Tag: کرونا

  • کرونا وائرس: ملک بھر میں 200 سے زائد نئے کیسز رپورٹ

    کرونا وائرس: ملک بھر میں 200 سے زائد نئے کیسز رپورٹ

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے 200 سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 14 مزید اموات ہوئیں، ملک میں مکمل ویکسی نیٹڈ افراد کی تعداد لگ بھگ 6 کروڑ ہوچکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 14 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 28 ہزار 863 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 277 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 90 ہزار 491 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 52 ہزار 157 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 41 ہزار 927 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 2 کروڑ 27 لاکھ 30 ہزار 952 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 0.66 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 718 مریض تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 8 کروڑ 69 لاکھ 68 ہزار 178 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 5 کروڑ 93 لاکھ 61 ہزار 468 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • اومیکرون کے خلاف روسی ویکسین کی جلد جانچ کی جائے گی

    اومیکرون کے خلاف روسی ویکسین کی جلد جانچ کی جائے گی

    ماسکو: روسی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف روسی ساختہ سپٹنک ویکسین کی جلد جانچ کی جائے گی۔

    روسی میڈیا کے مطابق روس کے گمیلیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف ایپڈمولوجی اینڈ مائیکرو بائیولوجی کے ڈائریکٹر الیگزینڈر گِنٹسبرگ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی شکل اومیکرون کے خلاف روسی اسپٹنک وی ویکسین کی تاثیر کا 10 دن کے اندر تجربہ کیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں اومیکرون پر اسپٹنک وی کی تاثیر کو جانچنے کے لیے 10 دن کافی ہوں گے۔

    ایک ہفتہ قبل گنٹسبرگ نے کہا تھا کہ گیملیا ریسرچ سینٹر نے تصدیق کی ہے کہ اومیکرون سے متاثرہ مریضوں کو، جو جنوبی افریقہ سے روس پہنچے تھے، انہیں ویکسین لگائی گئی تھی۔

    نومبر کے آخر میں انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ ویکسین کو تبدیل کرنے کے بارے میں اور اومیکرون کا مکمل ڈیٹا دستیاب ہونے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔

    گنٹسبرگ کے مطابق اگر ضرورت ہو تو نئی ویکسین تیار کرنے میں 10 دن سے زیادہ نہیں لگیں گے اور ریگولیٹری عمل میں ڈیڑھ سے ڈھائی ماہ لگیں گے۔

  • اومیکرون مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتا: نئی تحقیق

    اومیکرون مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتا: نئی تحقیق

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ اپنے مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتا اور نہ ہی یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی افریقی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرونا کی اومیکرون قسم کے اب تک کے ڈیٹا اور نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی قسم مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتی۔

    جنوبی افریقی سائنسدانوں نے گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران رپورٹ ہونے والے اومیکرون کیسز کے ڈیٹا کی بنیاد پر کہا ہے کہ اس بات کے بھی شواہد نہیں ملے کہ نئی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اومیکرون کی تصدیق کے بعد اب تک جنوبی افریقہ میں ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 22 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل ڈیلٹا ویرئنٹ کے پھیلنے کے وقت سب سے زیادہ 26 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

    ماہرین کے مطابق اب تک اومیکرون ویرئنٹ جنوبی افریقہ کے 9 صوبوں تک پھیل چکا ہے مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس قسم میں مبتلا ہونے والا شخص زیادہ بیمار نہیں ہو رہا۔

    سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اومیکرون سے متاثرہ شخص کم عرصے تک اسپتال میں داخل رہتا ہے اور اس میں سنگین علامات بھی نہیں دکھائی دیتیں، تاہم ساتھ ہی ماہرین نے کہا کہ ابھی اومیکرون کو کم شدت والی قسم قرار دینا قبل از وقت ہے، اس کے لیے مزید ڈیٹا اور نتائج کی ضرورت ہے۔

    اومیکرون کی نئی قسم کو نومبر کے آخر میں 25 یا 26 نومبر کو جنوبی افریقہ میں پایا گیا تھا اور اس وقت وہاں کے ماہرین نے اسے سب سے زیادہ خطرناک قسم قرار دیا تھا۔

    اومیکرن گزشتہ دو ہفتوں میں 5 درجن کے قریب ممالک تک پھیل چکا ہے، تاہم اب تک کی اطلاعات اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبتلا ہونے والے افراد میں موت کی شرح کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے۔

    پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی 9 دسمبر کو اومیکرون کے پہلے کیس کی تصدیق کی گئی تھی جبکہ بھارت سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی نئی قسم کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

  • کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری ہے تاہم یہ مرض دل، گردوں اور جگر کو بھی نقصان پہنچاتا ہے، اب حال ہی میں دماغ پر بھی اس کے سنگین اثرات کا انکشاف ہوا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کے نتیجے میں اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک فیصد مریضوں کو ممکنہ طور پر جان لیوا دماغی پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    تھامس جیفرسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے مریضوں کو جان لیوا دماغی پیچیدگیوں بشمول فالج، جریان خون اور ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصانات پر تو کافی کچھ معلوم ہوچکا ہے مگر ہم اس بیماری سے متاثر ہونے والے دیگر اعضا پر زیادہ بات نہیں کرتے۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی پیچیدگیاں اس تباہ کن وبا کے سنگین کیسز اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    اس تحقیق میں لگ بھگ 42 ہزار ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جو کووڈ 19 کے باعث امریکا یا مغربی یورپ کے مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے، ان افراد کی اوسط عمر 66 سال تھی اور ان میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد دگنی تھی۔

    بیشتر مریض پہلے سے مختلف امراض جیسے امراض قلب، ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر سے متاثر تھے۔

    ان میں سے جن افراد کے ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین ہوئے، ان میں سے 442 مریضوں میں کووڈ 19 سے جڑی دماغی پیچیدگیوں کو دریافت کیا گیا۔

    نتائج سے عندیہ ملا کہ 1.2 فیصد مریضوں کو کووڈ کے باعث کسی ایک دماغی پیچیدگی کا سامنا ہوا ان میں فالج (6.2 فیصد)، برین ہیمرج (3.77 فیصد) اور دماغی ورم (0.47 فیصد) سب سے عام پیچیدگیاں تھیں۔

    ماہرین نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی تمام پیچیدگیوں کے مستند تفصیلات سامنے لائی جائیں۔

    مجموعی طور پر امریکا کے مقابلے میں یورپ میں مریضوں میں دماغی پیچیدگیوں کی شرح 3 گنا زیادہ تھی۔ تحقیق میں اس فرق کے عناصر کی وضاحت نہیں کی گئی مگر ماہرین نے بتایا کہ یورپ کے مقابلے میں امریکا میں کووڈ مریضوں میں فالج کی شرح زیادہ تھی۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کیسے سامنے آئی؟

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کیسے سامنے آئی؟

    10کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے بارے میں ابھی بہت سی معلومات ہونا باقی ہیں تاہم حال ہی میں اس کے ارتقا کے بارے میں ایک تحقیق کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کا ارتقا عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے وائرس کے جینیاتی مواد کے ایک حصے کے ذریعے ہوا۔

    امریکی بائیو میڈیکل کمپنی اینفرینس کی اس تحقیق کے ابتدائی نتائج سے عندیہ ملا ہے کہ کرونا کی یہ نئی قسم ممکنہ طور پر اسی وجہ سے سابقہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہوسکتی ہے۔

    تحقیق میں موجود ڈیٹا سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون میں جینیاتی مواد نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک اور انسانی کرونا وائرس ایچ کوو 229 ای سے مماثلت رکھتا ہے۔

    ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اومیکرون کا ارتقا کسی ایسے فرد کے اندر ہوا جو کووڈ کے ساتھ ساتھ ایچ کوو 229 ای سے بیک وقت متاثر تھا۔

    انہوں نے کہا کہ اومیکرون کا جینیاتی سیکونس کرونا وائرس کی سابقہ اقسام میں نظر نہیں آتا بلکہ وہ عام نزلہ زکام والے وائرس اور انسانی جینوم کا امتزاج ہے۔ اس جینیات کے مواد کے باعث اومیکرون خود کو زیادہ انسانی دکھانے والی قسم بن گئی جس کے باعث اس کے لیے انسانی مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونا آسان ہوا۔

    تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ممکنہ طور پر اس سے وائرس کو زیادہ آسانی سے پھیلنے میں مدد ملی، مگر ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے یا سنگین بیماری کا باعث بن سکتی ہے یا نہیں۔

    ماہرین نے کہا کہ ان سوالات کے جواب جاننے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

    اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پھیپھڑوں اور نظام ہاضمہ کے خلیات میں سارس کوو 2 اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کرونا وائرسز بیک وقت رہ سکتے ہیں۔

