت پانے والے امریکی ڈاکٹر نے ریٹائر ہونے کا عندیہ دے دیا

    وبا کے دنوں میں بڑی شہرت پانے والے امریکی ڈاکٹر نے ریٹائر ہونے کا عندیہ دے دیا

    نیویارک: وبا کے دنوں میں شہ سرخیوں میں جگہ پانے والے نہایت مشہور امریکی ڈاکٹر نے ریٹائر ہونے کا عندیہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں 7 صدور کی انتظامیہ کے تحت طبی خدمات انجام دینے والے مشہور امریکی سائنس دان اور وائٹ ہاؤس کے چیف میڈیکل ایڈوائزر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے 2025 تک ریٹائر ہونے کا عندیہ دے دیا ہے۔

    81 سالہ ڈاکٹر فاؤچی کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ وہ صدر جو بائیڈن کی موجودہ مدت کے اختتام تک ریٹائر ہو جائیں، ڈاکٹر فاؤچی 1984 سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشن ڈیزیز کے ڈائریکٹر ہیں اور 2020 سے کرونا وبا پر قابو پانے کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

    کووِڈ نائنٹین کی وبا کے دوران انھوں نے تین سال امریکا کے سب سے مشہور ڈاکٹر کے طور پر گزارے ہیں، جب کہ NIAID میں انھوں نے 50 سال سے بھی زائد عرصہ گزارا۔

    ڈاکٹر فاؤچی چاہتے ہیں کہ وہ خاموشی کے ساتھ بائیڈن حکومت ہی کے ساتھ ریٹائر ہو جائیں، انھوں نے کرونا وبا کے دوران اپنے سخت مؤقف کے لیے تنقید اور مخالفت بھی برداشت کی، جس کے جواب میں وہ کہتے رہے کہ ناقدین ان پر نہیں بلکہ سائنس پر حملہ کر رہے ہیں۔

    گزشتہ نومبر کو ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ناقدین سائنس پر حملہ کر رہے ہیں کیوں کہ میں تو سائنس کو پیش کر رہا ہوں، میں لوگوں کو بچانے جا رہا ہوں اور یہ جھوٹ بولتے جا رہے ہیں۔ لطف کی بات یہ بھی ہے کہ ناقدین کی جانب سے بھی کرونا وبا اور ایس او پیز کے حوالے سے ان پر جھوٹ کے طومار باندھنے کے الزام لگتے رہے ہیں۔

    ابھی پچھلے ہفتے انھوں نے ایک انٹرویو میں اپنے سخت مؤقف کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا تھا کہ امریکیوں کو بند گھروں کے اندر بھی ماسک لگانا چاہیے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔

    بدنام ترین سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈاکٹر فاؤچی میں کیا چیزیں مشترک رہیں؟ اس پر بات کرتے ہوئے بروکلین میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر فاؤچی نے انٹرویو میں کہا کہ ہم نے آپس میں ایک دل چسپ رشتہ استوار کر لیا تھا، نیویارک کے دو لڑکے، اپنی رائے اور اپنے نظریے میں ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے، لیکن یہ دو لڑکے اس شہر کے ایک ہی ماحول میں پلے بڑھے، میرا خیال ہے کہ ہم اس سلسلے میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

  • کرونا دنیا کی آخری وبا، لیکن کیسے؟ بل گیٹس نے کتاب میں بتا دیا

    کرونا دنیا کی آخری وبا، لیکن کیسے؟ بل گیٹس نے کتاب میں بتا دیا

    جیسا کہ بل گیٹس طویل عرصے سے ایک عالمی وبا کے خطرات کے بارے میں خبردار کرتے رہے ہیں، اسی طرح اب انھوں نے کووِڈ 19 کی وبا کو دنیا کی آخری وبا بنانے کے لیے ایک کتاب لکھ لی ہے، جو مئی 2022 میں چھپ کر مارکیٹ میں آئے گی۔

    مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس پُر امید ہیں کہ کرونا دنیا کی آخری وبا ہو سکتی ہے، اس سلسلے میں انھوں نے ایک کتاب لکھ لی ہے جس میں انھوں نے اس حوالے سے کئی اہم نکات پر گفتگو کی ہے۔

    اپنی اس نئی کتاب کے بارے میں انھوں نے اپنے بلاگ گیٹس نوٹس پر بتایا، انھوں نے کہا اگرچہ ابھی ہم وبا کے اختتام کے قریب نہیں پہنچے، مگر ہم نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے کہ آئندہ اس طرح کی وبا کو پھیلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔

    کتاب میں ایسے مخصوص اقدامات بتائے جائیں گے جن کی مدد سے معاشرہ مستقبل کی وباؤں کی روک تھام کر سکے گا۔ انھوں نے بلاگ میں لکھا یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں میں ایک طویل عرصے سے سوچ رہا ہوں، اور کووِڈ نے اس امر کو واضح کر دیا ہے کہ وبائی امراض انسانیت کے لیے ایک خطرہ ہیں اور دنیا کو ان کے خاتمے کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔

    اس کتاب میں اہم طبی عہدے داران جیسے امریکی صدر کے چیف میڈیکل ایڈوائرزر انتھونی فاؤچی اور عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ سے کی جانے والی بات چیت سے سیکھے جانے والے اسباق بھی شامل ہوں گے۔

    بل گیٹس نے لکھا میں اس وبا کے ابتدائی دنوں ہی سے کرونا کا جائزہ لیتا آ رہا ہوں، اس پر گیٹس فاؤنڈیشن کے اندر اور باہر کے بڑے ماہرین کے ساتھ مسلسل کام کیا، میں نے اس عمل میں بہت کچھ سیکھا ہے، یہ کہ ہم اگلی وبا کو کیسے روک سکتے ہیں، اور میں نے جو کچھ سنا ہے اسے لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا میں نے اس بارے میں ایک کتاب لکھنا شروع کی کہ ہم اس بات کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ کوئی بھی دوبارہ وبائی مرض کا شکار نہ ہو۔

    گیٹس نے بتایا کہ اس کتاب کا نام How to Prevent the Next Pandemic (اگلی عالمگیر وبا کو کیسے روکا جائے؟) ہے، اور آپ اسے 3 مئی 2022 کو پڑھ سکیں گے، یہ کتاب امریکا میں Knopf اور بین الاقوامی سطح پر Penguin Random House کے تحت شائع کی جا رہی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ اگر ہم نے درست اقدامات اٹھائیں اور اس سلسلے میں مخصوص سرمایہ کاری کریں، تو ہم کووڈ 19 کو دنیا کی آخری عالمی وبا بنا سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ ویکسینز کے لیے حمایت کرنے پر بل گیٹس سازشی خیالات کا ہدف بھی بنتے رہے ہیں، اور مائیکرو چپ کی افواہیں پھیلائی گئیں۔

  • تعلیمی اداروں کی بندش سے متعلق این سی او سی کا نیا فیصلہ

    تعلیمی اداروں کی بندش سے متعلق این سی او سی کا نیا فیصلہ

    اسلام آباد: این سی او سی نے کرونا وائرس کی زیادہ شرح والے تعلیمی اداروں کو ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے فیصلہ کیا ہے کہ وبا کے اثرات جاننے کے لیے اومیکرون سے متاثرہ شہروں کے تعلیمی اداروں میں کرونا ٹیسٹ کیے جائیں گے۔

    این سی او سی کے مطابق ڈیٹا سے ویکسینیشن لیولز اور انفیکشن ریٹ کا تعلق سامنے آیا ہے، ٹیسٹ نتائج پر تعلیمی اداروں میں اگلے 2 ہفتوں کے لیے ٹیسٹنگ شروع کی جائے گی۔

    صوبائی حکومتیں محکمہ صحت و تعلیم کے حکام کے ساتھ مشاورت سے تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ کریں گی، اور تمام تعلیمی اداروں میں ویکسینیشن کے لیے خصوصی مہم چلائی جائے گی۔

