Tag: کرونا

  • ایسٹرا زینیکا ویکسین کی افادیت کے بارے میں نئی تحقیق

    ایسٹرا زینیکا ویکسین کی افادیت کے بارے میں نئی تحقیق

    دنیا بھر میں کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ایسٹرا زینیکا ویکسین استعمال کروائی جارہی ہے اور اب حال ہی میں اس کی افادیت کے بارے میں نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ایسٹرا زینیکا ویکسین کووڈ 19 کی علامات والی بیماری سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے 74 فیصد تک مؤثر ہے۔

    ایسٹرا زینیکا کی جانب سے جاری نتائج میں بتایا گیا کہ بیماری سے بچاؤ کی مجموعی افادیت 74 فیصد تھی مگر 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں یہ ویکسین تحفظ کے لیے 83.5 فیصد تک مؤثر ثابت ہوئی۔

    اس سے قبل مارچ 2021 میں کمپنی کی جانب سے ٹرائل کے عبوری نتائج میں ویکسین کی افادیت 79 فیصد بتائی گئی تھی مگر کمپنی نے چند دن بعد گھٹا کر 76 فیصد کر دی تھی۔

    اس ٹرائل میں امریکا، چلی اور پیرو کے 26 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جن میں سے 17 ہزار 600 کو ویکسین کی 2 خوراکیں ایک ماہ کے وقفے سے استعمال کروائی گئیں جبکہ 8500 کو پلیسبو استعمال کرایا گیا۔

    ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں سے کسی میں بھی کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جبکہ پلیسبو گروپ میں ایسے 8 کیسز دریافت ہوئے۔

    پلیسبو گروپ کے 2 افراد بیماری کے باعث ہلاک ہوئے جبکہ ویکسین گروپ میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

    تحقیق میں شامل جونز ہوپکنز یونیورسٹی کی ڈاکٹر اینا ڈیوربن نے بتایا کہ یہ ویکسین بیماری کی سنگین شدت اور اسپتال میں داخلے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    ٹرائل میں شامل کسی رضا کار میں بلڈ کلاٹنگ کا مضر اثر سامنے نہیں آیا جو اکثر اس ویکسین سے منسلک کیا جاتا ہے۔

    جولائی 2021 میں ایسٹرا زینیکا نے کہا تھا کہ وہ یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے ویکسین کی ہنگامی استعمال کی منظوری کی بجائے مکمل منظوری کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔

    کمپنی کی جانب سے ویکسین کے بوسٹر ڈوز کے اثرات کی جانچ پڑتال بھی ایسے افراد میں کی جارہی ہے جن کو ایسٹرا زینیکا ویکسین یا فائزر یا موڈرنا ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کروائی جاچکی ہیں۔

  • کرونا وائرس: 24 گھنٹے میں 1 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ

    کرونا وائرس: 24 گھنٹے میں 1 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 2.87 فیصد ہوگئی، گزشتہ 24 گھنٹے میں 1 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 56 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 27 ہزار 785 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 1 ہزار 411 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 46 ہزار 538 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 11 لاکھ 70 ہزار 590 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 49 ہزار 49 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 1 کروڑ 94 لاکھ 35 ہزار 155 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 2.87 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 3 ہزار 649 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 5 کروڑ 95 لاکھ 65 ہزار 195 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 2 کروڑ 90 لاکھ 54 ہزار 821 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • کرونا وائرس: سگریٹ نوشی کے عادی افراد خطرے میں

    کرونا وائرس: سگریٹ نوشی کے عادی افراد خطرے میں

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق کووڈ 19 کا شکار ہونا تمباکو نوشی کے عادی افراد کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی، برسٹل یونیورسٹی اور ناٹنگھم یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 4 لاکھ سے زائد افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جو کورونا وائرس کے شکار ہوئے تھے۔

    یہ افراد جنوری سے اگست 2020 کے دوران یو کے بائیو بینک اسٹڈی کا حصہ بنے تھے اور محققین نے ان میں تمباکو نوشی اور کووڈ کی شدت کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تمباکو نوشی کے عادی افراد اگر کووڈ 19 سے متاثر ہوتے ہیں تو ان کے اسپتال پہنچنے کا امکان 80 فیصد زیادہ ہوتا ہے، اسی طرح موت کا خطرہ بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس جانچ پڑتال کے لیے ایک تیکنیک میڈلین رینڈمائزیشن کی مدد لی گئی تھی جس میں جینیاتی اقسام کو کسی مخصوص خطرے کی شناخت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں اس تیکنیک کو یہ جاننے کے لیے استعمال کیا گیا کہ تمباکو نوشی کے عادی افراد میں کووڈ کے اثرات کیسے ہوسکتے ہیں۔

