Tag: کرونا

  • کرونا وائرس کی نئی قسم، ماہرین پریشان

    کرونا وائرس کی نئی قسم، ماہرین پریشان

    عالمی ماہرین نے کرونا وائرس کی نئی قسم کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے وبا ایک بار پھر زور پکڑ سکتی ہے، ماہرین کے مطابق اس میں ہونے والی تبدیلیوں کی تعداد حیران کن ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ایک ایسی نئی قسم سامنے آئی ہے جس میں اتنی زیادہ تعداد میں میوٹیشنز ہوئی ہیں جو جسمانی دفاع پر حملہ آور ہو کر بیماری کی مزید لہروں کا باعث بن سکتی ہے۔

    بی 11529 نامی اس نئی کووڈ قسم کے صرف 10 کیسز کی تصدیق 3 ممالک میں جینومک سیکونسنگ کے ذریعے ہوئی مگر اس میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ قسم مدافعت پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔

    بی 11529 قسم کے اسپائیک پروٹین میں 32 میوٹیشنز ہوئی ہیں، اسپائیک پروٹین وائرس کا وہ حصہ ہے جس کو زیادہ تر ویکسینز میں مدافعتی نظام کی مزاحمت کے لیے ہدف بنایا جاتا ہے۔

    اسپائیک پروٹین میں میوٹیشنز سے وائرس کی خلیات کو متاثر کرنے اور پھیلنے کی صلاحیت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، مگر اس سے مدافعتی خلیات کے لیے بھی وائرس پر حملہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔

    یہ نئی قسم سب سے پہلے افریقی ملک بوٹسوانا میں دریافت ہوئی تھی جہاں اب تک اس کے 3 کیسز کی سیکونس سے تصدیق ہوئی، جنوبی افریقہ میں 6 جبکہ ہانگ کانگ میں ایک ایسے فرد میں اس کی تصدیق ہوئی جو جنوبی افریقہ سے واپس آیا تھا۔

    امپرئیل کالج لندن کے وائرولوجسٹ ڈاکٹر ٹام پیکوک نے اس نئی قسم کی تفصیلات ایک جینوم شیئرنگ ویب سائٹ پر پوسٹ کیں۔ انہوں نے اسپائیک پروٹین میں بہت زیادہ میوٹیشنز کے بارے میں بتاتے ہوئے بتایا کہ یہ فکرمند کردینے والی قسم ہے۔

    انہوں نے اپنے ٹویٹس میں بتایا کہ اس قسم کی بہت زیادہ مانیٹرنگ کی ضرورت ہے جس کی وجہ خوفناک اسپائیک پروفائل ہے۔ مگر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ممکنہ طور پر یہ بہت زیادہ متعدی قسم ہے یا کم از کم انہیں یہی امید ہے۔

    یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کے ماہرین نے بتایا کہ دنیا بھر کے سائنسی اداروں کی شراکت داری کے ذریعے برطانوی ادارہ دنیا بھر میں ابھرنے والی کرونا وائرس کی اقسام کی مانیٹرنگ کررہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وائرسز میں اکثر تبدیلیاں ہوتی ہیں تو یہ غیرمعمولی نہیں کہ نئی میوٹیشنز سے کووڈ کی نئی اقسام منظر عام پر آئے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر روی گپتا نے بتایا کہ انہوں نے لیبارٹری میں تحقیقی کام کے دوران اس نئی قسم میں 2 ایسی میوٹیشنز دریافت کیں جو اسے زیادہ متعدی اور اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرنے والا بناتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس نئی قسم میں موجود میوٹیشنز کو دیکھتے ہوئے اس کی مانیٹرنگ کرنا ضروری ہے، مگر کسی وائرس کی اہم ترین خصوصیت اس کا متعدی ہونا جس نے ڈیلٹا کو دنیا بھر میں پھیلنے میں مدد فراہم کی، مدافعتی نظام سے بچنا تصویر کا بس ایک پہلو ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی کے جینیٹکس انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر فرانسس بیلوکس نے بتایا کہ اس قسم میں میوٹیشنز کی بڑی تعداد سے بظاہر عندیہ ملتا ہے کہ یہ کووڈ کے کسی بہت زیادہ بیمار فرد میں ہونے والے وائرس کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ ایلفا یا ڈیلٹا سے بننے والی وائرس ناکارہ بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف یہ قسم مزاحمت کرسکتی ہے، مگر اس مرحلے میں یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہے کہ یہ کتنی متعدی ہوسکتی ہے، بس کچھ عرصے تک مانیٹرنگ اور تجزیہ کرنا ہوگا۔