    این سی او سی نے ہدایت کی ہے کہ 12 سال سے زائد عمر والے طلبہ کو 100 فی صد ویکسینیشن کو یقینی بنایا جائے۔

  • کرونا وبا کے دوران ارب پتیوں کی دولت میں کتنا اضافہ ہوا؟

    کرونا وبا کے دوران ارب پتیوں کی دولت میں کتنا اضافہ ہوا؟

    نیروبی: دنیا سے غربت کے خاتمے پر مرتکز بین الاقوامی تنظیم آکسفیم نے کہا ہے کہ دسمبر 2021 تک امیر ترین افراد کی دولت 7 کھرب ڈالر سے بڑھ کر 15 کھرب ہوگئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آکسفیم کنفیڈریشن نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں‌کہا گیا ہے کہ وبا کے گزشتہ 2 سال کے دوران دنیا کے 10 امیر ترین افراد کی دولت دُگنی ہو چکی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ایلون مسک، جیف بیزوس سمیت دنیا کے دس امیر ترین آدمیوں کی دولت کرونا وبا سے قبل 700 ارب ڈالرز تھی جو اَب 1500 ارب ڈالرز ہوگئی ہے۔

    فوربز میگزین کے ارب پتیوں کی فہرست سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق وبا سے قبل 20 مہینوں میں ٹیسلا موٹرز کے مالک ایلون مسک کی دولت میں 10 گنا اضافہ ہوا اور وہ 294 بلین ڈالرز تک پہنچ گئی۔

    اسی عرصے کے دوران جب وال سٹریٹ پر ٹیکنالوجی کے ذخائر بڑھ رہے تھے، ایمازون کے مالک جیف بیزوس کی دولت 67 فی صد بڑھ کر 203 بلین ڈالر ہو گئی، فیس بک کے مارک زکربرگ کی دولت دگنی ہو کر 118 بلین ڈالر ہو گئی، جب کہ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کی دولت 31 فی صد بڑھ کر 137 بلین ڈالر ہو گئی۔

    آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق وبا کے دوران ہی دوسری طرف دنیا بھر میں عدم مساوات کے باعث نہ صرف غربت بڑھی بلکہ ہر 4 سیکنڈز میں ایک موت بھی واقع ہوئی۔

  • حکومت نے ملک گیر لاک ڈاؤن کی افواہوں کو مسترد کر دیا

    حکومت نے ملک گیر لاک ڈاؤن کی افواہوں کو مسترد کر دیا

    اسلام آباد: حکومت نے ملک گیر لاک ڈاؤن کی افواہوں کو مسترد کر دیا۔

    وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں کہا تعلیمی اداروں یا باقی جگہوں کو بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

    انھوں نے کہا ملک میں کچھ بھی بند نہیں ہوگا، اس سلسلے میں غلط فہمی نہ پھیلائی جائے، پاکستانی معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

    دریں اثنا، ملک میں ویکسینیشن کا ایک اور سنگ میل عبور ہو گیا ہے، 10 کروڑ افراد کو کرونا ویکسین کی کم ازکم ایک ڈوز اور ساڑھے 7 کروڑ افراد کی مکمل ویکسینیشن ہو چکی۔

    کورونا ویکسینیشن ، پاکستان نے ایک اور سنگِ میل عبور کرلیا

    نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ابھی کام مکمل نہیں ہوا ہے، ہمیں ویکسین لگانے کی رفتار برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں کرونا وبا کے پھیلاؤ میں ایک بار پھر شدت آنے لگی ہے، اور گزشتہ ایک دن میں 1400 سے زائد کیسز اور 2 اموات ریکارڈ کی گئیں، جب کہ کئی شہروں میں اومیکرون ویرینٹ بھی پھیلنے لگا ہے۔

    نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے کرونا صورت حال کی تازہ اعدادو شمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 24 گھنٹوں میں کرونا کے مزید 2 مریض جاں بحق ہوگئے ہیں، جس کے بعد کرونا سے اموات کی تعداد 28 ہزار 974 ہوگئی۔

    گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 43 ہزار 540 کرونا ٹیسٹ کیے گئے، جن میں سے ایک ہزار 467 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی، اس دوران کرونا کے ٹیسٹ مثبت نکلنے کی شرح 3.33 فی صد ہوگئی۔

  • اور اب اومیکرون کا خوف، ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد طریقہ بتا دیا

    اور اب اومیکرون کا خوف، ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد طریقہ بتا دیا

    آسٹریلیا کے مینٹل ہیلتھ تھِنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کووِڈ نے پہلے سے ہی پریشان لوگوں کے لیے جذباتی، سماجی اور مالی مشکلات بڑھا دی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کئی چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے دماغی مدافعتی نظام کو بہتر کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے کئی چیزیں مذکور کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

    فکرمندی اور خوف کی وجہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے اس بات پر دھیان دیں کہ آج آپ نے اپنے دماغ کو کون سی معلومات کے لیے استعمال کیا ہے، کیا آپ نے سوشل میڈیا پر بہت سی منفی خبریں پڑھی ہیں یا ان چیزوں کے بارے میں بری خبریں پڑھی ہیں جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے؟

    کیوں کہ غیر یقینی صورت حال ہمیں فکر مند اور خوف زدہ محسوس کرواتی ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنے اطراف میں منفی معلومات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، ایسے میں ہم غیر واضح چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے، اور ماضی میں ہوئی غلط چیزوں کو لے کر فکر مند رہتے ہیں۔

    دراصل ہمارے ذہن میں بننے والے تصورات ہی ہمارے اچھے یا برے مزاج کا باعث ہوتے ہیں، ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی محسوس بھی کرتے ہیں، اس لیے جب ہم برا محسوس کرتے ہیں تو ذہن میں منفی چیزیں آسانی سے آ جاتی ہیں اور ہم بار بار پھر ایسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ہمارا دماغ خبروں اور سوشل میڈیا کی منفی تصویروں اور معلومات سے بھر جائے، ایسے میں جب بھی ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں آسانی سے منفی تصویریں اور خیالات ابھرنے لگ جاتے ہیں، جو بعد میں اضطراب اور مایوسی کے منفی چکر کو ہوا دے سکتے ہیں، جس سے ہمیں ناامیدی اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔

    ماہرین کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کمپیوٹر کے کام کے دوران لوگوں کا دماغ کیسے کام کرتا ہے، وہ اس وقت کیا تصور اور محسوس کرتے ہیں، اس تحقیق کے ذریعے انھوں نے پایا کہ ایسے لوگوں میں مستقبل کے تئیں مثبت خیالات کم ہوتے ہیں۔

    خود کو دل چسپ سرگرمیوں میں مصروف کرنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ساری چیزیں ہمارے قابو سے باہر ہیں تب ہمیں اپنی پسندیدہ کام کرنے میں بھی دل چسپی محسوس نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی ہمیں ہمت نہ ہارتے ہوئے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں خود کو مشغول کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

    جس سے خوشی محسوس ہو

    چاہے کھانا پکانا ہو، گیراج میں کام کرنا ہو، سیر کے لیے جانا ہو یا موسیقی سننا ہو، وہ کام جس سے آپ کو خوشی محسوس ہو، اسے کرنے سے آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوں گے، یہ کام آپ کے اندر ایک نئی امنگ بھر سکتا ہے اور یہاں تک کہ ڈپریشن کا علاج بھی کر سکتا ہے۔

    دوسروں سے رابطہ اور مدد اپنی مدد ہے

    انسان کو سماجی جانور بھی کہا جاتا ہے، جسے دوسروں سے جڑے رہنا پسند ہے، گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران ایک آسٹریلوی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اکثر دوسرے لوگوں سے میل جول رکھنا پسند کرتے ہیں، انھوں نے لاک ڈاؤن میں اکیلا پن زیادہ محسوس کیا، خاص طور سے وہ لوگ جو پہلے ہی ڈپریشن کی علامات کا سامنا کر رہے تھے۔

