Tag: کرونا

  • کویت کے وزیر صحت کرونا وائرس کا شکار

    کویت کے وزیر صحت کرونا وائرس کا شکار

    کویت سٹی: کویت کے وزیر صحت خالد السعید کرونا وائرس کا شکار ہوگئے، کویت میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 2 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ کیے گئے۔

    مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کویتی وزارت صحت نے تصدیق کی ہے کہ وزیر صحت خالد السعید کرونا وائرس میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

    وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جمعرات کی صبح معمول کے مطابق وزیر صحت کا ٹیسٹ ہوا تھا، رپورٹ آنے پر پتہ چلا کہ وہ وائرس کی زد میں آگئے ہیں، وزیر صحت نے خود کو گھر میں قرنطینہ کر لیا ہے اور آن لائن فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ 4 ہفتوں کے دوران کویت میں کرونا وائرس کے کیسز غیر معمولی حد تک بڑھ گئے ہیں۔

    گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران وہاں 2 ہزار 413 نئے کیسز رپورٹ کیے گئے جبکہ 9 دسمبر سے اب تک صرف 20 کیسز رپورٹ ہوئے تھے تھے۔

  • لاہور میں ایک روز میں اومیکرون کے 31 نئے کیسز رپورٹ

    لاہور میں ایک روز میں اومیکرون کے 31 نئے کیسز رپورٹ

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک ہی روز میں کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے 31 نئے کیسز رپورٹ کیے گئے، محکمہ صحت کے مطابق لاہور میں کرونا وائرس کے نئے ویرینٹ کو روکنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور میں ایک ہی روز میں کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے 31 نئے کیسز سامنے آگئے۔

    ذرائع محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ لاہور میں اومیکرون کیسز کی مجموعی تعداد 243 تک پہنچ گئی جبکہ صوبے بھر میں اومیکرون کے 251 مریض رپورٹ ہوچکے ہیں۔

    محکمہ صحت کے مطابق لاہور میں کرونا وائرس کے نئے ویرینٹ کو روکنا ایک چیلنج بن چکا ہے، لاہور میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح بھی 5.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

    پنجاب سمیت ملک بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 12 سو 93 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ ملک بھر میں مجموعی کیسز کی تعداد 13 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

  • کرونا وائرس: ایک روز میں 1200 سے زائد نئے کیسز رپورٹ

    کرونا وائرس: ایک روز میں 1200 سے زائد نئے کیسز رپورٹ

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کیسز میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، ایک روز کے دوران کرونا وائرس کے 1200 سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ملک بھر میں مجموعی کیسز کی تعداد 13 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے مزید 6 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 28 ہزار 961 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 12 سو 93 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 13 لاکھ 1 ہزار 141 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 58 ہزار 86 ہوچکی ہے۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 51 ہزار 145 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 2 کروڑ 37 لاکھ 6 ہزار 375 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 2.52 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 609 مریض تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 9 کروڑ 91 لاکھ 44 ہزار 159 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 7 کروڑ 34 لاکھ 84 ہزار 322 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • اومیکرون ویرینٹ زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟

    اومیکرون ویرینٹ زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟

    حال ہی میں ایک تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی کیوں ہے؟

    ڈنمارک میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی قسم اومیکرون ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں پیدا ہونے والی مدافعت پر حملہ آور ہونے کے لیے ڈیلٹا سے زیادہ بہتر ہے۔

    کوپن ہیگن یونیورسٹی، اسٹیٹکس ڈنمارک اور اسٹیٹنز سیرم انسٹیٹوٹ کی مشترکہ تحقیق سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ اومیکرون قسم اتنی زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔

    نومبر 2021 میں بہت زیادہ میوٹیشن والی قسم اومیکرون کی دریافت کے بعد سے دنیا بھر میں سائنسدانوں کی جانب سے اس کے بارے میں جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے تاکہ دریافت کیا جاسکے کہ کیا واقعی اس سے متاثر افراد میں بیماری کی شدت کم ہوتی ہے۔