  • کووڈ ویکسین کی تیسری ڈوز کی ایک اور افادیت سامنے آگئی

    کووڈ ویکسین کی تیسری ڈوز کی ایک اور افادیت سامنے آگئی

    کووڈ 19 ویکسین کی بوسٹر ڈوز کو اس مرض سے بچاؤ کے لیے اہم خیال کیا جارہا ہے اور اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 ویکسینز کی بوسٹر ڈوز ابتدائی 2 خوراکوں کے مقابلے میں زیادہ ٹھوس اور طویل المعیاد تحفظ کو متحرک کرتی ہے۔

    نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسی نیشن مکمل کروانے والے ایسے افراد میں بوسٹر ڈوز کا ردعمل زیادہ بہترین ہوتا ہے جو ماضی میں کووڈ کو شکست دے چکے ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ چونکہ اینٹی باڈی لیول بہت زیادہ ہوتا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ بوسٹر ڈوز سے ہمیں ویکسین کی ابتدائی 2 خوراکوں کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے تک تحفظ ملتا ہے۔

    اس تحقیق میں 33 صحت مند ایسے جوان افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی تھی۔ ان افراد کی اوسط عمر 43 سال تھی یعنی نصف درمیانی عمر جبکہ باقی جوان تھے۔

    تحقیق کے لیے ان افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فائزر یا موڈرنا ویکسینز کی 2 خوراکوں کے استعمال کے 9 ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں 10 گنا کمی آچکی تھی۔

    مگر بوسٹر ڈوز کے استعمال کے بعد اینٹی باڈیز کی سطح میں 25 گنا اضافہ ہوا اور یہ تعداد ابتدائی 2 خوراکوں کے بعد بننے والی اینٹی باڈیز سے 5 گنا سے زیادہ تھی۔

    مگر تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے کے بعد ویکسی نیشن کرانے والے افراد میں بوسٹر ڈوز کے بعد اینٹی باڈیز کی سطح میں 50 گنا اضافہ ہوا۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے تو انہیں ابتدائی نتائج تصور کیا جاسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ بوسٹر ڈوز سے ڈیلٹا وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں بھی بڑھ گئی، مگر یہ ردعمل وائرس کی اوریجنل قسم کے خلاف اس سے بھی زیادہ تھوس ہوتا ہے، کیونکہ وہ ویکسینز کا بنیادی ہدف ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نتائج ان افراد کے لیے اہم ہیں جو بوسٹر شاٹ کے استعمال پر غور کررہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایم آر این اے ویکسینز سے کووڈ 19 کے سنگین کیسز کے خلاف زیادہ تحفظ ملتا ہے، مگر یہ اثر وقت کے ساتھ کم ہونے لگتا ہے بالخصوص ان اینٹی باڈیز کی سطح میں جو بیماری کی روک تھام کرتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم ویکسی نیشن کے بعد بیماری کے کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھ رہے ہیں بالخصوص اس وقت جب زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کے پھیل رہی ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ تحقیق میں شامل لوگوں کی تعداد کم تھی مگر زیادہ امکان یہی ہے کہ بڑی آبادی میں بھی یہی اثرات دیکھنے میں آئیں گے۔

