Tag: کلائمٹ چینج

  • ماحول کی جنگ: ہم کس طرف کھڑے ہیں؟

    ماحول کی جنگ: ہم کس طرف کھڑے ہیں؟

    دنیا کی نبض تیز ہو چکی ہے، فضا گرم ہو رہی ہے، پانی کم ہوتا جا رہا ہے، اور زمین بے ترتیب سانس لے رہی ہے۔ وہ جو کل محض سائنسی انتباہات تھے، آج ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اپنے حالیہ خطاب میں کہا کہ ”موسمیاتی تبدیلی قابو سے باہر ہے۔ اگر ہم اہم اقدامات میں تاخیر کرتے رہے تو تباہی ہمارا مقدر بن جائے گی۔“

    2023 دنیا کے لیے سب سے گرم سال ثابت ہوا، اور 2024 کے ابتدائی چھ ماہ نے اس تسلسل کو جاری رکھا۔ یورپ میں شدید گرمی کی لہریں، امریکہ میں جنگلات کی آگ، افریقہ میں قحط، اور جنوبی ایشیا میں بے وقت بارشیں اور شدید گرمی کی لہریں یہ سب اب اس نئے معمول کا حصہ ہیں۔ رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ ماحولیاتی تباہی کے واضح اشارات سے بھرے پڑے ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میں جو کچھ پیش آیا، وہ اتفاقی نہیں بلکہ ایک منظم عالمی موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران کی جھلک ہے۔

    پاکستان اس جنگ کا محاذِ اوّل بن چکا ہے، نہ صرف اس لیے کہ ہم خطرے میں ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ہمارے پاس فیصلہ کن موڑ پر پہنچنے کا وقت کم ہے۔

    رواں سال موسمیاتی بحران کے سبب آنے والی چند سنگین آفات کا ذکر کریں تو جنوری میں میکسیکو سٹی میں پانی کا مرکزی ذخیرہ تقریباً خشک ہو چکا تھا۔ تین ملین افراد پانی کی تلاش میں سڑکوں پر آ گئے۔ مارچ میں البرٹا اور برٹش کولمبیا کے جنگلات میں لگی آگ نے 54 ملین ایکڑ سے زیادہ رقبے کو راکھ کر دیا۔

    NASA کے مطابق، صرف تین ماہ میں 2023 کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ زمین جل چکی ہے۔ اپریل میں صومالیہ، ایتھوپیا اور کینیا میں قحط کے حالات پیدا ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے اسے ”موسمیاتی قحط” قرار دیا۔ جون میں چین کے تین صوبوں میں صرف 24 گھنٹوں میں 600 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی، جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے اور زرعی زمین تباہ ہو گئی۔ مئی میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے متعدد شہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر گیا۔ پاکستان میں درجنوں افراد ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوئے جب کہ یورپ کا خطّہ جہنّم کی آگ کا نمونہ پیش کرتا رہا۔

    پاکستان عالمی کاربن کے اخراج میں صرف 0.8 فیصد حصہ ڈالتا ہے، لیکن موسموں کے تباہ کن اثرات میں سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے۔ رواں سال گلگت بلتستان میں گلیشیئر پھٹنے کے کم از کم پانچ واقعات رپورٹ ہوئے، جن سے کئی دیہات خالی کرانے پڑے۔ کراچی، لاہور، جیکب آباد اور دادو میں ”ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ” کے سبب درجۂ حرارت 3 سے 4 ڈگری اضافی محسوس کیا گیا۔ ملک کے بیشتر حصے کو گلیشیر کے پگھلاؤ کے نتیجے میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کی صورتحال کا سامنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، پاکستان میں 2025 کے اختتام تک ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔

    بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC) نے رواں سال جون میں کہا کہ ”ہم ناقابلِ واپسی ماحولیاتی نکات کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ مؤثر ماحولیاتی اقدامات کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔“ عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) – کلائمٹ واچ رپورٹ 2025 کے مطابق اس بات کا امکان 98 فیصد ہے کہ 2025 تاریخ کا سب سے گرم سال ہوگا، اور اس سال عالمی درجۂ حرارت عارضی طور پر 1.5 ڈگری سیلسیس کی حد عبور کر جائے گا۔