    اسی طرح وہ یہ بھی جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر یہ نئی قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ متعدی کیوں نظر آتی ہے۔

    اس تحقیق میں دسمبر 2021 کے وسط میں ڈنمارک کے لگ بھگ 12 ہزار گھرانوں کی جانچ پڑتال میں دریافت کیا گیا کہ اومیکرون ویکسنیشن کرانے والے افراد میں ڈیلٹا کے مقابلے میں 2.7 سے 3.7 گنا زیادہ متعدی ہے۔

    تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کی نئی قسم اس لیے برق رفتاری سے پھیل رہی ہے کیونکہ یہ ویکسینز سے پیدا ہونے والی مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونے میں زیادہ بہتر ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہمارے نتائج سے تصدیق ہوتی ہے کہ اومیکرون کے تیزی سے پھیلنے کی بنیادی وجہ مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونا ہے۔ ڈنمارک کی 78 فیصد آبادی کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے جبکہ لگ بھگ 48 فیصد کو تیسری خوراک بھی استعمال کروائی جا چکی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بوسٹر ڈوز استعمال کرنے والے افراد میں وائرس کے پہنچنے کا امکان ویکسی نیشن نہ کروانے والے لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے، چاہے قسم جو بھی ہو۔

    ماہرین کے مطابق اگرچہ اومیکرون زیادہ متعدی ہے مگر اس قسم سے بظاہر بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ نہیں ہوتا۔

    انہوں نے کہا کہ اگرچہ اومیکرون نظام صحت پر دباؤ ڈالنے کے قابل قسم ہے، مگر ہر چیز سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ ڈیلٹا کے مقابلے میں معتدل بیماری کا باعث بنتی ہے۔ ڈیلٹا کے مقابلے میں اومیکرون سے بیمار ہونے پر اسپتال میں داخلے کا خطرہ بھی 50 فیصد کم ہوتا ہے۔

  • لاہور میں اومیکرون کے 39 نئے کیسز رپورٹ

    لاہور میں اومیکرون کے 39 نئے کیسز رپورٹ

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے مزید نئے کیسز سامنے آگئے، پنجاب میں اومیکرون کیسز کی تعداد 153 ہوچکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ صحت پنجاب کا کہنا ہے کہ لاہور میں کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے 39 نئے کیسز سامنے آگئے، شہر میں اومیکرون کے کیسز کی تعداد 151 ہو چکی ہے۔

    محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اومیکرون کیسز کی تعداد 153 ہوگئی ہے، اومیکرون کا شکار افراد میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد بھی شامل ہیں۔

    صوبائی محکمہ صحت کے مطابق اومیکرون وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، اومیکرون پھیلنے کی شرح ڈیلٹا ویرینٹ سے بھی زیادہ ہے۔

    دوسری جانب پنجاب سمیت ملک بھر میں کرونا وائرس کیسز میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، گزشتہ روز کے دوران کرونا وائرس کے 600 سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔

    نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے مزید 2 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 28 ہزار 945 ہوگئی۔

    گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 630 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 97 ہزار 865 ہوگئی۔

  • بھیڑوں اور بکریوں نے لوگوں کو کرونا ویکسین لگوانے پر کیسے راغب کیا؟

    بھیڑوں اور بکریوں نے لوگوں کو کرونا ویکسین لگوانے پر کیسے راغب کیا؟

    جرمنی میں زیادہ سے زیادہ افراد کو کرونا وائرس کے خلاف ویکسی نیشن کی ترغیب دینے کے لیے بھیڑوں اور بکریوں کو بھی مہم میں شامل کرلیا گیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق روٹی کے لذیذ ٹکڑوں کی بدولت تقریباً 700 بھیڑ اور بکریاں ویکسی نیشن مہم میں شامل ہوگئیں، جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کرونا وائرس کے خلاف ویکسین لگوانے کی ترغیب دینا تھا۔

