Tag: کرونا

  • کیا بچوں کو بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    کیا بچوں کو بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    بچوں میں کرونا وائرس کے خطرات کے حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں اب حال ہی میں ایک اور تحقیق میں بچوں میں لانگ کووڈ کے حوالے سے معلومات ملی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 7 میں سے ایک بچے کو صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں میں کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر وہ طویل المعیاد علامات کا سامنا کر سکتے ہیں۔

    یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں بچوں میں لانگ کووڈ کی شرح کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 11 سے 17 سال کے جن بچوں میں وائرس کی تصدیق ہوتی ہے ان میں 15 ہفتے بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات کا امکان اس عمر کے کووڈ سے محفوظ افراد سے دگنا زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں جنوری سے مارچ کے دوران 11 سے 17 سال کی عمر کے 3065 کووڈ مریضوں کا موازنہ اسی عمر کے 3739 بچوں سے کیا گیا جن کا کووڈ ٹیسٹ منفی رہا تھا ان کا ڈیٹا کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔

    جن کا کووڈ ٹیسٹ مثبت رہا ان میں سے 14 فیصد نے 15 ہفتوں بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات جیسے غیرمعمولی تھکاوٹ یا سردرد کو رپورٹ کیا، کنٹرول گروپ میں یہ شرح 7 فیصد تھی۔

    ماہرین نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہزاروں بچوں یا نوجوانوں میں کووڈ کے 15 ہفتوں بعد متعدد علامات موجود ہوسکتی ہیں، مگر اس عمر کے گروپ میں لانگ کووڈ کی شرح توقعات سے کم ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔

  • کیا ویکسی نیشن کے بعد بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    کیا ویکسی نیشن کے بعد بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    کووڈ 19 کی ویکسین لگوا لیے جانے کے بعد بھی اس مرض کا شکار ہوجانے کے حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں تاہم اب ویکسی نیٹڈ افراد میں لانگ کووڈ کے حوالے سے نئے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کووڈ ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو اگر کووڈ 19 کا سامنا ہوتا ہے تو ان میں لانگ کووڈ کا امکان 49 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

    کنگز کالج لندن کی اس تحقیق کے لیے ماہرین نے یو کے زوئی کووڈ سمپٹم اسٹڈی ایپ کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جو 8 دسمبر 2020 سے 4 جولائی 2021 تک جمع کیا گیا۔

    یہ لاکھوں افراد کا ڈیٹا تھا جس میں سے 12 لاکھ 40 ہزار 9 افراد نے ویکسین کی ایک خوراک استعمال کی تھی جبکہ 9 لاکھ 71 ہزار 504 نے 2 خوراکیں استعمال کی تھیں۔

    ماہرین نے مختلف عناصر بشمول عمر، جسمانی یا ذہنی تنزلی اور دیگر کا موازنہ ویکسینیشن کے بعد ہونے والی بیماری سے کیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر ویکسین کی 2 خوراکوں کے بعد بھی کوئی بدقسمتی سے کووڈ کا شکار ہوجاتا ہے تو بھی اس میں طویل المعیاد علامات کا خطرہ ویکسی نیشن نہ کروانے والے مریضوں کے مقابلے میں 49 فیصد کم ہوتا ہے۔

    اسی طرح ویکسی نیشن کے بعد بیماری پر اسپتال میں داخلے کا خطرہ 73 فیصد تک کم ہوتا ہے اور بیماری کی شدید علامات کا خطرہ 31 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

    ان افراد میں عام علامات ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد سے ملتی جلتی ہے جن میں سونگھنے کی حس سے محرومی، کھانسی، بخار، سر درد اور تھکاوٹ قابل ذکر ہیں۔

    ان تمام علامات کی شدت معمولی ہوتی ہے اور ویکسی نیشن والے افراد کی جانب سے ان کو رپورٹ کرنے کی شرح بھی کم ہوتی ہے اور بیماری کے پہلے ہفتے میں متعدد علامات کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔

    بریک تھرو انفیکشن کا سامنا کرنے والے افراد میں چھینکیں واحد علامت تھی جس کو زیادہ تر مریضوں نے رپورٹ کیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ غریب علاقوں کے رہنے والے ہوتے ہیں ان میں ویکسین کی ایک خوراک کے بعد بیماری کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، جبکہ عمر بذات خود خطرہ بڑھانے والا عنصر نہیں، مگر پہلے سے کسی بیماری کے شکار افراد میں ویکسینیشن کے بعد کووڈ کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ لانگ کووڈ کے بوجھ کے حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ ویکسی نیشن مکمل کرانے پر کووڈ سے متاثر ہونے اور بدقسمتی سے بیمار ہونے پر طویل المعیاد علامات کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    مگر کمزور اور بزرگ افراد میں یہ خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور انہیں ترجیحی بنیادوں پر ویکسین کی دوسری یا بوسٹر ڈوز دی جانے کی ضرورت ہے۔

