Tag: کرکٹ ٹیم

  • قومی ونڈے کرکٹ اسکواڈ کے 9 کھلاڑی نیوزی لینڈ روانہ

    قومی ونڈے کرکٹ اسکواڈ کے 9 کھلاڑی نیوزی لینڈ روانہ

    نیوزی لینڈ سے ون ڈے سیریز کے لیے قومی ون ڈے کرکٹ اسکواڈ کے 9 کھلاڑی نیوزی لینڈ روانہ ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ سے ون ڈے سیریز کے لیے کرکٹ اسکواڈ کے 9 کھلاڑی نیوزی لینڈ روانہ ہوگئے ہیں، روانہ ہونے والے کھلاڑیوں میں کپتان محمد رضوان، بابراعظم اور عبد اللہ شفیق شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ نیوزی لینڈ کیلئے روانہ ہونے والے کھلاڑیوں میں امام الحق، طیب طاہر، نسیم شاہ، فہیم اشرف، وسیم جونیئر اور عاکف جاوید شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ نیوزی لینڈ اور پاکستان کے درمیان تین ون ڈے میچز کی سیریز کھیلی جائے گی، پہلا ون ڈے 29 مارچ کو کھیلا جائے گا۔

  • سلمان بٹ پاکستانی فاسٹ بالرز پر پھٹ پڑے

    سلمان بٹ پاکستانی فاسٹ بالرز پر پھٹ پڑے

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ کا کہنا ہے کہ اگر 90 کی دہائی کی بات کریں تو پاکستان کے آل راؤنڈر بھی 145 کی اسپیڈ سے بال کراتے تھے، عبد الرزاق اور اظہر محمود 140 پلس کراتے تھے۔ مگر آج کل تو 140 کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔

    ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سلمان بٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے 140اسپیڈ کو پچھلے چند سالوں میں ’ہوا‘ بنایا ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں فاسٹ بالرز کی بات کی جائے تو صرف شعیب اختر اور محمد سمیع کا نام لیا جائے گا، جو 150پلس کراتے تھے۔

    سابق کپتان نے کہا کہ محمد رضوان اچھی کپتانی کرتا ہے لیکن اگر بولر منصوبہ بندی کے مطابق بولنگ نہ کرے تو کوئی بھی کپتان کچھ نہیں کرسکتا، اگر آپ کی بولنگ سے ڈیلیو نہیں ہوپارہا تو پھر کپتان بھی کچھ نہیں کرسکتا۔

    سلمان بٹ نے کہا کہ پانچویں بولر کے طور پر آغا سلمان اور خوشدل شاہ کو استعمال کیا جارہا ہے اور وہ دونوں فل فلیش بولر نہیں ہیں، تو ایسے میں کپتان وہاں پر بھی چانس لیتا ہے اور آپ کو اپنی ریسورس کے مطابق ہی چلنا ہوتا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ محمد حسنین نے وکٹیں ضرور لی ہیں ڈومیسٹک میں مگر ردھم ان کا کہیں پر بھی نظر نہیں آیا، ایسا نظر آیا کہ ان کے پاس میچ پریکٹس کی کمی ہے اور طویل اسپیل کی کمی ہے۔

    سلمان بٹ نے کہا کہ جب وہ بھاگتا ہے تو بہت ساری چیزوں کا جواب مل جاتا ہے، وہ فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں کھیلتے، انھوں نے لسٹ اے کھیلا تھا اس کے بعد وہ ٹیم کے ساتھ رہے ہیں آسٹریلیا میں مگر وہاں پر بھی انھوں نے پورے اوورز نہیں کیے۔

    روی چندرن ایشون نے بابر اعظم کی بیٹنگ پر سوال اُٹھادیا

    سابق کپتا نے کہا کہ محمد رضوان اور آغا سلمان کی بیٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دونوں نے ایک چوکا مارتے تھے پھر اس کے بعد رسک نہیں لیتے تھے وہ بڑا میتھڈ کے ساتھ کھیلے ہیں، یہ دونوں بہترین اننگزتھیں۔