    اقوامِ متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی ایمیشنز گیپ رپورٹ 2025 کا کہنا ہے کہ موجودہ عالمی پالیسیوں کے تحت ہم اس راستے پر گامزن ہیں جو ہمیں صدی کے آخر تک 2.8 ڈگری سیلسیس کے خطرناک درجہ حرارت تک لے جائے گا جو چھوٹے جزیروں، بنجر علاقوں اور جنوبی ایشیا کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ جرمن واچ کی عالمی موسمیاتی خطرہ اشاریہ رپورٹ 2025 کہتی ہے کہ پاکستان مسلسل تیسرے سال موسمیاتی خطرات سے متاثرہ دنیا کے دس بدترین ممالک میں شامل رہا ہے۔

    اس حقیقت سے انکار کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے کہ صرف موسم نہیں، زندگی بدل رہی ہے۔ پاکستان میں رواں سال گندم اور کپاس کی پیداوار میں 12 فیصد کمی ہوئی۔انڈس بیسن میں پانی کی دستیابی مسلسل گھٹ رہی ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں گرمی کی شدت سے ہزاروں افراد اسپتالوں میں داخل ہوئے۔ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

     پاکستان میں ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد 2030 تک 2 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ہے، جنہیں زمین، پانی اور روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنا ہوگا، جس سے شہری نظام مزید دباؤ کا شکار ہوگا۔

    پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے اس ضمن میں کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے ہیں تاہم، ان اقدامات کو کام یاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ماحولیاتی تعلیم کو قومی نصاب میں شامل کیا جائے، پائیدار توانائی کو فروغ دیا جائے، ماحولیاتی بجٹ کو ترجیح بنایا جائے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ تبدیلیاں صرف موسم کی نہیں، زندگی کی نوعیت کو بدل رہی ہیں۔ فصلیں وقت پر نہیں اگتیں، پانی ناپید ہوتا جا رہا ہے، بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے، اور مہاجرین کی ایک نئی لہر ”ماحولیاتی مہاجرین“ جنم لے رہی ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد 2030 تک 2 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ہے، جنہیں زمین، پانی اور روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنا ہوگا، جس سے شہری نظام مزید دباؤ کا شکار ہوگا۔

    ہمیں اس امر کا جلد از جلد ادراک کرنا ہو گا کہ یہ جنگ توپ و تفنگ کی نہیں، زندگی اور بے حسی کے درمیان ہے۔ ایک طرف وہ فطرت ہے جو کروڑوں سال سے ہمیں خوراک، پانی، ہوا اور پناہ دیتی آ رہی ہے، اور دوسری طرف وہ انسان ہے جو ترقی کے نام پر زمین کے سینے کو چیر رہا ہے۔ یہ جنگ سائنس دانوں، کسانوں، ماہی گیروں اور عام شہریوں کی جنگ ہے جن کا مستقبل ان پالیسیوں، رویّوں اور فیصلوں سے جڑا ہے جو ہم آج اختیار کرتے ہیں۔

    سوال صرف یہ نہیں کہ زمین کب تباہ ہو گی، بلکہ یہ ہے کہ ہم تباہی سے پہلے جاگتے ہیں یا بعد میں؟ پاکستان اس جنگ کا محاذِ اوّل بن چکا ہے، نہ صرف اس لیے کہ ہم خطرے میں ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ہمارے پاس فیصلہ کن موڑ پر پہنچنے کا وقت کم ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ کیا ہم اُس صف میں کھڑے ہوں گے جو زمین کو بچانا چاہتی ہے؟ یا اُس طرف، جو خاموشی سے ہر پگھلتے گلیشیئر، ہر مرجھاتی فصل، ہر بیمار بچے اور ہر بے گھر خاندان کو تقدیر کا کھیل سمجھ کر نظر انداز کر دے گی؟