    پیر کے روز جانوروں کو تقریباً 100 میٹر (330 فٹ) سرنج کی شکل میں ہیمبرگ کے جنوب میں شنورڈنگن کے ایک کھیت میں ترتیب دیا گیا۔

    اس موقع کے لیے چرواہے وائیبکے شمٹ کوچن نے اپنے جانوروں کے ساتھ مشق کرتے ہوئے کئی دن گزارے۔ وائیبکے شمٹ کوچن نے سرنج کی شکل میں روٹی کے ٹکڑے بچھا دیے، جنہیں بھیڑ اور بکریوں نے کھیت میں آنے کے بعد جلدی سے کھا لیا۔

    آرگنائزر ہانسپیٹر ایٹزولڈ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ان لوگوں کے لیے تھا جو ابھی تک ویکسین لگوانے سے ہچکچا رہے ہیں۔

    جرمنی کی حکومت نے کرونا وائرس کی تازہ ترین لہر کو شکست دینے کی کوشش میں ایک تیز رفتار ویکسی نیشن مہم کو اپنی اولین ترجیح بنا لیا ہے۔ پیر تک جرمنی میں ویکسین کی دو خوراکیں لینے والوں کی تعداد 71 فیصد ہو چکی ہے۔

  • کرونا وائرس: کم وزن والے افراد کے لیے خوشخبری

    کرونا وائرس: کم وزن والے افراد کے لیے خوشخبری

    واشنگٹن: جسمانی وزن میں اضافہ کووڈ 19 کے لیے سازگار عنصر قرار دیا جاتا رہا ہے کیونکہ زیادہ وزن کرونا وائرس کی سنگینیوں میں اضافہ کرسکتا ہے جبکہ کم وزن والے افراد میں یہ خطرہ کم ہے، اب اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ زیادہ جسمانی وزن والے افراد میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے پر بیماری کی سنگین پیچیدگیوں اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، مگر وزن میں کمی لاکر اس خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    کلیو لینڈ کلینک کی ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ جسمانی وزن میں نمایاں کمی لانا کووڈ 19 سے لڑنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق میں 20 ہزار سے زیادہ افراد کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    تحقیق کا بنیادی مقصد یہ جائزہ لینا تھا کہ موٹاپے کے شکار افراد اگر کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل جسمانی وزن میں کمی لاتے ہیں تو بیماری کی پیچیدگیوں کا خطرہ کس حد تک کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری سے قبل سرجری کے ذریعے جسمانی وزن میں کمی لانے والے افراد میں کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ 60 فیصد تک کم ہوگیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد اگر اپنے جسمانی وزن کو کووڈ سے بیمار ہونے سے قبل کم کرلیتے ہیں تو سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق سے ٹھوس شواہد فراہم ہوتے ہیں کہ موٹاپا کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر ہے مگر اس میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

    تحقیق میں شامل 20 ہزار سے زیادہ افراد میں سے 5 ہزار نے اپنا جسمانی وزن سرجری کے ذریعے 2004 سے 2017 کے دوران کم کیا تھا اور ان کا موازنہ باقی 15 ہزار افراد پر مشتمل کنٹرول گروپ سے کیا گیا۔

    کووڈ 19 کی وبا پھیلنے کے بعد ان افراد میں کووڈ کے کیسز کی شرح، اسپتال میں داخلے، آکسیجن کی ضرورت اور سنگین پیچیدگیوں کو دیکھا گیا۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی شرح دونوں گروپس میں ملتی جلتی تھی مگر جسمانی وزن کم کروانے والی سرجری کے عمل سے گزرنے والے افراد میں بیماری کے بعد کے نتائج دوسرے گروپ سے بہتر تھے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ وزن کم کرنے والے مریضوں میں اسپتال میں داخلے کا خطرہ 49 فیصد، آکسیجن کی ضرورت کا امکان 63 فیصد اور بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ 60 فیصد تک کم ہوگیا۔

