Tag: کسان

  • برف سے بنی دنیا کی سب سے بڑی بھول بھلیاں

    برف سے بنی دنیا کی سب سے بڑی بھول بھلیاں

    کینیڈا میں ایک جوڑے نے برف سے دنیا کی سب سے بڑی بھول بھلیاں تخلیق کر کے گنیز بک آف دی ورلڈ ریکارڈز میں اپنا نام درج کروا لیا۔

    2 ہزار 7 سو 89 اسکوائر پر مشتمل ان بھول بھلیوں نے اس سے قبل بنائی جانے والی بھول بھلیوں کا ریکارڈ توڑ دیا جو کینیڈا ہی میں فورٹ ولیم پارک میں بنائی گئی تھی۔

    اسے بنانے والا جوڑا کسان ہے، کلنٹ اور اینجی نامی اس جوڑے نے ایک چھوٹے سے قصبے میں اپنے گھر کے باہر مکئی کی بھول بھلیاں بھی بنا رکھی ہیں۔ رواں برس انہوں نے اس دلچسپ کام کو مزید بڑے پیمانے پر کرنے کا سوچا۔

    370 ٹرک برف سے بنی ان بھول بھلیوں کو بنانے میں کئی ہفتے لگے جس کے لیے درست منصوبہ بندی اور خطیر رقم درکار تھی۔ اس کی تیاری میں جوڑے نے کمرشل کمپیوٹر ڈیزائن اور ڈرافٹنگ سافٹ ویئرز کا بھی استعمال کیا۔

    اینجی بتاتی ہیں کہ اسے بنانا ایک مشکل کام تھا، ’آپ کو صرف دیواریں نہیں کھڑی کرنی تھیں، بلکہ ایسی دیواریں بنانی تھیں جن کے دونوں طرف راستہ ہو‘۔

    بھول بھلیوں کے مختلف راستوں میں مجسمے بھی بنائے گئے ہیں جبکہ اس کے گرد بیٹھنے کے لیے بینچیں بھی رکھی گئی ہیں۔

    منفی 40 درجہ حرارت پر بھی لوگ ان خوبصورت اور پیچیدہ راستوں کو دیکھنے کے لیے آرہے ہیں، اینجی کا کہنا ہے کہ اگر موسم سرما مزید کچھ دن جاری رہا تو یہ بھول بھلیاں بھی قائم رہیں گی اور انہیں کچھ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔

  • بھارت: 50 ہزار سے زائد کسان سڑکوں پر نکل آئے، لانگ مارچ کا آغاز

    بھارت: 50 ہزار سے زائد کسان سڑکوں پر نکل آئے، لانگ مارچ کا آغاز

    نئی دہلی: بھارت کے 50 ہزار کسان مطالبات پورے نہ ہونے پر ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے ممبئی کی جانب لانگ مارچ شروع کردیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق کسانوں اور زمینداروں کے حقوق کی تنظیم آل انڈیا کسان سبھا نے مطالبات پورے نہ ہونے پر مہاشٹرا سے ممبئی تک لانگ مارچ کیا اور مودی سرکار کے خلاف نعرے بازی کی۔

    ہزاروں کسان گزشتہ روز ناسک سے ممبئی کی جانب روانہ ہوئے، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر قرضوں میں کمی، پانی کی فراہمی اور فصل کی اچھی قیمتیں دینے کے مطالبات درج تھے۔

    کسانوں نے مہاراشٹرا کی حکومت کو الٹی میٹم دیا تھا تاہم حکام نے اُن کے مطالبات ماننے سے صاف انکار کردیا جس کے بعد مظاہرین نے ممبئی کی طرف پیدل مارچ شروع کردیا۔ بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ساڑھے سات ہزار سے زائد کسان مہارشٹرا کے علاقے ناسک پہنچ گئے ہیں۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ناسک سے چلنے والا کسانوں کا قافلہ 27 فروری کو ممبئی پہنچے گا، بھارت کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے کسانوں کی حمایت کا اعلان کردیا۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس 30 نومبر کو کسانوں نے بھارتی حکومت کے مظالم سے تنگ آکر مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں برہنہ احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ جانے کا عندیہ دیا تھا۔

    بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اپنے حقوق اور حکومتی مظالم کے خلاف جمع ہونے والے ہزاروں کسانوں نے کئی راتیں آسمان تلے گزاریں تھیں،  مظاہرین نے اعلان کیا تھا کہ اگر اُن کے مطالبات حکومت نے پورے نہیں کیے اور کوئی نمائندہ سننے کے لیے نہیں‌ آیا تو وہ احتجاج جاری رکھیں‌گے اور کسی بھی لمحے برہنہ ہوکر پارلیمنٹ میں داخل ہوجائیں گے۔

    کسانوں نے اپنے ہاتھوں میں خودکشی کرنے والے ساتھیوں کے ڈھانچے اٹھا رکھے تھے، انہوں نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا تھا کہ ’ہم وزیراعظم سے بھیک مانگنے کے لیے نہیں بلکہ اپنا حق مانگنے آئے ہیں‘۔

    مظاہرین کا مطالبہ تھاکہ حکومت قرض معاف کرے، فصلوں کی قیمتوں کو بڑائے اور پانی سمیت دیگر بنیادی زرعی ضروریات پوری کرے، بھارتیہ جنتا پارٹی نے مطالبات سننے کے بعد انہیں حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کے بعد کسانوں نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا تاہم صورتحال جوں کی توں ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس جون میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیر نے اعتراف کیا تھا کہ مالی سال 2018-2017 کے دوران کسانوں نے حکومتی عدم توجہ اور ناقص پالیسوں سے تنگ آکر خودکشی کی اور یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ حکومتی سطح پر تمام ضلعوں میں تحقیقات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں جو کسانوں کے مسائل کو  بغور سنے گی جبکہ متاثرہ خاندانوں کی کفالت کے حوالے سے بھی حکومت کوئی پالیسی متعارف کرائے گی۔

    بھارتی وزیر کا کہنا تھاکہ 49 کسانوں نے گزشتہ ماہ قرضوں کی ادائیگی سے تنگ آکر خوکشی کی جبکہ 20 کسانوں کی موت کی وجوہات جاننے کے لیے کمیٹی نے کام شروع کردیا۔

    واضح رہے کہ بھارت میں تقریباَ 26 کروڑ افراد زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں جبکہ گزشتہ سال مہاراشٹرا میں 1 ہزار سے زائد کسانوں نے غربت سے تنگ آکر خودکشی کی تھی۔

    بھارتی شہر چنائی میں منعقد ہونے والے انڈین پریمئر لیگ (آئی پی ایل) کے خلاف کسان میں میدان آگئے تھے اور  انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت پہلے پانی کے مسئلے کو حل کرے بعد میں کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کرے۔

  • آسام کے چائے کے باغات حاملہ خواتین کے لیے خطرناک ترین مقام

    آسام کے چائے کے باغات حاملہ خواتین کے لیے خطرناک ترین مقام

    بھارتی ریاست آسام ایک طرف تو دنیا بھر میں اپنی چائے کی پیداوار کی وجہ سے مشہور ہے، تو دوسری جانب اسے بچوں کی پیدائش کے حوالے سے بھارت کا انتہائی خطرناک مقام بھی قرار دیا جاتا ہے۔

    آسام میں واقع چائے کے باغات میں خواتین کسانوں اور مزدوروں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے تاہم ان خواتین کے لیے طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

    ان خواتین میں کئی حاملہ بھی ہوتی ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ناقص طبی سہولیات، غیر غذائیت بخش خوراک اور دن کا طویل عرصہ کام کرنا ان حاملہ خواتین کی ڈلیوری کے لیے نہایت خطرات پیدا کردیتا ہے۔

    آسام میں ہر ایک لاکھ میں سے 237 خواتین زچگی کے وقت موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔

