Tag: کرونا

  • سعودی عرب: حکام قیمتوں کی نگرانی کے لیے مستعد

    سعودی عرب: حکام قیمتوں کی نگرانی کے لیے مستعد

    ریاض: سعودی وزرات تجارت مارکیٹس میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی نگرانی کے لیے مستعد ہے اور وزارت کی ٹیمیں باقاعدگی سے مارکیٹس کے دورے کر رہی ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی وزارت تجارت کی ٹیموں نے مارکیٹوں میں ہر قسم کے اسٹاک کی موجودگی اور فراوانی کو مستحکم بنانے کے لیے مختلف علاقوں کے دورے کیے، ٹیمز نے مارکیٹوں میں موجود کھانے پینے اور دیگر مصنوعات کے اسٹاک کے معیار کی جانچ پڑتال کی ہے۔

    معائنہ ٹیموں نے گذشتہ روز کرفیو کی پابندیوں سے مستثنیٰ دکانوں کے دورے کر کے وہاں پر موجود اشیائے خورد و نوش کا معیار اور وافر موجودگی کو یقینی بنائے رکھنے کے لیے یہ اقدام کیا۔

    وزارت تجارت کی ٹیمیں اپنے عہدیداروں کے ہمراہ مختلف علاقوں کے دورے کر کے کرونا وائرس کے خلاف لاک ڈاؤن کے دوران مارکیٹوں کی ہر قسم کی خدمات کے تسلسل کی نگرانی کر رہی ہیں۔

    عہدیداروں نے ہائپر مارکیٹوں کے علاوہ، پھلوں اور سبزیوں کی دکانوں، کھانے پینے کے سامان کی دکانوں، بیکریوں، گوشت اور مچھلی کی دکانوں کے علاوہ گیس اسٹیشنوں کے بھی دورے کیے۔

    ان دوروں کا مقصد مارکیٹ میں اشیا کی دستیابی کے ساتھ ساتھ قیمتوں کو مستحکم رکھنا بھی ہے، وزارت تجارت کی ٹیموں نے ایک دن میں 27 مقامات کے دورے کر کے مختلف اقسام کی اشیا کا معائنہ کیا۔

    یہ خصوصی ٹیمیں جدید ترین پرائس مانیٹرنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے خورد و نوش کے علاوہ دیگر اہم اشیا کی قیمتوں کو روزانہ کی بنیاد پر چیک کر رہی ہیں۔

  • ٹوائلٹ پیپر کے لیے لڑتے جھگڑتے امریکی باتھ روم میں پانی استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    ٹوائلٹ پیپر کے لیے لڑتے جھگڑتے امریکی باتھ روم میں پانی استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر میں اس وقت ہینڈ سینی ٹائزر، ماسک، ٹوائلٹ پیپر اور دیگر صفائی کی اشیا کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے اور لوگ دیوانہ وار ان اشیا کی خریداری کر رہے ہیںِ۔

    لوگ نہ صرف خریداری کر رہے ہیں بلکہ ان اشیا کو زیادہ سے زیادہ خریدنے کے چکر میں ان کے درمیان ہاتھا پائی کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں، ایسے ہی کچھ واقعات امریکا اور برطانیہ کی سپر مارکیٹس میں بھی پیش آرہے ہیں جہاں لوگ ٹوائلٹ رول کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں۔

    امریکی بیت الخلاؤں میں ٹوائلٹ رول کے استعمال کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔

    آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ دنیا بھر میں بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے پانی کا مناسب انتظام موجود ہوتا ہے، پاکستان سمیت متعدد ممالک میں پانی کے بغیر باتھ روم جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

    اس مقصد کے لیے لوٹے یا دوسرے نالی دار برتن، ہینڈ شاورز یا بیڈیٹ (جو ایک نالی کی شکل میں کموڈ سے ہی منسلک ہوتی ہے) کا استعمال عام ہے۔ تاہم امریکا میں ہمیشہ سے رفع حاجت کے بعد صرف ٹوائلٹ پیپر کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ امریکی اس مقصد کے لیے پانی کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے بیڈیٹ سب سے پہلے فرانس میں متعارف کروائے گئے۔ بیڈیٹ بھی ایک فرانسیسی لفظ ہے جس کا مطلب ہے پونی یا چھوٹا گھوڑا۔ یہ بیڈیٹس پہلی بار فرانس میں 1700 عیسوی میں استعمال کیے گئے۔

