طبی سائنس انسانی جسم میں دوڑنے والے خون کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق خون دراصل پلازما اور سیلز پر مشتمل ہوتا ہے جن میں شامل مختلف اجزا اپنا اپنا کام انجام دیتے ہیں۔
دنیا بھر میں کرونا کی وبا کے علاج کی کوششوں میں جہاں ویکسین کی تیاری کے لیے ماہرین مصروفِ عمل ہیں، وہیں پلازما تھراپی سے بھی کرونا کے مریض کو اس وائرس سے لڑنے میں مدد دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پلازما تھراپی کے لیے ماہرین کو ایسے فرد کے خون کی ضرورت پڑتی ہے جو کرونا کو شکست دے چکا ہو۔ یعنی کرونا سے صحت یاب ہوجانے والے مریض کے خون سے متاثرہ انسان کی قوتِ مدافعت بڑھانے کا عمل پلازما تھراپی کہلاتا ہے۔
پاکستان میں بھی اس وقت پلازما تھراپی کا شور سنائی دے رہا ہے، تاہم یہ فوری اور مؤثر طریقہ علاج نہیں ہے۔
انسانی خون میں موجود پلازما کے بارے میں جانیے۔
پلازما کیا ہوتا ہے؟
انسانی جسم میں موجود خون کا وہ شفاف حصہ جو خون کے خلیات علیحدہ کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے، اسے پلازما کہتے ہیں۔ اس میں اینٹی باڈیز اور پروٹین شامل ہوتے ہیں۔ پلازما 90 فی صد پانی ہوتا ہے جس میں 10 فی صد اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔ طبی محققین کے مطابق انسانی خون میں پلازما کی مقدار 55 فی صد ہوتی ہے۔
پلازما کیا کام کرتا ہے؟
کسی بھی انسان کے خون میں موجود پلازما دراصل بلڈ میں شامل خلیات اور اس کے ساتھ پروٹین کو تیرنے میں مدد دیتا ہے جب کہ پلازما میں موجود اینٹی باڈیز انسانی جسم کی قوتِ مدافعت بڑھاتی ہیں۔
خون سے الگ کیے جانے والا پلازما زرد رنگ کا ہوتا ہے۔
ریاض: مملکت سعودی عربیہ میں کرونا وائرس کے انفیکشن کا علاج کیسے کیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں وزارت صحت نے تفصیلات بیان کر دیں۔
سعودی میڈیا کے مطابق وزارت صحت نے کرونا وائرس کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹک کے استعمال پر واضح مؤقف اختیار کیا ہے، اس سلسلے میں سعودی وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر محمد العبد العالی نے پھر کہا کہ کرونا وائرس کا علاج اینٹی بائیوٹک نہیں ہے۔
گزشتہ روز سعودی دارالحکومت میں معمول کی بریفنگ میں ترجمان نے بتایا کہ کرونا کے مریضوں کو اس قسم کی ادویہ دی جا رہی ہیں جو وائرس کو قابو کرنے کی خصوصیات رکھتی ہیں، جو وائرس کے خلاف جسمانی مزاحمتی نظام کو مضبوط بناتی ہیں۔
ترجمان کے مطابق اینٹی بائیوٹک کا استعمال ان مریضوں پر کیا جا رہا ہے جو کرونا کے ساتھ ساتھ دیگر امراض میں بھی مبتلا ہیں، اینٹی بائیوٹک کرونا انفیکشن کا بنیادی علاج نہیں ہے، کرونا انفیکشن کے لیے متعدد دواؤں کا مجموعہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر محمد العبد العالی کا کہنا تھا کہ جب بھی کرونا وائرس کی مخصوص دوائیں تیار ہوں گی ان سے استفادہ کیا جائے گا، اس کے لیے ویکسین جب اور جہاں تیار ہوگی، سعودی عرب اسے سب سے پہلے حاصل کرنے والے ممالک میں شامل ہوگا۔
ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مملکت کے کئی قومی تحقیقاتی مراکز کرونا ویکسین کی تیاری سے متعلق عالمی مہم میں شریک ہیں۔
جنیوا: عالمی رہنماؤں نے کرونا وائرس کے خلاف ویکسینز، دوا اور ٹیسٹ پر کام کی رفتار کو تیز تر کرنے کا عزم کر لیا، رہنماؤں نے یہ عزم بھی کیا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف ویکسین کو ہر امیر غریب ملک تک پہنچایا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق کو وِڈ نائنٹین کی روک تھام کے سلسلے میں عالمی رہنماؤں نے نیا عزم کر لیا، ایک ویڈیو کانفرنس میں عالمی رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ کرونا کے خلاف ویکسینز، ادویہ اور ٹیسٹنگ صلاحیت کے حصول کو مزید تیز کیا جائے گا اور انھیں پوری دنیا میں پھیلایا جائے گا۔
کرونا کی عالمگیر وبا سے لڑنے کے سلسلے میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ‘لینڈ مارک کولیبریشن’ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کر دیا ہے، جس کے سلسلے میں عالمی رہنماؤں کی ویڈیو کانفرنس کی گئی، جس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، جرمن چانسلر انجیلا مرکل، اور جنوبی افریقی صدر سیرل رامافوزا نے بھی شرکت کی، تاہم امریکا نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اس اقدام کا ساتھ نہیں دیا۔