    حوالہ جات
    بین الحکومتی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی (IPCC)، چھٹی تشخیصی رپورٹ – جون 2025
    (اقوام متحدہ کا سائنسی ادارہ جو عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کے اسباب، اثرات اور حل پر رپورٹ جاری کرتا ہے)
    عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO)، کلائمیٹ واچ رپورٹ – مئی 2025
    (دنیا بھر کے موسم، درجہ حرارت، اور شدید موسمی واقعات کی نگرانی پر مبنی بین الاقوامی جائزہ رپورٹ)
    اقوام متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP)، اخراج کے فرق سے متعلق رپورٹ – اپریل 2025
    (یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا موجودہ رفتار سے گرین ہاؤس گیسوں کو کم کرنے میں کتنی پیچھے ہے اور کیا اقدامات درکار ہیں)
    جرمن واچ، عالمی موسمیاتی خطرہ اشاریہ – ایڈیشن 2025
    (جرمن ماحولیاتی تھنک ٹینک کی سالانہ رپورٹ جو ماحولیاتی آفات سے متاثرہ ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے)
    ناسا (NASA)، جنگلاتی آگ کی نگرانی پر مبنی بریفنگ – مارچ 2025
    (ماحولیاتی آلودگی اور جنگلات میں لگنے والی آگ کے عالمی اثرات پر امریکی خلائی ادارے کی تحقیق)
    یو این ڈی پی، پاکستان موسمیاتی خطرات کی پروفائل – مئی 2025
    (پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے مخصوص اثرات، خطرات اور ممکنہ پالیسی اقدامات کی تفصیل)
    دی لینسٹ کاؤنٹ ڈاؤن 2024–25: موسمیاتی تبدیلی اور صحت پر رپورٹ
    (طبی و سائنسی جریدے ”لینسٹ” کی عالمی رپورٹ جو بتاتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی صحت پر کیسے اثر ڈال رہی ہے)
    پاکستان محکمہ موسمیات – مئی و جون 2025 کی موسمیاتی رپورٹس
    (پاکستان میں درجہ حرارت، بارش، اور گلیشیئرز سے متعلق قومی سطح کی ماہرانہ موسمیاتی تفصیلات)

  • عرب امارات کا فرانس کے ساتھ مل کر کلائمٹ چینج سے نمٹنے کا عزم

    عرب امارات کا فرانس کے ساتھ مل کر کلائمٹ چینج سے نمٹنے کا عزم

    ابو ظہبی / پیرس: متحدہ عرب امارات اور فرانس کے صدور نے کلائمٹ چینج سے نمٹنے کو اپنی ترجیح قرار دیتے ہوئے اس کے لیے اقدامات کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے فرانسیسی دارالحکومت پیرس کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اپنے ہم منصب سے ایمانوئیل میکرون سے ملاقات کی۔

    دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ دونوں ممالک کی بڑی ترجیح ہے۔

    ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے فرانس اور امارات کے درمیان سٹریٹجک شراکت کے مختلف پہلوؤں اور تمام شعبوں میں سٹریٹجک شراکت کا دائرہ وسیع کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا ہے۔

    علاوہ ازیں علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے حوالے سے مشاورت، تعاون جاری رکھنے اور خطے میں استحکام و خوشحالی کے لیے کی جانے والی کوششیں جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

  • زمین پر قدرتی آفات میں اضافہ، ماحول دشمن کوئلے کا استعمال بھی جاری

    زمین پر قدرتی آفات میں اضافہ، ماحول دشمن کوئلے کا استعمال بھی جاری

    دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں میں اضافہ ہورہا ہے اور کلائمٹ چینج کی وجہ سے ایسے ایسے خطرات اور آفات سامنے آرہے ہیں جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے۔

    مختلف ممالک کی جانب سے وعدوں کے باوجود کوئلے کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جو زمین کا درجہ حرارت بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

    گزشتہ سال 2022 میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی پیداوار میں 19.5 گیگا واٹس کا اضافہ ہوا ہے جو 1 کروڑ 50 لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔

    توانائی کے منصوبوں پر نظر رکھنے والی تنظیم گلوبل انرجی مانیٹر کے تحت شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کوئلے کے استعمال میں ایک فیصد اضافہ ایسے وقت پر دیکھا گیا ہے جب موسماتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے اہداف کی غرض سے کوئلے کے بجلی گھروں کو بند کرنے کی ضرورت ہے۔

    سال 2021 میں دنیا بھر کے ممالک نے کوئلے کے استعمال میں کمی کا وعدہ کیا تھا تاکہ زمین کے درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری تک محدود کیا جا سکے۔

    رپورٹ کی مصنف فلورا چیمپینوئس کا کہنا ہے کہ جتنی زیادہ تعداد میں نئے کوئلے کے منصوبے شروع کیے جائیں گے، اتنا ہی زیادہ مستقبل کے حوالے سے وعدوں میں کمی دیکھنے میں آئے گی۔

