Tag: کرونا

  • کووڈ ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کم مؤثر

    کووڈ ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کم مؤثر

    کرونا وائرس کی نئی اقسام سے ویکسین کی افادیت کم ہوتی دکھائی دی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ میو قسم، ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپانی ماہرین کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم میو ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتی ہے۔

    ٹوکیو یونیورسٹی کے شعبہ میڈیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ساتو کے کی زیر قیادت گروپ نے اپنی تحقیق دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع کی ہے۔

    ماہرین نے میو کی خصوصیات کا حامل ایک وائرس مصنوعی طور پر تیار کیا اور فائزر بیون ٹیک ویکسین لگوا چکنے والے افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کے خلاف اس کی حساسیت کا جائزہ لیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ تبدیل شدہ وائرس میو، اصل وائرس کے مقابلے میں ان کے خلاف 9.1 گنا زیادہ مزاحم تھا، گویا ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز اس کے خلاف کم مؤثر تھیں۔

    گروپ کا کہنا ہے کہ ویکسین کے اینٹی باڈی بنانے کے علاوہ بھی مختلف اثرات ہوتے ہیں، اور ویکسین کی تاثیر کم ہونے کا جائزہ لینے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • کووڈ 19 سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟

    کووڈ 19 سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟

    کووڈ 19 کی وبا کو 2 سال گزرنے کے بعد اب بھی اس کے بارے میں مختلف تحقیقات جاری ہیں اور حال ہی میں ماہرین نے جاننے کی کوشش کی کہ اس وبا سے بچانے والی اینٹی باڈیز جسم میں کب تک برقرار رہتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کے کنگز کالج لندن کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈیٹا اور دیگر حالیہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی آتی ہے مگر وائرل ذرات اور متعدی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیاں بیماری کے 10 ماہ بعد بھی دریافت ہوسکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں 38 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو برطانیہ میں کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے، ان افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں شامل کچھ ماہرین نے ایک سابقہ تحقیق میں دریافت کیا تھا کہ اینٹی باڈی کی سطح بیماری کے 3 سے 5 ہفتے بعد عروج پر پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتی ہے، مگر اس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ اس کمی کا سلسلہ 3 ماہ بعد بھی برقرار رہتا ہے یا نہیں۔

    اب نئی تحقیق میں انہوں نے بیماری کو شکست دینے والے افراد کے نمونوں میں 10 ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا۔

    انہوں نے کرونا وائرس کی مختلف اقسام کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیوں کے شواہد بھی حاصل کیے، یعنی جو مریض کرونا کی اوریجنل قسم سے متاثر ہوئے تھے، ان کو بھی کرونا کی زیادہ متعدی اقسام کے خلاف کسی حد تک تحفظ ملتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ ان افراد کے نمونوں میں ہونے والی اینٹی باڈی سرگرمی ایلفا، گیما اور بیٹا کے خلاف ہوئی مگر ان کی طاقت زیادہ نہیں تھی۔

    انہوں نے وضاحت کی کہ کووڈ سے بیمار ہونے والے افراد میں وائرس کے خلاف ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل بنتا ہے مگر یہ اثر مختلف اقسام کے خلاف گھٹ جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اوریجنل وائرس کے اسپائیک پروٹین پر مبنی ویکسینز سے بھی نئی اقسام کے خلاف وسیع اینٹی باڈی ردعمل جسم میں بن سکتا ہے۔

  • بھارتی شراکت سے تیار کووڈ ویکسین کے ایک ملک میں استعمال کی منظوری

    بھارتی شراکت سے تیار کووڈ ویکسین کے ایک ملک میں استعمال کی منظوری

    امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی اور اس کے شراکت دار سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کو انڈونیشیا میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری دے دی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق نووا ویکس اور اس کے شراکت دار سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کو پہلے ملک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری حاصل ہوگئی ہے۔

    کمپنیوں کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا کہ انڈونیشیا میں ان کی کووڈ 19 ویکسین کو استعمال کی منظوری حاصل ہوئی۔