اس اقدام کا مقصد ایک طرف کو وِڈ نائنٹین سے تحفظ، تشخیص اور علاج کے لیے محفوظ اور مؤثر ویکسینز، ٹیسٹ اور ادویہ کی تیاری کے عمل کو تیز تر کرنا ہے، دوسری طرف اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ کرونا کے علاج تک غریب اور امیر دونوں کی یکساں رسائی ہو۔
کانفرنس میں ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈھانم کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک مشترکہ خطرے کا سامنا ہے اس لیے اسے مشترکہ سوچ ہی سے شکست دی جا سکتی ہے۔ انھوں نے افتتاحی خطاب میں یہ بھی کہا کہ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ اگر ذرایع دستیاب ہوتے بھی ہیں تو یہ یکساں سطح پر دستیاب نہیں ہوتے، ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔
انھوں نے کہا کہ 2009 میں جب سوائن فلو کی وبا پھیلی تو یہ تنقید سامنے آئی تھی کہ ویکسینز کی تقسیم یکساں طور پر نہیں کی گئی تھی، کیوں کہ دولت مند ممالک نے زیادہ خرید لی تھیں۔
گلوبل فنڈ ٹو فائٹ آن ایڈز کے سربراہ پیٹر سینڈز نے کہا کہ اب ہم نے یہ یقینی بنانا ہے کہ جن لوگوں کو ضرورت ہو، انھیں ویکسینز مل جائیں، ہمیں ایڈز سے سبق لینا ہوگا، اینٹی ریٹرووائرل ادویہ کی وسیع سطح پر دستیابی سے قبل لاکھوں لوگ مر گئے تھے۔
کراچی: امریکی ادارے فوڈ ایند ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے پلازما سے متعلق پاکستانی ادارے کی تحقیق کو رجسٹرڈ کر لیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان نے ایک اور اعزاز حاصل کر لیا، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز (این آئی بی ڈی) کی میڈیکل ریسرچ کا امریکا میں بھی اعتراف کر لیا گیا، ایف ڈی اے نے این آئی بی ڈی کی پیسیو امیونائزیشن (passive immunization) کو رجسٹرڈ کر لیا۔
اس سلسلے میں این آئی بی ڈی کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ این آئی بی ڈی نے ایف ڈی اے کو پلازما تکنیک رجسٹریشن کے لیے بھیجی تھی، ایف ڈی اے نے پلازما سے علاج کا کلینکل ٹرائل پروٹوکول رجسٹرڈ کر لیا ہے، پلازما تکنیک پروٹوکول سے عالمی ادارہ صحت کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کسی بھی تکینک کو مریضوں پر استعمال کرنے سے قبل منظور شدہ عالمی اور ملک کے متعلقہ اداروں سے منظوری اور رجسٹرڈ کرانا طبی ضابطہ اصول ہوتے ہیں، ملکی اور عالمی اداروں کی منظوری کے بعد ہی انسانوں پر تکنیک کا استعمال شروع کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر شمسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے کرونا کے صحت یاب افراد سے لیے گئے پلازما پر اپنی ریسرچ مکمل کر لی ہے، سندھ میں صحت یاب مریضوں کے پلازما میں کرونا وائرس نہیں ملا۔ یاد رہے کہ سندھ حکومت پلازما تکنیک سےعلاج کی اجازت دے چکی ہے، اس طریقے سے چاروں صوبوں میں مریضوں کا علاج کیا جائے گا، ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا تھا کہ پلازما تکنیک سے کرونا مریضوں کو آئی سی یو اور وینٹی لیٹر کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
کراچی: ڈاؤ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے علاج کے لیے جو دوا تیار کی گئی ہے اس کا چوہوں پر ٹرائل کامیاب رہا ہے اور اب ہم نے ڈریپ سے انسانوں پر ٹرائل کی اجازت مانگی ہے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے آج وی سی ڈاؤ یونی ورسٹی نے کہا کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو اس کے جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہیں، یہ امیونولوجیکل رسپانس ہوتا ہے جسم کا کسی بھی حملہ آور آرگینزم کے خلاف، اس طریقہ کار میں ہم کو وِڈ نائنٹین کے اینٹی باڈیز کو نیوٹرلائز کریں گے جس کے استعمال سے بیماری کے اینٹی جن ختم ہو جائیں گے، اسے طبی اصطلاح میں پیسیو (غیر فعال) امیونائزیشن کہا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس ویکسی نیشن ایکٹو (متحرک) امیونائزیشن کا طریقہ کار ہے، ہمارے طریقہ کار میں ایکٹو امیونائزیشن نہیں ہو رہی یہ پیسیو امیونائزیشن ہے، ہم نے ڈریپ سے انسانوں پر ٹرائل کرنے کی اجازت مانگی ہے، جب ہماری یونیورسٹی کا انسٹی ٹیوشنل ریویو بورڈ اور ڈریپ اجازت دیں گے تو پھر انسانوں پر اس کا استعمال کیا جائے گا۔ جس میں یہ دیکھا جائے گا کہ کرونا کے مریضوں میں اس کا کیا اثر ہو رہا ہے۔
