Tag: کرونا

  • ہائی رسک گروپس کے لیے کون سی ویکسین مؤثر ہے؟

    ہائی رسک گروپس کے لیے کون سی ویکسین مؤثر ہے؟

    دنیا بھر میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے مختلف ویکسینز استعمال کی جارہی ہیں، اب ماہرین نے ہائی رسک گروپس کے لیے مؤثر ویکسین کے حوالے سے تحقیق کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق پبلک ہیلتھ انگلینڈ کا کہنا ہے کہ فائزر اور ایسٹرا زینکا ویکسین ہائی رسک گروپس کے لیے مؤثر ہیں۔

    برطانیہ میں کورونا کے 35 ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ہیں تاہم کرونا وائرس ویکسین سے متعلق پبلک ہیلتھ انگلینڈ کا کہنا ہے کہ فائزر، ایسٹرازینکا ویکسین ہائی رسک گروپس کے لیے مؤثر ہیں۔

    آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں گزشتہ روز کرونا وائرس کے ریکارڈ 50 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یورپی ملک مالٹا نے صرف کرونا ویکسی نیٹڈ افراد کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے کا اعلان ک ہے۔

    کرونا وائرس کیسز میں اضافے پر نیدر لینڈز میں ریسٹورنٹس، نائٹ کلبز اور فیسٹولز پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ادھر سعودی عرب نے بھی موڈرنا ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی ہے۔

  • بچوں اور نوجوانوں کو کووڈ 19 سے معمولی خطرہ

    بچوں اور نوجوانوں کو کووڈ 19 سے معمولی خطرہ

    حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے بچوں اور نوجوانوں میں بہت زیادہ بیمار ہونے اور موت کا شکار ہونے کی شرح کم ہوتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کی لیور پول یونیورسٹی اور لندن کالج یونیورسٹی کی نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ کووڈ 19 سے بچوں اور نوجوانوں میں بہت زیادہ بیمار ہونے اور موت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    یہ اس حوالے سے اب تک کی سب سے جامع اور بڑی تحقیق تھی جس میں عوامی طبی ڈیٹا کا منظم انداز سے تجزیہ کرکے یہ نتیجہ نکالا گیا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ایسے بچوں اور نوجوانوں میں کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جو پہلے سے کسی بیماری سے متاثر ہوں، تاہم مجموعی طور پر یہ خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی وبا کے ایک سال کے دوران (فروری 2021 کے آخر تک) برطانیہ میں 18 سال سے کم عمر 251 افراد اس بیماری کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔

    ماہرین نے یہ تعین کرنے کی کوشش کی کہ اس عمر کے گروپ میں خطرات بڑھانے والے عناصر کون سے ہوتے اور دریافت کیا کہ اس عمر کے گروپ میں 50 ہزار میں سے صرف ایک میں کووڈ کے باعث آئی سی یو میں داخلے کا امکان ہوتا ہے۔

    کووڈ سے بچوں میں ورم کے ایک سینڈروم پی آئی ایم ایس ٹی ایس کا الگ سے جائزہ لینے پر محققین نے دریافت کیا کہ 309 بچوں کو اس عارضے کے باعث آئی سی یو میں داخل کیا گیا اور یہ خطرہ ہر 38 ہزار 911 میں سے ایک کو ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں کووڈ کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس عمر کے گروپ میں وہ افراد زیادہ خطرے کی زد میں ہوتے ہیں جن کو موسم سرما کے کسی وائرس یا دیگر بیماریوں کے بہت زیادہ خطرے کا بھی سامنا ہوتا ہے، مختلف بیماریوں اور معذوریوں کے شکار بچوں اور نوجوانوں میں یہ مرض خطرناک ہوسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج بہت اہم ہیں اور اس سے بچوں اور نوجوانوں میں ویکسنیشن کے حوالے سے فیصلے کرنے میں نہ صرف برطانیہ بلکہ بین الاقوامی سطح پر رہنمائی مل سکے گی۔

  • دل دھڑکنے کا سبب کووڈ بھی ہوسکتا ہے

    دل دھڑکنے کا سبب کووڈ بھی ہوسکتا ہے

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بعض مریضوں کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے جسے لانگ کووڈ کہا جاتا ہے، اب حال ہی میں اس کی ایک اور علامت سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں امریکا میں ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں کو دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی جیسی علامت کا بھی طویل المعیاد بنیادوں پر سامنا ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں 875 بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی جانب سے نظام تنفس کی بیماری کی علامات کو رپورٹ کیا گیا تھا۔ ان میں سے 234 میں بعد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی اور محققین نے ویئر ایبل ڈیوائسز کی مدد سے ان کی بیماری کا مشاہدہ کیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کچھ مریضوں کی دھڑکن کی رفتار اور نیند کے رجحان کو معمول پر آنے میں 4 ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا۔