    خیال رہے کہ نووا ویکس کی جانب سے برطانیہ، بھارت، آسٹریلیا، فلپائن اور یورپین میڈیسن ایجنسی کے پاس بھی ویکسین کی منظوری کے لیے درخواستیں جمع کروائی جا چکی ہیں۔

    انڈونیشیا میں یہ ویکسین سیرم انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے تیار کر کے کوو ویکس کے نام سے فراہم کی جائے گی، نووا ویکس نے بتایا کہ انڈونیشیا کو ویکسین کی پہلی کھیپ جلد فراہم کردی جائے گی۔

    انڈونیشین حکومت کے مطابق پروٹین پر مبنی ویکسین کی 2 کروڑ خوراکیں 2021 میں موصول ہوں گی۔

    نووا ویکس اور سیرم انسٹی ٹیوٹ نے ایک ارب 10 خوراکیں عالمی ادارہ صحت کے زیر تحت کام کرنے والے ادارے کوو ویکس کو فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

    ویکسین کی فراہمی کا سلسلہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایمرجنسی استعمال کی منظوری کے بعد 2021 میں ہی شروع ہوجائے گی اور یہ سلسلہ 2022 میں بھی جاری رہے گا۔

    گزشتہ ماہ نووا ویکس اور سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے عالمی ادارہ صحت میں اس ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری کے لیے درخواست جمع کروائی تھی۔

    اس کا مقصد کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں اس ویکسین کو فراہم کرنا ہے کیونکہ امریکا اور یورپ میں پہلے ہی فائزر، موڈرنا، جانسن اینڈ جانسن اور ایسٹرا زینیکا ویکسینز کو عام استعمال کیا جارہا ہے۔

    خیال رہے کہ ویکسین کے انسانی ٹرائل کے آخری مرحلے میں دریافت کیا گیا تھا کہ یہ ویکسین کرونا وائرس کی اوریجنل قسم سے ہونے والی بیماری سے 96 فیصد تک تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    امریکا اور میکسیکو میں 30 ہزار افراد پر آخری مرحلے کے ٹرائل کے ڈیٹا کے مطابق این وی ایکس کو وی 2373 نامی یہ ویکسین بیماری کی معتدل اور سنگین شدت سے 100 فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے جبکہ اس کی مجموعی افادیت 90.4 فیصد ہے۔

  • جھنگ میں دوران تقریب دولہا اور باراتیوں کو کرونا ویکسین لگا دی گئی

    جھنگ میں دوران تقریب دولہا اور باراتیوں کو کرونا ویکسین لگا دی گئی

    لاہور: صوبہ پنجاب میں محکمہ صحت کی ٹیم نے شادی کی تقریب میں ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ پیش نہ کرنے پر دولہا اور باراتیوں کو کووڈ ویکسین لگا دی گئی، واقعہ جھنگ میں پیش آیا۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب کے شہر جھنگ میں شادی کی تقریب میں ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ پیش نہ کرنے پر دولہا اور باراتیوں کو کرونا وائرس ویکسین لگا دی گئی۔

    محکمہ صحت کی ٹیم نے جھنگ میں دولہا اور باراتیوں کو ویکسین لگائی۔

    صوبائی سیکریٹری ہیلتھ کیئر عمران سکندر بلوچ کا کہنا ہے کہ روزانہ 10 لاکھ شہریوں کو ویکسین لگائی جا رہی ہے، خصوصی ویکسی نیشن مہم 12 نومبر تک جاری رہے گی۔

    سیکریٹری صحت کے مطابق محکمہ صحت کی ٹیمیں گھر گھر جا کر شہریوں کو ویکسین لگا رہی ہیں۔

  • کرونا وائرس: 24 گھنٹوں کے دوران 11 مریض جاں بحق

    کرونا وائرس: 24 گھنٹوں کے دوران 11 مریض جاں بحق

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی یومیہ تعداد 700 تک جا پہنچی، 24 گھنٹے میں مزید 11 مریض جاں بحق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 11 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 28 ہزار 452 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 733 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 73 ہزار 78 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 21 ہزار 535 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 48 ہزار 192 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 2 کروڑ 7 لاکھ 99 ہزار 170 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 1.52 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 14 سو 2 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 7 کروڑ 1 لاکھ 39 ہزار 40 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 4 کروڑ 16 ہزار 932 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • کرونا ویکسین کی افادیت کچھ ماہ میں کم ہوجاتی ہے

