اٹلی کے جزیرے لامپیڈوسا کے قریب مہاجرین کی کشتی الٹنے سے 41 افراد ہلاک ہوگئے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق اٹلی کے جزیرے لامپیڈوسا کے قریب مہاجرین کی کشتی الٹ گئی جس کے نتیجے میں 41 افراد ہلاک ہوگئے، کشتی تیونس کے شہر سفیکس سے اٹلی روانہ ہوئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق کشتی تیونس کے شہر سفیکس سے اٹلی روانہ ہونے کے تقریباً 6 گھنٹے بعد الٹ گئی۔
رپورٹ کے مطابق کوسٹ گارڈ حکام کا کہنا بتانا ہے کہ 4 زندہ بچ جانے والے تارکین وطن کو کارگو جہاز کے ذریعے بچایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق حادثے میں زندہ بچ جانے والی خاتون نے بتایا کہ جہاز میں 45 افراد سوار تھے جن میں تین بچے بھی شامل تھے، صرف 15 افراد نے حفاظتی جیکٹیں پہن رکھی تھیں لیکن وہ بھی ڈوب گئے۔
گجرات: یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے سانحہ کے بعد اس میں ملوث ایک اور ایجنٹ کے خلاگ مقدمہ درج کرلیا گیا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے یونان کشتی حادثے میں ملوث ایک اور میں ظفرنامی ایجنٹ خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے، ایڈیشنل ڈائریکٹر قیصر مخدوم نے بتایا کہ مقدمہ لاپتہ احتشام کے والدکی مدعیت میں درج کیاگیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ظفر نامی ایجنٹ نے بیٹے کواٹلی بھجوانے کے لیے 23 لاکھ روپے مانگے، ایجنٹ نے 3 لاکھ روپے ایڈوانس جبکہ 2 بار 10 دس لاکھ روپے لئے۔
ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ ایجنٹ نے سائل کے بیٹے کو دبئی سے لیبیا اور پھر اٹلی بھجوانے کا کہا، 9 جون کو اس کے بیٹے نے اٹلی کے لیے نکلنے کی اطلاع دی۔
ایف آئی آر کے مطابق 11 جون کو ایجنٹ نے بتایا کہ اس کا بیٹا اٹلی پہنچ چکا ہے، سائل کے بیٹے کو باہر بھجوانے والا ظفر نامی ایجنٹ تحصیل نوشہرہ ورکاں کا رہائشی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے یونان میں تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں خواتین اور بچوں سمیت 700 سے زائد افراد سوار تھے۔
یونان میں پیش آئے اس کشتی حادثے میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے 135 افراد سمیت 298 پاکستانی جاں بحق ہوئے ہیں۔
اسلام آباد: پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا کہ یونان کشتی حادثے پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی ابھی تصدیق نہیں ہوسکتی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے یونان کشتی حادثے کے حوالے سے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے حادثات میں باڈی کی شناخت ایک بڑا چیلنج ہوتی ہے، اب تک کشتی حادثے میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی کنفرمیشن نہیں ہے، مرنے والوں میں کوئی پاکستانی ہے یا نہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا ہے۔
ترجمان دفترخارجہ کا کہنا ہے کہ کشتی حادثے میں 12 پاکستانی زندہ بچے ہیں، تاہم لاشوں کی شناخت کا عمل ڈی این اےکے ذریعے کیا جا رہا ہے، یونان میں موجود پاکستانی سفارتخانہ اپنے شہریوں کی مددکر رہا ہے۔
78 میتیں موصول لیکن میتیں قابل شناخت نہیں، پاکستانی سفارتخانہ