    گزشتہ سال 14 ممالک میں کوئلے کے نئے منصوبوں کا آغاز ہوا جبکہ صرف 8 ممالک نے اعلان کیا تھا، چین، انڈیا، انڈونیشیا، ترکیہ اور زمبابوے نے نہ صرف کوئلے کے نئے پلانٹس شروع کیے بلکہ مزید منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔

    کوئلے کے تمام نئے منصوبوں میں سے سب سے زیادہ شرح 92 فیصد چین میں شروع ہونے والے منصوبوں کی ہے۔

    چین نے کوئلے کا استعمال بڑھاتے ہوئے گرڈ سٹیشن میں مزید 26.8 گیگا واٹس اور انڈیا نے 3.5 گیگا واٹس بجلی شامل کی ہے، چین نے نئے منصوبوں کی منظوری دی ہے جن کے ذریعے کوئلے کا استعمال کرتے ہوئے 100 گیگا واٹس بجلی پیدا کی جائے گی۔

    دوسری جانب امریکہ نے بڑی تعداد میں کوئلے کے بجلی گھر بند کیے ہیں جو 13.5 گیگا واٹس بجلی پیدا کرتے تھے، امریکا ان 17 ممالک میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے گزشتہ سال کوئلے کے پلاٹس بند کیے۔

    دنیا بھر میں کوئلے کے 2500 پلانٹس موجود ہیں جبکہ عالمی سطح پر توانائی کی تنصیبات میں سے ایک تہائی کوئلے کے ذریعے چلتی ہیں۔

    پیرس معاہدہ 2015 کے اہداف حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام امیر ممالک 2030 تک کوئلے کے پلانٹ بند کر دیں جبکہ ترقی پذیر ممالک کو 2040 تک کا وقت دیا گیا ہے۔

  • ارتھ آور: روشنی کے طوفان سے زمین کی چندھیائی آنکھوں کو آرام دینے کا وقت

    ارتھ آور: روشنی کے طوفان سے زمین کی چندھیائی آنکھوں کو آرام دینے کا وقت

    زمین کو ماحولیاتی خطرات سے بچانے اور اس پر توانائی کے بے تحاشہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے آج ارتھ آور منایا جائے گا جس کے دوران شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 کے درمیان تمام غیر ضروری روشنیاں گل کردی جائیں گی۔

    ارتھ آور پہلی بار 2007 میں سڈنی کے اوپیرا ہاؤس کی روشنیوں کو بجھا کر منایا گیا تھا جس میں ایک کروڑ سے زائد شہریوں نے شرکت کر کے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے متحد ہونے کا پیغام دیا تھا۔

    اسے منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے، دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    درجہ حرارت بڑھنے کا ایک سبب بجلی کا بہت زیادہ استعمال بھی ہے۔ بجلی مختلف ذرائع جیسے تیل، گیس یا کوئلے سے بنتی ہے، اور ان چیزوں کو ہم جتنا زیادہ جلائیں گے اتنا ہی ان کا دھواں فضا میں جا کر آلودگی پھیلائے گا اور درجہ حرارت میں اضافہ کرے گا۔

    اگر ہم خلا سے زمین کی طرف دیکھیں تو ہمیں زمین روشنی کے ایک جگمگاتے گولے کی طرح نظر آئے گی۔ یہ منظر دیکھنے میں تو بہت خوبصورت لگتا ہے، مگر اصل میں روشنیوں کا یہ طوفان زمین کو بیمار کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    ان روشنیوں کو برقی یا روشنی کی آلودگی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دبیز دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاؤں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    ان سب نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے سال میں ایک بار ایک گھنٹے کے لیے غیر ضروری روشنیاں گل کر کے روشنیوں کے بوجھ کو علامتی طور پر کم کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    تو پھر آئیں آج شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بجھا کر زمین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں کو آرام دیں اور زمین سے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔

  • کلائمٹ چینج: صوبے اپنی ضرورت کے پیش نظر خود قوانین بنائیں

    کلائمٹ چینج: صوبے اپنی ضرورت کے پیش نظر خود قوانین بنائیں

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج شیری رحمان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان میں شدید اثرات مرتب کیے، سیلاب سے پاکستان میں غیر معمولی نقصانات ہوئے ہیں، سیلاب نے بڑے انسانی المیے کو جنم دیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج شیری رحمان نے ورلڈ بینک کی رپورٹ لانچنگ تقریب سے خطاب کیا۔

    اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان میں شدید اثرات مرتب کیے، سیلاب سے پاکستان میں غیر معمولی نقصانات ہوئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ممالک میں صف اول میں ہے، وزارت موسمیاتی تبدیلی پالیسی بنا کر صوبوں کو دے رہی ہے، صوبے اپنی ضرورت کے پیش نظر اس حوالے سے خود قوانین بنائیں۔

    شیری رحمان کا کہنا تھا کہ 2022 کے سیلاب نے بڑے انسانی المیے کو جنم دیا، حکومت نے سیلاب زدگان میں 70 ارب کی رقم تقسیم کی۔

    انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے معاشی امداد کے ڈھانچے میں تبدیلی کی ضرورت ہے، قوانین کو پالیسیوں کے ساتھ نہ الجھائیں، صوبوں کو اپنے قانون بنانے کی ضرورت ہے۔

    وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کلائمٹ فنانس سسٹم کو تبدیل کرنا ہوگا، جنیوا کانفرنس کامیاب رہی، لیکن جب فنڈنگ آئے گی زمین پر ایک اور آفت آسکتی ہے۔

  • کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب کی کوششیں قابل تعریف

    کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب کی کوششیں قابل تعریف

    امریکی نمائندہ خصوصی برائے ماحولیات جان کیری نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف سعودی عرب کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے ماحولیات جان کیری نے کہا ہے کہ موسمیاتی اور سمندری تبدیلیوں کے باعث ماحول کے لیے خطرات برقرار ہیں تاہم اس حوالے سے اقوام متحدہ کی کاوش اور عرب ممالک کی مدد قابل قدر ہے۔

    سال 1995 سے اقوام متحدہ کے تحت ہر سال ماحولیاتی کانفرنس کوپ کا انعقاد ہوتا ہے جس میں سے 4 کانفرنسز عرب ممالک میں منعقد ہو چکی ہیں، اس سال کوپ 28 دبئی میں منعقد ہوگی جس کا ذکر امریکی نمائندہ خصوصی جان کیری نے بھی کیا۔

    جان کیری نے اقوام متحدہ کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی خطے کے دیگر ممالک کی جانب سے ملنے والی حمایت کو سراہا۔

    انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال عرب امارات میں ماحول اور حیاتیاتی ایندھن کے مسائل پر پہلی علاقائی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں 11 علاقائی ممالک نے شرکت کی تھی۔

    جان کیری کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا تھا جس میں عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری کی سطح پر رکھنے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی اور 2030 تک کرنے والے اقدامات پر زور دیا گیا۔

    عرب امارات خود بھی اپنی موجودہ کوششوں کا ایک بہت بڑا حصہ قابل تجدید ذرائع کی تحقیق اور ترقی پر خرچ کر رہا ہے۔

    جان کیری کا کہنا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ سعودی عرب ایک بہت بڑی سولر فیلڈ تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو گرین ہائیڈروجن پیدا کرے گی، جبکہ بحرین، کویت اور دیگر ممالک بھی اس حوالے سے سوچ رہے ہیں۔

    امریکی نمائندہ خصوصی نے ماحولیاتی خطرات کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی حقیقت ماضی کی تہذیبوں کے مٹنے کا بھی سبب بنی۔

    جان کیری نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاملے پر عرب ممالک کی دلچسپی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسے ممالک کی شمولیت انتہائی اہم ہے جو تیل اور گیس سے واقف ہیں اور اپنی کمیونٹی میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

  • گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے خلا میں ’دیوار‘ قائم کرنے کا منصوبہ

    گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے خلا میں ’دیوار‘ قائم کرنے کا منصوبہ

    عالمی درجہ حرارت میں اضافہ دنیا کا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو دنیا بھر میں بے شمار قدرتی آفات کا سبب بن رہا ہے، اب ماہرین نے اس سے نمٹنے کے لیے خلا میں دیوار قائم کرنے کا خیال پیش کیا ہے۔

    دنیا میں درجہ حرارت میں اضافے سے سنگین موسمیاتی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور اس مسئلے کی روک تھام کے لیے سائنسدانوں کی جانب سے کافی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