  • کرکٹ ٹیم کو شرمناک شکستیں اور پی سی بی میں بڑے آپریشن کا آغاز

    کرکٹ ٹیم کو شرمناک شکستیں اور پی سی بی میں بڑے آپریشن کا آغاز

    آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیپمپئن شپ 25-2023 میں ٹاپ رینکنگ سے آغاز، ون ڈے اور ٹی 20 کی ٹاپ ٹیم، کرکٹرز رینکنگ میں بلے باز اور بولرز سر فہرست، ہر بڑا آئی سی سی ایوارڈ پاکستانی کرکٹرز کی جھولی میں۔ یہ ہے ماضی قریب کی پاکستان کرکٹ ٹیم لیکن آج سب کہہ رہے ہیں کہ ’’دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو‘‘

    پاکستان کرکٹ میں سب کچھ اچھا جا رہا تھا اور یہ سب اچھا تھا 2023 کے ابتدائی 6 ماہ تک۔ اس کے بعد بازی ایسی پلٹی کہ ہر کوئی انگشت بدنداں رہ گیا کہ یہ ہوا کیا ہے پاکستان ٹیم صرف بڑی ٹیموں سے نہیں بلکہ اپنے سے کہیں کمزور ٹیموں سے اپنے ہی میدانوں میں آسانی سے زیر ہو رہی ہے اور ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ موسم کی طرح بدلتی پی سی بی انتظامیہ نے اپنی خواہشات کی پیروی میں کپتانی کی خواہش کو ایسے بڑھایا کہ بیک وقت ٹیم میں چار پانچ کپتانی کے امیدوار پیدا کر دیے۔ تو جس طرح ایک نیام میں کئی تلواریں نہیں رہ سکتیں، اسی طرح ایک ٹیم میں کئی کپتان کیسے یکجا رہ سکتے ہیں۔

    ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی 20 ورلڈ کپ میں عبرت ناک شکستیں تو پرانی ہوچکیں اور اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں گزشتہ ماہ اپنی سر زمین پر وائٹ واش شکست کے زخم ابھی مندمل بھی نہ ہوئے تھے، کہ انگلینڈ نے اپنے ریگولر اور ورلڈ کلاس آل راؤنڈر کپتان بین اسٹوکس کے بغیر میدان میں اتر کر پاکستان کرکٹ ٹیم کی وہ درگت بنائی اور ایسی تاریخی فتح سمیٹی کہ جس کے زخم مندمل ہونے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا۔

    ملتان ٹیسٹ ریکارڈ ساز رہا لیکن صرف انگلینڈ کے لیے، پاکستان کے نام تو صرف بدنامی ہی آئی اور وہ اس میچ کے ساتھ ہی ایک ایسی پاتال میں جا گری، جس میں ٹیسٹ کرکٹ کی لگ بھگ ڈیڑھ صدی قدیم تاریخ میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی ٹیم بھی نہ گری ہوگی۔ پاکستان وہ واحد ٹیم بنی جس نے پہلی اننگ میں 550 سے زائد رنز اسکور کیے اور پھر اننگ کی شکست کھا بیٹھی۔ اس میچ سے پاکستان ٹیم نے یہ بات پھر ثابت کر دی کہ وہ جیتا ہوا میچ ہارنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے۔ جس طرح گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں مہمان ٹیم کی 26 رنز پر 6 وکٹیں گرانے کے بعد کسی نے تصور نہ کیا ہوگا کہ اس میچ میں بدترین ناکامی ملے گی لیکن ایسا ہوگیا۔ اسی طرح اب بھی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ٹیم بن جائے گی لیکن ٹیم نے اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ سے یہ ناممکن بھی کر دکھایا۔ جس بیٹنگ پچ پر پاکستانی بولر 800 سے زائد رنز کھانے کے باوجود پوری انگلینڈ ٹیم کو ڈھیر نہ کر سکے اسی پچ پر ہمارے بیٹنگ کے شیر 220 رنز پر ڈھیر ہوگئے۔

