Tag: کشور ناہید

  • اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    ایک آدمی گاڑی میں بھوسا بھر کر لیے جا رہا تھا۔ راستے میں کیچڑ تھی۔ گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی۔

    وہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور لگا چیخنے، ’’اے پیاری پریو، آؤ اور میری مدد کرو۔ میں اکیلا ہوں گاڑی کو کیچڑ سے نکال نہیں سکتا۔‘‘

    یہ سن کر ایک پری آئی اور بولی، ’’آؤ میں تمہاری مدد کروں۔ ذرا تم پہیوں کے آس پاس سے کیچڑ تو ہٹاؤ۔‘‘ گاڑی والے نے فوراً کیچڑ ہٹا دی۔

    پری بولی، ’’اب ذرا راستے سے کنکر پتھر بھی ہٹا دو۔‘‘ گاڑی بان نے کنکر پتھر بھی ہٹا دیے اور بولا، ’’پیاری پری، اب تو میری مدد کرو۔‘‘

    پری ہنستے ہوئے بولی، ’اب تمہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ تم نے اپنا کام آپ کر لیا ہے۔ گھوڑے کو ہانکو۔ راستہ صاف ہو گیا ہے۔‘‘

    (معروف پاکستانی شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کے قلم سے)

  • قلم اور قدم سے سفر

    قلم اور قدم سے سفر

    نوال السعدوی قلم اور تحریر کو سب سے بڑا ہتھیار تصور کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں، موت کی طرح تحریر کو بھی کوئی ہرا نہیں سکتا۔

    حقوقِ نسواں کی علم بردار، سماجی کارکن، ڈاکٹر اور ادیبہ نوال السعدوی نے پوری زندگی موت کی دھمکیوں کا سامنا کیا، جیل بھی گئیں، لیکن مصر کی اس مصنّفہ نے جرأت مندی کے ساتھ قدامت پرستی، عورتوں‌ پر جنسی تشدد اور مصر میں‌ عورتوں‌ کے سماجی اور سیاسی استحصال کے خلاف قلم کو متحرک رکھا۔

    اُنھوں نے بالخصوص دیہات میں عورتوں کے ساتھ رسم و رواج یا مذہب کی آڑ میں ہونے والے استحصال کے خلاف بھی بے باکی سے لکھا۔ عالمی سطح پر ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ نوال السعدوی کی ایک تحریر کا ترجمہ معروف شاعرہ اور ادیبہ کشور ناہید نے کیا ہے، جس میں نوال السعدوی اس بات پر نازاں ہیں‌ کہ وہ ایک لیکھک ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "میرا تعلق اُس معاشرے سے ہے جہاں لڑکی کی پیدائش کو نحوست اور بدنصیبی تصور کیا جاتا تھا۔ اگر پیدا ہو کر زندہ بھی رہیں تو اوّل تو لڑکی کی اندامِ نہانی کو سی دیا جاتا تھا۔ دس سال کی عمر میں اس کی شادی کر دی جاتی تھی۔ ہم لوگ چھ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ کئی دفعہ میرے باپ نے تعلیمی اخراجات سے تنگ آکر کہا کہ مجھے اسکول سے اٹھا لیا جائے تاکہ میں ماں کی بچّوں کو سنبھالنے میں مدد کرسکوں، مگر میری ماں بہت بہادر عورت تھی۔ وہ نو بچوں، اپنے باپ اور شوہر کی خدمت کرتے کرتے پینتالیس سال کی عمر میں وفات پاگئی۔

    میری ماں کے دودھ کی خوشبو آج تک میری تحریروں میں ہے۔ میرے استاد مجھ سے کلاس میں پوچھتے تھے، "یہ السعدوی کون ہے؟” اور میں جواب دیتی، حضرت موسیٰ کی طرح کا ایک بچّہ جو پالنے میں پڑا نیل کی لہروں پر تیرتا ہوا آیا تھا۔ وہ نامعلوم مقام سے آیا تھا۔ اس کا نام اسعدوی تھا۔ میں بھی نامعلوم مقامات کی سمت قلم اور قدم سے سفر کے لیے نکلی ہوں، اس لیے میرا نام بھی اسعدوی ہے۔”

