Tag: کرونا

  • کرونا وائرس: یومیہ رپورٹ کیسز کی تعداد 600 ہوگئی

    کرونا وائرس: یومیہ رپورٹ کیسز کی تعداد 600 ہوگئی

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے کیسز میں بتدریج کمی ہورہی ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران رپورٹ کیسز کی تعداد 600 رہی۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے باعث 3 افراد جاں بحق ہوئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 30 ہزار 307 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 609 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 15 لاکھ 18 ہزار 692 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 14 لاکھ 70 ہزار 424 ہوچکی ہے۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 35 ہزار 627 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 2 کروڑ 68 لاکھ 97 ہزار 815 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 1.7 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 600 مریض تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 12 کروڑ 80 لاکھ 74 ہزار 138 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 10 کروڑ 18 لاکھ 81 ہزار 176 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • بلوچستان میں کرونا وائرس کیسز میں کمی کا رحجان برقرار

    بلوچستان میں کرونا وائرس کیسز میں کمی کا رحجان برقرار

    کوئٹہ: بلوچستان میں کرونا وائرس کیسز میں کمی کا رحجان برقرار ہے، ایک روز کے دوران صوبے میں کرونا وائرس کے 24 کیسز رپورٹ کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صوبہ بلوچستان میں کرونا وائرس کے 24 کیسز رپورٹ کیے گئے جس کے بعد مثبت کیسز کی شرح 4.91 فیصد ہوگئی۔

    اب تک بلوچستان میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 35 ہزار 427 ہوگئی۔

    صوبے میں کووڈ 19 سے جاں بحق افراد کی تعداد 377 ہوچکی ہے جبکہ صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد 34 ہزار 974 ہے۔

    یاد رہے کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں کرونا وائرس کے 723 کیسز رپورٹ ہونے کے بعد ملک میں مجموعی کیسز کی تعداد 15 لاکھ 17 ہزار 512 ہوگئی۔

    اب تک ملک میں کرونا وائرس سے 30 ہزار 298 مریض جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ایک دن میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 1.82 فیصد ہوچکی ہے۔

  • کووڈ 19 ہمارے جذبات کو بھی متاثر کرسکتا ہے

    کووڈ 19 ہمارے جذبات کو بھی متاثر کرسکتا ہے

    کووڈ 19 جسم کے تمام اعضا کو بری طرح متاثر کرتا ہے لیکن دماغ پر اس کے بدترین اثرات سامنے آتے جارہے ہیں، حال ہی میں ایک اور تحقیق نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 دماغ کے حجم کو سکیڑ سکتی ہے، ان حصوں کا حجم کم کرسکتی ہے جو جذبات اور یادداشت کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ ان حصوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے جو سونگھنے کی حس کو کنٹرول کرتے ہیں۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ تحقیق پہلی بڑی تحقیق ہے جس میں کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل اور بعد کے دماغی اسکینز کا موازنہ کیا گیا تھا۔

    اس موازنے سے ابتدائی بیماری کے کئی ماہ بعد دماغی حجم سکڑنے اور ان ٹشوز کو نقصان پہنچنے کا انکشاف ہوا جو سونگھنے کی حس اور دماغی صلاحیتوں سے منسلک ہوتے ہیں۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں 51 سے 81 سال کی عمر کے 785 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کے دماغی اسکینز کرونا وائرس کی وبا سے قبل اور اس کے دوران لیے گئے تھے۔

    ان میں سے نصف سے زیادہ میں ان اسکینز کے درمیان کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی، اس بیماری سے محفوظ رہنے والے 384 افراد کے اسکینز کا موازنہ ان افراد سے کیا گیا جو کرونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کے دماغ اور گرے میٹر کے کچھ حصے سکڑ گئے، بالخصوص وہ حصے جو سونگھے کی حس سے منسلک ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر کووڈ کے شکار افراد میں اس سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں سونگھنے کی حس سے منسلک اہم دماغی حصے parahippocampal gyrus کا حجم 1.8 فیصد جبکہ cerebellum کا حجم 0.8 فیصد تک سکڑ گیا۔