    پاکستان جو بنگلہ دیش سے حالیہ سیریز میں شکست کے بعد پہلے ہی اپنے ملک میں ابتدائی 10 ٹیسٹ اقوام میں شامل تمام ٹیموں سے سیریز ہارنے والا دوسرا ملک بن چکا تھا اور ٹیسٹ کرکٹ کی بدترین ٹیم بن گیا۔ انگلینڈ کے خلاف اس شرمناک شکست کے بعد پی سی بی نے جو فوری اقدامات کیے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ جس بڑی سرجری کا اعلان کئی ماہ قبل کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ قومی ٹیم کی سلیکشن کمیٹی تبدیل کرنے کے ساتھ بابر اعظم، شاہین شاہ اور نسیم شاہ جیسے بڑے نام اگلے دو ٹیسٹ سے باہر کر دیے گئے ہیں۔ شان مسعود کا ستارا بھی گردش میں ہے اور وہ مسلسل 6 تیسٹ میچ جیت کر ناکام ترین کپتان کا اعزاز پہلے ہی پاچکے ہیں۔ اگر اگلے دو ٹیسٹ میچ میں حسب منشا نتائج نہ ملے تو یقینی طور پر اگلا قربانی کا بکرا وہی ہوں گے۔

    اس صورتحال میں بابر اعظم کے ساتھ شاہین شاہ اور نسیم شاہ جیسے کھلاڑیوں کو ایک ساتھ ہی ٹیم سے ڈراپ کرنے سے لگتا ہے کہ پی سی بی میں پینک بٹن دب چکا ہے اور اس صورتحال میں کیے گئے اکثر فیصلے بعض اوقات بیک باؤنس ہو کر خود اپنے ہی گلے پڑ جاتے ہیں۔ اگر ان کو باہر کرنے کے بعد بھی اگلے دو ٹیسٹ میچز میں حسب منشا نتائج نہ مل سکے تو پھر بورڈ کیا کرے گا، کیا وہ پوری ٹیم کو آرام کے نام پر ڈراپ کر کے نئی ٹیم تشکیل دے گا؟

    مذکورہ تینوں کھلاڑیوں کی فارم گو کہ کچھ عرصہ سے بہتر نہیں بابر اعظم کا بلا اگر ایک سال سے رنز نہیں اگل رہا تو دوسری جانب انجریز سے نجات کے بعد دونوں بولر بھی پرانی شان رفتار سے بولنگ نہیں کر پا رہے لیکن یہ نہ بھولیں کہ تینوں میچ ونر اور تن تنہا ٹیم کو میچ جتوانے والے کھلاڑی ہیں اور کئی بار اس کو ثابت کر چکے ہیں۔ اس لیے اگر ان کو ڈراپ کر کے سخت پیغام دینا ہے تو اس سوچ سے گریز کیا جائے اور ان بڑے کھلاڑیوں کو مکمل سپورٹ کیا جائے کیونکہ اگلے کچھ سالوں تک یہی پاکستانی ٹیم کو کئی میچ حتیٰ کہ ٹرافی تک جتوانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

    پاکستان کی حالیہ ایک سال میں اس نا قابل یقین بدترین کاکردگی پر ہمارے سابق قومی کرکٹرز اور دنیا بھر کے شائقین کرکٹ سمیت روایتی حریف بھارت میں بھی شائقین اور سابق وموجودہ کرکٹرز حیران ہیں۔ کچھ ٹیم پر طنز کر رہے ہیں تو اکثر ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے گرین شرٹس کی موجودہ صورتحال پر افسوس بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کو اس حال تک لانے میں کون ذمے دار ہے تو یقینی طور پر بورڈ کی غلط پالیسیوں کے ساتھ کرکٹرز بھی اس میں برابر کے ذمے دار ہیں۔

    پاکستان کرکٹرز کی نفسیات کو سمجھنا ہے تو پاکستان کی کرکٹ سے کسی نہ کسی طور منسلک سابق کھلاڑیوں کی رائے جان لیجیے۔ ان میں ایک پاکستان کے سابق کوچ مکی آرتھر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ حد سے زیادہ تشہیر کھلاڑیوں کو حقیقت سے دور کر رہی ہے۔ کھلاڑی خود کو زیادہ بڑا سمجھتے ہیں جب کہ میڈیا پر منفی باتیں اور ایجنڈے بھی ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