    انہوں نے بتایا کہ نتائج چونکا دینے والے ہیں اور اس بات کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ جسمانی وزن میں کمی لانا کووڈ کے مریضوں کو جان لیوا پیچیدگیوں سے بچا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران جسمانی وزن میں کمی کو عوامی صحت کی حکمت عملی بنا کر بہتری لاسکتے ہیں۔

  • ملک بھر میں کرونا وائرس کیسز میں بتدریج اضافہ

    ملک بھر میں کرونا وائرس کیسز میں بتدریج اضافہ

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کیسز میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، ایک روز کے دوران کرونا وائرس کے 600 سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے مزید 2 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 28 ہزار 945 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 630 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 97 ہزار 865 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 57 ہزار 355 ہوچکی ہے۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 44 ہزار 198 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 2 کروڑ 35 لاکھ 58 ہزار 972 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 1.42 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 641 مریض تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 9 کروڑ 82 لاکھ 1 ہزار 766 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 7 کروڑ 20 لاکھ 60 ہزار 508 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • کرونا وائرس سے ہونے والے ایک اور نقصان کا انکشاف

    کرونا وائرس سے ہونے والے ایک اور نقصان کا انکشاف

    کرونا وائرس کسی جسم پر حملہ آور ہونے کے بعد جہاں اسے مختلف نقصانات پہنچاتا ہے وہیں اس حوالے سے ایک اور اثر کا انکشاف ہوا ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس جسم میں ایسے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے جو بیماری اور ریکوری کے بعد بھی برقرار رہتا ہے اور ایسا ان افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے جن میں بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے یا علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    سیڈرز سینائی میڈیکل سینٹر کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جب لوگ کسی وائرس یا دیگر جراثیموں سے بییمار ہوتے ہیں تو ان کا جسم اینٹی باڈیز نامی پروٹینز کو متحرک کرتا ہے تاکہ حملے کو روکا جاسکے، مگر کچھ کیسز میں لوگوں میں آٹو اینٹی باڈیز بنتی ہیں جو وقت کے ساتھ جسم کے اپنے اعضا اور ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر رہنے والے افراد میں متعدد اقسام کی آٹو اینٹی باڈیز مکمل صحت یابی کے 6 ماہ بعد بھی موجود ہوتی ہیں۔

    اس تحقیق سے قبل محققین کو معلوم تھا کہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے مدافعتی نظام پر اتنا زیادہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ آٹو اینٹی باڈیز بنانے لگتا ہے۔

    مگر اس تحقیق میں پہلی بار بتایا گیا کہ معمولی بیمار یا بغیر علامات والے مریضوں میں بھی آٹو اینٹی باڈیز کی سطح وقت کے ساتھ برقرار رہ سکتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ان نتائج سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کیا چیز کووڈ 19 کو ایک منفرد بیماری بناتی ہے، مدافعتی نظام کے افعال متاثر ہونے کے ایسے رجحانات طویل المعیاد علامات کے تسلسل کا باعث بن سکتے ہیں جس کو لانگ کووڈ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں 177 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں ماضی میں کووڈ کی تشخیص ہوچکی تھی۔

    ان افراد کے خون کے نمونوں کا موازنہ ایسے صحت مند افراد کے نمونوں سے کیا گیا جن کو وبا سے قبل جمع کیا گیا۔

    تحقیق میں معلوم ہوا کہ کرونا وائرس سے متاثر تمام افراد میں آٹو اینٹی باڈیز کی سطح میں اضافہ ہوچکا تھا اور ان میں سے کچھ آٹو اینٹی باڈیز ایسے افراد میں بھی موجود ہوتی ہیں جن میں مدافعتی نظام صحت مند خلیات پر ہی حملہ آور ہوجاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے آٹو اینٹی باڈی سرگرمیوں کے سگنلز کو دریافت کیا جو عموماً دائمی ورم سے جڑے ہوتے ہہیں اور اعضا کے مخصوص نظاموں اور ٹشوز جیسے جوڑوں، جلد اور اعصابی نظام میں انجری کا باعث بنتے ہیں۔