    یہ شرح بھارت کی مجموعی شرح سے بھی زیادہ ہے، بھارت بھر میں ایک لاکھ میں سے 130 خواتین دوران زچگی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

    آسام میں موجود چائے کے یہ باغات چائے کی نصف ملکی ضرورت پوری کرتے ہیں جبکہ یہ کئی بین الاقوامی چائے کے برانڈز کو بھی چائے فراہم کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں کاشتکار خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور

    مالکان یہاں پر کام کرنے والے کسانوں اور مزدوروں کو جائز اجرت اور طبی سہولیات فراہم کرنے کے پابند ہیں تاہم چند ہی مقامات پر کسانوں کو یہ سہولیات میسر ہیں۔

    باغات میں کام کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ معمولی سی طبیعت خرابی سے لے کر زچگی تک کے لیے دور و قریب میں کوئی طبی سہولت موجود نہیں۔ ’طبی سہولیات کے نام پر یہاں صرف ایک کان میں ڈالنے والی مشین (اسٹیتھو اسکوپ) اور بلڈ پریشر کا آلہ دستیاب ہوتا ہے‘۔

    ان کے مطابق حاملہ خواتین بھی اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ روزانہ کا ہدف پورا نہیں ہوگا تو اجرت نہیں ملے گی۔

    انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سماجی کارکن نے بتایا کہ خواتین حمل کے آخری دنوں تک کام کرتی ہیں، کئی خواتین کے یہاں کھیت میں ہی بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے۔

    دوسری جانب بھارتی مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اس ریاست کا دور دراز ہونا اور سفر کے لیے مناسب ذرائع نہ ہونا یہاں مختلف سہولیات کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہے۔

  • بھارت میں کیڑے مار اسپرے کرنے والے 20 کسان ہلاک

    بھارت میں کیڑے مار اسپرے کرنے والے 20 کسان ہلاک

    مہاراشٹرا: بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں کیرے ماڑ اسپرے کرنے والے 20 کسان ہلاک جبکہ متعدد کی حالت تشویش ناک ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں کیڑے مار ادویات کے چھڑکاؤ کے دوران سانس کے ذریعے دوا پھیپھڑوں میں جانے سے 20 کسان ہلاک جبکہ 100 سے زائد کسانوں کی حالت تشویش ناک ہے۔

    بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ کسانوں کی ہلاکت کی وجہ حفاظتی اقدامات نہ اٹھانا اور کیڑے مار اسپرے کے چھڑکاؤ کے دوران معیاری ماسک کا استعمال نہ کرنا ہے۔

    مہاراشٹراحکومت کے ترجمان کشور ٹیواری کا کہنا ہے کہ کیڑے مار اسپرے کرنے والے 20 کسان ہلاک جبکہ 50 کی حالت تشویش ناک ہے۔

    انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظمیوں کو کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے غریب کسانوں کو ان کی حفاظت کے لیے حفاظتی سامان نہ فراہم کرنے کی وجہ سے مسلسل ہلاکتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ممبئی کی ہائی کورٹ نے مہاراشٹرا کی حکومت پر متاثرہ علاقوں کو کیڑے مار ادویات بیچنے پر پابندی عائد کی تھی۔

    واضح رہے کہ بھارت میں تقریباََ 26 کروڑ افراد زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں جبکہ گزشتہ سال مہاراشٹرا میں 1 ہزار سے زائد کسانوں نے غربت سے تنگ آکر خودکشی کرلی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • بھارت میں آسمانی بجلی گرنے سے 21 افراد ہلاک

    بھارت میں آسمانی بجلی گرنے سے 21 افراد ہلاک

    نئی دہلی : بھارتی ریاست اڑیسہ میں آسمانی بجلی گرنے سے 21 افراد ہلاک اور 10 افراد زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست اڑیسہ میں آسمانی بجلی گرنے کے نتیجے میں 21 افراد ہلاک ہوگئےجبکہ 10 افراد زخمی ہوئے جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا۔

    بھارتی حکام کے مطابق آسمانی بجلی گرنے سے ہلانے والے افراد کسان ہیں جو چاول کے کھیتوں میں کام کررہے تھے۔