    اس سے قبل بھی وہاں رفع حاجت کے لیے پانی استعمال کیا جاتا تھا تاہم بیڈیٹ متعارف ہونے کے بعد یہ کام آسان ہوگیا۔ ابتدا میں بیڈیٹ صرف اونچے گھرانوں میں استعمال کیا جاتا تھا تاہم 1900 عیسوی تک یہ ہر کموڈ کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔

    یہاں سے یہ بقیہ یورپ اور پھر پوری دنیا میں پھیلا لیکن امریکیوں نے اسے نہیں اپنایا۔ امریکیوں کا اس سے پہلا تعارف جنگ عظیم دوئم کے دوران ہوا جب انہوں نے یورپی قحبہ خانوں میں اسے دیکھا، چنانچہ وہ اسے صرف فحش مقامات پر استعمال کی جانے والی شے سمجھنے لگے۔

    سنہ 1960 میں آرنلڈ کوہن نامی شخص نے امریکن بیڈیٹ کمپنی کی بنیاد ڈال کر اسے امریکا میں بھی رائج کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔ امریکیوں کے ذہن میں بیڈیٹ کے بارے میں پرانے خیالات ابھی زندہ تھے۔

    اس کے علاوہ امریکی بچپن سے ٹوائلٹ پیپر استعمال کرنے کے عادی تھے چانچہ وہ اپنی اس عادت کو بدل نہیں سکتے تھے۔

    اسی وقت جاپان میں بیڈیٹ کو جدید انداز سے پیش کیا جارہا تھا۔ ٹوٹو نامی جاپانی کمپنی نے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے الیکٹرک بیڈٹ متعارف کروا دیے تھے۔

    اب سوال یہ ہے کہ امریکی بیت الخلا میں پانی کے استعمال سے اس قدر گریزاں کیوں ہیں؟

    اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ امریکا میں تعمیر کیے جانے والے باتھ رومز میں جگہ کی کمی ہوتی ہے لہٰذا اس میں کوئی اضافی پلمبنگ نہیں کی جاسکتی۔

    اس کے علاوہ امریکیوں کی ٹوائلٹ رول کی عادت بھی اس کی بڑی وجہ ہے جس کے بغیر وہ خود کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ اب بھی امریکا میں کئی لوگوں کو علم ہی نہیں کہ رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ پیپر کے علاوہ بھی کوئی متبادل طریقہ ہے۔

    امریکیوں کی یہ عادت ماحول کے لیے بھی خاصی نقصان دہ ہے۔ ایک ٹوائلٹ رول بنانے کے لیے 37 گیلن پانی استعمال کیا جاتا ہے، اس کے برعکس ایک بیڈیٹ شاور میں ایک گیلن پانی کا صرف آٹھواں حصہ استعمال ہوتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق امریکا میں روزانہ 3 کروڑ 40 لاکھ ٹوائلٹ پیپر استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ایک امریکی کے پوری زندگی کے ٹوائلٹ پیپر کے لیے 384 درخت کاٹے جاتے ہیں۔

    اس ضمن میں ایک تجویز ویٹ وائپس کی بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کا متبادل ہوسکتے ہیں، تاہم ایسا ہرگز نہیں۔ ویٹ وائپس کا مستقل استعمال جلد پر خارش اور ریشز پیدا کرسکتا ہے۔ یہ وائپس سیوریج کے لیے بھی خطرہ ہیں جو گٹر لائنز میں پھنس جاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق رفع حاجت کے لیے پانی کا استعمال پیشاب کی نالی کے انفیکشن ہیمرائیڈ سمیت بے شمار بیماریوں سے تحفظ دے سکتا ہے جبکہ یہ صفائی کا بھی احساس دلاتا ہے۔