  • فائزر ویکسین بچوں میں 4 ماہ بعد بھی مؤثر

    فائزر ویکسین بچوں میں 4 ماہ بعد بھی مؤثر

    دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بچوں کی بھی کووڈ 19 کی ویکسی نیشن کروائی جارہی ہے، فائزر اور بائیو این ٹیک ویکسین بچوں کو لگائے جانے کے حوالے سے ایک نئی تحقیق ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فائزر اور بائیو این ٹیک نے کہا ہے کہ ان کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کو بیماری سے طویل المعیاد تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    کمپنیوں کی جانب سے نیا ڈیٹا جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا کہ اس عمر کے بچوں کو ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے 4 ماہ بعد بھی 100 فیصد تحفظ حاصل تھا۔

    اس تحقیق میں 12 سے 15 سال کی عمر کے 2 ہزار 228 بچوں کو شامل کیا گیا تھا اور کمپنی کی جانب سے اس ڈیٹا کے ذریعے اس عمر کے گروپ کے لیے ویکسین کی مکمل منظوری حاصل کرنے کی درخواستیں امریکا اور دنیا کے دیگر حصوں میں جمع کرائی جائے گی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ دوسری خوراک کے استعمال کے کم از کم 6 ماہ بعد بھی ان بچوں میں تحفظ کے سنجیدہ تحفظات کا مشاہدہ نہیں ہوسکا۔

    فائزر کے سی ای او البرٹ بورلا نے ایک بیان میں بتایا کہ اس وقت جب دنیا بھر میں ویکسی نیشن کروانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ اضافی ڈیٹا بچوں میں ہماری ویکسین کے محفوظ اور مؤثر کے حوالے سے اعتماد کو بڑھائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس عمر کے بچوں میں کووڈ 19 کی شرح میں اضافے کو دیکھا گیا ہے جبکہ ویکسی نیشن سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

    امریکا میں مئی 2021 کو 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کے لیے فائزر ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دی گئی تھی اور اب کمپنیوں کی جانب سے جلد مکمل منظوری کے حصول کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

    امریکا میں 16 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے اس ویکسین کی مکمل منظوری دی گئی ہے۔

  • کووڈ 19 سے متاثر ہونے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت ہے یا نہیں؟

    کووڈ 19 سے متاثر ہونے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت ہے یا نہیں؟

    اکثر افراد کی جانب سے خیال کیا جارہا ہے کہ کووڈ 19 کا شکار ہوجانے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت نہیں ہے، تاہم اس حوالے سے اب ایک نئی تحقیق سامنے آگئی ہے۔

    امریکا کی پٹسبرگ یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اسے شکست دینے والے افراد میں بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح لوگوں میں نمایاں حد تک مختلف ہوسکتی ہے اور اکثر کیسز میں یہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی جو لوگوں کو دوبارہ بیمار ہونے سے تحفظ فراہم کرسکے۔

    تحقیق میں کووڈ 19 کی معتدل شدت کا سامنا کرنے والے بالغ افراد میں صحت یابی کے بعد اینٹی باڈیز کی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی، تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 30 سال سے کم عمر افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح زیادہ عمر کے مریضوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہر ایک بالخصوص 30 سال سے کم عمر افراد کو بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی ویکسینیشن کروا لینی چاہیئے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم ایسے متعدد افراد کو جانتے ہیں جو سوچتے ہیں کہ ہمیں کووڈ کا سامنا ہوچکا ہے تو اب ویکسین کی ضرورت نہیں، مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کچھ مریضوں بالخصوص جوان افراد میں بیماری کے بعد اینٹی باڈی یادداشت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔

    اس تحقیق میں 19 سے 79 سال کی عمر کے 173 افراد کے مدافعتی ردعمل کا تجزیہ کیا گیا تھا جن میں بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی اور انہیں اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

    اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال خون کے نمونوں کے ذریعے کی گئی اور محققین نے دریافت کیا کہ کچھ افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ جبکہ کچھ میں بہت کم تھی۔

    زیادہ اینٹی باڈیز والے نمونے کرونا وائرس کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے جبکہ کم سطح والے نمونے ایسا نہیں کرسکے۔