دوسری جانب یونان میں موجود پاکستانی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے 12 پاکستانیوں سے ملاقات کی ہے۔
یونانی حکام کے مطابق 78 میتوں کو وصول کیا گیا لیکن وصول ہونے والی میتیں قابل شناخت نہیں میتیوں کی شناخت ڈی این اےکی مدد سے کی جائے گی۔
— Pakistan Embassy Greece (@PakinGreece) June 16, 2023
پاکستانی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے والدین یا بچوں کے ڈی این اے رپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے، ڈی این اے رپورٹ کے لیے لاپتہ افراد کا شناختی کارڈ یا پاسپورٹ رابطہ نمبر ہمیں ای میل کریں۔
یاد رہے کہ یونان کے قریب بحیرہ روم میں الٹنے والی تارکین وطن کی کشتی میں 750 افراد سوار تھے جن میں 100 بچے اورخواتین بھی شامل تھے، کشتی رواں ہفتے 8 جولائی کو رات 2 بجے لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی، اطلاعات کے مطابق کشتی الٹنے کا واقعہ اوور لوڈنگ کی وجہ سے پیش آیا۔
مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ کشتی پر درجنوں پاکستانی، افغانی، مصری، شامی اور فلسطینی سوار ہوئے تھے، اور متعدد کا تعلق گوجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین، اور سیالکوٹ سے ہے۔
یونان کے قریب پیلوپونیس میں کھلے سمندر میں تارکینِ وطن میں ماہی گیری کی کشتی ڈوبنے سے کم از کم 79 تارکین وطن ہلاک ہو گئے اور خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد سیکڑوں تک تجاوز کرسکتی ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق یونان کے قریب بحیرہ ایونی میں تیز ہواؤں کی وجہ سے کھلے سمندر میں تارکینِ وطن کی کشتی ڈوب گئی جس کے نتیجے میں 79 تارکین وطن ہلاک اور 104 مسافروں کو بچالیا گیا جبکہ متعدد افراد تاحال لاپتا ہیں۔
کوسٹ گارڈ حکام نے اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کر دیا بتایا کہ کشتی میں 750 افراد سوار تھے، ہمیں خدشہ ہے کہ لاپتا افراد کی بڑی تعداد ہے۔
یونانی حکام اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جہاز میں سینکڑوں مزید تارکین وطن سوار تھے،کشتی لیبیا سے اٹلی جا رہی تھی، جس میں سوار بیشتر افراد کی عمر 20 سال تھی۔
واضح رہے کہ اس سال یونان میں بحری جہاز کی تباہی کا یہ سب سے مہلک واقعہ ہے، کشتی حادثے کے نتیجے میں یونان میں تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
تیونس: شمالی افریقی ملک تیونس کے قریب سمندر میں تارکین وطن کی 3 کشتیاں ڈوب گئیں جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ متعدد لاپتہ ہوگئے۔
تیونس کے ایک کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ امدادی ٹیم کو جن 5 افراد کی لاشیں ملی ہیں ان میں ایک بچہ بھی شامل ہے، لاپتہ ہوجانے والوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کشتیاں ڈوبنے کے واقعات ایسفیکس شہر کے قریب پیش آئے۔
ایسفیکس کے پراسیکیوٹر فازی مسودی کا کہنا ہے کہ افریقہ سے اٹلی کی طرف جانے والی تینوں کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ لوگ سوار تھے۔
انہوں نے کہا کہ ڈوبنے والی کشتیوں کے ٹکڑے بھی امدادی ٹیموں کو ملے ہیں، امدادی کارکنوں نے 73 افراد کو بچا لیا ہے جبکہ 47 کے قریب افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔
پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ لاپتہ ہونے والے افراد میں 6 بچے بھی شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ کشتیاں زیادہ تر لوہے کی بنی ہوئی تھیں۔
ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی کی بندرگاہ پر کشتی میں آگ بھڑک اٹھی جس پر فوری طور پر قابو پالیا گیا۔
اردو نیوز کے مطابق متحدہ عرب امارات میں دبئی سول ڈیفنس نے بر دبئی کی بندرگاہ پر ایک کشتی میں لگنے والی آگ پر قابو پا لیا۔
دبئی سول ڈیفنس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہفتے کی صبح 9 بجے کشتی میں آگ لگنے کی اطلاع ملی جس پر فوری طور پر ٹیمیں روانہ کی گئیں۔
اتحاد فائر اسٹیشن کی ٹیمیں 6 منٹ کے اندر بر دبئی بندرگاہ پہنچیں، بعد ازاں میری ٹائم ریسکیو سینٹر، الکرامہ اور الراس فائر اسٹیشن کی ٹیموں نے بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔
ریسکیو اور فائر فائٹرز کی ٹیموں نے 45 منٹ کی کوششوں کے بعد آگ پر قابو پا کر کولنگ آپریشن شروع کیا، آتشزدگی کے واقعے میں کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہییں ملی۔
لیبیا کے ساحل سے تارکین وطن کو لے جانے والی ایک کشتی میں 10 افراد دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے، کشتی میں ضرورت سے زیادہ افراد کو سوار کیا گیا تھا۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق لیبیا کے ساحل سے تارکین وطن کو لے جانے والی ایک کشتی میں دس افراد مردہ پائے گئے، خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کشتی میں بہت زیادہ افراد سوارکیے جانے کے باعث دم گھٹنے سے ان افراد کی موت ہوئی ہے۔
ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نامی ادارے نے مطلع کیا ہے کہ ایک ریسکیو بحری جہاز جیو بیرنٹس کی طرف سے کارروائی کرتے ہوئے کشتی میں سوار 99 تارکین کو بچالیا گیا ہے۔
ادارے نے اپنے ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ گنجائش سے زیادہ افراد سے بھری اس کشتی کے نچلے حصے میں 10 افراد مردہ پائے گئے۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے فرانسیسی ادارے کا کہنا ہے کہ سمندر میں روانہ ہونے والی کشتی میں ضرورت سے زیادہ افراد کو سوار کیا گیا اور 13 گھنٹے گزرنے کے بعد 10 افراد دم گھٹنے کے باعث ہلاک ہو گئے۔
واضح رہے کہ ہر سال ہزاروں افراد غیر قانونی طور پر لیبیا اور تیونس سے نکل کر وسطی بحیرہ روم کے راستے یورپ اور اکثر اٹلی میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی مائیگریشن ایجنسی آئی او ایم کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہ سمندری راستہ انتہائی جان لیوا ہے اور رواں سال اب تک وسطی بحیرہ روم میں 12 سو 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ گزشتہ سال کے اعداد وشمار کے مطابق 858 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی تھیں۔
کھلے سمندر میں اگر لہریں نامہربان ہوجائیں تو زندگی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی، لیکن کیا ہوگا اگر خطرناک قاتل سمندری جاندار کشتی کا گھیراؤ کرلیں؟