    اب اس وقت کرونا وائرس کے بعد ٹوائلٹ پیپر کی قلت کے پیش نظر دنیا امریکیوں کو ویسے بھی لوٹوں کے استعمال کا مشورہ دے رہی ہے، تو دوسری جانب ماہرین نے بھی کہا ہے ٹوائلٹ پیپر کی نسبت پانی کا استعمال اس وائرس سے بچنے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔

  • اے ٹی ایم کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب، حفاظت کیسے ممکن؟

    اے ٹی ایم کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب، حفاظت کیسے ممکن؟

    کرونا وائرس کی ہلاکت خیزی نے دنیا بھر کو لرزہ براندام کردیا ہے، یہ وائرس نہ صرف ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہورہا ہے بلکہ دیگر بے جان اشیا سے بھی لگ سکتا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں موبائل فون، گاڑیوں کی چابی اور اے ٹی ایم وغیرہ کے استعمال کی ضرورت پڑتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق مذکورہ اشیا کے استعمال سے قبل اور بعد میں لازمی ہے کہ ہر شخص ہاتھوں کو جراثیم کش محلول سے صاف کرے کیونکہ یہ وائرس دھاتی اشیا پر تین دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔

    انہوں نے تاکید کی ہے کہ اس وائرس سے بچنے کے لیے کوشش کریں کہ آن لائن ادائیگیاں کی جائیں تاکہ اے ٹی ایم کا استعمال کم سے کم کیا جاسکے۔

    وبائی امراض سے بچاؤ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کوشش کریں کہ جب بھی گھر سے باہر نکلیں باریک دستانے استعمال کریں، جب دستانے استعمال کریں تو ہاتھ کو ناک اور آنکھ سے دور رکھیں، ہجوم والی جگہوں پر جانے سے گریز کریں۔

    ماہرین کے مطابق آن لائن طلب کیا گیا کھانا وصول کرنے کے دوران خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، جب بھی ڈلیوری مین آئے اس سے پیکٹ وصول کرنے سے قبل دستانے پہن لیں۔

    ہدایات میں کہا گیا کہ کوشش کریں کہ ڈلیوری مین کو بل کے مطابق رقم ادا کریں تاکہ آپ کو باقی رقم واپس نہ لینی پڑے۔ پیکٹ وصول کرنے کے بعد اس میں رکھا کھانا فوری طور پر گرم کریں۔

    ماہرین کے مطابق کرونا وائرس گرمی میں زندہ نہیں رہتا، اس لیے اس بات کا خیال ہمیشہ رکھیں کہ باہر سے آیا ہوا کھانا لازمی طور پر اچھی طرح گرم کرنے کے بعد ہی استعمال کیا جائے۔

    ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس ہوا میں 3 گھنٹے، تانبے کی سطح پر 4 اور گتے (کاغذ) پر 24 گھنٹے تک زندہ رہتا ہے، سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ وائرس پلاسٹک اور لوہے سے بنی اشیا پر 24 گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے اس موذی وائرس سے قدرے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

  • ہینڈ سینی ٹائزر سے ہاتھوں کے جلنے کی خبروں میں کتنی صداقت ہے؟

    ہینڈ سینی ٹائزر سے ہاتھوں کے جلنے کی خبروں میں کتنی صداقت ہے؟

    سوشل میڈیا پر کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لگائے جانے والے سینی ٹائزر کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ آگ پکڑ سکتے ہیں لہٰذا انہیں لگا کر چولہے کے پاس نہ جایا جائے۔

    کچھ جھلسے ہوئے ہاتھوں کی ایسی تصاویر بھی شیئر کی گئیں جن میں کہا گیا کہ مذکورہ شخص سینی ٹائزر لگانے کے بعد چولہے کے پاس گیا جس سے اس کے ہاتھوں میں آگ لگ گئی۔

    سعودی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق سینی ٹائزر میں الکوحل کی تعداد اگر 50 سے 70 فیصد ہو تو بھی ایک فیصد ہی اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ یہ آگ پکڑ سکے۔

    اسلام آباد میں ہیلتھ سروسس اکیڈمی کے ایسوسی ایٹڈ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد خان کے مطابق ہاتھ میں سینی ٹائزر لگانے کے بعد اس میں موجود الکوحل 20 سے 30 سیکنڈ بعد ہوا میں اڑ جاتا ہے جس کے بعد اس بات کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے کہ کسی کو آگ لگے۔

    تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سینی ٹائزر ہی چولہے کے پاس لگائے تو ممکن ہے کہ آگ لگ جائے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہر طرح کے سینی ٹائزر میں آئیسو پرو پائل الکوحل موجود ہوتا ہے جس کی مقدار کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔

    چیف فائر آفیسر ظفر اقبال کے مطابق انہوں نے آج تک ایسے کسی کیس کے بارے میں نہیں سنا نہ اس طرح کے کسی کیس کو ڈیل کیا ہے۔

  • کیا کرونا وائرس کے لیے برسوں پرانا طریقہ علاج مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟

    کیا کرونا وائرس کے لیے برسوں پرانا طریقہ علاج مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کا علاج یا ویکسین تیار کرنے پر کام کیا جارہا ہے ایسے میں امریکی ماہرین نے اس موذی وائرس کے ایک اور طریقہ علاج کی طرف توجہ دلائی ہے۔

    امریکی ریاست میزوری کی واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن اس بات کی جانچ کر رہی ہے کہ وہ افراد جو اس وائرس سے لڑ کر صحتیاب ہوچکے ہیں، آیا ان کے خون کا پلازمہ اس وائرس کے شکار دیگر افراد کی بھی مدد کرسکتا ہے یا نہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر اس وائرس سے صحتیاب ہونے والے افراد اپنا خون عطیہ کریں اور یہ خون اس مرض سے لڑتے افراد کو چڑھایا جائے تو ان میں بھی اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوسکتی ہے۔

    یہ طریقہ علاج اس سے پہلے سنہ 1918 میں اسپینش فلو کی وبا کے دوران استعمال کیا گیا تھا جب طبی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔

    واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ علاج نیا نہیں ہے، اسے ہمیشہ سے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہ خاصا مؤثر بھی ہے۔

    ماہرین نے امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کو درخواست دے دی ہے جس کی منظوری ملنے کے بعد اس طریقہ علاج کو استعمال کیا جاسکے گا۔

    ایف ڈی اے کی اجازت کے بعد ڈاکٹرز اس طریقہ علاج سے کرونا وائرس کے ان مریضوں کا علاج کرسکیں گے جن کی علامات شدید ہیں اور انہیں موت کے منہ میں جانے کا خدشہ ہے۔

    ان کے مطابق یہ طریقہ علاج فوری طور پر ان مریضوں پر استعمال کیا جائے گا جن میں وائرس کی ابتدائی علامات ظاہر ہوں گی جس کے بعد ان کے مرض کو شدید ہونے سے روکا جاسکے گا۔

  • بھارت: 3 افراد قرنطینیہ سے بھاگ کر دوست کے گھر جا چھپے

    بھارت: 3 افراد قرنطینیہ سے بھاگ کر دوست کے گھر جا چھپے

    نئی دہلی: بھارتی شہر ممبئی میں 3 افراد قرنطینیہ سے بھاگ کر دوست کے گھر جا چھپے، پولیس نے سراغ لگا کر تینوں کو پکڑ لیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق تینوں افراد کا تعلق بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ سے تھا اور یہ ممبئی میں حکومت کے قائم کیے ہوئے قرنطینیہ میں دن گزار رہے تھے۔

    پولیس کے مطابق تینوں افراد 20 مارچ کی صبح دبئی سے ممبئی پہنچے تھے، ان میں سے 2 دبئی میں بطور الیکٹریشن کام کرتے تھے جبکہ تیسرا ان سے ملنے اور کچھ روز قیام کے لیے دبئی گیا تھا تاہم کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب تینوں بھارت لوٹ آئے۔

    ایئرپورٹ پر تینوں کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ منفی آیا تاہم حکام نے انہیں الگ الگ ہوٹل میں قیام کرنے کے لیے منتقل کردیا جو ان دنوں قرنطینیہ میں تبدیل کردیے گئے ہیں۔

    حکام انہیں جھاڑکھنڈ ان کے گھر واپس بھیجنے کے لیے بھی انتظامات کر رہے تھے تاہم اس سے قبل ہی تینوں ہوٹل سے فرار ہو کر قریبی علاقے میں ایک دوست کے گھر جا چھپے۔