    ویئر ایبل ڈیوائسز سے ان کے روزانہ قدموں سے توانائی کی سطح کی جانچ پڑتال سے دریافت ہوا کہ بیماری کی علامات کے آغاز کے بعد کم از کم 30 دن لگے جب ان کی جسمانی توانائی کی سطح معمول پر آسکی۔

    مجموعی طور پر کووڈ 19 کے شکار افراد میں دھڑکن کی رفتار کو معمول پر آنے میں اوسطاً 79 دن اور توانائی کی سطح بحال ہونے میں 32 دن لگے۔ دھڑکن کی بے ترتیبی کا مسئلہ ان افراد میں زیادہ عام تھا جن کو کووڈ کے دوران کھانسی، جسمانی درد اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا۔

    ماہرین نے کہا کہ تنائج سے معلوم ہوتا ہے کہ دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھنے کی وجہ جاننا یہ تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے کہ کس کو کووڈ سے منسلک ورم یا مدافعتی نظام تھم جانے کا سامنا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سنسر ڈیٹا اس وائرس سے لوگوں کے جسم پر مرتب ہونے والے اثرات کو جاننے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بیشتر افراد دل کی کسی قسم کی علامات کو نوٹس نہیں کرتے تاہم دھڑکن کی رفتار کا غیر اطمینان دہ احساس کچھ افراد کو ہوتا ہے۔

    کچھ افراد کو لگتا ہے کہ محض ٹوائلٹ تک جانے سے ہی ان کا دل تیزی سے بھاگنے لگا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے معلوم ہوا کہ بیشتر افراد چند ہفتوں میں کووڈ کو شکست دے دیتے ہیں اور کسی قسم کے اثرات کا سامنا نہیں ہوتا، مگر جب دھڑکن کی رفتار بڑھتی ہے تو بیشتر افراد کو عدم اطمینان کا احساس ہوتا ہے، مگر اس سے ہٹ کر فی الحال کسی قسم کے سنگین نتائج سامنے نہیں آئے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی مریض کو ان علامات کا سامنا 3 ماہ سے زیادہ ہوتا ہے یا جسمانی سرگرمیاں محدود ہوتی ہیں تو پھر خدشہ ہوسکتا ہے کہ ان کو کسی بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔

  • کرونا وائرس: نئے کیسز کی یومیہ تعداد ایک بار پھر ہزار سے تجاوز

    کرونا وائرس: نئے کیسز کی یومیہ تعداد ایک بار پھر ہزار سے تجاوز

    اسلام آباد: پاکستان میں کرونا وائرس کے نئے کیسز کی یومیہ تعداد ایک بار پھر 1 ہزار سے تجاوز کر گئی، ملک میں اب تک 37 لاکھ افراد ویکسی نیشن کروا چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 27 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 22 ہزار 582 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس 1 ہزار 980 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 9 لاکھ 73 ہزار 284 ہوچکی ہے۔

    ملک میں کرونا وائرس سے کے فعال کیسز کی تعداد 37 ہزار 499 ہے جبکہ صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 9 لاکھ 13 ہزار 203 ہوچکی ہے۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 48 ہزار 382 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 1 کروڑ 50 لاکھ 56 ہزار 787 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 4.09 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 2 ہزار 119 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 1 کروڑ 53 لاکھ 20 ہزار 363 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 37 لاکھ 46 ہزار 989 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • پنجاب میں ہفتہ ویکسی نیشن منانے کا فیصلہ

    پنجاب میں ہفتہ ویکسی نیشن منانے کا فیصلہ

    لاہور: حکومت پنجاب نے 9 سے 18 جولائی تک ہفتہ کرونا ایس او پیز اور ویکسی نیشن منانے کا فیصلہ کرلیا، حکام کا کہنا ہے کہ عید الاضحیٰ پر بے احتیاطی کے باعث کرونا وائرس پھیلنے کا خدشہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد اور چیف سیکریٹری کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں پنجاب حکومت نے 9 تا 18 جولائی ہفتہ کرونا ایس او پیز اور ویکسی نیشن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مانیٹرنگ کے لیے محکمہ داخلہ کی زیر نگرانی صوبائی کنٹرول روم قائم کیا جائے گا، پبلک مقامات پر ایس او پیز کی چیکنگ کے لیے ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی۔

    وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ ہفتہ پابندی ایس او پیز منانے کا مقصد وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے، ویکسی نیشن کے ساتھ احتیاطی تدابیر پر عمل ضروری ہے۔ لوگ ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے کو اپنی زندگی کا معمول بنا لیں۔

    چیف سیکریٹری پنجاب کا کہنا تھا کہ عید الاضحیٰ پر بے احتیاطی کے باعث کرونا وائرس پھیلنے کا خدشہ ہے، ویکسی نیشن کے ٹارگٹ پورے نہ ہونے پر متعلقہ ڈپٹی کمشنر ذمہ دار ہوگا۔

  • مزید 11 ہیلتھ ورکرز میں کرونا وائرس کی تشخیص

    مزید 11 ہیلتھ ورکرز میں کرونا وائرس کی تشخیص

    اسلام آباد: گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران ملک میں 11 مزید ہیلتھ ورکرز میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی، اب تک 16 ہزار 671 ہیلتھ ورکرز کووڈ 19 کا شکار ہوچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران ملک میں 11 ہیلتھ ورکرز میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی، 24 گھنٹے میں 6 ڈاکٹر اور 5 اسپتال ملازمین کرونا وائرس میں مبتلا ہوگئے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں کرونا وائرس سے متاثرہ ہیلتھ ورکرز کی تعداد 16 ہزار 671 ہوگئی، 9 ہزار 966 ڈاکٹر، 2 ہزار 374 نرسز اور 4 ہزار 331 عملے دیگر افراد کرونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔

    ذرائع وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ملک میں تاحال 164 ہیلتھ ورکرز کرونا وائرس سے جاں بحق ہو چکے ہیں، 306 ہیلتھ ورکرز گھروں اور 15 اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ 16 ہزار 186 ہیلتھ ورکرز کرونا وائرس سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق کرونا وائرس سے متاثرہ اور جاں بحق بیشتر ہیلتھ ورکرز کا تعلق سندھ سے ہے، سندھ میں 5 ہزار 865 ہیلتھ ورکرز متاثر اور57 جاں بحق ہو چکے ہیں۔

    پنجاب میں 3 ہزار 477 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 29 جاں بحق، پختونخواہ میں 3 ہزار 963 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 44 جاں بحق اور اسلام آباد میں 15 سو 22 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 13 جاں بحق ہو چکے ہیں۔

    اسی طرح گلگت بلتستان میں 250 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 3 جاں بحق، بلوچستان میں 843 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 9 جاں بحق، جبکہ آزاد کشمیر میں 751 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 9 جاں بحق ہو چکے ہیں۔

  • پھر سے لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے: فردوس عاشق اعوان

    پھر سے لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے: فردوس عاشق اعوان

    لاہور: وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ ملک اور عوام پھر سے لاک ڈاؤن جیسی پابندیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے، کرونا وائرس کی چوتھی لہر سے بچاؤ کے لیے عوام کو پہلے سے زیادہ احتیاط برتنا ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ کرونا وائرس کی چوتھی لہر سے بچاؤ کے لیے عوام کو پہلے سے زیادہ احتیاط برتنا ہوگی۔

    معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ این سی او سی کی گائیڈ لائنز پر ہر صورت عملدر آمد کیا جائے گا۔ کرونا سے محفوظ رہنے میں ہر شہری کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہے، کرونا ایس او پیز کی پاسداری اور ماسک کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے، احتیاط کا راستہ ہی ہمیں کرونا وائرس کی چوتھی لہر سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

    معاون خصوصی کا مزید کہنا تھا کہ بے احتیاطی اور ایس او پیز کی خلاف ورزی سے کیسز میں پھر سے اضافہ ہوگا، ملک اور عوام پھر سے لاک ڈاؤن جیسی پابندیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ پابندیوں سے بچنے کے لیے شہری احتیاط کا دامن مت چھوڑیں۔

  • کرونا ویکسین کی تیسری خوراک پر غور

    کرونا ویکسین کی تیسری خوراک پر غور

    واشنگٹن: امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے اعلان کیا ہے کہ وہ کرونا ویکسین کی تیسری خوراک کے لیے نگران اداروں سے اجازت لے رہے ہیں، ویکسین کی تیسری خوراک سے اینٹی باڈیز کی سطح پہلی دو خوراکوں کے مقابلے میں پانچ سے دس گنا بڑھ جاتی ہے۔