    دوسروں کی مدد کرنا ہماری اپنی ذہنی اور جسمانی تندرستی کو بہت فائدہ پہنچاتی ہے اور منفی خیالات کو دور رکھتی ہے، ہم دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں یا انھیں ہماری مدد کرنے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس سے وہ بھی بہتر محسوس کریں گے۔

    غذائیت سے بھرپور خوراک

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو صحت مند رہنے اور معمول کے کام بہتر طور سے انجام دینے، اور حتیٰ کہ اچھا محسوس کرنے کے لیے بھی صحت بخش غذا کی ضروری ہوتی ہے۔ غذائیت سے بھرپور خوراک وہ ہوتی ہے جس میں مائیکرو اور میکرو نیوٹرینٹس موجود ہوں، طبی ماہرین کے مطابق مائیکرونیوٹرینٹس ذہنی صحت کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں۔

    مائیکرو نیوٹرینٹس ان چھوٹے غذائی اجزا کے بڑے گروپس میں سے ایک ہیں جن کی انسانی جسم کو ضرورت ہے، ان میں وٹامنز, اور معدنیات شامل ہیں۔ وٹامنز توانائی کی پیداوار، مدافعتی افعال، خون جمنے اور دیگر افعال کے لیے ضروری ہیں، جب کہ معدنیات نشوونما، ہڈی کی صحت، مائع جات کا توازن اور کئی دیگر چیزوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    جب کہ میکرونیوٹرینٹس میں کاربوہائیڈریٹس، چکنائی اور پروٹین شامل ہیں، یہ وہ چیزیں جو بہت استعمال ہوتی ہیں، یہ وہ اجزا ہیں جو جسم کے تمام افعال اور اسٹرکچر برقرار رکھنے اور توانائی کے لیے ضروری ہیں۔

  • کرونا وبا: ذہنی پریشانیوں‌ میں‌ اضافہ دیکھا گیا

    کرونا وبا: ذہنی پریشانیوں‌ میں‌ اضافہ دیکھا گیا

    دنیا کووِڈ 19 کی بد ترین وبا کی نئی لہر کی لپیٹ میں ہے، جو نئے ویرینٹ اومیکرون کی صورت میں اب عالمی سطح پر لوگوں کو خوف زدہ کر رہی ہے۔

    ماہرین ایک طرف 50 تبدیلیوں والی نئی کرونا قِسم کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیا یہ 2 تبدیلیوں والے ویرینٹ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ شدید اور متعدی ثابت ہوگا، یا آخر کار کرونا وائرس تبدیلیوں سے گزرتا ہوا منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے، یعنی کم زور ہو گیا ہے۔

    دوسری طرف، جب کہ اومیکرون ویرینٹ آسٹریلیا بھی پہنچ گیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی لہر کا خوف لوگوں کے خیالات میں طوفان کا باعث بن سکتا ہے، کیوں کہ لوگ پُرامید ہو گئے تھے کہ اب وہ جلد ہی اپنے خوف سے پیچھا چھڑا لیں گے۔

    ایسے میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے اسکول آف سائیکلوجیکل سائنس میں ریسرچ فیلو جیولی جی بتاتی ہیں کہ آسٹریلیا کے کرائسز سپورٹ سروس لائف کے ہیلپ لائن پر صرف ماہِ اگست ماہ میں روزانہ اوسطاً 3 ہزار 505 کالز کی گئیں، یہ کالیں مختلف پریشانیوں میں مبتلا شہریوں نے کیں۔

    انھوں نے کہا کہ یہ ملک کی 57 سال کی تاریخ میں روزانہ کی جانے والی کالوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ہے، جب کہ اس سال کے آغاز سے 6 لاکھ 94 ہزار 4 سو پریشان آسٹریلوی شہریوں نے مدد کے لیے اس لائف لائن پر کال کیا۔

    جیولی کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کالز معاشی مشکلات، خراب رشتہ، اکیلا پن اور خود کشی کی کوشش جیسے مسائل سے متعلق تھیں۔