    پولیس کے مطابق پڑوسیوں نے ان کے ہاتھ پر لگی قرنطینیہ کی مہریں دیکھ لیں اور پولیس کو اطلاع کردی جس کے بعد پولیس نے وہاں پہنچ کر اپنی حراست میں لے کر انہیں دوبارہ قرنطینیہ منتقل کردیا۔

    پولیس کے مطابق ان تینوں افراد نے دیگر لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں جس پر انہیں قانونی کارروائی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹرز نے مذکورہ افراد کو مزید کچھ روز قرنطینیہ میں رہنے کی ہدایت کی ہے، پولیس کے مطابق ان کے دوبارہ فرار کے خدشے کے تحت ان کی نگرانی کے لیے مسلح گارڈز بھی تعینات کردیے گئے ہیں۔

  • ماہرہ خان کا اپنے مداحوں کے لیے پیغام

    ماہرہ خان کا اپنے مداحوں کے لیے پیغام

    کراچی: معروف اداکارہ ماہرہ خان نے اپنے مداحوں سے کہا ہے کہ وہ ان افراد کا خیال رکھیں جو اس لاک ڈاؤن میں مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں اور ایسے افراد کو تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں دے دیں۔

    تفصیلات کے مطابق معروف پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ اگر آپ اس قابل ہیں کہ ایک ماہ اپنے کام کے بغیر (یا تنخواہ حاصل کیے بغیر) گزارہ کرسکتے ہیں یا آپ کے پاس طاقت یا سہولیات ہیں تو یہ جنگ کسی اور سے زیادہ آپ کی ہے۔

    ماہرہ نے کہا کہ ہمیں ان افراد کا خیال رکھنا ہے جو ہماری پوزیشن پر نہیں ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کو شعور دینا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ایسے افراد کو تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں دے دیں اور ان کی زندگی آسان بنائیں۔

    ماہرہ خان کا اشارہ گھروں میں کام کرنے والے ملازمین، ڈرائیورز، اور روزانہ اجرت کمانے والے ان افراد کی طرف ہے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے سخت مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔

    ایسے افراد کی مدد کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے خصوصی پیکج کا اعلان بھی کیا ہے جبکہ ملک بھر میں فلاحی اداروں و مخیر حضرات کی بڑی تعداد غریب گھروں میں راشن اور دیگر اشیائے ضروریہ پہنچا رہی ہے۔

  • سعودی وزرا کی گھروں سے کام کرنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل

    سعودی وزرا کی گھروں سے کام کرنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل

    ریاض: کرونا وائرس کے بعد کرفیو اور لاک ڈاؤن لگنے اور نقل و حرکت کو محدود کرنے کی وجہ سے سعودی وزرا نے بھی گھروں سے کام کرنا شروع کردیا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں وزرا کرونا وائرس سے بچاؤ اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جاری کردہ سرکاری ہدایات پر خود بھی عمل کر رہے ہیں اور گھروں سے کام کر رہے ہیں۔

    وزرا نے شہریوں کو مثال پیش کرنے کے لیے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر تصاویر جاری کی ہیں جس میں وہ آن لائن کام کرتے نظر آرہے ہیں۔

    وزیر افرادی قوت انجینیئر احمد الراجحی، وزیر مواصلات عبداللہ السواحہ اور وزیر تجارت ماجد القصبی کی جاری کردہ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی وزارتوں کی کارکردگی کا آن لائن جائزہ لے رہے ہیں۔

    وزارت تعلیم نے سرکاری ویب سائٹ پر وزیر تعلیم ڈاکٹر حمد بن محمد آل الشیخ کی تصاویر بھی جاری کی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ مختلف صوبوں میں تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے آن لائن بات چیت کر رہے ہیں۔

    وزرا، اعلیٰ عہدیداروں اور بعض بڑے سرمایہ کاروں نے بھی آن لائن ڈیوٹی کی تصاویر جاری کر کے مقامی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ آن لائن کام کرنے والوں کے ساتھ وہ خود بھی شامل ہیں اور وہ ان کے شانہ بشانہ آن لائن کام کر رہے ہیں۔