    ایک ہی میزبان خلیے میں 2 مختلف وائرسز میں اس طرح کے تعلق کے بعد وہ اپنی نقول بناتے ہوئے ایسی نئی نقول تیار کرتے ہیں جن کا کچھ جینیات مواد یکساں ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ نئی میوٹیشن کسی ایسے فرد میں ہوئی ہوگی جو دونوں وائرسز سے متاثر ہوگا اور اس دوران کوو 2 نے دوسرے وائرس کے جینیاتی سیکونس کو اٹھا لیا ہوگا۔

    اس طرح کے جینیاتی سیکونسز انسانوں میں نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک کورونا وائرس ایچ کوو 229 ایس میں متعدد بار ظاہر ہوا ہے جبکہ ایچ آئی وی وائرس میں بھی ایسا ہوتا ہے۔

  • ایک اور ملک میں اومیکرون کا کیس رپورٹ

    ایک اور ملک میں اومیکرون کا کیس رپورٹ

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے، ایک اور افریقی ملک تیونس میں بھی اومیکرون کا کیس سامنے آگیا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق تیونس کے وزیر صحت نے کہا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ کا پہلا کیس سامنے آگیا ہے، متاثرہ شخص استنبول سے تیونس پہنچا تھا۔

    وزیر صحت علی مرابط کا کہنا ہے کہ کانگو کے 23 سالہ شخص کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، ترکی سے آنے والی پرواز کے تمام مسافروں نے بھی تیونسی حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ ان کا بھی ٹیسٹ کیا جائے۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ اس نے کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے کیسز دنیا کے 38 ممالک میں سامنے آئے ہیں تاہم اس سے کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق وہ تشویش کا باعث بننے والے ویریئنٹ کے بارے میں شواہد اکٹھے کر رہا ہے کیونکہ دنیا بھر کے ممالک اسے پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • اومیکرون پر تحقیق کا نیا ڈیٹا سامنے آگیا

    اومیکرون پر تحقیق کا نیا ڈیٹا سامنے آگیا

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے اور حال ہی میں اس پر کی گئی ایک تحقیق کے نتائج سامنے آگئے ہیں۔

    جنوبی افریقہ کے سائنسدانوں کی جانب سے جاری تحقیق میں بتایا گیا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کرونا کی یہ نئی قسم بیماری کے خلاف جسم میں پیدا ہونے والی مدافعت کے خلاف کسی حد تک حملہ آور ہو سکتی ہے۔

    درحقیقت ماہرین نے جنوبی افریقہ میں ایسے افراد کی تعداد میں اضافے کو دیکھا ہے جو دوسری یا اس سے زیادہ بار کووڈ 19 سے متاثر ہوئے ہیں۔

    یہ ایک ابتدائی تجزیہ ہے اور حتمی نہیں، مگر اومیکرون کے اسپائیک پروٹین میں ہونے والی میوٹیشنز کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات سے مطابقت رکھتا ہے۔

    ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ ویکسینز سے کووڈ 19 سے ملنے والے تحفظ کے حوالے سے یہ ڈیٹا کس حد تک کارآمد ہے۔

    جنوبی افریقہ نے ہی کرونا کی اس نئی قسم کو سب سے پہلے رپورٹ کیا تھا اور دنیا بھر کے ماہرین اس کے حقیقی خطرے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    اب اومیکرون کے حوالے سے پہلی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں جس کے مطابق جو افراد ماضی میں کووڈ کا سامنا کرچکے ہیں، ان میں پیدا ہونے والی مدافعت ممکنہ طور پر اومیکرون سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں۔

    واضح رہے کہ اومیکرون کے کیسز اب تک 30 سے زیادہ ممالک میں سامنے آچکے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے جنوبی افریقہ میں کووڈ ری انفیکشن کے لگ بھگ 36 ہزار مشتبہ کیسز کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی تاکہ دیکھا جاسکے کہ وبا کے دوران دوبارہ بیمار ہونے کی شرح میں کس حد تک تبدیلیاں آئی ہیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ سے دوبارہ متاثر ہونے کی شرح میں بیٹا یا ڈیلٹا کی لہروں کے دوران کوئی تبدیلی نہیں آئی مگر اس بار جنوبی افریقہ میں ری انفیکشن کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ماہرین نے تمام مریضوں کو ٹیسٹ کر کے اومیکرون سے متاثر ہونے کی تصدیق تو نہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ بیماری کے وقت سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ نئی قسم ہی اس کی وجہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اومیکرون میں کم از کم قدرتی بیماری کا سامنا رکھنے والے افراد کو بیمار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