    خیال رہےکہ بھارت میں مون سون بارشوں کے باعث اب تک تقریباً 700 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ بارشوں نے گجرات، آسام، اتر پردیش سمیت 20 ریاستوں میں تباہی مچادی ہے جس سے بجلی کے نظام اور سڑکوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔


    بھارتی ریاست بہارمیں آسمانی بجلی گرنےسے26 افراد ہلاک


    یاد رہےکہ رواں ماہ 10 جولائی کوبھارتی ریاست بہارکے مختلف علاقوں میں جاری بارشوں کے دوران آسمانی بجلی گرنے سے 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

    واضح رہےکہ بھارت میں ہلاکتوں کا ریکارڈ رکھنے والے قومی ادارے کے مطابق انڈیا میں 2005 سے ہر برس ایسے واقعات میں تقریباً دو ہزار افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • بجٹ میں سبسڈی کے لیے کسانوں کا ڈی چوک پر احتجاج

    بجٹ میں سبسڈی کے لیے کسانوں کا ڈی چوک پر احتجاج

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بجٹ میں کسانوں کو سبسڈی دینے کے لیے پاکستان کسان اتحاد کی جانب سے ریلی نکالی گئی جس پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے، جس کے بعد ڈی چوک میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کسان اتحاد کی جانب سے منعقد کی گئی احتجاجی ریلی میں کسانوں نے مطالبہ کیا کہ بلوں اور کھاد میں سبسڈی دی جائے۔ کسانوں نے گو نواز گو کے نعرے بھی لگائے۔

    مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کی وزیراعظم سے ملاقات کروائی جائے بصورت دیگر وہ کسی دوسرے لائحہ عمل پر غور کریں گے۔

    احتجاج کے دوران مظاہرین نے پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب بڑھنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال شروع کردیا۔

    جواباً کسانوں نے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا جس سے 3 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔

    پتھراؤ کے بعد پولیس نے مظاہرین کی گرفتاری بھی شروع کردی۔ اب تک 20 سے 22 مظاہرین کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

    اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی شریک

    اس سے قبل اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ بھی کسان اتحاد کے مظاہرے میں پہنچے۔

    ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک کے 70 فیصد لوگوں کا انحصار زراعت پر ہے۔ کسان ہماری معیشت کو بہتر کرتے ہیں۔ غریب محنت کرتا ہے اور ہم ایوانوں میں بیٹھ کر مزے لیتے ہیں۔

    انہوں نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی جب بھی برسر اقتدار آئی غریبوں اور کسانوں کی حمایت کی۔

    خورشید شاہ نے کہا کہ حکمرانوں آنکھیں کھولو، ورنہ اس ملک کی معیشت ختم ہو جائے گی۔ حکمران نہیں چاہتے کہ پاکستان کا غریب خوشحال ہو۔

    عمران خان کی کسانوں پر تشدد کی مذمت

    چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کسانوں پر تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حقوق کے لیے سڑکوں پر آنے والے کسانوں پر تشدد آمرانہ سوچ کا مظہر ہے۔

    انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان شہریوں کو پر امن احتجاج کا پورا حق دیتا ہے۔ طاقت کے استعمال کے بجائے حکومت کسانوں کو ان کے حقوق دے۔

    آصف زرداری کی پارلیمنٹ میں احتجاج کی ہدایت

    سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کسانوں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے۔

    انہوں نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرتے ہوئے کسانوں پر تشدد کے خلاف پارلیمنٹ میں احتجاج کرنے کی ہدایت کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ کسان حق مانگ رہے ہیں رعایت نہیں۔ سبسڈی دینے سے ملک خوراک میں خود کفیل ہوگا۔

    رضا ہارون کی گرفتاریوں کی مذمت

    دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی کے سیکریٹری جنرل رضا ہارون نے کسان رہنماؤں اور مظاہرین کی گرفتاریوں کی مذمت کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ جائز حقوق کے لیے احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے۔ معاملہ افہام و تفہیم اور مذاکرات سے حل ہوسکتا تھا۔