  • سعودی عرب: کرفیو کے دوران ایک سے دوسرے شہر جانے پر بھی پابندی

    سعودی عرب: کرفیو کے دوران ایک سے دوسرے شہر جانے پر بھی پابندی

    ریاض: سعودی وزارت داخلہ نے واضح کیا ہے کہ کرفیو صرف شہروں کے اندر ہی نہیں باہر بھی نافذ ہے اور ایک شہر سے دوسرے شہر جانے پر بھی پابندی ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان لیفٹننٹ کرنل طلال الشہلوب کا کہنا ہے کہ کرفیو میں ایک شہر سے دوسرے شہر آنا جانا بھی منع ہے۔

    ان کے مطابق بعض افراد یہ سمجھ رہے ہیں کہ کرفیو کا دائرہ شہروں، قصبوں اور آبادیوں تک محدود ہے جبکہ ایک شہر سے دوسرے شہر آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں، یہ سمجھنا غلط ہے۔

    ترجمان نے مزید کہا کہ کرفیو کے دوران ایک شہر سے دوسرے شہر انتہائی ضرورت کے تحت ہی سفر کیا جاسکتا ہے، چیک پوسٹ پر انتہائی ضرورت کا ثبوت طلب کیا جائے گا۔ شہری ایک شہر سے دوسرے شہر کے سفر کا پروگرام اس طرح بنائیں کہ کرفیو اوقات کی خلاف ورزی نہ ہو سکے۔

    وزارت داخلہ کے ترجمان نے وارننگ دی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک شہر سے دوسرے شہر کرفیو کے دوران سفر کرتا ہوا پایا گیا تو اس پر خلاف ورزی کا جرمانہ لگایا جائے گا۔

    ان کے مطابق کرفیو کے فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے شکوک و شبہات پھیلانے والوں پر بھی جرمانے ہوں گے، کسی بھی شہری یا مقیم غیر ملکی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

    پریس کانفرنس کے دوران ترجمان نے بتایا کہ کرفیو شہروں میں اور شہروں کو جوڑنے والی شاہراہوں پر بھی نافذ ہے، مقامی شہری اور مقیم غیر ملکی کرفیو کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں میں نہ آئیں۔

    انہوں نے بتایا کہ کرفیو پر عمل درآمد کے سلسلے میں مقامی شہری اور مقیم غیر ملکی بھر پور تعاون کر رہے ہیں، سیکیورٹی اداروں نے کرفیو کے دوران چند خلاف ورزیاں ریکارڈ کی تھیں جنہیں فوری طور پر وزارت داخلہ کی ہدایت پر نمٹا دیا گیا۔

  • کرونا سے متاثرہ اِن ممالک کا نام شاید آپ نے پہلی بار سنا ہو

    کرونا سے متاثرہ اِن ممالک کا نام شاید آپ نے پہلی بار سنا ہو

    دنیا کرونا وائرس کی لپیٹ ہے اور ملکی و بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کی بدولت جہاں ہم پاکستان، برطانیہ، اٹلی، چین، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ و باخبر ہیں، وہیں اس وبا سے متاثرہ بعض ایسے ممالک بھی ہیں جن کے نام آپ نے کبھی نہیں سنے ہوں گے۔

    یہ ریاستی اور انتظامی امور میں‌ آزاد، مکمل خود مختار یا نیم خود مختار ریاستیں اور جزائر ہیں۔

    سان ماریو، یوروگوئے، انڈورا، فارو جزائر، مالڈووا، ری یونین آئی لینڈ، گواڈیلوپ، مارٹینیک، لیختینستائن وہ ممالک ہیں‌ جہاں لوگ کرونا سے متاثرہوئے ہیں۔

    اسی طرح ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو، گوام، مایوٹ، گرنزی، ٹوگو، سورینیم، جزائر کیمن، ایسواٹینی، کیپ ورد، سینٹ بارتھلیمی، سینٹ ونسینٹ اینڈ دی گریناڈائنز بھی ایسے ممالک یا علاقے ہیں جن کے بارے میں ہم شاید ہی کچھ جانتے ہوں اور یہ بھی کرونا سے متاثر ہیں۔