    ان حصوں کے سگنلز کے عمل میں مداخلت کے نتیجے میں ممکنہ طور پر مختلف علامات جیسے سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا ہوتا ہے، اسی طرح کووڈ سے متاثر افراد کا ذہنی صلاحیت کے ٹیسٹوں میں اسکور اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں کم تھا۔

    یہ کم اسکور ذہنی صلاحیتون سے جڑے دماغی حصے cerebellum کے ٹشوز کے نقصان کا عندیہ بھی دیتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ اثرات معمر افراد اور بیماری کے باعث اسپتال میں زیر علاج رہنے والوں میں زیادہ نمایاں تھے مگر معمولی بیمار یا بغیر علامات کی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں بھی ان کا مشاہدہ ہوا۔

    ماہرین نے بتایا کہ اس حوالے سے مزید اسکینز کی ضرورت ہے تاکہ تعین کیا جاسکے کہ یہ دماغی تبدیلیاں مستقل ہیں یا جزوی طور پر ریورس کی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جو کووڈ سے دماغی صحت پر مرتب ہونے والے بدترین اثرات کا عندیہ دیتے ہیں۔

    یہاں تک کہ معمولی بیمار افراد کے دماغی افعال جیسے توجہ مرکوز کرنے اور چیزیں منظم کرنے کی صلاحیت بدتر ہوگئی اور اوسطاً دماغی حجم میں 0.2 سے 2 فیصد کمی آئی۔

    ماہرین نے یہ نہیں بتایا کہ ویکسی نیشن سے ان اثرات کی روک تھام پر کوئی مدد ملتی ہے یا نہیں مگر حال ہی میں یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی نے 15 تحقیقی رپورٹس کے ایک تجزیے میں دریافت کیا تھا کہ ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا خطرہ 50 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

  • کووڈ 19 کی شدت بڑھانے والے متعدد جینز دریافت

    کووڈ 19 کی شدت بڑھانے والے متعدد جینز دریافت

    اسکاٹ لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے ایسے 16 جینز کو شناخت کیا ہے جو لوگوں میں کووڈ 19 کی شدت کو بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔

    ایڈنبرگ یونیورسٹی کی تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ایسے جینز ہوتے ہیں جو مختلف مسائل جیسے وائرس کے نقول بنانے کی صلاحیت کو محدود کرنے، شدید ورم یا بلڈ کلاٹس کی روک تھام نہیں کرپاتے۔

    ماہرین نے کہا کہ ان نتائج کی بنیاد پر ایسے علاج تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی جو مریضوں کو سنگین پیچیدگیوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سے یہ پیش گوئی کرنے میں بھی مدد مل سکے گی کہ کون سے مریض زیادہ بیمار ہوسکتے ہیں۔

    اس تحقیق کے دوران برطانیہ میں کووڈ کے باعث آئی سی یو میں زیر علاج رہنے والے مریضوں کے 56 ہزار کے لگ بھگ نمونوں کا جینیاتی تجزیہ کیا گیا تھا۔

    جب ان کا موازنہ بیماری سے محفوظ رہنے والے یا معمولی بیمار ہونے والے گروپس سے کیا گیا تو ایسے 16 جینز کی شناخت ہوئی جن کا پہلے علم نہیں تھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نئی دریافت سے ماہرین کو اس وقت دستیاب ادویات کو تلاش کرنے میں مدد مل سکے گی جو کووڈ 19 کے علاج میں ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

    مثال کے طور پر ماہرین نے دریافت کیا کہ ایسے بنیادی جینز میں بیماری کے دوران تبدیلیاں آتی ہیں جو ایک پروٹین فیکٹر VIII کو ریگولیٹ کرتے ہیں جو بلڈ کلاٹس بننے کے عمل کا حصہ ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بلڈ کلاٹس ان چند بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے کووڈ کے مریضوں کو آکسیجن کی کمی کا سامان ہوتا ہے، تو ایسا ممکن ہے کہ ایسے حصوں کو ہدف بنایا جائے جس سے بلڈ کلاٹس کو بننے سے روکا جاسکے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مگر ہم ٹرائلز کے بغیر یہ نہیں جان سکتے کہ یہ ادویات کام کریں گی یا نہیں۔