    انہوں نے مطالبہ کیا کہ گرفتار کسان رہنماؤں کی فوری رہائی کو ممکن بنایا جائے۔

    یاد رہے کہ بجٹ 18-2017 آج پیش کیا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت اس سال بھی معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آپ کیسے باپ ہیں؟ خود کو بچانے کے لیے بچوں کو آگےکررہے ہیں، بلاول بھٹو

    آپ کیسے باپ ہیں؟ خود کو بچانے کے لیے بچوں کو آگےکررہے ہیں، بلاول بھٹو

    فیصل آباد : بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سستی روٹی، آشیانہ اسکیم اور دانش اسکول سمیت شہباز شریف کے تمام پروجیکٹس فیل ہوگئے ہیں جس کے بعد ان کا دماغ بھی فیل ہوگیا ہے۔

    وہ فیصل آباد میں اپنے چار مطالبات کی منظوری کے لیے دیے گئے الٹی میٹم کے اختتام پر حکومت مخالف تحریک کے آغاز پر جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے، انہوں نے کہا کہ آج جس شہرمیں آیاہوں وہ پاکستان کاصنعتی مرکزکہلاتا تھا یہاں مِلیں چلا کرتی تھیں تو لوگوں کو روزگار ملتا تھا افسوس کا مقام ہے کہ آج یہاں تمام مِلیں بند ہیں۔

    بلاول بھٹو نے اعلان کیا کہ ہم نے حکومت مخالف تحریک کا آغا ز کر دیا ہے جو عوام کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی تک جاری رہےگی جس کے پہلے مرحلے میں لاہور سے فیصل آباد آیا ہوں جہاں شاندار استقبال، پذیرائی اور عاجزی پر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور یاد رکھیے کہ تاریخ گواہ ہے بڑی تحریکوں کے آغاز عاجزانہ ہی ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کی دورمیں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں پر عمل درآمد کیا جائے کیوں کہ موجودہ حکمرانوں کی ذاتی تعلقات پرمبنی خارجہ پالیسی نے دنیا بھر میں پاکستان کوتنہا کردیا ہے لیکن اب پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش مزید نہیں چلے گی ملک کو مستقل وزیر خارجہ اور وزیرداخلہ کی ضرورت ہے۔

    پاناما کیس کا ذکر کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ احتساب سےمتعلق پیپلزپارٹی کابل منظور کیا جائے ہماری قیادت کو جیل میں رکھا جاتا ہے جب کہ نوازشریف خود اپنا سرمایہ باہر بھجواتے رہے لیکن اب ہم اب ایسا نہیں ہونےدیں گے ملکی خزانے میں نقب لگا کر بیرون ملک سرمایہ کی منتقلی ناقابل برداشت ہے۔

    انہوں نے وزیراعظم کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ آپ کیسے باپ ہیں؟ جوخود کو بچانے کے لیے اپنے بچوں کو آگے کرتے ہیں، ہم میں اور آپ میں یہی فرق ہے آپ اپنامال بچانے کے لیے اپنے بچوں کو آگے کر رہے ہیں جب کہ دوسرے شریف صرف شوبازیاں کرتے ہیں۔

    چیئرمین پیلز پارٹی نے کہا کہ ہماری ریلی پر آج کسان خوشیاں منا رہے ہیں کیوں کہ کسان جانتے ہیں کہ ان کا محفوظ مستقبل اور خوشحال روزگار پیپلز پارٹی سے وابستہ ہے جب کہ موجودہ دور میں غریب کسان کی فصلیں تباہ ہورہی ہیں اور کسان خود کشی کر رہے ہیں جب کہ نہ جانے میاں برادران کس ترقی کی بات کر رہے ہیں۔

    انہوں نے شریف برادران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غریب کابچہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتا، مریض اسپتالوں کے ٹھنڈے فرش پر سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں، تین سال میں قرضے دگنے کر دیئے ہیں پھر آپ کس ترقی کی بات کرتے ہیں؟