    اس سے قبل تمباکو نوشی اور کووڈ 19 کے درمیان تعلق کے حوالے سے تحقیقی کام ہوا تھا مگر وہ مشاہداتی تھا تو واضح تعلق ثابت نہیں ہوسکا تھا۔

    مگر مشاہداتی اور جینیاتی ڈیٹا کے امتزاج پر مبنی اپنی طرز کی پہلی تحقیق تھی جس سے ان شواہد کو تقویت ملی ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد میں کووڈ کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے یہ ٹھوس عندیہ ملتا ہے کہ تمباکو نوشی کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ بڑھانے والا عنصر ہے، بالکل اسی طرح جیسے تمباکو نوشی کو امراض قلب، کینسر کی مختلف اقسام اور دیگر امراض سے منسلک کیا جاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ تمباکو نوشی سے کووڈ سے متاثر ہونے کا خطرہ 45 فیصد تک بڑھ جاتا ہے اور بہت زیادہ تمباکو نوشی کے نتیجے میں یہ خطرہ 100 فیصد سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کچھ رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ تمباکو نوشی سے کووڈ 19 سے کسی قسم کا تحفظ مل سکتا ہے، تاہم اس شعبے میں زیادہ گہرائی میں جاکر کام نہیں ہوا، ہمارے نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ تمباکو نوش افراد میں کووڈ 19 کی علامات زیادہ ہوسکتی ہیں۔

  • ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی علامت کا سامنا

    ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی علامت کا سامنا

    حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی ایک علامت کا سامنا ضرور رہتا ہے، تحقیق برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 3 میں سے ایک مریض کو لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    لانگ کووڈ کے حوالے سے اب تک ہونے والے تحقیقی کام میں متعدد علامات کی نشاندہی ہوئی ہے جو بیماری کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی لوگوں کو متاثر کررہی ہوتی ہیں۔

    برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) اور آکسفورڈ ہیلتھ بائیو میڈیکل ریسرچ سینٹر (بی آر سی) کی اس تحقیق میں لانگ کووڈ کی جانچ پڑتال کے لیے امریکا میں کووڈ کو شکست دینے والے 2 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ افراد کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 37 فیصد مریضوں کو بیماری کی تشخیص کے 3 سے 6 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا ہورہا تھا۔

    ان میں سانس کے مسائل، نظام ہاضمہ کے مسائل، تھکاوٹ، درد، ذہنی بے چینی یا ڈپریشن سب سے عام رپورٹ کی جانے والی علامات تھیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے تصدیق ہوتی ہے کہ ہر عمر کے کووڈ کے مریضوں کی بڑی تعداد کو ابتدائی بیماری کے 6 ماہ بعد بھی مختلف علامات کے باعث مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ایک تہائی سے زیادہ مریضوں میں 3 سے 6 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت موجود تھی۔ بیماری کی شدت، عمر اور جنس لانگ کووڈ کے امکانات پر اثر انداز ہونے والے عناصر ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کی علامات کا امکان ان مریضوں میں زیادہ ہوتا ہے جو بیماری کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہے ہوں اور مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس کی شرح معمولی سی زیادہ ہوتی ہے۔

    لوگوں کو لانگ کووڈ کی کن علامات کا سامنا ہوسکتا ہے اس کا انحصار بھی مختلف عناصر ہر ہوتا ہے، مثال کے طور پر معمر افراد اور مردوں کو سانس کی مشکلات اور دماغی مسائل کی علامات کا زیادہ سامنا ہوتا ہے، جبکہ جوان افراد اور خواتین کی جانب سے سر درد، معدے کے مسائل، ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جن افراد کو کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنا پڑتا ہے ان میں دماغی مسائل جیسے ذہنی دھند اور تھکاوٹ کا امکان دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جن افراد کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی، ان میں سردرد کی شکایت زیادہ عام ہوتی ہے۔

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ متعدد مریضوں میں لانگ کووڈ کی علامات کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ فلو سے صحتیاب ہونے والے مریضوں میں بھی اس طرح کی علامات ظاہر ہوتی ہیں یا نہیں۔

    تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ فلو کے مریضوں میں بھی علامات لانگ کووڈ کے کچھ مریضوں کی طرح طویل المعیاد مدت تک برقرار رہتی ہیں، مگر فلو کے مریضوں کی طویل المعیاد علامات کی شدت زیادہ نہیں ہوتی۔

  • اونٹ کرونا وائرس کے خاتمے میں کس طرح مددگار ہوسکتے ہیں؟

    اونٹ کرونا وائرس کے خاتمے میں کس طرح مددگار ہوسکتے ہیں؟

    لندن: برطانوی سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ لاما اور اونٹ کے ذریعے انسانوں سے کرونا وائرس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ لاما اور اونٹ میں بننے والی مختصر اینٹی باڈیز یعنی نینو باڈیز کرونا وائرس کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں۔