    بین الاقومی ویب سائٹ کے مطابق امریکی دوا ساز کمپنی فائزر اور جرمن بائیو ٹیکنالوجی کمپنی بائیو این ٹیک نے اعلان کیا ہے کہ کرونا ویکسین کی تیسری خوراک کے لیے نگران اداروں سے اجازت لے رہے ہیں۔

    کمپنیوں کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ویکسین کے جاری ٹرائل سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ وائرس کی ابتدائی قسم اور بعد میں افریقہ میں پائے جانے والے بیٹا ویرینٹ کے خلاف ویکسین کی تیسری خوراک سے اینٹی باڈیز کی سطح پہلی دو خوراکوں کے مقابلے میں پانچ سے دس گنا بڑھ جاتی ہے۔

    بیان میں کہا گیا ہے کہ کمپنیوں کی جانب سے مزید واضح ڈیٹا سائنسی جرنل میں شائع کیا جائے گا اور امریکی فوڈ اور ڈرگ اتھارٹی کے علاوہ یورپی میڈیسن ایجنسی اور دیگر نگران اداروں کو بھی بھیجا جائے گا۔

    کمپنیوں کے خیال میں ویکسین کی تیسری خوراک تیزی سے پھیلنے والے ڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوگی۔

    فائزر اور بائیو این ٹیک احتیاطاً ایسی ویکسین بھی تیار کر رہے ہیں جو بالخصوص ڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف تحفظ فراہم کرے گی، اس مخصوص ویکسین کی پہلی کھیپ جرمنی کے شہر مینز میں قائم بائیو این ٹیک کے پلانٹ میں تیار کی جا رہی ہے۔

    کمپنیوں کا کہنا ہپے کہ نگران اداروں سے اجازت ملنے پر ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز اگست میں شروع کیے جائیں گے۔

    اسرائیل میں ویکسین لگوانے کے 6 ماہ بعد اس کی افادیت میں کمی ظاہر ہوئی تھی، جس کی بنیاد پر کمپنیوں نے کہا کہ مکمل ویکسی نیشن کے چھ سے بارہ ماہ بعد تیسری خوراک کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

    بیان میں کہا گیا کہ ویکسین لگوانے کے 6 ماہ تک شدید بیماریوں کے خلاف تحفظ فراہم ہوتا ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علامتی بیماریوں اور وائرس کی نئی نئی اقسام کے خلاف افادیت میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔

    ایف ڈی اے اور بیماریوں پر قابو پانے والے امریکی سینٹر کی جانب سے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تیسری خوراک کی ضرورت کے حوالے سے حکام جائزہ لے رہے ہیں۔

    مشترکہ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ جن امریکی شہریوں کی مکمل ویکسی نیشن ہو چکی ہے انہیں تیسری خوراک کی ضرورت نہیں ہے، تاہم ضرورت پڑنے پر ہم اضافی خوراک کے لیے تیار ہیں۔

  • ویکسی نیشن کے حوالے سے جرمنی کا بڑا اقدام

    ویکسی نیشن کے حوالے سے جرمنی کا بڑا اقدام

    برلن: جرمنی میں لوگوں کو کرونا وائرس سے بچاؤ کی مکس ویکسین لگوانے کی اجازت دے دی گئی، حکام کے مطابق اگر لوگ چاہیں تو پہلی ڈوز کے بعد کسی بھی کمپنی کا ایم آر این اے ویکسین کی بوسٹر ڈوز بھی لگوا سکتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جرمنی نے اپنے لوگوں کو عمر کے حساب سے کرونا سے بچاؤ کی مکس ویکسین لگوانے کی اجازت دے دی۔

    دنیا کے متعدد ممالک میں اس وقت ایک ہی طرح کی ویکسین کے پہلے اور دوسرے ڈوز لگوائے جا رہے ہیں لیکن امریکا، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک میں حکومت نے لوگوں کو مرضی کے مطابق کچھ عرصے بعد دوسری ویکسین لگوانے کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔

    تاہم اب تک کوئی ایسا ملک نہیں تھا جس نے لوگوں کو بیک وقت مکس ویکسین لگوانے کی اجازت دی ہے لیکن اب جرمنی نے اپنے شہریوں کو بیک وقت مکس ویکسی نیشن کی اجازت دے دی۔

    جرمنی کے ویکسی نیشن سے متعلق حکومتی ادارے سٹیکو نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پہلی ڈوز ایسٹرازینیکا کی لگوائی ہو، وہ چاہیں تو اپنی عمر کے حساب سے دوسری ڈوز موڈرنا یا فائزر کی بھی لگوا سکتے ہیں۔