    مگر تحقیق میں اس سطح کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی تھی جو کووڈ 19 سے دوبارہ بچانے کے لیے ضروری ہے بلکہ اس میں یہ دیکھا گیا کہ اینٹی باڈیز کی موجودگی میں بیماری کا امکان ہوتا ہے یا نہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے متعدد ایسے افراد کو دیکھا ہے جو ایک بار بیمار ہونے کے بعد احتیاطی تدابیر کو چھوڑ دیتے ہیں۔

    خیال رہے کہ کووڈ 19 اور قدرتی مدافعت کے حوالے سے ابھی بھی بہت کچھ معلوم نہیں جیسے کچھ افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ اور دیگر میں کم کیوں ہوتی ہے، ری انفیکشن سے بچانے کے لیے اینٹی باڈیز کی سطح کتنی ہونی چاہیئے یا قدرتی مدافعت کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے۔

  • فیس ماسک کووڈ 19 سے بچانے کے لیے مؤثر ترین

    فیس ماسک کووڈ 19 سے بچانے کے لیے مؤثر ترین

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ فیس ماسک کا استعمال کرنے سے کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا خطرہ 53 فیصد کم ہوجاتا ہے۔

    اس نئے جامع تجزیے میں کووڈ سے بچاؤ کے لیے مؤثر سمجھی جانے والی احتیاطی تدابیر بشمول فیس ماسک کا استعمال، سماجی دوری اور ہاتھ دھونے سے بیماری سے تحفظ کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فیس ماسک کا استعمال، سماجی دوری اور ہاتھ دھونا تمام کووڈ کیسز کی شرح میں کمی کے لیے مؤثر اقدامات ہیں، مگر فیس ماسک سب سے زیادہ مؤثر ہے۔

    آسٹریلیا، چین اور برطانیہ کے طبی ماہرین پر مشتمل ٹیم نے وبا کے دوران اپنائی جانے والی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ہونے والی 72 تحقیقی رپورٹس کی جانچ پڑتال کی۔

    بعد ازاں انہوں نے ایسی 8 تحقیقی رپورٹس کو بھی دیکھا جن میں ہاتھ دھونے، فیس ماسک پہننے اور سماجی دوری پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔

    فیس ماسک کے حوالے سے ہونے والی 6 تحقیقی رپورٹس میں ماہرین نے کووڈ کیسز کی شرح میں 53 فیصد کو دریافت کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیس ماسک کا استعمال کرونا وائرس کے پھیلاؤ، کیسز اور اموات کی شرح میں کمی لاتا ہے۔

    200 ممالک میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جہاں فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا وہاں کووڈ 19 کے منفی اثرات میں لگ بھگ 46 فیصد کمی آئی۔

    امریکا میں ہونے والی ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ ان ریاستوں میں 29 فیصد گھٹ گیا جہاں فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا تھا۔

    سماجی دوری کے حوالے سے 5 تحقیقی رپورٹس کی جانچ پڑتال سے ماہرین نے دریافت کیا کہ اس احتیاطی قدم سے کووڈ 19 کی شرح میں 25 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔

    اسی طرح ہاتھ دھونے سے بھی کووڈ کیسز میں 53 فیصد کمی کو دریافت کیا گیا، مگر نتائج کو اس لیے اہم قرار نہیں دیا گیا کیونکہ اس حوالے سے تحقیقی رپورٹس کی تعداد کم تھی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج اب تک ہونے والے تحقیقی کام سے مطابقت رکھتے ہیں یعنی فیس ماسک کا استعمال اور سماجی دوری وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کم کرتا ہے۔

    مگر انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے خاص طور پر اس وقت جب ویکسینز دستیاب ہیں اور کرونا کی زیادہ متعدی اقسام بھی عام ہورہی ہیں۔