    مگر یہ معمے کا ایک حصہ ہے اور ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ ویکسینز سے پیدا ہونے والی مدافعت کے خلاف یہ نئی قسم کس حد تک خطرناک ہے اور مدافعت میں کس حد تک کمی دوبارہ بیماری کا باعث بنتی ہے۔

    وائرس پر حملہ آور ہونے والی اینٹی باڈیز کے بارے میں لیبارٹری تحقیقی رپورٹس کے نتائج آئندہ ہفتے سے سامنے آنے کا امکان ہے۔

    جنوبی افریقہ میں ابھی صرف 24 فیصد افراد کی ویکسی نیشن مکمل ہوئی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا ان ممالک کو بھی ہوسکتا ہے جہاں ویکسی نیشن کی شرح کم اور قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت کی شرح زیادہ ہے۔

    ماہرین نے زور دیا کہ ابھی ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ اومیکرون ویکسین سے بننے والی مدافعت پر حملہ آور ہوسکتی ہے کیونکہ ابھی اس حوالے سے ڈیٹا موجود نہیں۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔

  • سعودی عرب: اومیکرون کے خلاف موجودہ ویکسین مؤثر

    سعودی عرب: اومیکرون کے خلاف موجودہ ویکسین مؤثر

    ریاض: سعودی صحت حکام کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف موجودہ ویکسین مؤثر ہیں، ابھی تک اس کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر محمد العبد العالی نے نئے وائرس اومیکرون سے بچاؤ کے لیے کرونا ویکسین کے فعال ہونے سے متعلق سوال کا جواب دیا ہے۔

    ترجمان نے اپنے ٹویٹر پر کہا کہ اومیکرون کے خلاف موجودہ ویکسین مؤثر ہیں، ابھی تک اس کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔

    انہوں نے کہا کہ وزارت صحت تمام حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے، معاشرے کو معتبر اطلاعات کی فراہمی ہمارا فرض ہے۔

    وزارت صحت کے ترجمان نے مزید کہا کہ تمام لوگ حفاظتی تدابیر اختیار کریں، ویکسین کی مطلوبہ خوراکیں جلد حاصل کرلیں۔ سب کے تحفظ کا اہم ترین ذریعہ یہی ہے۔

    خیال رہے کہ ترجمان نے اس سے قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اب مملکت میں 22 ملین سے زیادہ افراد ایسے ہیں جو کرونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لے چکے ہیں جن میں سعودی اور غیر ملکی شامل ہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگ بوسٹر ڈوز بھی لگوا چکے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مملکت میں وائرس کا مدافعتی نظام بہترین ہے۔

    ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی نئی شکلوں سے بچاؤ میں ویکسین کا کردار اہم ہے، تمام لوگ حفاظتی تدابیرکی پابندی کریں اور پرہجوم مقامات سے دور رہیں۔

  • امریکا میں 1 لاکھ سے زائد نئے کرونا کیسز رپورٹ، اومیکرون کیسز بھی شامل

    امریکا میں 1 لاکھ سے زائد نئے کرونا کیسز رپورٹ، اومیکرون کیسز بھی شامل

    واشنگٹن: امریکا میں ایک بار پھر کووڈ 19 کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے، گزشتہ 24 گھنٹے میں 1 لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں نئی قسم اومیکرون کے کیسز بھی شامل ہیں۔

    حکام کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم کے کیسز سمیت ملک میں مجموعی طور پر بھی کووڈ کیسز میں اضافہ ہوچکا ہے، گزشتہ 24 گھنٹے میں 1 لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ایک دن میں 1200 سے زائد اموات ہوئیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا میں کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے متعدد کیسز سامنے آگئے، نیویارک میں 5 افراد اومیکرون وائرس سے متاثر ہوئے جس کی تصدیق گورنر نے کردی۔

    امریکا کی دیگر ریاستوں کیلی فورنیا، کولا راڈو، ہوائی اور منی سوٹا میں بھی 1، 1 کیس رپورٹ ہوا۔

    حکام نے امریکا آمد پر مسافروں کے لیے ایک روز پہلے کی منفی کرونا ٹیسٹ رپورٹ لازمی قرار دی ہے، امریکی صدر بائیڈن نے بھی 10 کروڑ امریکی شہریوں کو بوسٹر شاٹس لگانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

    حکام کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم کے کیسز سمیت ملک میں مجموعی طور پر بھی کووڈ کیسز میں اضافہ ہوچکا ہے، گزشتہ 24 گھنٹے میں 1 لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ایک دن میں 1200 سے زائد اموات ہوئیں۔