    انہوں نے کہا کہ آپ نے تو دعوی کیا تھا کہ حکومت 3سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کردیں گے میں پوچھتاہوں کیا لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی؟ لوڈ شیڈنگ تو ختم نہ ہوئی البتہ بجلی ضرور مہنگی ہو گئی ہے، لوڈ شیڈنگ نے تو بے نظیر بھٹو نے ختم کر دی تھی اور ہمارے ہی دور حکومت میں بجلی 8 روپے فی یونٹ تھی جب کہ آج 16 روپے فی یونٹ ہے جب کہ عالمی منڈی میں تیل بھی سستا ہے۔

    بلاول بھٹو نے کہا کہ ترقی صرف جاتی امراء میں ہو رہی ہے عوام کوغریب بناکرذاتی کاروبارچمکایاجارہاہے جب کہ قومی اداروں کو ترقی و وسعت دینے کے بجائے اسے دوستوں میں بانٹا جارہا ہے اسی لیے اگر پاکستان کی معیشت کو بچاناہے تو شریفوں کونکالنا ہوگا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ میاں صاحب نےمنشور میں کہا تھا کہ ایکسپورٹ 100ارب ڈالر تک لے کرجائیں گے لیکن میاں صاحب تو حکومتی منصوبے اپنا سریا اور دوستوں کاسیمنٹ بیچنے کے لیے بناتے ہیں۔

  • بھارت میں کاشتکار خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور

    بھارت میں کاشتکار خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور

    نئی دہلی: بھارت سمیت کئی ایشیائی ممالک کے دیہاتوں میں خواتین کا کھیتوں میں کام کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی یہ عورتیں مردوں ہی کی طرح سرد و گرم برادشت کرتی اور ان ہی کے جیسی یکساں محنت کرتی ہیں۔

    لیکن ان خواتین کاشتکاروں کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے کوئی نہیں جانتا، یا جانتا بھی ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔

    بھارت میں گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین اپنے اہلخانہ کو پالنے کے لیے نہ صرف ان کھیتوں کو جسمانی مشقت اور اپنا خون پسینہ دیتی ہیں، بلکہ زمینداروں کو اپنی قیمتی متاع حیات یعنی عزت بھی دینے پر مجبور ہیں۔

    india-4

    اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب ممبئی میں خواتین کے لیے کام کرنے والی کچھ تنظیمیں ان خواتین کاشتکاروں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لیے پہنچیں۔

    کھیتوں میں کام کرتی یہ خواتین اپنی رضا مندی سے زمینداروں اور اپنے نگرانوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتی ہیں، لیکن اس ’رضا مندی‘ کے لیے انہیں مجبور کیا جاتا ہے، کبھی تشدد کی صورت اور کبھی معاشی احسانات کے عوض۔

    مشکل در مشکل

    بھارتی ریاست مغربی مہاراشٹر میں بھی گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کاشتکاروں کے لیے اپنے مالکوں اور نگرانوں کی جانب سے جنسی زیادتی اور تشدد ایک عام سی بات ہے۔

    بھیودے بھی انہی خواتین میں سے ایک ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایسے ہی ایک زبردستی جسمانی تعلق کے بعد جب وہ حاملہ ہوئیں تو یہ کوئی آسان حمل نہیں تھا۔ انہیں شدید طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے نومولود بچے کی موت پر منتج ہوا۔

    india-3

    ڈاکٹر نے انہیں ہسٹرریکٹمی یعنی اپنی بچہ دانی نکلوانے کا مشورہ دیا تاکہ مستقبل میں مزید ایسی تکالیف سے بچا جاسکے۔