  • ڈیلٹا پلس سے متاثر ہونے کے بعد علامات ظاہر ہونے کا امکان کم

    ڈیلٹا پلس سے متاثر ہونے کے بعد علامات ظاہر ہونے کا امکان کم

    کرونا وائرس کی ایک ذیلی قسم اے وائے 4.2 یا ڈیلٹا پلس کے کیسز برطانیہ میں بڑھ رہے ہیں، ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ڈیلٹا کی اس ذیلی قسم سے متاثر افراد میں علامات ظاہر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    امپرئیل کالج لندن کی ری ایکٹ اسٹڈی میں 19 اکتوبر سے 5 نومبر کے دوران برطانیہ بھر میں لیے گئے ایک لاکھ سے زائد سواب نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    نتائج سے عندیہ ملا کہ اس دورانیے میں برطانیہ میں کووڈ کیسز (علامات اور بغیر علامات والے) کی شرح 1.57 فیصد تھی، ان میں 13 سے 17 سال کی عمر میں کیسز کی شرح سب سے زیادہ 5 فیصد تھی جبکہ معمر افراد میں یہ شرح ستمبر کے مقابلے میں اس بار دگنا بڑھ گئی۔

    مگر ڈیٹا کی خاص بات یہ تھی کہ جمع کیے گئے نمونوں میں سے 12 فیصد کیسز ڈیلٹا کی ذیلی قسم کا نتیجہ تھے۔

    ماہرین کے مطابق اے وائے 4.2 کے کیسز میں روزانہ کی بنیاد پر 2.8 فیصد اضافہ ہوا اور یہ بھی دریافت ہوا کہ اس سے متاثر افراد میں علامات والی بیماری کا امکان کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ حالیہ مہینوں میں ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں کووڈ کے کیسز کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ ڈیلٹا پلس کا برطانیہ میں تیزی سے پھیلنا ہوسکتی ہے۔

    پہلے کی تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ اے وائے 4.2 ڈیلٹا کے مقابلے میں 10 سے 15 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    مگر تحقیق میں شامل نہیں ہونے والے دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج کے حوالے سے مزید جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کھانسی جیسی علامت نہ ہونے سے وائرس کے پھیلاؤ میں بھی کمی آنے کا امکان ہے مگر اس سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ لوگ ٹیسٹ کے لیے علامات کا انتظار کرتے رہیں اور اس دوران وائرس کو آگے پھیلا دیں، مگر کرونا کی دیگر اقسام میں اب تک ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسین کی ایک خوراک بیماری سے بچانے کے لیے 56.2 فیصد تک مؤثر نظر آتی ہے۔

  • کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران ڈپریشن کی علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں نمایاں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ان میں امراض قلب کا خطرہ بڑھ گیا۔

    انٹر ماؤنٹین ہیلتھ کیئر کی اس تحقیق میں 4 ہزار 633 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی کووڈ 19 کی وبا سے قبل اور اس کے دوران ڈپریشن سے متعلق اسکریننگ کی گئی۔

    لگ بھگ 40 فیصد مریضوں نے کووڈ کی وبا کے پہلے سال کے دوران ڈپریشن کی نئی یا پہلے سے موجود علامات کے تجربے کو رپورٹ کیا، ماہرین نے بتایا کہ نتائج بہت اہم ہیں، وبا کے پہلے سال کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے اپنے مریضوں کی ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو دیکھا۔

    اس تحقیق میں لوگوں کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جن میں ڈپریشن کی تاریخ نہیں تھی یا وہ اس ذہنی عارضے کو شکست دے چکے تھے جبکہ دوسرا گروپ ڈپریشن کے مریضوں پر مشتمل تھا۔

    ان افراد کی اولین اسکریننگ کووڈ کی وبا سے قبل یکم مارچ 2019 سے 29 فروری 2020 کے دوران ہوئی تھی جبکہ دوسری بار یکم مارچ 2020 سے 20 اپریل 2021 کے دوران اسکریننگ ہوئی۔

    تحقیق کے نتائج میں کرونا کی وبا کے ذہنی صحت بلکہ جسمانی صحت پر بھی مرتب ہونے والے منفی اثرات کی نشاندہی کی گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ڈپریشن کے نتیجے میں مریضوں میں ذہنی بے چینی کے علاج کے لیے ایمرجنسی روم کا رخ کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا۔ درحقیقت ڈپریشن کے مریضوں میں اینگزائٹی یا ذہنی بے چینی کے شکار افراد کی جانب سے طبی امداد کے لیے رجوع کرنے کا امکان 2.8 گنا زیادہ دریافت ہوا۔