    "مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جنّت اور خدا، ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ میں نے میڈیکل کی کتابوں کے ساتھ ساتھ لکھنا اور ادب پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ خواب میں بھی میں نے خود کو ڈاکٹر کے طور پر کبھی نہیں دیکھا، ہمیشہ ادیب کے طور پر دیکھا تھا۔ میں جب بھی اپنے خواب سناتی تو میری سہیلیاں کہتیں، روٹی روزی تمہیں ادب لکھنے سے نہیں میڈیکل کی پریکٹس ہی سے ملے گی۔ جب میرا پہلا مضمون شائع ہوا تو میں اپنا نام دیکھ کر یوں محسوس کررہی تھی، جیسے میرا نام چاند لکھا گیا ہو۔ البتہ میرا مضمون پڑھ کر میرے ابا بہت ہنسے تھے اور کہا تھا تم سب کی باتیں بہت اچھی نوٹ کرتی ہو۔ اس زمانے میں دوسری لڑکیاں اپنی کتابوں میں محبت نامے رکھ کر، اپنے دوستوں کو بھیجا کرتی تھیں۔ میں تو ڈاکٹر بن کی بھی نہرِ سویز کے قامیانے پر تیار ہو گئی تھی کہ میں بھی بارڈر پر جاکر لڑائی میں حصہ لوں گی۔ وہ تو جنگ ہی بند ہوگئی تھی۔ اب مجھے احساس ہوا کہ ڈاکٹر تو بہت ہیں مگر میرے اندر جو لکھنے کی طاقت ہے، وہ ہر ایک کے پاس نہیں ہے۔ بس یہی احساس تھاکہ میں اب تک لکھ رہی ہوں۔”

    نوال السعدوی نے اپنی زندگی میں کبھی سمجھوتا نہیں کیا؛ خواہ وہ ان کی ذاتی زندگی کا معاملہ ہو یا پھر ہر عورت کے حق کی اور انصاف کی لڑائی ہو۔ وہ موقع پرست نہیں تھیں، اور انعام و اکرام یا اپنی جان کی خاطر اپنے نظریات سے دستبردار نہیں ہوئیں۔

  • چاند کی بیٹی….

    چاند کی بیٹی….

    ایک چھوٹی سی بچّی تھی۔ اس کے ماں باپ مرچکے تھے۔ وہ بچاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔

    ایک امیر آدمی کے گھر میں اسے بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ پانی بھر کے لاتی، کھانا پکاتی۔ بچّوں کی دیکھ بھال کرتی اور اتنے کاموں کے بدلے اسے بس دو وقت کی روٹی ملتی۔ کھیلنا کودنا تو کیا دو گھڑی آرام بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ آدمی بہت چالاک اور بے رحم تھا اور اس کی بیوی تو میاں سے بھی دو قدم آگے تھی۔

    ایک رات چاند آسمان پر چمک رہا تھا اور باہر بہت سخت سردی تھی۔ امیر آدمی کی بیوی نے اس بچّی سے پانی لانے کے لیے کہا۔ بچّی پانی بھرنے باہر گئی۔ جب وہ تالاب پر پہنچی تو سردی سے اس کے پیر پتھر ہو چکے تھے۔ تالاب کا پانی بھی اوپر سے جما ہوا تھا۔ بچّی نے برف میں سوراخ کیا اور پانی کی بالٹی بھر کر گھر واپس آنے لگی۔ گھر کے قریب پہنچ کر وہ گر پڑی اور سارا پانی بہہ گیا۔ بچی گھبرا گئی۔ وہ خالی بالٹی لے کر گھر نہیں جا سکتی تھی۔ وہ دروازے پر کھڑی خوف سے کانپ رہی تھی۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند ہنس رہا تھا۔