    اور ایسا مشورہ پانے والی بھیودے پہلی عورت نہیں تھی۔ کھیتوں میں زمینداروں کی ہوس کا نشانہ بنتی تقریباً ہر عورت کو یا تو اپنے خاندان والوں کی جانب سے اس عمل کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، یا پھر وہ خود ہی اس عمل سے گزرتی ہے تاکہ اپنی زندگی کو کسی حد تک آسان بنا سکے۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    دراصل کھیتوں میں ان خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات اس قدر عام، اور تسلسل کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں کہ انہیں بار بار حمل سے بچنے کے لیے یہی ایک آخری حل نظر آتا ہے۔

    یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بغیر وقفوں کے مستقل کام کرسکیں اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پال سکیں۔

    ان خواتین کا سروے کرنے والی ممبئی کی ایک تنظیم کے رکن نیرجا بھٹنا گر کا کہنا ہے کہ یہ ایک ناقابل بیان قسم کا تشدد ہے۔ ’یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے کہ آپ کسی کو اس کے جسم کے کسی حصہ سے اس لیے محروم کردیں، تاکہ وہ ایسی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکے جو اسے ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں پہنچا رہی‘۔

    خواتین مجبور کیوں ہیں؟

    بھارت دنیا کا دوسرا بڑا چینی پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کاروبار کے لیے بھارت کے طول و عرض پر بے شمار گنے کے کھیت ہیں جن میں کام کرنے کے لیے اس قدر افرادی قوت کی ضرورت ہے کہ نہ صرف مرد، بلکہ خواتین اور بچوں کو بھی اس مشقت میں ڈالا جاتا ہے۔

    گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے عموماً میاں بیوی کو رکھا جاتا ہے۔ ان جوڑوں کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں جو رضا کارانہ طور پر اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں تاہم معاوضے میں ان کا کوئی حصہ نہیں رکھا جاتا۔

    چونکہ ان کھیتوں میں کام کرنے کے لیے صرف جوڑوں کو ہی رکھا جاتا ہے لہٰذا کاشت کاری سے وابستہ خاندان اپنی لڑکیوں کی شادی اس عمر سے پہلے ہی کردیتے ہیں جو حکومت نے قانونی طور پر طے کر رکھی ہے یعنی 18 سال۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں دنیا کی ترقی کے لیے خطرہ

    کھیتوں میں فصل کی کٹائی نومبر سے مئی تک جاری رہتی ہے۔ اس دوران خواتین و بچے قابل استعمال اور ناقابل استعمال گنے کو علیحدہ کرتے ہیں اور یہ عمل صبح 4 بجے شروع ہوجاتا ہے جو بغیر کسی وقفے کے دوپہر ڈھلنے تک جاری رہتا ہے۔

    اس کے بعد یہ ان گٹھوں کو اپنی پیٹھ پر ڈھو کر بیل گاڑیوں میں رکھتے ہیں جو انہیں کھینچ کر فیکٹری میں لے جاتے ہیں جہاں انہیں چینی میں تبدیل کرنے کا کام شروع ہوتا ہے۔

    یہ مدت کاشت کاروں کے سال بھر کے روزگار کی مدت ہوتی ہے چنانچہ یہ دوسرے گاؤں دیہاتوں سے بھی عارضی ہجرت کر کے کھیتوں میں آبستے ہیں۔ اس دوران نہ تو انہیں جسم کی صفائی یا دیگر ضروریات کے لیے پانی میسر ہوتا ہے، نہ بجلی اور نہ ہی باقاعدہ بیت الخلا قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔

    معاوضے کے لیے انہیں درمیان میں موجود ایک شخص سے واسطہ پڑتا ہے۔ 5 سے 6 ماہ کی اس مشقت کے ان سے 50 یا 60 ہزار روپے طے کیے جاتے ہیں، تاہم دینے کے وقت ان کی کچھ رقم روک لی جاتی ہے تاکہ اگلے سال یہ دوبارہ لوٹ کر آئیں۔

    خواتین دہری اذیت میں

    یہ ایک عام صورتحال ہے، تاہم خواتین اس سے کہیں زیادہ مشکلات کا شکار ہیں جن میں سرفہرست ان سے زیادتی، ہراساں کرنے اور نگرانوں کی جانب سے تشدد کے واقعات شامل ہیں۔