    اسی طرح اینگزائٹی کے ساتھ سینے میں تکلیف کا خطرہ مریضوں میں 1.8 گنا بڑھ گیا۔

    سائنسی شواہد میں ڈپریشن اور امراض قلب کے درمیان ٹھوس تعلق پہلے ہی ثابت ہوچکا ہے۔

    امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے مطابق ڈپریشن، اینگزائٹی اور تناؤ کا طویل عرصے تک سامنا کرنے والے افراد کی دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں اضافے، دل کی جانب سے خون کے بہاؤ میں کمی اور کورٹیسول نامی ہارمون کی شرح بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ان نفسیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بتدریج شریانوں میں کیلشیئم کا ذخیرہ ہونے لگتا ہے جس سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • خواتین میں لانگ کووڈ زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے

    خواتین میں لانگ کووڈ زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے

    ایک نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین کی جسمانی کارکردگی بیماری سے پہلے کی طرح بحال نہ ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    امریکا کی انڈیانا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد بنیادوں پر علامات کا سامنا کرنے والی خواتین ممکنہ طور پر ماضی کی طرح ورزش نہیں کرسکیں گی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کچھ خواتین نے کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کو رپورٹ کیا، جس سے جسمانی سرگرمیوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین میں دل اور پھیپھڑوں کے مسائل کی علامات کا تسلسل سانس لینے میں دشواری یا جوڑوں اور مسلز میں تکلیف کا باعث بنتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق مردوں میں کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں اور موت کی شرح زیادہ ہے مگر یہ پہلی بار ہے جب ایسے شواہد دریافت ہوئے جن کے مطابق بیماری کے بعد خواتین کو زیادہ جدوجہد کا سامنا ہوتا ہے۔

    سابقہ تحقیقی رپورٹس میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ کو شکست دینے کے بعد ہر 3 میں سے ایک خاتون کو طویل المعیاد علامات کے علاج کے لیے ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑا۔

    اس نئی تحقیق میں لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین کو 6 منٹ تک چہل قدمی کرنے کا کہا گیا اور پھر دیکھا گیا کہ ایسا کرنے کے بعد ان کی دل کی دھڑکن کب تک معمول پر آتی ہے۔

    اس ٹیسٹ سے قبل ماہرین نے تمام رضا کاروں کی آرام کے وقت دھڑکن کی رفتار، بلڈ پریشر، خون میں آکسیجن کی مقدار اور سانس لینے میں دشواری کی جانچ پڑتال کم از کم 10 منٹ تک بیٹھے رہنے کے بعد کی تھی۔

    ٹیسٹ کے دوران خواتین کو ہر ممکن تیزرفتاری سے چہل قدمی کی ہدایت کی گئی تھی اور ٹیسٹ کے فوری بعد دھڑکن کی رفتار، خون میں آکسیجن کی مقدار، سانس لینے میں دشواری اور دیگر عناصر کا ایک بار پھر جائزہ لیا گیا۔

    پھیپھڑوں کی کسی بڑی بیماری، امراض قلب کی تاریخ یا تمباکو نوشی کرنے والی خواتین کو اس تجربے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

    نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کا ماننا ہے کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے بحالی نو پروگرام کی ضرورت ہے، جس میں ان کے پھیپھڑوں کی کارکردگی کو دوبارہ بحال کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔

    ان کا کہنا تھا کہ بالخصوص درمیانی عمر کی مریض خواتین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کیونکہ عمر بڑھنے سے خواتین میں پھیپھڑوں کی بے قاعدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ عمر بڑھنے سے خواتین میں جسمانی معذوری کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

  • کووڈ ویکسین کی بوسٹر ڈوز کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    کووڈ ویکسین کی بوسٹر ڈوز کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 ویکسین کی اضافی خوراک 50 سال سے زائد عمر کے بالغ افراد میں علامات والی بیماری سے 90 فیصد سے زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    یو کے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ فائزر ویکسین کا بوسٹر ڈوز استعمال کرنے کے 2 ہفتوں بعد ان افراد کو علامات والی بیماری سے 93.1 فیصد تک تحفظ ملتا ہے جن کو پہلے ایسٹرا زینیکا ویکسین استعمال کرائی گئی۔