    مگر اس مسئلے کا جو نیا حل سائنسدانوں کی ایک ٹیم کی جانب سے پیش کیا گیا ہے وہ ذہن گھما دینے والا ہے۔

    اس منصوبے کے تحت چاند کی گرد کو استعمال کرکے ایک ایسی ڈھال تیار کی جائے گی جو زمین تک پہنچنے والی سورج کی حرارت کی شدت کو کم کر دے گی۔

    جرنل پلوس کلائمٹ میں امریکا کی یوٹاہ یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ چاند سے لاکھوں ٹن گرد کو جمع کرکے خلا میں زمین سے 10 لاکھ میل کی دوری پر چھوڑا جائے، جہاں گرد کے ذرات سورج کی روشنی کو جزوی طور پر بلاک کر دیں گے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس گرد کے ذرات کا حجم ایسا ہے جو زمین تک آنے والی سورج کی روشنی کو مؤثر طریقے سے جزوی طور پر بلاک کرسکتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ چونکہ چاند کی سطح سے ان ذرات کو لانچ کرنے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت نہیں تو یہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے ایک بہترین طریقہ کار ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے زمین اور سورج کے درمیان L1 Lagrange point نامی مقام پر ایک نئے خلائی اسٹیشن کی ضرورت ہوگی۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ کار سولر جیو انجینیئر نگ کے دیگر مجوزہ منصوبوں سے بہتر ہے اور زمین کی آب و ہوا پر اس سے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

    مگر انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بننے والی زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کا متبادل نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس منصوبے سے ہمیں زمین پر زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے کچھ وقت مل جائے گا۔

    اس سے قبل اکتوبر 2022 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے 5 سالہ تحقیقی منصوبے پر غور کیا جارہا ہے جس میں زمین تک پہنچنے والی سورج کی روشنی کی مقدار کو کم کرنے کے مختلف طریقوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی، تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔

    وائٹ ہاؤس کے آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی کے مطابق اس تحقیق میں مختلف طریقوں جیسے کرہ ہوائی میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کے ایرو سولز کے چھڑکاؤ کے ذریعے سورج کی روشنی کو واپس خلا میں پلٹانے کا تجزیہ کیا جائے گا جبکہ یہ بھی دیکھا جائے گا اس طرح کے طریقہ کار سے زمین پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

  • جنیوا میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنس، پاکستان امداد کی اپیل کرے گا

    جنیوا میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنس، پاکستان امداد کی اپیل کرے گا

    اسلام آباد: پاکستان اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی مشترکہ میزبانی میں سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں ماحولیاتی تبدیلی سے بچاؤ سے متعلق کانفرنس ہوگی جس میں پاکستان سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے امداد کی اپیل کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں 9 جنوری کو ماحولیاتی تبدیلی سے بچاؤ سے متعلق کانفرنس ہوگی، سفارت ذرائع کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف 9 جنوری کو کانفرنس کا آغاز کریں گے۔

    سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے 16.3 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے، نصف رقم کا بندوبست پاکستان اپنے وسائل سے کرے گا جبکہ بقیہ نصف عالمی برادری سے درکار ہے۔

    سفارتی ذرائع کے مطابق جنیوا کی کانفرنس میں کم سے کم خرچ آئے گا، وزیر اعظم نے کم سے کم وفد لے جانے کی ہدایت کی ہے، کانفرنس کے لیے تیار فریم ورک میں رقم کے شفاف استعمال کا طریقہ موجود ہے۔

    کانفرنس میں سرکاری وفد کے سائز کو محدود رکھا گیا ہے۔

    سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ فرانسیسی صدر کانفرنس میں شریک ہوں گے، پاکستان اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری مشترکہ میزبانی کر رہے ہیں، کانفرنس میں چاروں صوبوں سے نمائندگی ہوگی۔

    ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ سیلاب کے فوری بعد 800 ملین ڈالرز کی فوری اپیل پر ڈھائی ملین ڈالرز ملے تھے۔

  • پاکستان میں ڈینگی کا پھیلاؤ: ماہرین نے خبردار کردیا

    پاکستان میں ڈینگی کا پھیلاؤ: ماہرین نے خبردار کردیا

    پاکستان میں ہر سال ڈینگی وائرس کی شدت اور پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اب نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا کہ ڈینگی ان علاقوں میں بھی پھیل سکتا ہے جہاں یہ وائرس پہلے نہیں تھا۔