  • بلوچستان میں کرونا وائرس کیسز میں واضح کمی

    بلوچستان میں کرونا وائرس کیسز میں واضح کمی

    کوئٹہ: صوبہ بلوچستان میں کرونا وائرس کیسز میں واضح کمی دیکھی جارہی ہے، گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران صوبے میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 0.52 فیصد پر پہنچ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ بلوچستان میں گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 0.52 فیصد رپورٹ کی گئی۔

    محکمہ صحت بلوچستان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران بلوچستان میں صرف 1 کیس رپورٹ ہوا، صوبے میں کرونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد 35 ہزار 399 ہوگئی۔

    محکمہ صحت کے مطابق بلوچستان میں کرونا وائرس سے جاں بحق افراد کی تعداد 377 جبکہ صحت یاب افراد کی تعداد 34 ہزار 966 ہوگئی۔

    خیال رہے کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں کرونا وائرس سے مزید 6 مریض جاں بحق ہوگئے جس کے بعد کرونا وائرس سے جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 30 ہزار 287 ہوگئی۔

    گزشتہ 24 گھنٹے میں مزید 758 کووڈ کیسز کی تصدیق ہوئی، کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 2.07 فیصد رہی۔

  • کووڈ 19 اعصابی نقصان پہنچانے کا بھی سبب

    کووڈ 19 اعصابی نقصان پہنچانے کا بھی سبب

    کووڈ 19 جسم کے مختلف اعضا کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے دیرپا نقصانات بھی ہوتے ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ یہ مرض اعصابی نقصان پہنچانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے کچھ مریضوں کے اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے جس سے تھکاوٹ، حسوں میں تبدیلیاں اور ہاتھوں و پیروں میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے مریضوں کے اعصاب کو بھی نقصان پہنچتا ہے، بظاہر یہ بیماری کے باعث مدافعتی نظام کو پہنچنے والے مسائل کا نتیجہ ہوتا ہے۔

    میساچوسٹس جرنل ہاسپٹل کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ ان ابتدائی رپورٹس میں سے ایک ہے جس میں لانگ کووڈ کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا جو کہ کووڈ بیماری کی طرح اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہمارے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ لانگ کووڈ کے کچھ مریضوں کے اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ نقصان اعصابی خلیات کی اسمال فائبر اقسام کو پہنچتا ہے۔

    اس تحقیق میں لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے 17 افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں اعصابی مسائل کی تاریخ نہیں تھی۔

    نتائج میں دریافت ہوا کہ 59 فیصد مریضوں میں ٹیسٹ سے کم از کم اعصابی نقصان کی تصدیق ہوئی، دو فیصد میں مسلز کے اعصاب کو نقصان پہنچانے والے عارضے جبکہ 10 فیصد میں اسمال فائبر نیورو پیتھی کی تشخیص ہوئی جو دائمی درد کا باعث بنتی ہے۔

    ان افراد میں تھکاوٹ، کمزوری، حسوں میں تبدیلی، پیروں اور ہاتھوں میں تکلیف عام علامات تھیں۔

    علاج سے وقت کے ساتھ 52 فیصد مریضوں کی حالت بہتر ہوگئی مگر تمام علامات کا خاتمہ نہیں ہوا۔

    محققین نے بتایا کہ اگر لانگ کووڈ کی علامات میں وقت کے ساتھ بہتری نہ آئے یا وضاحت ممکن نہ ہو تو ڈاکٹر سے نیورو پیتھی کے امکانات پر بات کرنی چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ ماہرین ابھی کلینکل ٹرائلز نہیں کرپائے ہیں جس میں کووڈ کے بعد مخصوص نیورو پیتھی علاج کی جانچ پڑتال کی جاسکے مگر کچھ موجودہ ٹریٹمنٹس ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