    امریکا کے علاوہ برطانیہ اور یورپ میں بھی کرونا وائرس کیسز میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جرمنی میں ایک دن میں 73 ہزار، برطانیہ میں 53 ہزار اور جنوبی افریقہ میں کووڈ 19 کے 11 ہزار کیسز رپورٹ کیے گئے۔

  • کیا اومیکرون خطرناک قسم ثابت ہوسکتی ہے؟

    کیا اومیکرون خطرناک قسم ثابت ہوسکتی ہے؟

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ کے نیشنل انسٹیٹوٹ فار کمیونیکیبل ڈیزیز نے کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ کی شرح کا ایک ابتدائی جائزہ پیش کیا ہے۔

    جنوبی افریقہ وہ ملک ہے جس نے اومیکرون کو سب سے پہلے رپورٹ کیا تھا اور جنوبی افریقی ادارے کے مطابق یہ نئی قسم ملک کے 9 میں سے 5 صوبوں میں دریافت ہوچکی ہے۔

    ادارے کے مطابق نومبر میں وائرس جینومز سیکونس کے 74 فیصد نمونوں میں اومیکرون کو دریافت کیا گیا، یکم دسمبر 2021 کو جنوبی افریقہ میں روزانہ رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 8 ہزار 561 تھی جو گزشتہ روز سے دگنا زیادہ ہے۔

    مجموعی ٹیسٹوں پر مثبت ٹیسٹوں کی شرح ایک دن پہلے 10.2 فیصد تھی تو یکم دسمبر کو وہ 16.5 فیصد تک پہنچ گئی۔ مگر ڈیٹا میں یہ بھی بتایا گیا کہ اموات اور اسپتال میں شرح میں کوئی نمایاں تبدیلی دریافت نہیں ہوئی۔

    دنیا بھر کے طبی اداروں کے ماہرین نے کہا ہے کہ توقع ہے کہ اومیکرون اور اس کے پھیلاؤ اور شدت کے بارے میں چند دنوں میں زیادہ بہتر معلومات سامنے آجائیں گی۔

    یکم دسمبر کو گھانا، نائیجریا، سعودی عرب اور جنوبی کوریا میں اومیکرون کے اولین کیسز ریکارڈ ہوئے اور اب تک یہ قسم 24 ممالک میں دریافت ہوچکی ہے۔

    میڈیا بریفننگ کے دوران ڈبلیو ایچ او کی ماہر ماریہ واک کرکوف نے بتایا کہ ایک ممکنہ منظر نامہ تو یہ ہے کہ اومیکرون ڈیلٹا سے زیادہ متعدی ہوسکتی ہے مگر ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ نئی قسم لوگوں کو زیادہ بیمار کرسکتی ہے یا نہیں۔

    عالمی ادارے نے ایک بار پھر انتباہ کیا کہ ویکسی نیشن اور ٹیسٹنگ کی کم شرح کرونا وائرس کی نئی اقسام بننے کے لیے زرخیر زمین کا کام کررہی ہے۔

    درجنوں ممالک نے اس نئی قسم کے بعد سفری پابندیوں کو سخت کیا ہے جبکہ یکم دسمبر کو امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے کہا کہ اب امریکی سرزمین پر آنے والے تمام مسافروں کو نیگیٹو کووڈ ٹیسٹ پیش کرنا ہوگا جو سفر سے ایک دن پہلے ہونا ضروری ہے۔

    اب تک 56 ممالک نے اومیکرون کی روک تھام کے لیے سفری پابندیوں کا نفاذ کیا ہے حالانکہ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کی پابندیاں بدترین ناانصافی ہیں۔

    ماریہ وان نے بتایا کہ افریقہ کے جنوبی حصے کے ممالک پر پابندیوں کے نفاذ سے طبی ماہرین تک اومیکرون کے نمونوں کی ترسیل میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

    یکم دسمبر کو ایک نئی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ نائیجریا میں ایک تجزیے میں اومیکرون کو اکتوبر 2021 میں دریافت کیا گیا، جس سے یہ خدشات بڑھ جاتے ہیں کہ یہ نئی قسم منظرعام پر آنے سے ہفتوں قبل گردش کررہی تھی۔

    نائیجرین طبی حکام نے بتایا کہ درحقیقت اکتوبر کے نمونوں میں اس نئی قسم کی شناخت ڈیلٹا کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے جینیاتی سیکونس کے دوران ہوئی۔