    روزالن فرینکلن انسٹی ٹیوٹ برطانیہ کے سائنسدانوں نے ابتدائی طور پر تجربہ گاہ میں رکھے گئے ایک لاما میں کرونا وائرس داخل کیا تو لاما کے جسم میں موجود ایک خاص نینو باڈی نے وائرس کو جکڑ کر مزید پھیلنے سے روک دیا۔

    لاما میں سے یہ نینوباڈی الگ کی گئی اور اگلے مرحلے میں اسے ہیمسٹرز پر آزمایا گیا جو وائرس سے متاثر کیے گئے تھے۔ ہیمسٹرز میں بھی اس نینو باڈی نے وہی کارکردگی دکھائی جس کا مظاہرہ یہ لاما میں کرچکی تھی۔

    لاما سے حاصل شدہ نینو باڈی کو اسپرے کی شکل میں براہ راست ناک کے ذریعے پھیپھڑوں میں پہنچایا جاسکتا ہے جو اس کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔

    یہ بھی بتاتے چلیں کہ عام اینٹی باڈیز کے مقابلے میں نینو باڈیز کی جسامت بہت کم ہوتی ہے لیکن اب تک کی تحقیق میں انہیں ایسے کئی وائرسز اور جرثوموں کے خلاف بھی مؤثر پایا گیا جن پر روایتی اینٹی باڈیز کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

  • کرونا وائرس: 24 گھنٹے میں 1 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ

    کرونا وائرس: 24 گھنٹے میں 1 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 3.17 فیصد ہوگئی، گزشتہ 24 گھنٹے میں 1 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 41 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 27 ہزار 638 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 1 ہزار 400 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 41 ہزار 825 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 11 لاکھ 64 ہزار 219 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 44 ہزار 116 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 1 کروڑ 92 لاکھ 84 ہزار 635 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 3.17 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 4 ہزار 15 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 5 کروڑ 62 لاکھ 29 ہزار 457 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 2 کروڑ 54 لاکھ 93 ہزار 964 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • کووڈ ویکسی نیشن کے بعد مضر اثرات ظاہر نہ ہونے کے حوالے سے اہم تحقیق

    کووڈ ویکسی نیشن کے بعد مضر اثرات ظاہر نہ ہونے کے حوالے سے اہم تحقیق

    حال ہی امریکا میں ہونے والی تحقیق میں کہا گیا کہ ویکسی نیشن کے بعد کسی قسم کا مضر اثر نظر نہ آئے تو کچھ لوگوں کو لگ سکتا ہے کہ ویکسین کام نہیں کررہی مگر یہ تصور غلط ہے۔

    جونز ہوپکنز میڈیسین کی اس تحقیق میں تصدیق کی گئی کہ فائزر / بائیو این ٹیک اور موڈرنا ویکسینز کے استعمال سے بیماری سے بچاؤ کے لیے ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے چاہے لوگوں میں مضر اثرات ظاہر ہوں یا نہ ہوں۔

    ماہرین نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ فائزر یا موڈرنا کی ویکسی نیشن کے بعد علامات ظاہر نہ ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اینٹی باڈی ردعمل زیادہ طاقتور نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے ہم نے اپنے اسپتال کے عملے میں دستیاب گروپ پر تحقیق کا فیصلہ کیا تاکہ اس حوالے سے جانچ پڑتال کی جاسکے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ویکسی نیشن کرانے والے 99.9 فیصد افراد میں اینٹی باڈیز بن گئیں چاہے مضر اثرات کا سامنا ہوا یا نہیں۔

    اس تحقیق میں 954 طبی ورکرز کو شامل کیا گیا تھا جن کو فائزر یا موڈرنا ویکسین استعمال کرائی گئی تھی جبکہ کچھ پہلے کووڈ 19 کا شکار بھی رہ چکے تھے۔ محققین نے ان افراد کو ہدایت کی تھی کہ وہ ویکسین کی پہلی اور دوسری خوراک کے بعد ظاہر ہونے والے مضر اثرات کو رپورٹ کریں۔

    زیادہ تر میں یہ مضر اثرات معمولی تھے جن میں انجیکشن کے مقام پر تکلیف، سر درد اور معمولی تھکاوٹ قابل ذکر تھے جبکہ کچھ کو بخار، ٹھنڈ لگنے اور زیادہ تھکاوٹ کا بھی سامنا ہوا۔

    صرف 5 فیصد افراد نے ویکسین کی پہی خوراک کے بعد مضر اثرات کو رپورٹ کیا جبکہ 43 فیصد نے دوسری خوراک کے بعد مضر اثرات کے تجربے کو رپورٹ کیا۔