    ادارے کے مطابق اگر لوگ چاہیں تو پہلی ڈوز کے بعد کسی بھی کمپنی کا ایم آر این اے ویکسین کا بوسٹر ڈوز بھی لگوا سکتے ہیں۔

    ایم آر این اے ویکسین کو بوسٹر ڈوز کہا جاتا ہے جو براہ راست بیماری کو نہیں روکتیں بلکہ وہ انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے سمیت خلیات میں پروٹین کی پیداوار کو یقینی بناتی ہیں۔

    جرمن حکومت کے مطابق لوگ چاہیں تو فائزر اور موڈرنا کی پہلی ڈوز کے بعد ایسٹرازینیکا کی دوسری ڈوز لگوائیں یا چاہیں تو ایم آر این اے ویکسین کی بوسٹر ڈوز لگوائیں۔

    حکومتی ادارے کے مطابق تازہ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکس ویکسی نیشن کا اثر دیرپا اور پائیدار ہوتا ہے اور ایسا عمل مختلف طرح کے کرونا وائرسز سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

  • کرونا وائرس سے جسم کے مزید اعضا کو نقصان پہنچنے کا انکشاف

    کرونا وائرس سے جسم کے مزید اعضا کو نقصان پہنچنے کا انکشاف

    کرونا وائرس عام طور پر نظام تنفس سے منسلک اعضا کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا تھا لیکن اب حال ہی میں ایک نیا انکشاف ہوا۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے جسم کے متعدد اعضا کو نقصان پہنچانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک نئی تحقیق میں پہلی بار انکشاف ہوا کہ کرونا وائرس لعاب دہن بنانے والے گلینڈز کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔

    برازیل کی یونیورسٹی آف ساؤ پاؤلو میڈیکل اسکول کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس لعاب دہن بنانے والے گلینڈز کو متاثر کرسکتا ہے اور وہاں اپنی نقول بناسکتا ہے۔

    یہ انکشاف کووڈ 19 کی پیچیدگیوں سے ہلاک ہونے والے افراد کے پوسٹ مارٹم سے ہوا تھا۔

    تحقیق میں ان افراد کے لعاب دہن بنانے والے 3 اقسام کے گلینڈز کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی گئی تھی اور دریافت ہوا کہ لعاب دہن بنانے والے ٹشوز کرونا وائرس کی پناہ گاہ کا کام کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اس دریافت سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ یہ وائرس لعاب دہن میں بہت زیادہ تعداد میں کیوں ہوتا ہے اور اس سے سائنسدانوں کو لعاب دہن پر مبنی کووڈ 19 کی تشکیص کا ٹیسٹ تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔

    انہوں نے کہا کہ یہ پہلی بار ہے جب نظام تنفس کا ایک وائرس لعاب دہن کے گلینڈ کو متاثر کرنے اور وہاں اپنی نقول بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس سے قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ بہت زیادہ عام امراض جیسے خارش کا باعث بننے والے وائرسز ہی ایسا کرسکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس دریافت سے یہ ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ آخر نیا کرونا وائرس اتنا زیادہ متعدی کیوں ہے۔ ان ماہرین کی ایک سابقہ تحقیق میں کرونا وائرس کے آر این اے کو مسوڑھوں کے ٹشوز میں دریافت کیا گیا تھا۔

    چونکہ کرونا وائرس نظام تنفس کے دیگر وائرسز کے مقابلے میں بہت زیادہ متعدی ہے تو محققین کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید یہ لعاب دہن بنانے والے گلینڈز کے خلیات میں بھی اپنی نقول بناتا ہو اور لعاب دہن میں موجود رہتا ہو۔

    اس کی جانچ پڑتال کے لیے ماہرین نے کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے 24 مریضوں کے ٹشوز کے نمونے حاصل کیے۔

    تجزیے سے دریافت ہوا کہ وائرس ان ٹشوز میں موجود ہے اور حتمی معائنے سے ثابت ہوا کہ نہ صرف وائرس وہاں موجود ہے بلکہ وہ خلیات میں اپنی نقول بنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

    اب ماہرین کی جانب سے یہ جاننے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ کیا منہ کرونا وائرس کے جسم میں داخلے کا بنیادی مقام ہے اور اس حوالے سے مسوڑھوں سے ٹشوز اور منہ میں لعاب کی جھلی کا اس میں کیا کردار ہے۔

    ماہرین کے مطابق منہ ممکنہ طور پر وائرس کے لیے جسم میں داخلے کا اہم ترین مقام ہوسکتا ہے۔