ڈاؤ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سعید قریشی اے آر وائی نیوز پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے
پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ اب تک ہم نے چوہوں پر اس کے ٹرائل کیے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ زہریلی تو نہیں ہے، اور اس حوالے سے ہماری تحقیق صحیح نکلی ہے۔ یہ ابھی ٹرائل کے مراحل میں ہے اس لیے مارکیٹ میں آنے کے لیے اس میں وقت تو لگے گا، کیوں کہ اس سے قبل ہمیں 5 سے 10 مریضوں میں یہ استعمال کر کے دیکھنا ہوگا۔ پہلے تو ہماری اس پر توجہ ہوگی کہ جن مریضوں کو کو وِڈ نائنٹین ہو چکا ہے ان کے جسم سے اینٹی باڈیز نکالیں، پھر اسے تیار کر کے دوسرے لوگوں کو دی جائے گی۔
پروگرام میں اسسٹنٹ پروفیسر انفیکشس ڈیزیز ڈاکٹر شوبا لکشمی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا جب وائرل انفیکشن ہوتا ہے تو ایک تو آپ کا اپنا امیون سسٹم خود اسے کلیئر کرنے میں جسم کی مدد کرتا ہے، دوم ہم اس کو بڑھانے کے لیے امیونوگلوبیولن دیتے ہیں، یہ بہت ساری بیماریوں میں پہلے بھی استعمال ہوتا رہا ہے، جیسے ایبولا، چکن پاکس وغیرہ۔
انھوں نے بتایا کہ کرونا وائرس کے جو مریض آ رہے ہیں ان کی علامتیں جو ہیں، وہ امیون سسٹم کی ری ایکشن پر مبنی سرگرمی سے متعلق ہیں جس کے لیے ہم مریض کو اندرونی طور پر امیونوگلوبیولن دیتے ہیں تاکہ خون میں جو وائرس گردش کر رہا ہے یہ اسے نیوٹرلائز کر سکے اور بیماری کی شدت کم ہو جائے۔ یہی تصور اس دوا کے پیچھے کارفرما ہے۔
ڈاکٹر شوبا لکشمی نے کہا یہ ویکیسن نہیں ہے، بلکہ یہ پیسیو امیونائزیشن ہے، ویکسین یہ ہے کہ کسی کو کوئی بیماری نہ ہو اور اسے کوئی ایسا اینٹی جن دیا جائے جس کے بعد جسم خود اس بیماری کو رسپانس کرے۔ کرونا اور فلو کے وائرس الگ ہیں، کرونا پھیپھڑوں پر اثر کرتا ہے، کرونا میں اموات کی شرح فلو سے بہت زیادہ ہے۔ ہم اس پر بھی کام کر رہے ہیں کہ اس گلوبیولن کی کتنی ڈوز دی جائے گی۔
نیویارک: ملیریا کی قدیم دوا کلوروکوئن کو نئے وائرس Covid-19 کے علاج کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے، تاہم اس دوا کی باقاعدہ طبی آزمایش نہیں کی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکا کے ایک بلاک چین انویسٹر نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر دعویٰ کیا ہے کہ ملیریا کی 85 سالہ پرانی دوا کلوروکوئن نئے کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کے لیے اہم علاج ثابت ہو رہی ہے، کلوروکوئن کے استعمال سے کرونا وائرس سے بچاؤ بھی ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ چین میں کرونا وائرس کے علاج کے لیے کئی طریقوں پر تجربات جاری ہیں، ان میں سے ایک اینٹی وائرل دوا remdesivir بھی شامل ہے، جو ایبولا وائرس کے لیے استعمال کی گئی تھی، اس کی امریکا میں بھرپور آزمایش جاری ہے، تاہم ابھی تک فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اس کے بارے میں بھی کوئی تصدیق نہیں کی ہے۔
کلوروکوئن بہت پرانی دوا ہے جسے جنگ عظیم دوم کے وقت استعمال کیا گیا تھا، یہ سنکونا درخت کی چھال سے تیار کی جاتی ہے، اور بہت سستی دوا ہے۔
انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کی دنیا سے وابستہ سرمایہ کار جیمز ٹوڈارو نے کہا کہ انھوں نے اس سلسلے میں سٹینفورڈ میڈیکل اسکول کی مشاورت کے ساتھ کلوروکوئن کے کرونا کے علاج کے لیے استعمال پر ایک مقالہ بھی لکھا، تاہم میڈیکل اسکول کی جانب سے اس بات کی تردید کر دی گئی ہے، کہ ان کی طرف سے مقالے میں کسی قسم کی شراکت نہیں کی گئی۔
دوسری طرف سی ڈی سی اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے بھی کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے کہ کلوروکوئن دوا کرونا وائرس میں مؤثر ہے، گزشتہ ماہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ کلوروکوئن کے بارے میں انھیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے جو کرونا کے علاج سے متعلق ہو۔