ایک برطانوی جہاز کے عملے کو ایسی ہی کچھ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب وہ جبرالٹر کے قریب سے گزر رہے تھے۔ 30 کے قریب قاتل وہیل مچھلیوں نے ان کی کشتی کا گھیراؤ کرلیا۔
عملے کی بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بے شماروہیل مچھلیاں کشتی کے آس پاس چکر لگا رہی ہیں۔
بعد ازاں وہیل مچھلیوں نے باقاعدہ کشتی پر حملہ کیا جس سے کشتی کو خاصا نقصان پہنچا۔ کشتی کا نچلا حصہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا جس کے بعد عملے کو جبرالٹر میں پناہ لینی پڑی۔
قاتل مچھلیوں کا یہ خوفناک کھیل 2 گھنٹے تک چلتا رہا اور وہ کشتی کے ساتھ ساتھ تیرتی رہیں۔
عملے کا کہنا ہے کہ اگر کشتی سمندر میں ڈوب جاتی تو ہم ان قاتل وہیل مچھلیوں کے رحم و کرم پر ہوتے۔
یہ طے نہیں کیا جاسکا کہ کس وجہ سے وہیل مچھلیوں نے کشتی پر حملہ کیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے ماضی میں کوئی وہیل مچھلی اس کشتی سے زخمی ہوئی ہو، ان کا یہ حملہ بہت منظم تھا۔
کراچی کا علاقہ ابراہیم حیدری ماہی گیروں کی قدیم بستی ہے، تاریخی اوراق کے مطابق ایک زمانے میں یہ بستی عظیم دریائے سندھ کا راستہ تھی جو یہاں سے گزرتا تھا۔ پھر وقت بدلا تو دریا نے بھی اپنا راستہ بدل لیا اور یوں یہاں سے گزرنے والا راستہ خشک ہوگیا۔ طویل عرصے تک یہ جگہ یوں ہی خشک رہی، اس کے بعد سمندر نے خالی راستہ دیکھا تو اپنا ڈیرہ جما لیا۔
کہا جاتا ہے کہ سمندر کے یہاں آجانے کے بعد ایک بار کچھ ماہی گیر یہاں چند لمحوں کو ٹھہرے تو انہیں یہ جگہ بے حد پسند آئی اور وہ یہیں بس گئے، تب سے اب تک یہ علاقہ ماہی گیروں کا علاقہ ہے۔
اس علاقے میں قدم رکھتے ہی مچھلی کی مخصوص مہک ہر جانب پھیلی محسوس ہوتی ہے، علاقے میں ماہی گیری سے متعلق تمام ساز و سامان کی دکانیں موجود ہیں جن میں سرفہرست جالوں کی دکانیں ہیں۔
یہاں پر کشتی سازی کے بھی کئی کارخانے موجود ہیں جہاں چھوٹی بڑی ہر قسم کی کشتیاں تیار کی جاتی ہیں، کشتی سازی کا کام کراچی کے ابراہیم حیدری کے علاوہ بلوچستان کے شہروں گوادر، پسنی، جیوانی اور سونمیانی وغیرہ میں بھی ہوتا ہے۔
پوری دنیا میں جہاں کشتی سازی جدید مشینوں کے ذریعے انجام دی جارہی ہے، وہیں پاکستان میں اب بھی یہ کام انسانی ہاتھوں کے ذریعے ہورہا ہے۔ لکڑی کی کٹائی کے لیے چند ایک مشینوں کے استعمال کے علاوہ بقیہ تمام کام کاریگر اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے ہیں اور ان کے سخت ہاتھ ایسی مضبوط کشتیاں تیار کرتے ہیں جو بڑے بڑے سمندری طوفانوں سے نکل آتی ہیں۔
کاشف کچھی بھی ابراہیم حیدر کے رہائشی ہیں، وہ ایک کشتی ساز کارخانے کے نگران ہیں جہاں سینکڑوں کشتیاں تیار ہوتی ہیں۔ کاشف ڈسٹرکٹ کونسلر بھی رہ چکے ہیں جبکہ سماجی کارکن بھی ہیں۔
کاشف کا کہنا ہے کہ کشتیاں بنانے کے لیے زیادہ تر لکڑی باہر سے درآمد کی جاتی ہے، اس سے قبل اس کے لیے مقامی لکڑی استعمال کی جارہی تھی تاہم ملک میں غیر قانونی طور پر درختوں کی کٹائی کی وجہ سے جنگلات کے رقبے میں خطرناک کمی آئی ہے جس کے بعد اب کشتی سازی کی صنعت جزوی طور پر درآمد شدہ لکڑی پر انحصار کر رہی ہے۔