  • بلوچستان میں کرونا وائرس کے 16 کیسز رپورٹ

    بلوچستان میں کرونا وائرس کے 16 کیسز رپورٹ

    اسلام آباد: صوبہ بلوچستان میں کرونا وائرس کیسز میں کمی کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران صوبے میں کرونا وائرس کے صرف 16 کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ بلوچستان میں کرونا وائرس کیسز میں کمی کا رحجان برقرار ہے، گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران بلوچستان میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 3.65 فیصد رپورٹ کی گئی۔

    محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کوئٹہ میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 3.64 فیصد رپورٹ کی گئی۔

    گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران صوبے میں کرونا وائرس کے 16 کیسز رپورٹ ہوئے۔ صوبے میں کرونا وائرس سے انتقال کرنے والوں کی تعداد 376 ہوچکی ہے۔

    محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ اب تک بلوچستان میں رپورٹ ہونے والے کرونا وائرس کے مجموعی کیسز کی تعداد 35 ہزار 380 ہے، صحت یاب افراد کی تعداد 34 ہزار 942 ہوچکی ہے۔

    دوسری جانب بلوچستان سمیت ملک بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 755 نئے کیسز رپورٹ ہوئے جس کے بعد ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 15 لاکھ 14 ہزار 258 ہوگئی۔

    گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے باعث 7 افراد جاں بحق ہوئے، ملک بھر میں کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 30 ہزار 265 ہوگئی ہے۔

  • کرونا وائرس: یومیہ رپورٹ کیسز کی تعداد 700 ہوگئی

    کرونا وائرس: یومیہ رپورٹ کیسز کی تعداد 700 ہوگئی

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے کیسز میں بتدریج کمی ہورہی ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران رپورٹ کیسز کی تعداد ساڑھے 7 سو سے زائد رہی۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے باعث 7 افراد جاں بحق ہوئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 30 ہزار 265 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 755 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 15 لاکھ 14 ہزار 258 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 14 لاکھ 54 ہزار 382 ہوچکی ہے۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 37 ہزار 661 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 2 کروڑ 66 لاکھ 46 ہزار 219 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 2 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 821 مریض تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 12 کروڑ 75 لاکھ 32 ہزار 69 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 10 کروڑ 1 لاکھ 63 ہزار 961 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • ہرن سے انسان میں منتقلی کا کرونا وائرس کیس

    ہرن سے انسان میں منتقلی کا کرونا وائرس کیس

    کینیڈا میں ہرن سے انسان تک منتقل ہونے والا کرونا وائرس کیس سامنے آگیا جس نے ماہرین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کینیڈا کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ وہ بہت حد تک پروثوق ہیں کہ انہوں نے ہرن سے انسان تک منتقل ہونے والا پہلا کووڈ 19 کیس دریافت کرلیا ہے۔

    ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے کہا ہے کہ جنگلی حیات کی آمد و رفت اور ان کی سرگرمیوں کی سخت نگرانی کی ضرورت ہے، اس سے نہ صرف انسانوں کو بچانا ممکن ہوگا بلکہ جانوروں کے اپنے جسم میں کرونا وائرس کو مزید ان دیکھی تبدیلیوں سے بچانے میں بھی مدد ملے گی۔

    اس ضمن میں ایک تحقیقی مقالہ بھی شائع کیا گیا ہے، اس ٹیم نے ایک مردہ ہرن میں کورونا وائرس دریافت کیا ہے۔

    دوسری جانب امریکا کے جنگلات میں بھی سفید دم والے ہرن کو اسی وائرس سے متاثر دیکھا گیا ہے۔ ماہرین حیوانات کا اصرار ہے کہ عموماً ہرنوں کے جراثیم اور وائرس انسانوں تک پہنچنا ایک کمیاب اور بہت ہی انوکھا معاملہ ہے۔