    کیون پیٹرسن جو پی ایس ایل کھیل کر پاکستانی کرکٹرز کی نفسیات سے اچھی طرح آگاہ ہو چکے ہیں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ کا ناقابل یقین ٹیلنٹ موجود ہے تاہم اس کے ساتھ ہی وہ اس جانب بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں تسلسل نہیں اور وہ صحیح ٹریننگ نہیں کرتے۔ سسٹم میں خامیوں کی موجودگی تک پاکستان ٹیم ایک یونٹ کی طرح نہیں کھیل سکتی، ناقص ٹریننگ اور زیادہ جذباتی ہونے جیسے رویوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اگر یہ کلچر تبدیل نہ کیا گیا تو پاکستان ٹیم بھی کبھی بہتر نہیں ہو سکے گی۔

    ماہرین کی اسی رائے کی روشنی میں اگر گہرائی سے جائزہ لیں تو کرکٹرز کو اس حال تک پہنچانے میں ہم شائقین کرکٹ کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا کہ خود بورڈ کی ناقص پالیسیوں یا کرکٹرز کی لاپرائیوں کو۔ کیونکہ ہم خود جلدباز ہیں اسی لیے کسی ایک ہی اننگ یا بولر کے اچھے اسپیل پر انہیں سر پر چڑھاتے اور پھر ایک بری کارکردگی پر خود ہی نیچے گرا دیتے ہیں۔ یہ شائقین اور ٹی وی چینلز پر بیٹھے ماہرین ہی ہیں جو صرف ایک سنچری یا پانچ وکٹوں پر کرکٹرز کا موازنہ سر ڈان بریڈ مین، جاوید میانداد، ٹنڈولکر، لارا، عمران خان، رچرڈ ہیڈلی ودیگر ماضی کے بڑے لیجنڈ کرکٹرز سے کر دیتے ہیں۔ اس سے ایک جانب جہاں شائقین کرکٹ کی امیدیں آسمان کو چھونے لگتیں ہیں وہیں لیجنڈز ہم پلہ قرار دیے جانے پر نوجوان کرکٹرز کی آنکھیں بھی خیرہ ہو جاتی ہیں اور وہ پھر اس چکاچوند میں وہ اپنی اصل منزل کھونے لگتے ہیں۔

    کبھی کبھی ٹیموں پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ کوئی ایک کھلاڑی نہیں بلکہ پوری ٹیم ہی آؤٹ آف فارم لگتی ہے جیسا کہ 90 کی دہائی میں بھارتی ٹیم کے ساتھ ہوا تھا وہ ہر میچ ہار رہی تھی اور اب اسی نہج پر پہنچ گئی ہے۔ قومی ٹیم میں اس وقت سوائے محمد رضوان کے کسی بیٹر کی جانب سے مسلسل رنز سامنے نہیں آ رہے۔ کچھ عرصے میں ہوم گراؤنڈ پر سب سے بدترین ریکارڈ ہمارے پیسرز کا ہے، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ انجریز سے نجات کے بعد سابقہ فارم میں واپس نہیں آ سکے، نوجوان پیسرز میں کوئی ایسا نہیں جسے میچ ونر کہہ سکیں، اسپنرز تو ہمارے ملک میں ایسے نایاب ہو گئے جیسے گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس ہوتی ہے۔ قابل بھروسہ آل راؤنڈر کا شعبہ برسوں سے خالی ہے۔

    بابر اعظم سے فارم کیا روٹھی لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم سے فتح ہی روٹھ گئی ہے۔ یہ الارم ہے کہ کرکٹ ٹیم فرد واحد نہیں بلکہ 11 کھلاڑیوں کا مجموعہ ہے اور جیت میں سب کو ہی اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ ہمیں اس صورتحال سے مستقبل کا تعین کرتے ہوئے ٹیم میں ہر کھلاڑی کا بیک اپ تیار کرنا چاہیے اور کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط کرنا چاہیے تاکہ وہ کسی بھی مشکل صورتحال میں خود کو نکال سکیں۔ کیونکہ ہماری ٹیم کی نفسیات بن گئی ہے کہ اگر ایک دو وکٹیں اوپر تلے گر جائیں تو پھر وکٹوں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور تو چل میں آیا جیسی صورتحال ہو جاتی ہے جو کھلاڑیوں کی ذہنی مضبوطی پر سوالیہ نشان ڈالتی ہے۔