    بچّی نے چاند سے کہا، ’’چندا ماموں، دیکھو تو میں کتنی دکھی ہوں۔ میری مدد کرو۔ مجھے ان ظالموں سے بچاؤ۔ یہ تو مجھے مار ڈالیں گے۔‘‘

    چاند اس کی فریاد سن کر زمین پر اتر آیا۔ وہ ایک خوب صورت نوجوان کے بھیس میں تھا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ چاند کے بڑے بھائی سورج نے بھی بچّی کی فریاد سن لی تھی۔ وہ بھی آدمی کی شکل میں سنہرے رنگ کے کپڑے پہنے زمین پر اتر آیا۔

    سورج نے چاند سے کہا، ’’میں اس دکھی لڑکی کو لینے آیا ہوں۔ اسے مجھے دے دو۔ کیوں کہ میں تم سے بڑا ہوں۔‘‘

    چاند نے کہا، ’’یہ ٹھیک ہے کہ تم بڑے ہو سورج بھائی، لیکن اس وقت رات ہے، اور میں رات کا بادشاہ ہوں۔ اس بچّی نے مجھ سے مدد مانگی ہے۔ اس لیے میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

    چاند بچّی کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ جب سے وہ ننھی بچّی چاند میں رہتی ہے۔ جب تم چودھویں کا پورا چاند دیکھو گے تو اس میں وہ ہنستی گاتی نظر آئے گی۔

    (پاکستان کی نام وَر شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کے قلم سے)

  • ‘بارش کے قطروں کو کون گِن سکتا ہے’

    ‘بارش کے قطروں کو کون گِن سکتا ہے’

    میری عمر چودہ برس۔ صوفی صاحب نئے نئے ریٹائر ہو کر اس علاقے میں بسے تھے۔ ہم کرائے کے مکان میں نئے نئے منتقل ہوئے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے والے مکان کی ڈیوڑھی پر پان والا بیٹھتا تھا۔ ہر دو گھنٹے بعد ایک خوش لباس شخص آتا، پان بنواتا، کھاتا، ٹہلتا ٹہلتا چلا جاتا۔ کبھی کُرتا شلوار اور کبھی کرتا اور چوڑی کنی کی خوب صورت دھوتی پہنے۔ کبھی پینٹ بشرٹ اور کبھی قمیص اور پینٹ پہنے۔

    ہماری امّاں کہ جن کا پان دان ہمیشہ شاداب رہتا، اس شخص سے بہت نالاں تھیں۔ اگر پان کھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو یہ شخص گھر میں پان دان کیوں نہیں رکھتا! امّاں کی بھی ہر دفعہ نظر صوفی صاحب پر ہی پڑتی اور وہ بھی پان وہیں کھڑے ہو کر کھاتے۔

    غائبانہ لڑائی کا یہ سلسلہ امّاں کی طرف سے باقاعدہ شروع ہو چکا تھا۔ اس پر سونے پر سہاگا ہو گیا۔

    ایک دِن صوفی صاحب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گئے۔ ہاتھ میں کٹورا تھا۔ پوچھا کیا کیا پکا ہے؟ امّاں نے کہا، ”ثابت مسور۔“

    بولے، ”اس پیالے میں ڈال دو۔“ امّاں نے ڈال دی۔ وہ راستے میں چاٹتے ہوئے کھاتے چلے۔ امّاں کو سڑک پر یُوں چاٹنے والی بات اور بھی بُری لگی۔