    تحقیق کے مطابق موڈرنا ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں کلینکلی علامات کی شرح پہلی یا دوسری خوراک کے موقع پر فائزر کے مقابلے میں زیادہ نمایاں تھیں۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ مضر اثرات کا سامنا ہوا یا نہیں مگر 954 میں سے 953 میں ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد آئی جی جی اینٹی باڈیز بن گئیں۔ جس ایک فرد میں ایسا نہیں ہوا اس کی وجہ مدافعتی نظام دبانے والی ادویات تھیں۔

    کچھ افراد میں آئی جی جی اینٹی باڈیز کی شرح دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ مضر اثرات کا باعث بننے والے کچھ عناصر قابل ذکر تھے جیسے خاتون ہونا، 60 سال سے کم عمر، موڈرنا ویکسین کا استعمال یا پہلے سے کووڈ 19 کا سامنا ہونا۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسی نیشن کے بعد علامات ظاہر ہوں یا نہ ہوں، بیماری کے خلاف ٹھوس تحفظ ملتا ہے، جس سے لوگوں کے ان خدشات کو کم کرنے میں مدد ملے گی کہ اثرات ظاہر نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ویکسینز زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔

  • ایک اور چینی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار

    ایک اور چینی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار

    بیجنگ: چینی کمپنی کین سائنو کی کووڈ 19 کی ایک خوراک والی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار دی گئی ہے، تحقیق کے مطابق ویکسین کی کم مقدار سے بھی بچوں میں بالغ افراد سے زیادہ تعداد میں اینٹی باڈیز بن گئیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چینی کمپنی کین سائنو کی ایک خوراک والی کووڈ 19 ویکسین کو کم مقدار میں بچوں کو دینا محفوظ اور بیماری سے بچاؤ کے لیے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے۔

    چین میں ہونے والی اس تحقیق میں 6 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کو بالغ افراد کے مقابلے میں ویکسین کی کم خوراک کا استعمال کروایا گیا تھا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ بہت کم بچوں میں ویکسی نیشن کے بعد بخار اور سر درد کی علامات ظاہر ہوئیں جن کی شدت لیول 2 تھی۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی خوراک کی کم مقدار سے بھی بچوں میں بالغ افراد سے زیادہ تعداد میں اینٹی باڈیز بن گئیں۔ اس تحقیق میں 150 بچوں اور 300 بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    نتائج میں علم ہوا کہ ویکسین کی کم مقدار والی ایک خوراک سے ہی بچوں میں ویکسی نیشن کے 56 دن بعد بالغ افراد کے مقابللے میں زیادہ طاقتور اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوا۔

    مگر فی الحال یہ واضح نہیں کہ ویکسین سے بچوں کو کووڈ 19 کے خلاف کس حد تک تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    کین سائنو کو ابھی تک چین میں بچوں کے لیے استعمال کرنے کی منظوری نہیں دی گئی بلکہ سائنو ویک اور سائنو فارم کو 3 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو استعمال کرانے کی اجازت دی گئی ہے۔

  • ملک میں کووڈ 19 سے اموات کی تعداد میں کمی

    ملک میں کووڈ 19 سے اموات کی تعداد میں کمی

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 3.6 فیصد ہوگئی، گزشتہ 24 گھنٹے میں 1 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 31 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 27 ہزار 597 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 1 ہزار 757 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 40 ہزار 425 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 11 لاکھ 62 ہزار 177 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 48 ہزار 732 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 1 کروڑ 92 لاکھ 40 ہزار 519 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 3.6 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 4 ہزار 33 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 5 کروڑ 62 لاکھ 29 ہزار 457 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 2 کروڑ 54 لاکھ 93 ہزار 964 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • دوحا سے پشاور پہنچنے والے 30 مسافروں میں کرونا وائرس کی تصدیق

    دوحا سے پشاور پہنچنے والے 30 مسافروں میں کرونا وائرس کی تصدیق

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں دوحا سے آنے والے 30 مسافروں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوگئی، مسافروں کو ضلعی انتظامیہ کی مدد سے قرنطینہ کے لیے اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحا سے پشاور پہنچنے والے 30 مسافروں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوگئی، مسافر نجی ایئر لائن کی پرواز سے دوحا سے پشاور پہنچے تھے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور ایئرپورٹ پر مسافروں کے ریپڈ ٹیسٹ کیے گئے، ریپڈ ٹیسٹ میں 30 مسافروں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔

    مسافروں کو ضلعی انتظامیہ کی مدد سے قرنطینہ کے لیے اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

    یاد رہے کہ ملک بھر میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 38 ہزار 668 ہوچکی ہے، این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 1 ہزار 780 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔

    نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 42 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 27 ہزار 566 ہوگئی۔