    کرونا ویکسین کی افادیت کچھ ماہ میں کم ہوجاتی ہے

    کووڈ 19 کی ویکسی نیشن اس بیماری سے تحفظ کے لیے نہایت ضروری ہے تاہم اب ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ویکسی نیشن کے کچھ ماہ بعد اس کی افادیت میں کمی ہوجاتی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق میں پتہ چلا کہ کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا کے خلاف ہر عمر کے افراد میں ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد بننے والی مدافعت چند ماہ میں گھٹ جاتی ہے۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع تحقیق میں اسرائیل میں 11 سے 31 جولائی کے دوران کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    اسرائیل کے تمام شہریوں کی فائزر سے ویکسی نیشن جون 2021 سے مکمل ہوگئی تھی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ 60 سال یا اس سے زائد عمر کے ایسے افراد جن کی ویکسی نیشن جنوری 2021 میں ہوئی تھی، ان میں کووڈ کا خطرہ مارچ میں ویکسی نیشن کرانے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح 2021 کے آغاز میں ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں مارچ یا اپریل میں ویکسین استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں بیماری کا خطرہ زیادہ دریافت ہوا۔

    اس سے قبل اکتوبر 2021 کے آغاز میں مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں بھی عندیہ دیا گیا تھا کہ فائزر / بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین سے بیماری کے خلاف ملنے والے تحفظ کی شرح ویکسی نیشن مکمل ہونے کے 2 ماہ بعد گھٹنا شروع ہوجاتی ہے، تاہم بیماری کی سنگین شدت، اسپتال میں داخلے اور اموات کے خلاف ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔

  • جسم کے ایک اور حصے کا کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا انکشاف

    جسم کے ایک اور حصے کا کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا انکشاف

    کرونا وائرس کی وجہ سے جسم کے مختلف اعضا پر اثرات سامنے آچکے ہیں اور اب حال ہی میں ایک اور حصے کا اس سے متاثر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے متعدد مریضوں کی جانب سے کانوں سے متعلق علامات بشمول سننے کی حس متاثر ہونے، سر چکرانے، توازن بگڑنے اور گھنٹیاں بجنے کو رپورٹ کیا گیا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کرونا وائرس کان کے اندرونی حصے کے خلیات بشمول بالوں کے خلیات کو متاثر کرتا ہے۔

    یہ تحقیق ایم آئی ٹی اور میسا چوسٹس آئی اینڈ ایئر کی جانب سے کی گئی جس میں اس حوالے سے شواہد فراہم کیے گئے۔ ماہرین نے کووڈ 19 سے متاثر 10 افراد کے کانوں کے اندرونی ٹشوز میں انفیکشن کے رجحان کو دریافت کیا۔

    ماہرین نے کانوں کے اندرونی حصے کے لیے نوول سیلولر ماڈلز کو تشکیل دیا تھا کیونکہ تحقیق کے لیے کان کے ٹشوز کا حصول لگ بھگ ناممکن ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ماڈلز کا حصول پہلا قدم ہے اور ہمارے کام سے نہ صرف کرونا وائرس بلکہ سننے کی حس کو متاثر کرنے والے دیگر وائرسز کے اثرات کو جاننے کا موقع مل سکے گا۔

    کووڈ کی وبا سے قبل ان ماہرین کی جانب سے انسانی کانوں کے اندرونی حصوں کی بیماریوں کی جانچ پڑتال کے لیے سیلولر ماڈلز تیار کرنے پر کام کیا جارہا تھا۔

    مختلف وائرسز جیسے ہیپاٹائٹس اور دیگر بہرے پن کا باعث بن سکتے ہیں مگر ایسا کیوں ہوتا ہے اس بارے میں ابھی تک زیادہ تفصیلات موجود نہیں۔