پاکستان میں تحفظ ماحولیات کے ایک ادارے کے غیر سرکاری اور محتاط اندازے کے مطابق ملک میں کشتی سازی کے لیے سالانہ 12 لاکھ کیوبک فٹ درآمد شدہ جبکہ 2 لاکھ کیوبک فٹ مقامی لکڑی استعمال ہوتی ہے۔
کاشف نے بتایا کہ کشتی سازی کے لیے کیکر، برما ٹیک، شیشم اور چلغوزے کے درختوں کی لکڑی کو بہترین سمجھا جاتا ہے۔ لکڑی کاٹنے کے لیے ٹرالی مشین اور بینسا مشین استعمال ہوتی ہیں، کاشف کے مطابق لکڑی کے بڑے اور چوڑے تختے ہی اس مقصد کے لیے کارآمد ہوتے ہیں۔
کیا فائبر لکڑی کا متبادل ہوسکتا ہے؟
کشتی سازی سے جنگلات پر پڑنے والے اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایک دہائی قبل فائبر گلاس کی کشتیاں بنانے کا رجحان شروع ہوا، تاہم کاشف کچھی کے مطابق فائبر کی کشتی کے حوالے سے بے شمار تحفظات ہیں۔
پہلا تشویشناک امر تو یہ ہے کہ اگر فائبر کی کشتی بنائی جائے تو اس کی لاگت میں کم از کم 4 گنا اضافہ ہوجاتا ہے، لکڑی کی وہ کشتی جو 10 سے 12 لاکھ روپے میں تیار ہوجاتی ہے، اسی سائز کی فائبر کی کشتی بنانے جائیں تو صرف اس میں فائبر کا کام ہی 40 سے 45 لاکھ تک چلا جاتا ہے۔ پھر اس کی دیگر بنائی کے اخراجات الگ ہیں۔
فائبر کی کشتی کا وزن برابر کرنے کے لیے لامحالہ اس میں لکڑی ہی لگائی جاتی ہے۔ یوں اس کی بنائی کے تمام اخراجات کشتی مالکان کی پہنچ سے باہر ہوجاتے ہیں۔
فائبر سے بنی کشتی
کاشف کے مطابق دوسرا پہلو اس کے غیر محفوظ ہونے کا بھی ہے۔ لکڑی کی کشتی سمندر میں کسی وزنی اور ٹھوس شے سے ٹکرا جائے تو وہ ایسے جھٹکے برداشت کرسکتی ہے، سمندر میں کسی نوکیلی شے سے لکڑی کی کشتی میں معمولی سا سوراخ ہوجاتا ہے جو عارضی طور پر کوئی کپڑا ٹھونس کر بند کیا جاتا ہے تاکہ کسی کنارے تک پہنچا جاسکے اور پھر اس کی باقاعدہ مرمت کی جاسکے۔
فائبر کی کشتی کسی چیز سے ٹکرا جائے تو اس کے پھٹنے کے خدشات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ایک بار اسے نقصان پہنچ جائے تو وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے جس کے بعد اس پر سوار ماہی گیر سمندر کی موجوں کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں۔
کشتی کس کی ملکیت ہوتی ہے؟
کشتیوں کی بنائی کے حوالے سے کاشف نے مزید بتایا کہ چھوٹی کشتی کو ہوڑا کہا جاتا ہے، جبکہ بڑی کشتی، لانچ کہلاتی ہے۔ سب سے چھوٹی کشتی 15 سے 16 فٹ طویل ہوتی ہے جس میں 2 افراد کے سوار ہونے کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ اس کی لاگت 80 ہزار سے 1 لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔
بعض بڑی کشتیوں کی قیمت 2 کروڑ تک بھی جا پہنچتی ہے۔
کشتی میں لکڑی کا کام مکمل ہوجانے کے بعد اسے سمندر میں اتارا جاتا ہے اور چند دن پانی میں رکھا جاتا ہے، اس کے بعد اسے نکال کر اس میں انجن اور دیگر مشینری لگائی جاتی ہے۔
کشتی تیاری کے مراحل میںکشتی تیاری کے مراحل میںکشتی کا اندرونی حصہ۔ تصویر: جی ایم بلوچ
کاشف نے بتایا کہ کسی ایک ماہی گیر کے لیے کشتی خریدنا آسان بات نہیں، اکثر اوقات کئی ماہی گیر مل جل کر کشتی خریدتے ہیں اور بعد ازاں مچھلیوں کی فروخت سے ہونے والی آمدنی آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔
بعض افراد جو کشتی خرید سکنے کی سکت رکھتے ہیں، وہ خرید کر اسے ٹھیکے پر یا کوئی اور طریقہ کار طے کرنے کے بعد ماہی گیروں کے حوالے کردیتے ہیں اور بعد ازاں مچھلیوں کی فروخت میں منافع کے حصے دار ہوتے ہیں۔