    ایک تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کے سامنے آنے والے خوفناک اثرات، ماحولیاتی آلودگی میں اضافے اور مستقبل میں مون سون موسم میں تبدیلی کی پیش گوئی کے پیش نظر پاکستان کے ان علاقوں میں بھی ڈینگی وائرس پھیلنے کے خطرات اور خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے جن علاقوں میں یہ وائرس پہلے کبھی نہیں پھیلا تھا۔

    ڈینگی کے پھیلاؤ پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور پاکستان میں فیوچر اسپیٹیوٹیمپورل شفٹ کے عنوان سے ہونے والی نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے یہ وائرس اب تک محفوظ اونچائی والے علاقوں تک بھی پہنچ جائے گا۔

    ڈینگی ایک وائرل انفیکشن ہے جو انسانوں میں مچھروں کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، عام طور پر یہ ان علاقوں میں پایا جاتا ہے جہاں سال کے بیشتر عرصے میں درجہ حرارت گرم رہتا ہے۔

    تاہم گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر (جی سی آئی ایس سی)، ہیلتھ سروسز اکیڈمی (ایچ ایس اے) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کے سائنسدانوں اور ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ڈینگی کی منتقلی کے لیے موزوں ایام (ڈی ٹی ایس ڈی) مستقبل قریب میں پاکستان کے شمالی علاقوں تک پھیل جائیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ڈی ٹی ایس ڈی پورے پاکستان میں پھیل جائیں گے، خاص طور پر ان علاقوں میں بھی جہاں ہم نے اس سے قبل ڈینگی انفیکشن نہیں دیکھا۔

    بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے تناظر میں ماہرین نے نوٹ کیا کہ 2020 کی دہائی میں کوٹلی، مظفر آباد اور دروش جیسے بلندی والے شہر، 2050 کی دہائی میں گڑھی دوپٹہ، کوئٹہ، ژوب اور 2080 کی دہائی میں چترال اور بونجی میں ڈی ٹی ایس ڈی میں اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

    تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ اسی دوران کراچی، اسلام آباد اور بالا کوٹ اکیسویں صدی کے دوران ڈینگی کے پھیلاؤ کے سنگین خطرات سے دو چار رہیں گے۔

    تحقیق میں کراچی، حیدر آباد، سیالکوٹ، جہلم، لاہور، اسلام آباد، بالاکوٹ، پشاور، کوہاٹ اور فیصل آباد کو ڈی ٹی ایس ڈی فریکوئنسی کے شکار 10 ہاٹ اسپاٹ شہروں میں شامل کیا گیا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اچھی خبر یہ ہے کہ موجودہ ہاٹ اسپاٹ شہروں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مستقبل میں ڈی ٹی ایس ڈی کم ہونے کا امکان ہے۔

  • پاکستان کو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے بچنے کے لیے 46 ارب ڈالر کی ضرورت

    پاکستان کو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے بچنے کے لیے 46 ارب ڈالر کی ضرورت

    اسلام آباد: وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کلائمٹ چینج کے اثرات سے بچنے کے لیے 46 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، عالمی برادری کو پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہی سے بچانا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ادارہ برائے پائیدار ترقی کے سیمینار سے وفاقی وزیر احسن اقبال نے خطاب کیا، اپنے خطاب میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ بھارت سارک ممالک کے درمیان تجارت میں بڑی روکاٹ ہے، بھارت بڑے پن کا مظاہرہ کرے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے پائیدار ترقی کے اہداف کو نیشنل ایجنڈے میں شامل کیا، کرونا کی ہیلتھ ایمرجنسی نے معاشی ترقی کو متاثر کیا۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے 46 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، پاکستان کو موجودہ سیلاب ہی نہیں بلکہ مستقبل کے سیلاب سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہی سے بچانا ہوگا، عالمی برادری کے لیے پاکستان میں انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ سیلاب کے باعث غربت کی شرح مزید 4 فیصد بڑھے گی، مزید 90 لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آجائیں گے۔

    وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں غربت کی شرح 8 فیصد سے بڑھ کر 9.7 فیصد پر چلی جائے گی، بلوچستان میں غربت کی شرح 7.5 سے 7.7 فیصد پر پہنچ جائے گی۔