  • کرونا وائرس دل کی کارکردگی متاثر کرسکتا ہے

    کرونا وائرس دل کی کارکردگی متاثر کرسکتا ہے

    برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے اسپائیک پروٹین دل کے مخصوص خلیات میں تبدیلی لا کر ان کے افعال میں مداخلت کا باعث بن سکتے ہیں۔

    برسٹل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اسپائیک پروٹین سے دل کے ارد گرد موجود شریانوں کے خلیات میں تبدیلیوں کے باعث معمول کے افعال متاثر ہوسکتے ہیں۔

    اس پری پرنٹ تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی میں پیش کیے گئے۔

    دل کی چھوٹی شریانوں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کے دیگر مقامات پر موجود خلیات کو جب کرونا کے اسپائیک پروٹین جکڑتے ہیں تو ایسے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جو اعضا میں ورم بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے دل کی چھوٹی شریانوں کے خلیات کو حاصل کر کے انہیں اسپائیک پروٹین سے متاثر کیا۔

    اس پروٹین کو کرونا وائرس خود کو خلیات سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور ایک بار وائرس ایسا کرلیتا ہے تو وہ خلیے کی جھلی میں مدغم ہوکر اپنا جینیاتی مواد خارج کرتا ہے۔

    اس طرح وہ خلیاتی مشینری پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے اور اپنی نقول بنانا شروع کردیتا ہے، پھر وہ باہر نکل کر دیگر خلیات تک پھیل جاتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر اسپائیک پروٹین تنہا خلیات کے رویوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ تشویشناک ہے۔

    تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اگر خلیات وائرس سے متاثر نہیں بھی ہوتے تو بھی اسپائیک پروٹین کے زیر اثر آنے پر ان کا علاج زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ان خیات میں سی ڈی 147 نامی ریسیپٹر کو بلاک کر کے بھی اسپائیک پروٹین کے ورم بڑھانے کے اثر کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ورم کا باعث بننے والا کیمیکل پورے جسم بشمول دماغ اور مرکزی اعصابی نظام میں موجود ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر اس میکنزم کو روکا جا سکے تو مریضوں میں کووڈ سے ہونے والی پیچیدگیوں کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے اور مزید تحقیق سے اسپائیک پروٹین کی روک تھام کے ذرائع تلاش کیے جاسکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ میکنزم خلیاتی اور اعضا کی پیچیدگیوں کو متاثرہ حصوں سے آگے تک پھیلا دیتا ہے اور ممکنہ طور پر پہلے سے کسی بیماری جیسے بلڈ پریشر، ذیابیطس اور موٹاپے کے شکار افراد میں مرض کی شدت کو سنگین بنا دیتا ہے۔

  • کرونا وائرس: ایک روز میں مزید 3 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ

    کرونا وائرس: ایک روز میں مزید 3 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ

    اسلام آباد: گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کرونا وائرس سے مزید 57 سے زائد اموات رپورٹ کی گئیں جبکہ 3 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 57 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 26 ہزار 35 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 3 ہزار 787 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 11 لاکھ 71 ہزار 578 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 10 لاکھ 55 ہزار 467 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 59 ہزار 745 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 1 کروڑ 79 لاکھ 31 ہزار 365 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 6.33 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 5 ہزار 606 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 4 کروڑ 54 لاکھ 98 ہزار 115 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 1 کروڑ 85 لاکھ 12 ہزار 319 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • وہ عنصر جو کرونا وائرس کی وجہ سے موت کا خطرہ بڑھائے

    وہ عنصر جو کرونا وائرس کی وجہ سے موت کا خطرہ بڑھائے

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مریضوں کے پھیپھڑوں میں کرونا وائرس کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جانا ممکنہ طور پر موت کی وجہ بنتا ہے۔

    نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسن اور نیویارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ کی اس تحقیق کے نتائج سابقہ خیالات سے متضاد ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ نمونیا یا جسمانی مدافعتی ردعمل کی شدت بہت زیادہ بڑھ جانا کووڈ سے ہلاکت کا خطرہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ 19 کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں ان کے زیریں نظام تنفس میں وائرس کی مقدار یا وائرل لوڈ کی مقدار دیگر سے 10 گنا زیادہ ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والے وائرس کی تعداد پر جسم کی ناکامی اس وبا کے دوران اموات کی بڑی وجہ ہے۔

    اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ وائرس سے متاثر ہونے پر مدافعتی نظام جسم کے صحت مند ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور جان لیوا ورم پھیلنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    مگر اس تحقیق میں اس حوالے سے کوئی شواہد دریافت نہیں ہوسکے بلکہ ماہرین نے دریافت کیا کہ مدافعتی ردعمل پھیپھڑوں میں وائرس کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں سیکنڈری انفیکشنز، وائرل لوڈ اور مدافعتی خلیات کی تعداد کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    محققین نے بتایا کہ نتائج سے کورونا وائرس کے مریضوں کے زیریں نظام تنفس کے ماحول کا اب تک کا سب سے تفصیلی سروے فراہم کیا گیا ہے۔

    تحقیق میں نیویارک یونیورسٹی لینگون کے زیر تحت کام کرنے والے طبی مراکز میں زیرعلاج رہنے والے 589 کووڈ کے مریضوں کے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے۔

    ان سب مریضوں کو مکینکل وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت پڑی تھی جبکہ 142 مریضوں کے سانس کی گزر گاہ کلیئر کرنے کا برونکواسکوپی بھی ہوئی تھی۔

    ماہرین نے جائزہ لیا کہ ان افراد کے زیریں نظام تنفس میں وائرس کی مقدار کتنی تھی جبکہ مدافعتی خلیات کی اقسام اور وہاں موجود مرکبات کا بھی سروے کیا گیا۔

    تحقیق میں انکشاف ہوا کہ کووڈ سے ہلاک ہونے والے مریضوں میں ایک قسم کے مدافعتی کیمیکل کی پروڈکشن اس بیماری کو شکست دینے والے افراد کے مقابلے میں اوسطاً 50 فیصد کم ہوجاتی ہے۔

    یہ کیمیکل جسم کے مطابقت پیدا کرنے والے مدافعتی نظام کا حصہ ہوتا ہے جو حملہ آور جرثوموں کو یاد رکھتا ہے تاکہ جسم مستقبل میں اس سے زیادہ اچھے طریقے سے نمٹ سکے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ مدافعتی نظام میں مسائل کے باعث وہ کورونا وائرس سے مؤثر طریقے سے کام نہیں کر پاتا، اگر ہم مسئلے کی جڑ کو پکڑ سکیں، تو ہم مؤثر علاج بھی دریافت کرسکیں گے۔

  • موڈرنا کی ویکسین کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    موڈرنا کی ویکسین کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    بیلجیئم میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق موڈرنا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین سے کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی تعداد فائزر / بائیو این ٹیک ویکسین کے مقابلے میں دگنی ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں موڈرنا اور فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد کے مدافعتی ردعمل کا موازنہ کیا گیا تھا، تحقیق میں بیلجیئم ہاسپٹل سسٹم کے لگ بھگ ڈھائی ہزار کے قریب ورکرز کو شامل کیا گیا تھا۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ سے محفوظ رہنے والے افراد میں کووڈ ویکسین کے استعمال سے اوسطاً 2881 یونٹس فی ملی لیٹر اینٹی باڈیز بن گئیں۔

    اس کے مقابلے میں فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں یہ شرح 1108 یونٹ فی ملی لیٹر رہی۔ تحقیق میں اینٹی باڈیز کے فرق کی وضاحت کی چند وجوہات بھی بیان کی گئی۔

    تحقیق کے مطابق موڈرنا ویکسین میں متحرک جز کی شرح 100 مائیکرو گرامز جبکہ فائزر میں 30 مائیکرو گرامز تھی، اسی طرح موڈرنا ویکسین کی 2 خوراکوں میں 4 ہفتے جبکہ فائزر ویکسین کی خوراکوں میں 3 ہفتے کا فرق تھا۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئے۔