    کام کے دوران اگر کوئی کم عمر لڑکی، زبردستی کے تعلق یا کچھ عرصہ قبل ہوئی شادی کے نتیجے میں حاملہ ہوجائے تو سخت محنت اور جسمانی مشقت کے باعث حمل ضائع ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان عادات سے پرہیز ضروری ہے

    بار بار کی جنسی زیادتی کے باعث حمل سے بچنے کے لیے نہ صرف انہیں ہسٹرریکٹمی کا مشورہ دیا جاتا ہے، بلکہ ان کے مردوں کو بھی نس بندی کروانے پر زور دیا جاتا ہے تاکہ یہ خواتین حاملہ ہوئے بغیر زیادہ سے زیادہ کام کرسکیں۔

    سماجی رکن بھٹنا گر نے بتایا کہ انہوں نے اس سلسلے میں کچھ ڈاکٹرز سے بات کی جو ان کاشت کار خواتین کی ہسٹرریکٹمی کا عمل انجام دیتے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ کم از کم 35 ہزار روپے فیس طلب کرتے ہیں اور یہ ان غریب اور بدحال خاندانوں کو مزید قرض میں دھنسا دیتا ہے۔

    india-5

    وہ کہتے ہیں، ’اس عمل کے لیے عورتوں کو خاندان والوں کی جانب سے مجبور کیا جاتا ہے تاہم آپ خاندان کو الزام نہیں دے سکتے۔ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کھیتوں میں ان کی عورتوں کے ساتھ کیا حالات پیش آئیں گے اور وہ کسی صورت ان کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ لیکن انہیں زندگی گزارنے کے لیے کام کرنا ہے لہٰذا وہ مجبور ہیں‘۔

    دوسری جانب خواتین لاعلم ہیں کہ اس سرجری کے بعد بغیر آرام کیے سخت محنت کرنے کا ان کے جسم پر کیا نقصان ہوگا، نہ ہی وہ یہ جانتی ہیں کہ کم عمری میں ہی یہ عمل ان کے جسم پر آگے چل کر کیا خطرناک اثرات مرتب کرے گا۔

    مزید پڑھیں: ہر 3 میں سے ایک عورت تشدد کا شکار

    سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ جدید دور کی غلامی کی بدترین مثال ہے اور خواتین اس کا زیادہ شکار ہیں۔

    زمینداروں اور فیکٹری مالکان کی ہٹ دھرمی

    گنا فیکٹریوں کے مالکان اور کارکنان نے اس بات سے انکار کیا کہ کھیتوں میں ایسی کوئی صورتحال موجود ہے۔

    مہاراشٹر کو آپریٹو شوگر فیکٹریز فیڈریشن کے وائس چیئرمین کا کہنا ہے کہ ان کے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں، نہ انہوں نے کبھی ایسا کچھ سنا۔ ’اگر یہ خواتین ایسی شکایت کرتی ہیں، یا وہ اپنے معاوضوں سے خوش نہیں، تو وہ وہاں کام کرنے آتی ہی کیوں ہیں‘۔

    ممبئی میں خواتین کے لیے سرگرم عمل ایک غیر ملکی تنظیم کی رکن افلیویا اگنز کا کہنا ہے کہ گو کہ جبری مشقت اور بدسلوکی کے خلاف بھارت میں قوانین موجود ہیں لیکن یہ تمام کاشت کار نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ اپنی اونچی ذات کے مالکوں سے خوفزدہ ہیں لہٰذا وہ کوئی قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کارکنان متحد ہو کر آواز اٹھائیں تو انہیں کچھ تحفظ مل سکے، لیکن کھیتوں کے مالکان ایسے واقعات کو ہی ماننے سے انکاری ہیں۔ کئی شوگر ملیں سیاستدانوں کی ہیں یا ان ملوں کے مالکان ان سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ وہ واپس اسی کام پر جانے پر مجبور ہیں جہاں ان کے ساتھ نہایت غیر انسانی اور بدترین سلوک کیا جاتا ہے‘۔