    اب وہ اس تحقیق کو مزید آگے بڑھانے کے خواہشمند ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کون سی اقسام کی آٹو اینٹی باڈیز کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والی افراد میں موجود ہوتی ہیں۔

    چونکہ اس تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو ویکسینز کی تیاری سے قبل کووڈ سے متاثر ہوئے تھے تو اب محققین ویکسی نیشن کے بعد بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں آٹو اینٹی باڈیز کا جائزہ بھی لینا چاہتے ہیں۔

  • کرونا وائرس کا خاتمہ: عالمی ادارہ صحت نے خوشخبری سنا دی

    کرونا وائرس کا خاتمہ: عالمی ادارہ صحت نے خوشخبری سنا دی

    کرونا وائرس کی وبا کو 2 سال گزر چکے ہیں اور اب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے خوشخبری سنائی ہے کہ 2022 کرونا وائرس کی وبا کا کے خاتمے کا سال ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرسکے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود عالمی ادارہ صحت نے امید ظاہر کی ہے کہ 2022 میں کرونا وائرس کی وبا کا اختتام ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا کے پاس اب اس سے نمٹنے کے لیے آلات موجود ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈ روس ایڈہانم نے جمعرات کو لنکڈ ان پر اپنی پوسٹ میں خبردار کیا کہ عدم مساوات جتنے طویل عرصے تک برقرار رہے گا، یہ وبا اتنی ہی طویل عرصے تک جاری رہے گی۔

    ٹیڈ روس نے افریقہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وبا کو آئے 2 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے درکار چیزیں اور آلات مناسب طریقے سے برابری کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیے گئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ افریقہ میں محکمہ صحت کے عملے کی اب بھی ہر چار میں سے تین کی مکمل ویکسی نیشن نہیں ہوئی جبکہ یورپ میں لوگوں کو ویکسین کے تیسری خوراک بطور بوسٹر لگ رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس خلا کی وجہ سے نئے ویریئنٹ کے پھیلنے کے مواقع مزید بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہم دوبارہ سے جانی نقصان، پابندیوں اور مشکلات کے سائیکل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    ٹیڈ روس نے کہا کہ اگر ہم عدم مساوات ختم کرتے ہیں تو اس وبا کو بھی ختم کردیں گے اور اس عالمی ڈراؤنے خواب کا بھی خاتمہ کردیں گے جس میں ہم جی رہے ہیں اور یہ یقیناً ممکن ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے نئے سال کی آمد کے موقع پر عہد کیا کہ ہم حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ عالمی اقدامات کے تحت ویکسین کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومتیں اس حوالے سے مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کریں تو ہم 50 لاکھ سے زائد جانیں لینے والی اس وبا کو ختم کر سکتے ہیں جبکہ اس کے لیے لوگوں کو بھی انفرادی سطح پر ویکسینیشن کے ساتھ ساتھ حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ 2022 کے وسط تک دنیا کی 70فیصد آبادی کو ویکسین لگا دیں۔

    ٹیڈ روس نے ویکسین کی وافر سپلائی یقینی بنانے کے لیے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظور شدہ ویکسین بنانے والی کمپنیوں سے درخواست کی کہ وہ انسانی بنیادوں پر ٹیکنالوجی اور ویکسین بنانے کا طریقہ بڑی کمپنیوں سے شیئر کریں تاکہ ویکسین زیادہ تیزی سے بنائی جا سکیں۔

    انہوں نے نئے سال کے لیے اپنے عہد کے ساتھ ساتھ تمام حکومتوں سے بھی درخواست کی کہ وہ اپنے صحت کے شعبے میں بھرپور سرمایہ کاری کریں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا کہ اگر ہم یہ اہداف حاصل کرتے ہیں تو ہم 2022 کے اختتام پر دوبارہ وبا سے قبل والی اپنی معمول کی زندگی کی طرف واپسی کا جشن منا رہے ہوں گے اور اس وقت ہم اپنے پیاروں کے ساتھ مل کر اپنی خوشیاں کھل کر منا سکیں گے۔