    کرونا کی وبا کے بعد میساچوسٹس آئی اینڈ ایئر میں ایسے کووڈ مریضوں کی تعداد بڑھنے لگے جو سننے کی حس سے محرومی، گھنٹیاں بجنے اور سر چکرانے جیسے مسائل کا سامنا کر رہے تھے۔

    ماہرین نے کرونا وائرس کے اثرات کو جاننے کے لیے سیلولر ماڈلز تیار کرنے کا فیصلہ کیا اور انسانی جلد کے خلیات کے ذریعے ان کو تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی۔

    ان ماڈلز کی مدد سے وہ نمونے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور دریافت کیا کہ کان کے اندرونی حصے میں مخصوص خلیات کرونا وائرس سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کے لیے وہ وائرس ایس 2 ریسیپٹر نامی پروٹین کا سہارا لیتا ہے۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ یہ وائرس کان کے اندرونی حصے بالخصوص بالوں کے خلیات کو متاثر کرتا ہے، مگر دیگر خلیات کو اس سے خطرہ نہیں ہوتا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے کانوں کے خلیات متاثر ہونے پر مختلف مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے مگر کووڈ کے کتنے مریضوں کو کانوں سے متعلق علامات کا سامنا ہوتا ہے، وہ ابھی معلوم نہیں۔

  • ایک عام دوا کووڈ 19 کے خلاف مددگار

    ایک عام دوا کووڈ 19 کے خلاف مددگار

    کووڈ 19 کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے مختلف دواؤں کا استعمال کروایا جارہا ہے، اب حال ہی میں ایک اور دوا اس وبائی مرض کے خلاف مددگار ثابت ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ڈپریشن، ذہنی بے چینی اور اضطراب وغیرہ کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ایک سستی دوا کووڈ 19 کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد میں اسپتال میں داخلے اور سنگین پیچیدگیوں کا امکان کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    ایک بڑے کلینکل ٹرائل کے نتائج میں پتہ چلا کہ فلوووکسامائن نامی دوا اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر (او سی ڈی) کے علاج کے لیے لگ بھگ 30 سال سے تجویز کی جارہی ہے، مگر ماہرین کی جانب سے کرونا وائرس کی وبا کے دوران اس کے اثرات پر جانچ پڑتال کی گئی۔

    اس دوا کے انتخاب کی وجہ اس دوا کی ورم کم کرنے کی صلاحیت ہے۔

    کینیڈا، امریکا اور برازیل کے ماہرین کے گروپ کی اس تحقیق کے نتائج یو ایس نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ سے شیئر کیے گئے اور عالمی ادارہ صحت سے بھی اسے تجویز کرنے کی توقع ظاہر کی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر عالمی ادارہ صحت نے اس دوا کو تجویز کیا تو اس کا زیادہ بڑے پیمانے پر استعمال ہوسکے گا۔

    کووڈ 19 کے علاج کے لیے اس کے ایک کورس کی لاگت 4 ڈالرز ہوگی جبکہ اینٹی باڈی 4 ٹریٹ منٹس کی لاگت 2 ہزار ڈالرز جبکہ مرسک کی تجرباتی اینٹی وائرل دوا کا ایک کورس 700 ڈالرز کا ہوگا۔

    فلوووکسامائن کی آزمائش لگ بھگ ڈیڑھ ہزار برازیلین افراد پر کی گئی تھی جن میں حال ہی میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی اور دیگر طبی مسائل جیسے ذیابیطس کے باعث ان میں بیماری کی شدت زیادہ ہونے کا خطرہ تھا۔

    ان میں سے نصف کو گھر میں 10 دن تک اس دوا کا استعمال کرایا گیا جبکہ باقی افراد کو ڈمی دوا کھلائی گئی۔ ان کا جائزہ 4 ہفتوں تک لیا گیا تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کن مریضوں کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا یا ایمرجنسی روم کا رخ کرنا پڑا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ اس دوا کے استعمال کرنے والے گروپ کے 11 فیصد افراد کو اسپتال یا ایمرجنسی روم میں قیام کرنا پڑا جبکہ یہ شرح ڈمی دوا استعمال کرنے والوں میں 16 فیصد تھی۔