    اس کی تحقیق کوئی آسان نہیں تھی کیونکہ سائنسدانوں نے کینیڈا بھر میں شکار کے حکومتی اجازت یافتہ سیزن میں مارے جانے والے سینکڑوں ہرنوں کی ناک اور لمفی غدود سے مائع نمونے لیے، اس طرح 300 ہرنوں میں سے 17 میں وائرس پایا گیا۔

    اگلے مرحلے میں اطراف میں موجود کرونا مریضوں کا جائزہ لیا گیا تو ایک فرد اور ہرن کے وائرس کی ترکیب اور جینیاتی کیفیت بالکل یکساں تھی۔

    اس طرح کا وائرس دیگر متاثرہ افراد میں موجود نہ تھا، ماہرین اس پر مزید تحقیقات کر رہے ہیں۔

  • فائزر ویکسین کے بچوں اور بڑوں پر اثرات مختلف

    فائزر ویکسین کے بچوں اور بڑوں پر اثرات مختلف

    کرونا ویکسین اب دنیا بھر میں بچوں کو بھی لگائی جارہی ہے، تاہم اب حال ہی میں ایک تحقیق میں بچوں اور بڑوں پر اس کے مختلف اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فائزر / بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین 5 سے 11 سال کے بچوں میں، نوجوانوں اور بالغ افراد کے مقابلے میں کم مؤثر ہوتی ہے۔

    نیویارک اسٹیٹ پبلک ہیلتھ کے تحت ہونے والی تحقیق کرونا وائرس کی قسم اومیکرون کی لہر کے دوران ہوئی تھی۔

    تحقیق میں 13 دسمبر 2021 سے 30 جنوری 2022 کے دوران کووڈ کیسز اور اسپتال میں داخلے کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    ان میں سے 8 لاکھ 52 ہزار 384 کیسز ویکسی نیشن کروانے والے 12 سے 17 سال کی عمر کے بچے تھے جبکہ 5 سے 11 سال کی عمر کے ویکسی نیشن کروانے والے بچوں کی تعداد 3 لاکھ 65 ہزار 502 تھی۔

    تحقیق کے نتائج سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون کی لہر کے دوران 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں ویکسی نیشن کے بعد اسپتال میں داخلے کے خطرے سے تحفظ کی شرح 85 فیصد سے گھٹ کر 73 فیصد ہوگئی۔

    مگر 5 سے 11 سال کی عمر میں ویکسین کی یہ افادیت نمایاں حد تک کم ہوگئی جو 100 فیصد سے گھٹ کر 48 فیصد رہ گئی۔

    اسی طرح 12 سے 17 سال کی عمر میں بیماری سے تحفظ کی شرح 65 سے کم ہو کر 51 فیصد ہوگئی جبکہ 5 سے 11 سال کے گروپ میں یہ شرح 68 فیصد سے گھٹ کر 12 فیصد تک پہنچ گئی۔

    ایشکن اسکول آف میڈیسین کے امیونولوجسٹ فلورینا کرامر نے بتایا کہ دونوں گروپس میں ویکسین کی افادیت کا فرق چونکا دینے والا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 12 سال یا اس سے زائد عمر کے بچوں کو ویکسین کی 30 ملی گرام مقدار استعمال کروائی جاتی ہے جبکہ اس سے کم عمر کے گروپ میں یہ مقدار 10 ملی گرام ہوتی ہے۔

    نیویارک اسٹیٹ ڈپٹی ڈائریکٹر آف سائنس ایلی روسنبرگ نے بتایا کہ ویکسین کی افادیت میں کمی مایوس کن ضرور ہے مگر یہ تسلیم کیا جانا چاہیئے کہ فائزر ویکسین وائرس کے ابتدائی ورژن کے ردعمل میں تیار ہوئی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ تعین کیا جاسکے کہ بچوں کی کتنی مقدار میں ویکسین کی خوراک دینا بہتر ہوسکتا ہے۔