    لگتا ہے کہ ٹیم کو صرف فزیکل ٹرینر اور فزیو کی ہی نہیں ایک سائیکاٹرسٹ کی بھی ضرورت ہے جو انہیں مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کر سکے اور یہ کوئی شرم کی بات نہیں بڑے بڑے بورڈ اپنی ٹیم کے لیے ماہرین نفسیات کا تقرر کرتی ہیں۔ اس وقت شارٹ ٹرم منصوبہ بندی اور تنقید سے بچنے کے لیے عارضی فیصلوں سے بہتر ہے کہ ٹیم کے مفاد میں ایسے فیصلے کیے جائیں، جس سے ٹیم اپنا عروج دوبارہ حاصل کر سکے ورنہ جس طرح ماضی میں کالی آندھی کے نام سے مشہور ویسٹ انڈیز ٹیم اب صرف ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ کی عملی تفسیر بن گئی ہے ہمارا حشر بھی کہیں ایسا نہ ہو جائے۔

    (یہ تحریر مصنف / بلاگر کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)
  • قومی کرکٹ ٹیم آئرلینڈ سے انگلینڈ پہنچ گئی

    قومی کرکٹ ٹیم آئرلینڈ سے انگلینڈ پہنچ گئی

    پاکستان کرکٹ ٹیم آئرلینڈ سے ٹی ٹوئنٹی سیریز جیتنے کے بعد انگلینڈ پہنچ گئی، قومی ٹیم ڈبلن سے مانچسٹر پھر لیڈز پہنچی۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈکپ سے قبل انگلینڈ میں 4 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی۔ جو 22، 25، 28 اور 30 مئی کو کھیلے جائیں گے۔

    قومی ٹیم انگلینڈ میں سیریز کے بعد ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کیلیے امریکا روانہ ہوجائے گی۔

    دوسری جانب ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی 2024 کے لیے پاکستان اور انگلینڈ کے وارم اپ میچوں سے محروم ہونے کا امکان ہے۔

    پاکستان اور انگلینڈ آئندہ ماہ امریکا اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کے لیے اپنے وارم اپ میچوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔

    ٹنڈولکر کے سیکورٹی گارڈ کی خودکشی، ابتدائی تحقیقات میں اہم انکشاف

    یہ فیصلہ دونوں ٹیموں کی جانب سے چار میچوں کی ایک اہم T20I سیریز کے لیے تیار ہونے سے ہوا ہے جو 22 مئی کو شروع ہوگی اور 30 مئی کو ختم ہوگی۔

  • ورلڈ کپ فائنل: میچ سے قبل رنگا رنگ اختتامی تقریب

    ورلڈ کپ فائنل: میچ سے قبل رنگا رنگ اختتامی تقریب

    میلبرن: آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں فائنل کے ٹاس کے بعد رنگا رنگ اختتامی تقریب منعقد ہوئی جس میں مقامی فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں فائنل کے ٹاس کے بعد رنگا رنگ اختتامی تقریب منعقد ہوئی۔

    اختتامی تقریب میں آسٹریلیا کی مقامی ثقافت کو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر کھچا کھچ بھرا اسٹیڈیم موسیقی پر جھوم اٹھا۔

    پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ہونے والے فائنل کے لیے انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا ہے۔

    میچ کچھ دیر میں شروع ہوجائے گا۔

  • عمر گل کے بیان پر ثقلین مشتاق نے کیا ردعمل دیا؟

    عمر گل کے بیان پر ثقلین مشتاق نے کیا ردعمل دیا؟

    دبئی: پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق کا کہنا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ بابر اعظم نے ہمارے بیٹنگ آرڈر کو ایک اور چیز دکھا دی کہ ہماری ٹیم میں سب میچ ونر ہیں۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق نے افغانستان کرکٹ ٹیم کے بولنگ کوچ عمر گل کے بابر اعظم سے متعلق بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ بابر اعظم نے ہمارے بیٹنگ آرڈر کو ایک اور چیز دکھا دی کہ ہماری ٹیم میں سب میچ ونر ہیں۔