    نتائج اتنے ٹھوس تھے کہ اس تحقیق سے منسلک خودم ختار ماہرین نے اس پر کام جلد روکنے کا مشورہ دیا کیونکہ نتائج واضح تھے۔ ابھی خوراک کی مقدار کے تعین، کوووڈ کی پیچیدگیوں کے کم خطرے سے دو چار افراد کے لیے اس کے فوائد جیسے سوالات ابھی باقی ہیں۔

    اس ٹرائل میں 8 موجودہ ادویات کی جانچ پڑتال کی جارہی تھی جن میں سے ہیپاٹائٹس سی کی ایک دوا پر کام ابھی بھی جاری ہے، اس ٹرائل کے نتائج طبی جریدے جرنل لانسیٹ گلوبل ہیلتھ میں شائع ہوئے۔

  • کرونا وائرس کے خلاف ایک اور نئی ویکسین، حوصلہ افزا نتائج

    کرونا وائرس کے خلاف ایک اور نئی ویکسین، حوصلہ افزا نتائج

    پیرس: فرانسیسی دوا ساز کمپنی والنیوا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی ویکسین کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین کرونا کی تمام اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق والنیوا کی جانب سے اپنی ویکسین کے تیسرے ٹرائل کے جاری اعداد و شمار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ویکسین اینٹی باڈیز بنانے میں 95 فیصد تک کام کرتی ہے۔

    کمپنی کے مطابق تیسرے مرحلے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ والنیوا ویکسین کرونا کی تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہے اور ٹرائل کے دوران کوئی بھی مریض نہ تو وبا کا شکار ہوا اور نہ ہی کسی کو ویکسین کے برے اثرات کی وجہ سے اسپتال لے جانا پڑا۔

    کمپنی کا دعویٰ ہے کہ والنیوا ویکسین بھی برطانوی کمپنی کی ویکسین ایسٹرا زینیکا جتنی مؤثر ہے جب کہ اس کے منفی اثرات باقی ویکسینز کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

    والنیوا کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ویکسین کا تیسرا آزمائشی پروگرام ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ برطانیہ میں کرونا کی خطرناک قسم ڈیلٹا عروج پر تھی۔

    کمپنی کے مطابق ویکسین لگوانے والے کسی بھی شخص میں کرونا کی تشخیص نہیں ہوئی جب کہ ان میں اینٹی باڈیز بننے کی گنجائش 95 فیصد تک بڑھ گئی تھی۔

    کمپنی نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی ویکسین میں ان ایکٹویٹ کی پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین میں پہلے سے ہی مردہ کرونا وائرس شامل ہے جو کہ انسانی جسم میں داخل ہوکر وائرس کی پیدائش کو ناکام بناتا ہے۔

    کمپنی کے مطابق یہی ٹیکنالوجی پولیو اور فلو ویکسین میں استعمال کی جاتی رہی ہے۔

    اہم ترین ٹرائل کے حوصلہ افزا نتائج آنے کے بعد کمپنی جلد ہی برطانوی حکومت کو ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت کی درخواست دے گی جب کہ کمپنی یورپین یونین کے ڈرگ ریگولیٹر ادارے کو بھی درخواست دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

    کمپنی کو امید ہے کہ برطانوی حکومت ڈیٹا کی بنیاد پر رواں برس کے اختتام یا پھر 2022 کے آغاز تک ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے گی جب کہ یورپین یونین مارچ 2022 تک ویکسین کے استعمال کی اجازت دے گا۔

  • ملک بھر میں کرونا وائرس کے 500 سے زائد نئے کیسز

    ملک بھر میں کرونا وائرس کے 500 سے زائد نئے کیسز

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی یومیہ تعداد 500 تک جا پہنچی، 24 گھنٹے میں مزید 18 مریض جاں بحق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 18 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 28 ہزار 377 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 591 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 68 ہزار 536 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 16 ہزار 242 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 43 ہزار 522 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 2 کروڑ 4 لاکھ 88 ہزار 58 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 1.35 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 16 سو 14 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 6 کروڑ 86 لاکھ 66 ہزار 464 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 3 کروڑ 85 لاکھ 96 ہزار 890 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