  • پہلی بار تجرباتی کووڈ ویکسین کی آزمائش

    پہلی بار تجرباتی کووڈ ویکسین کی آزمائش

    برطانوی کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن (جی ایس کے) اور کورین کمپنی ایس کے بائیو سائنسز کی جانب سے تجرباتی کووڈ ویکسین کی آزمائش ایسٹرازینیکا ویکسین سے کی جائے گی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق اس تجرباتی کووڈ ویکسین کے آخری مرحلے کے ٹرائل میں اس کی افادیت کا موازنہ ایسٹرازینیکا ویکسین سے کیا جائے گا۔ یہ دنیا میں کسی کووڈ شاٹ کا پہلا تیسرے مرحلے کا ٹرائل ہوگا جس میں 2 مختلف کووڈ ویکسینز کا موازنہ کیا جائے گا۔

    جے ایس کے اور ایس کے بائیو سائنسز کی تیار کردہ ویکسین کے ابتدائی ٹرائلز میں اسے محفوظ اور بہت زیادہ مؤثر دریافت کیا گیا تھا۔

    اس تجرباتی ویکسین کو تیار کرنے کا مقصد کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے کم قیمت ویکسین تیار کرنا ہے جسے کوویکس پروگرام کے تحت تقسیم کیا جائے گا۔

    کمپنیوں کو توقع ہے کہ تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے مکمل ہونے پر اگلے سال کی پہلی ششماہی کے دوران وہ ریگولیٹرز سے ویکسین کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

    کمپنیوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ٹرائل کے آخری مرحلے میں اپنی ویکسین کی افادیت کا موازنہ ایسٹرازینیکا ویکسین سے کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی اور ویکسین سے موازنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب ایسا ممکن ہے، کیونکہ اب کئی منظور شدہ ویکسینز موجود ہیں تو پلیسبو کی جگہ کسی ویکسین کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔

    ایسٹرازینیکا ویکسین کے انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایم آر این اے ویکسینز کے مقابلے میں اسے اسٹور کرنا آسان ہے اور وہ فائزر یا موڈرنا کے مقابلے میں کم قیمت بھی ہے۔

    اگر جی ایس کے اور ایس کے بائیو سائنسز کی ویکسین ٹرائل میں ایسٹرازینیکا ویکسین سے زیادہ مؤثر ہونے کے ساتھ کم مضر اثرات والی ثابت ہوئی تو یہ متعدد کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے ایک اچھا آپشن ہوگی۔

    ٹرائل میں ایک اور ویکسین سے اپنی ویکسین کے موازنے کے لیے ایسٹرازینیکا سے اجازت بھی حاصل کی جائے گی۔

  • کرونا وائرس: ایک روز میں مزید سو مریض جاں بحق

    کرونا وائرس: ایک روز میں مزید سو مریض جاں بحق

    اسلام آباد: گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کرونا وائرس سے مزید سو سے زائد اموات رپورٹ کی گئیں جبکہ 3 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 101 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 25 ہزار 889 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 3 ہزار 559 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 11 لاکھ 63 ہزار 688 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 10 لاکھ 43 ہزار 898 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 53 ہزار 637 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 1 کروڑ 78 لاکھ 9 ہزار 969 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 6.63 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 5 ہزار 690 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 4 کروڑ 27 لاکھ 20 ہزار 675 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 1 کروڑ 68 لاکھ 66 ہزار 627 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور قسم دریافت

    جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور قسم دریافت

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور نئی قسم دریافت کی گئی ہے جو اب تک کئی ممالک میں پہنچ چکی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی افریقہ میں سائنسدانوں نے کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس میں متعدد تشویشناک میوٹیشنز موجود ہیں۔

    سائنسدانوں کی جانب سے جاری تحقیقی مقالے کے مطابق سی 1.2 نامی اس نئی قسم کو سب سے پہلے مئی میں جنوبی افریقہ کے 2 صوبوں ماپو مالانگا اور خاؤٹنگ میں دریافت کیا گیا تھا۔

    کرونا کی یہ قسم اب تک افریقہ، اوشیانا، ایشیا اور یورپ کے 7 دیگر ممالک میں بھی دریافت کی جا چکی ہے۔

    سائنسدانوں نے بتایا کہ کرونا کی اس نئی قسم میں موجود میوٹیشنز زیادہ تیزی سے پھیلنے اور اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت جیسی صلاحیتوں سے منسلک ہیں، یہ بات اہم ہے کہ یہ نئی قسم تشویشناک میوٹیشنز کے مجموعے پر مبنی ہے۔

    کرونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث اس کی قسم ڈیلٹا نمودار ہوئی جسے سب سے پہلے بھارت میں دریافت کیا گیا تھا، جو اب دنیا بھر میں بالا دست قسم بنتی جارہی ہے۔

    عام طور پر وائرس کی نئی اقسام میں ہونے والی میوٹیشنز کے مدنظر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ویرینٹس آف انٹرسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔

    اگر وہ زیادہ متعدی یا بیماری کی شدت بڑھانے کا باعث ثابت ہو تو انہیں تشویشناک اقسام میں شامل کردیا جاتا ہے، سی 1.2 جنوبی افریقہ میں 2020 کی وسط میں کرونا کی پہلی لہر کا باعث بننے والی قسم سی 1 میں تبدیلیوں سے ابھری ہے۔

    کوازولو نیٹل ریسرچ انوویشن اینڈ سیکونسنگ پلیٹ فارم اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار کمیونیکل ڈیزیز کی مشترکہ تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے بارے میں بتایا گیا۔

  • کرونا وائرس کے نقصانات کے حوالے سے ایک اور خوفناک انکشاف

    کرونا وائرس کے نقصانات کے حوالے سے ایک اور خوفناک انکشاف

    کرونا وائرس کے حوالے سے نئی تحقیقات سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے، اب حال ہی میں ماہرین کا ایک اور انکشاف سامنے آیا ہے۔

    حال ہی میں نیویارک کی اسٹونی بروک یونیورسٹی کی تحقیق میں کرونا وائرس کے مریضوں میں ایک ایسے انزائمے کو شناخت کیا گیا جو جسم میں اس طرح تباہی مچاتا ہے جیسے کسی زہریلے سانپ کے زہر میں موجود اعصاب پر اثر انداز ہونے والا زہریلا مادہ۔

    تحقیق میں کووڈ کے مریضوں کے 2 گروپس سے حاصل کیے گئے خون کے نمونوں کا تجزیہ کرنے پر اس انزائمے sPLA2-IIA کی گردش کو دریافت کیا گیا جو بیماری کی سنگین شدت کی پیش گوئی کرسکتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے جنوری سے جولائی 2020 کے دوران اسٹونی بروک یونیورسٹی میں زیر علاج رہنے والے کووڈ مریضوں کے میڈیکل چارٹس اور ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    اسی طرح جنوری سے نومبر 2020 کے دوران اسٹونی بروک اور بینر یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں زیر علاج رہنے والے 154 مریضوں کے نمونے بھی حاصل کیے گئے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یقیناً گروپس میں شامل افراد کی تعداد زیادہ نہیں تھی مگر ہر مریض کے تمام کلینکل پیرامیٹرز کو دیکھ کر ان کو پیش آنے والے حالات کو مدنظر رکھا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اکثر تحقیق میں برسوں تک کام جاری رکھا جاتا ہے مگر ہم نے آئی سی یو میں رئیل ٹائم میں یہ کام کیا۔

    ماہرین مشین لرننگ الگورتھمز کی مدد سے مریضوں کے ہزاروں ڈیٹا پوائنٹس کا تجزیہ کرنے کے قابل ہوئے، روایتی عناصر جیسے عمر، جسمانی حجم اور پہلے سے مختلف بیماریوں کے ساتھ انہوں نے بائیو کیمیکل انزائموں پر بھی توجہ مرکوز کی۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ صحت مند افراد میں sPLA2-IIA انزائمے کی مقدار آدھا نینو گرام فی ملی لیٹر تھی جبکہ کووڈ کی سنگین شدت کرنے والے مریضوں میں یہ مقدار 10 نینو گرام فی ملی میٹر تھی۔

    ماہرین کے مطابق یہ کووڈ کے باعث ہلاک ہونے والے کچھ مریضوں میں اس انزائمے کی مقدار اب تک کی سب سے زیادہ دریافت ہوئی۔

    اس انزائمے کے بارے میں یہ پہلے سے معلوم ہے کہ یہ بیکٹیریل بیماریوں کے خلاف دفاع میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ صحت مند افراد میں اس کے اجتماع کی سطح کم ہوتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ جب یہ انزائمے زیادہ مقدار میں گردش کرنے لگے تو اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اہم اعضا کی غلافی جھلیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ انزائمے وائرس کو مارنے کی کوشش کرتا ہے مگر ایک مخصوص موقع پر یہ اتنی زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے کہ حالات بدترین سمت کی جانب بڑھنے لگتے ہیں، کیونکہ یہ مریض کے خلیات کی جھلیوں کو تباہ کرکے متعدد اعضا کے افعال فیل کرنے اور موت کا باعث بن جاتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس انزائمے کی روک تھام کے لیے دستیاب علاج سے مریضوں میں کووڈ کی شدت کو بڑھنے سے روکنے یا موت سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