    مگر صوفی صاحب کو سیڑھیوں تک کون لایا؟ یہ میں تھی…. میری صوفی صاحب سے ملاقات اسلامیہ کالج کے شمعِ تاثیر کے مشاعرے میں ہوئی (یادش بخیر، کہ اب تو اس نام کا مشاعرہ ہوتا ہی نہیں، بلکہ اسلامیہ کالج میں سرے سے کوئی مشاعرہ ہی نہیں ہوتا)۔ میں نے جب ان کے بے تکلّف پان کھانے کی شکایت امّاں کی طرف سے کی تو انہوں نے فوراً کہا کہ تمہارے گھر کھا لیا کروں گا، اور یوں میرے اور اپنے خاندان کے درمیان راہ و رسم کی پہلی سیڑھی خود صوفی صاحب نے چڑھی۔

    پہل کرنا صوفی صاحب کی عادت تھی۔ صلح میں، دعوت میں، بے تکلّفی میں، ادا دِکھانے میں، ناراضگی میں، شعر سنانے، سمجھانے اور بتانے میں۔ آپ ہی روٹھ کر آپ ہی مان جانا، ان کی ادا تھی۔

    نازک بدنی ان پر ختم تھی۔ صبح کی سیر ان کی جان تھی۔ دہی کھانا ان کی ضرورت تھی۔ صاف دسترخوان ان کی بھوک تھی، مگر جسم و جان کی تازگی صرف اور صرف شعر میں تلاش کرتے تھے۔

    حقّے کی گُڑگڑاہٹ، کلچے کی مہک، کشمیری چائے کی چُسکی، ٹوپی اُتار کر سر کھجانا اور پھر قلم پکڑ کر کاغذ پر اتنا خوب صورت لکھنا کہ کتابت کرانے کو جی نہ چاہے۔ سید بابر علی نے ان کی خوش تحریری کو دیکھ کر ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ایک ہزار ایک اشعار شائع کیے تھے۔

    امرتسر ان کے حافظے میں زندہ تھا، ذیلدار روڈ تہذیبی لاہور کا آئینہ۔ گورنمنٹ کالج ان کے فخر کا سرنوشت اور سمن آباد اپنے گھر میں ملنے والے سکون سے لے کر اس بے سکونی کا آئینہ تھا کہ جہاں گھروں کی دیواروں پر یہ لکھنا عام ہو گیا تھا ”فحاشی بند کرو۔“

    جب عمل مفقود اور نعرے حاوی ہو جائیں، وہ کھوکھلا پن صوفی صاحب کی زندگی کا حصّہ نہ تھا۔ وہ ایسے ظاہری پن سے نالاں ہو گئے تھے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ شعری سفر میں بھی بہت سے پڑاؤ ان کے دھیان میں تھے، مگر جسمانی سفر میں وہ احساس کے دوغلے پن سے نالاں تھے۔

    ہم جھوٹے ہیں۔ ہم مسلسل دوغلے پن کے عمل کو مسکراہٹوں کی کریز میں لپٹائے ہوئے رکھتے ہیں۔ وہ سچّے تھے، رہائی پا گئے۔

    ایک مجموعہ بعنوان ”انجمن“ اور دوسری وہ انجمن کہ جس کے دھوئیں کی شکل میں ہم لوگ ہیں، چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ مجموعہ ”انجمن“ 1954ء ہی سے مرتب کرنا شروع کیا تھا۔ اور میری شادی کے بعد شائع ہوا۔ اس لیے میں 1954ء سے لے کر اب تک صوفی صاحب کی رفاقت کی داستان کے صرف چند لمحوں میں آپ کو شریک بنا سکی ہوں۔

    بھلا انسان بارش کے قطروں کو کبھی گِن سکا ہے؟ صوفی صاحب بھی بارش تھے: علم کی، محبّت کی اور شفقت کی بارش۔ میں کیسے حساب دوں اُن لمحوں کا جو مجھ پر ساون کی جھڑی کی طرح مسلسل 25 برس کرم فرما رہے۔

    (نام وَر شاعر، مدیر اور مترجم صوفی تبسّم کے بارے میں شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کی ایک تحریر)