    دبئی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ثقلین مشتاق نے کہا کہ بابر اعظم پر کسی کو شک نہیں ہے، اس کی کلاس دنیا کے سامنے ہے، سب اس کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ میچ ونر ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ ورلڈ کلاس بیٹر ہے، دو تین میچز میں ان کے نہ چلنے سے دیگر بیٹنگ لائن اپ میں نئی روح پھونک دی ہے۔

    واضح رہے کہ شارجہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےافغانستان کرکٹ ٹیم کے بولنگ کوچ عمر گل نے کہا تھا کہ بابر اعظم کا رنز نہ کرنا افغانستان ٹیم کے لیے اچھا ہوسکتا ہے۔

    عمر گل نے کہا تھا کہ پاکستانی کپتان بابر اعظم اور وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان ورلڈ کلاس کھلاڑی ہیں، ان کے خلاف پلان تیار کیا ہوا ہے، دیکھتے ہیں کہ بولرز اس پر کیسے عمل کرتے ہیں۔

  • کوہلی نے پاکستانی مداح کی خواہش پوری کر کے سب کا دل جیت لیا

    کوہلی نے پاکستانی مداح کی خواہش پوری کر کے سب کا دل جیت لیا

    دبئی: بھارتی کھلاڑی ویراٹ کوہلی نے پاکستانی مداح کی خواہش پر اس کے ساتھ سیلفی بنوا کر ایک بار پھر سب کا دل جیت لیا، مداح لاہور سے صرف کوہلی کو دیکھنے کے لیے آیا تھا۔

    ایشیا کپ 2022 کے لیے متحدہ عرب امارات میں موجود کرکٹ ٹیمز آج کل پریکٹس میں مصروف ہیں، بھارتی کرکٹ ٹیم بھی دبئی کی کرکٹ اکیڈمی میں پریکٹس کر رہی ہے۔

    پریکٹس سے واپسی پر ایک مداح بھارتی کھلاڑی کوہلی کے قریب آنے کی کوشش کرنے لگا، ایسے میں سیکیورٹی اہلکار نے آگے بڑھ کر اسے روک لیا۔

    نوجوان نے چلا کر کوہلی کو آواز دی اور بتایا کہ وہ لاہور سے آیا ہے اور کوہلی کے ساتھ صرف ایک سیلفی چاہتا ہے۔

    کوہلی پہلے تو بس کی جانب چلتے رہے لیکن کچھ دیر بعد پلٹ کر واپس آئے اور مداح کی خواہش پر اس کے ساتھ سیلفی بنوائی۔

    اس سے قبل کوہلی اور پاکستانی کپتان بابر اعظم کی ملاقات کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

  • افغان کرکٹر نے ٹیم کی کپتانی کیوں ٹھکرا دی؟

    افغان کرکٹر نے ٹیم کی کپتانی کیوں ٹھکرا دی؟

    افغان لیگ اسپنر راشد خان نے افغانستان کی ٹی 20 ٹیم کی کپتانی یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دی کہ وہ لیڈر سے زیادہ ایک کھلاڑی کے طورپر ٹیم کے لیے بیش قیمت ثابت ہوسکتے ہیں۔

    22 سالہ لیگ اسپنر کا کہنا ہے کہ میں اپنے دماغ میں پوری طرح واضح ہوں کہ میں ایک کھلاڑی کی حیثیت سے بہتر ہوں، میں ٹیم کے نائب کپتان کے طور پر ٹھیک ہوں اور کپتان کو جو مدد چاہیئے وہ میں دے سکتا ہوں، میرے لیے اس عہدے سے دور رہنا زیادہ بہتر ہے۔

    راشد خان نے کہا کہ میں ٹیم کے لیے ایک کھلاڑی کے طور پر بہترین پرفارمنس چاہتا ہوں اور فی الحال میرا ہدف ورلڈ کپ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ کپتانی سے ٹیم کے لیے میری کارکردگی پر اثر پڑ سکتا ہے، اس لیے میں ایک کھلاڑی کے طور پر خوش ہوں اور بورڈ و سلیکشن کمیٹی جو بھی فیصلہ کریں گے میں اس کی حمایت کروں گا۔