آبی آلودگی کشتیوں کے لیے بھی نقصان دہ
کاشف کچھی نے بتایا کہ ہر ماہ یا مہینے میں دو بار کشتی کے بیرونی پیندے پر مچھلی کی چکنائی کا ایک آمیزہ لگایا جاتا ہے، اس سے لکڑی خشک نہیں ہوتی۔ خشک لکڑی سمندر کے نمکین پانی سے جلد خراب ہوسکتی ہے تو یہ چکنائی کشتی کی عمر بڑھا دیتی ہے، علاوہ ازیں اس سے کشتی کی رفتار بھی متوازن رہتی ہے۔
کشتیوں پر خوبصورت نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں جس کے لیے رنگ ساز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں
البتہ اب آبی آلودگی کے باعث کشتیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور خراب ہونے کی شرح بڑھ گئی ہے۔ پہلے ایک کشتی کی عمر 12 سے 15 سال تک ہوتی تھی تاہم اب یہ جلد خراب ہونے لگی ہیں۔
کاشف کے مطابق فیکٹریوں کا سمندر میں ڈالا جانے والا فضلہ جس میں زہریلے کیمیکل شامل ہوتے ہیں، ایک طرف تو سمندری حیات کے لیے موت کا پروانہ ہیں تو دوسری طرف کشتیوں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔
ماہی گیروں کی عقیدت و روایات
کاشف نے بتایا کہ ماہی گیر سمندر سے رزق کماتے ہیں لہٰذا سمندر ان کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے، وہ اپنے کام سے اس قدر عقیدت رکھتے ہیں کہ سمندر پر جانے سے قبل وضو کرنا نہیں بھولتے۔
زیادہ تر ماہی گیر کوشش کرتے ہیں کہ اگر ان کے جال میں مچھلیوں کے علاوہ کوئی اور سمندری جانور آجائے، جیسے کچھوا، یا دیگر آبی جانداروں کے بچے، تو وہ انہیں احتیاط سے واپس سمندر میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان معصوم بے زبان جانداروں کی بددعائیں انہیں سخت نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
کاشف کا کہنا ہے کہ پاکستانی سمندروں میں غیر ملکی افراد کو ٹرالنگ کی اجازت دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ہمارے سمندروں کے لیے سخت نقصان دہ ہے، ’ہم اسے ماس کلنگ کا نام دیتے ہیں، ہیوی مشینری کے ذریعے ٹرالنگ کرنے سے اس جگہ موجود تمام سمندری حیات اوپر آجاتی ہے جن کی مقدار ہزاروں ٹن تک ہوتی ہے۔ بعد ازاں اس میں سے قابل فروخت مچھلیاں اور جھینگے وغیرہ نکال کر بقیہ مردہ جاندار واپس سمندر میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے سمندری وسائل کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔‘
ان کے مطابق پاکستان میں ٹرالنگ کے لیے ان ممالک سے لوگ آتے ہیں جہاں سمندر میں شکار کے سخت قوانین اور پابندیاں ہیں، ان ممالک میں چین، روس، جرمنی اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
کاشف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ماہی گیری کی صنعت بغیر کسی قواعد و ضوابط کے ملکی جی ڈی پی میں 100 ارب روپے سے زائد ریونیو کی حصے دار ہے، اگر اسے منظم اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو یہ ملکی معیشت کا اہم ستون ثابت ہوگی۔
ان کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ غیر ملکی ٹرالنگ پر پابندی لگائی جائے تاکہ ہمارے سمندری وسائل سے مقامی ماہی گیروں کو فائدہ ہو اور ہمارے قیمتی وسائل بھی ضائع نہ ہوں۔