    اسی طرح فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والوں میں بوسٹر ڈوز کی افادیت 94 فیصد تک دریافت ہوئی۔

    خیال رہے کہ مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا ہے کہ ویکسین کی 2 خوراکوں کی علامات والی بیماری کے خلاف افادیت میں وقت کے ساتھ کمی آتی ہے۔

    یو کے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کی امیونزائزیشن کی سربراہ ڈاکٹر میری ریمسی نے بتایا کہ تحقیق کے نتائج سے کووڈ 19 کی سنگین شدت کے خطرے سے دوچار افراد میں بوسٹر ڈوز سے علامات والی بیماری کے خلاف ملنے والا تحفظ ثابت ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں معمر افراد میں ویکسین کی ابتدائی 2 خوراکوں سے ملنے والا تحفظ وقت کے ساتھ گھٹنے لگتا ہے جس کے باعث موسم سرما کے قریب آنے پر لاکھوں افراد کو اضافی تحفظ کی ضرورت ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو بوسٹر ڈوز کے لیے آگے آنا چاہیئے تاکہ موسم سرما کے دوران اسپتال میں داخلے اور اموات کی شرح کی روک تھام کی جاسکے۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ برطانوی حکومت کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے۔

  • فائزر ویکسین کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    فائزر ویکسین کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں کہا گیا کہ فائزر اور بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین دیگر 3 ویکسینز کے مقابلے میں زیادہ ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا کرتی ہے۔

    اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں فائزر، ایسٹرا زینیکا، اسپوٹنک وی اور سائنو فارم ویکسینز کا موازنہ کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس سے انسانی خلیات کو متاثر ہونے سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی شرح چاروں ویکسینز میں مختلف ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق سائنو فارم اور اسپٹنک وی ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز کی تعداد کم ہوتی ہے، ایسٹرا زینیکا میں یہ شرح معتدل جبکہ فائزر ویکسین سے سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

    ویکسینز کی اقسام کے مختلف مدافعتی ردعمل کی وجوہات پر کچھ عرصے سے کافی تحقیق کام کیا جارہا ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے ہر خوراک میں موجود متحرک اجزا اور پہلی اور دوسری خوراک کے درمیان وقفہ وغیرہ۔

    یہ تحقیق جولائی میں ہوئی تھی جس میں منگولیا سے تعلق رکھنے والے 196 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی کووڈ ویکسی نیشن مکمل ہوچکی تھی۔

    ان افراد میں چاروں ویکسینز کا استعمال کیا گیا تھا اور اس وقت منگولیا میں 89.2 فیصد بالغ افراد کو سائنو فارم ویکسین استعمال کروائی گئی تھی۔

    اسی طرح کچھ افراد کو اسپٹنک وی یا ایسٹرا زینیکا ویکسینز کا استعمال کرایا گیا۔

    ماہرین کے مطابق ان تینوں ویکسینز کا استعمال کرنے والے افراد میں بریک تھرو انفیکشن کا امکان فائزر ویکسین استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اضافی طبی اقدامات جیسے بوسٹر ڈوز زیادہ بہتر ویکسین کی استعمال کروانی چاہیئے تاکہ دنیا بھر میں کووڈ 19 کی وبا کو کنٹرول کیا جاسکے۔

    تحقیق میں ویکسینز کی خوراکوں کے دورانیے اور دیگر تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ 2021 کے موسم گرما میں منگولیا میں کرونا وائرس کی لہر ایلفا قسم کا نتیجہ تھی اور بریک تھرو انفیکشن کے بعد تمام ویکسین گروپس میں اینٹی باڈیز کی سطح زیادہ دریافت کی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے بڑھتے کیسز اور زیادہ مؤثر ویکسینز کی محدود دستیابی کے پیش نظر اس وقت کم افادیت والی ویکسینز بیماری، اسپتال میں داخلے اور اموات کی شرح میں کمی میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