  • انگلینڈ کے لیگ اسپنر بھارت کے خلاف اپنی پھرپور کارکردگی دکھانے کے لیے پرعزم

    انگلینڈ کے لیگ اسپنر بھارت کے خلاف اپنی پھرپور کارکردگی دکھانے کے لیے پرعزم

    انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے لیگ اسپنر جیک لیچ کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف اپنی پھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں، وہ کافی عرصے سے بین الاقوامی کرکٹ سے دور تھے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق انگلینڈ کے لیگ اسپنر جیک لیچ کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستان کے خلاف سیریز کے دوران اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں اور صرف اپنی کارکردگی پر ہی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

    لیچ گزشتہ مہینے سری لنکا کے خلاف 2 میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں شامل تھے جو تقریباً گزشتہ ایک سال کے وقفے کے بعد ان کا پہلا بین الاقوامی میچ تھا۔ لیچ نے سری لنکا کے خلاف 10 وکٹیں حاصل کی تھیں، لیکن وہ ابھی بھی اپنی کارکردگی میں اصلاح کے لیے پرعزم ہیں۔

    لیچ نے کہا کہ میں سری لنکا کے دورے سے پہلے کئی وقت تک میدان سے باہر رہا تھا لیکن اس دوران میں نے خود کو بہتر کرنے پر کام کیا اور جیسا گیند باز بننا چاہتا ہوں ویسا بننے کی کوشش کی۔

    انہوں نے کہا کہ سری لنکا کے دورے کی شروعات اچھی تھی اور میرے خیال سے میں صحیح سمت میں جا رہا ہوں۔

    لیچ نے مزید کہا کہ اسپن بولر ہونے کی وجہ سے دوسری اننگز میں وکٹ لینے سے ہمیشہ حوصلہ بلند ہوتا ہے۔ میں ایسا کھلاڑی ہوں جو کبھی مطمئن نہیں ہوتا اور مجھے اپنے کھیل میں مزید اصلاح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے ہندوستان ایک مضبوط ٹیم ہے اور اس نے حال ہی میں آسٹریلیا کو اس کے گھر میں شکست دی ہے، ہمارے لیے خود کو ثابت کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔

  • کرونا وائرس سے انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم بھی خوفزدہ

    کرونا وائرس سے انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم بھی خوفزدہ

    کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کو خوفزدہ کر رکھا ہے وہیں کھلاڑی بھی اس کے خوف سے محفوظ نہیں، انگلینڈ ٹیم کے کھلاڑی دورہ سری لنکا کے دوران مصافحہ کرنے کے بجائے مکے ٹکرا کر ایک دوسرے سے ملیں گے۔

    انگلینڈ کی ٹیم اس سے قبل دورہ جنوبی افریقہ کے دوران فلو اور گیسٹرو انٹرائٹس کا شکار ہوچکی تھی اب کرونا وائرس کا خدشہ ان کے سر پر منڈلا رہا ہے۔

    انگلینڈ ٹیسٹ ٹیم کے کپتان جوروٹ کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی میڈیکل ٹیم کی جانب سے ہدایات ملی ہیں کہ کم سے کم جسمانی رابطے سے، کرونا سمیت دیگر بیماریوں کے جراثیم سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ٹیم کی ہدایات کے مطابق ہم ایک دوسرے سے مصافحہ نہیں کر رہے، اس کی جگہ مکے ٹکرا کر ایک دوسرے سے ملیں گے۔

    جوروٹ کا کہنا تھا کہ ہم باقاعدگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور صفائی کا خیال رکھ رہے ہیں، مینجمنٹ کی جانب سے ہمیں دیے گئے امیونٹی پیکٹ میں جراثیم کش جیلز اور وائپس موجود ہیں۔

    خیال رہے کہ انگلینڈ کی ٹیم دورہ سری لنکا کے دوران پہلے 2 پریکٹس میچز کھیلے گی، اس کے بعد دونوں ٹیموں کے درمیان 19 مارچ سے کولمبو میں پہلا ٹیسٹ میچ، اور 27 مارچ سے دوسرا ٹیسٹ میچ کھیلا جائے گا۔

    سری لنکا میں چند روز قبل ہی کرونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق کی گئی ہے لیکن جوروٹ کو امید ہے کہ ان کا ٹور شیڈول کے مطابق جاری رہے گا۔